جب علم کے طالبوں نے ہی دانش کو نذر آتش کیا

اسی برس قبل یعنی دس مئی 1933ء کو جرمنی کے مختلف حصوں میں کتابوں کے انبار نذر آتش کیے گئے تھے۔ اس موقع نازی سوشلسٹ طلباء کے ہاتھوں علم کو جلتا دیکھ کر مجمع محظوظ ہوتا رہا۔

ہزاروں کی تعداد میں یہ تصانیف نازی حکومت کے ناپسندیدہ ادیبوں کی تھیں۔ برلن کے اوپرا اسکوائر پر یہ منظر دیکھنے کے لیے تقریباً ستر ہزار افراد جمع تھے۔ یونیورسٹیوں کے طالب علم مختلف گاڑیوں میں بھر کر کتابیں لےکر آئے اور ان میں مشہور جرمن ادیبوں ہائنرش من، ایرش ماریہ اور یوآخم رنگلناٹز کے شاہکار بھی شامل تھے۔ اس موقع پر نازی سوشلسٹ طلبہ کے رہنما ہیربرٹ گٹیائر نے نفرت انگیز تقریر کرتے ہوئے کہا تھا ’’تمام غیر جرمن چیزیں میں آگ میں جھونک رہا ہوں‘‘۔


1934ء میں تین ہزار سے زائد کتابوں اور تحریروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی

ان میں وہ کتابیں شامل تھیں، جو نازی سوشلسٹوں کے نظریات کی مخالف تھیں، جو غیر جرمن خیالات کی پرچار کرتی تھیں اور طلبہ کی سوچ سے مطابقت نہیں رکھتی تھیں۔ ان میں ایک بڑی تعداد نازی سوشلسٹوں کے دشمن سمجھے جانے والوں، بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے اور یہودی ادیبوں کی کتابیں شامل تھیں۔ اس موقع پر طلبہ کو کسی قسم کی مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔ کتب خانوں کے ملازمین اور متعدد پروفیسروں نے بھی نہ چاہتے ہوئے اس عمل میں حصہ لیا۔
اس دور میں طالب علموں کی نمائندہ تنظیم نے اپریل 1933ء میں اس حوالے سے ایک حل پیش کیا ’’ملک پر قبضہ کر لیا گیا ہے لیکن اعلی تعلیمی ادارے ابھی تک ہماری دسترس میں نہیں ہیں‘‘۔ اس نمائندہ تنظیم نے 1933ء ہی سے ’غیر جرمن‘ جذبے کے خلاف کارروائیاں شروع کر رکھی تھیں اور اس کی انتہا 10 مئی کوکتابوں کو نذر آتش کرنے پر ہوئی۔ برلن کے اوپرا اسکوائر پر کتابوں کو نذر آتش کیے جانے کے واقعے کا ریڈیو پر حال بیان کیا جا رہا تھا۔ اس موقع پر متعدد طلبہ خصوصی پولیس کی وردیاں پہنے ہوئے تھے۔ اس دوران نعروں کے ساتھ ساتھ کتابیں شعلوں کی نذر کی جا رہی تھیں۔

امریکی میگزین نیوز ویک نے اسے کتابوں کا ہولوکاسٹ قرار دیا

بیرون ملک اس عمل کی شدید مذمت کی گئی۔ امریکی میگزین نیوز ویک نے اسے کتابوں کا ہولوکاسٹ قرار دیا۔ شاعر ہائنرش ہائنے کی تحریروں کو بھی راکھ کا ڈھیر بنایا گیا۔ انہوں نے1821ء میں لکھا تھا ’’جہاں کتابیں جلائی جاتی ہوں وہاں بعد میں انسانوں کو بھی جلایا جاتا ہے‘‘۔ ہائنرش کا یہ کہا صحیح ثابت ہوا اور بعد میں یہودیوں کو اجتماعی طور پر قتل کرنے کا سلسلہ شروع ہوا۔ 1933ء کے اس واقعے کے بعد متعدد شاعر، مصنفین اور روشن خیال افراد جرمنی سے نقل مکانی کر گئے تھے۔
دنیا بھر میں شاعروں اور دانشوروں کے حوالے سے جرمنی کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا تھا تاہم اس ملک نے خود ہی اپنے جوہروں کو ملک چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس دوران جو لوگ جرمنی میں ہی رہے ان کے لکھنے پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔ 1934ء میں تین ہزار سے زائد کتابوں اور تحریروں پر پابندی عائد کر دی گئی تھی۔
بہ شکریہ ڈی دبلیو اردو
 
Top