جب عشق تماشا ہو اور معشوق تماشائی

یہ محبت کا نیا دور یہ چاہت کے نئے رنگ
نہ حقیقت پہ ہیں مبنی نہ صداقت کے الم

اس دور میں اے لوگو جو محبت ہے وہ ایسے ہے
جیسے ارماں کو فتح کرنے کوئی نکلا ہو بن قاسم

جب درد کا آدی ہی خود ہمدرد بنا ڈالے
کیسے اظہار کرے کوئی ،کوئی کیسے کرے ماتم

اظہار محبت میں گر کچھ بھی صداقت ہو
دل ہوتا ہے سی پارہ انکار جو کر دے صنم

اس عشق کی گرمی میں گر کچھ ایسی حرارت ہے
جو دل کو جلا بخشے پرسوز کرے ہر دم

جب عشق تماشا ہو اور معشوق تماشائی
تب عشق کی نگری میں ہوتے نئے باب رقم

میرے دل کی بھی بستی ہے جہاں صرف وہ بستی ہے
جیسے کہتا ہوں میں جان غزل اور لکھتا ہوں ماہ اتم

دل جس کی محبت کا برسوں سے ہے قیدی مجیب
اے کاش کے رکھ لے وہ میری بھی محبت کا بھرم
 
Top