جب دل ہی نہیں باقی، وہ آتشِ پارا سا۔اسلم کولسری

جب دل ہی نہیں باقی، وہ آتشِ پارا سا
کیوں رقص میں رہتا ہے پلکوں پہ شرارا سا

وہ موج ہمیں لے کر، گرداب میں جا نکلی
جس موج میں روشن تھا سرسبز کنارا سا


اک بام پہ، شام ڈھلے، رنگین چراغ جلے
کچھ دور اک پیڑ تلے، راگی تھکا ہارا سا

تارا سا بکھرتا ہے، آکاش سے یا کوئی
ٹھہرے ہوئے آنسو کو کرتا ہے اشارا سا

تنکوں کی طرح ہر شب، تن من کو بہالے جائے
اک برسوں سے بچھڑی ہوئی آواز کا دھارا سا

جیسے کوئی کم کم ہو، شاید وہی اسلم ہو
اس راہ سے گزرا ہے اک ہجر کا مارا سا
 
Top