جاپان کے تعلیمی نظام میں قومی زبان کی اہمیت

الف نظامی

لائبریرین
جاپان کے تعلیمی نظام میں قومی زبان کی اہمیت
از حسین خان​
سوائے ان طالبعلموں کے جو ایم اے اور پی ایچ ڈی کرتے ہیں کسی بھی جاپانی کے دماغ میں یہ بات نہیں ہے کہ اس کو تعلیم حاصل کرنا ہے تو انگریزی یا کوئی غیر ملکی زبان سیکھنا ضروری ہے۔ جتنے بھی جاپانی غیرملکی زبان سیکھتے ہیں اپنی کسی تجارتی ضرورت کے تحت یا محض شوقیہ سیکھتے ہیں۔ کسی کے دماغ میں یہ نہیں ہوتا کہ اگر فلاں زبان نہ سیکھوں تو اعلی تعلیم نہیں حاصل کرسکتا۔ ہر موضوع پر اونچی سطح تک جاپانی زبان میں ان کے اپنے پروفیسروں کی لکھی ہوئی بے شمار کتابیں موجود ہیں اور دنیا کی ہر زبان کی تمام اہم کتابوں کے ترجمے بھی، ہر موضوع پر ، جاپانی زبان میں مل جائیں گے۔
مجھے تو ایسا لگتا ہے کہ میں نے جاپانی زبان کیا سیکھ لی ہے دنیا کی بے شمار دوسری زبانوں کے سیکھنے سے بے نیاز ہوگیا ہوں۔ مثلا مجھے جب سوشلزم پر ایک مضمون لکھنا تھا تو مجھے اپنی یونیورسٹی کے مختلف الخیال پروفیسروں کے سیمیناروں میں اور ان کے بحث مباحث میں شرکت سے بہت فائدہ پہنچا ۔ اس کے علاوہ روسی اور چینی زبان کی کتابوں کے ترجمے بھی جاپانی زبان میں مل گئے جن سے روس اور چین کے نقطہ ہائے نظر کا پتہ چلا۔ دنیا کی ہر ایک زبان کی اہم کتابوں کے تراجم جاپانی زبان میں مل جاتے ہیں۔
جنگ عظیم دوئم کے اختتام تک دنیا پر یورپی حکومت کا سکہ جما ہوا تھا اور ان کی ایسی دھاک بیٹھی ہوئی تھی کہ علم و فن ، ثقافت و لباس ، ہر چیز میں ان کی نقالی کو قابل فخر سمجھا جاتا تھا اور ہمارے ملک میں یہ غلامانہ ذہنیت تو آج بھی موجود ہے کہ انگریزی زبان میں تعلیم حاصل کیے ہوئے لوگ اپنے آپ کو معاشرہ میں "بڑی چیز" سمجھتے ہیں اور انگریزی نہ جاننے والے بھی انہیں ایسا ہی سمجھتے ہیں۔
جاپانیوں میں کوئی ایسا احساس کمتری نہیں ہے۔ جاپان کی قومی زبان سے ہٹ کر دو جاپانی کبھی کسی دوسری زبان میں ایک دوسرے سے ہم کلام نہیں ہوں گے ۔ جاپانی زبان میں ساری سائنسی اصطلاحات کے ترجمے موجود ہیں اور انہیں اپنی زبان میں کسی سائنسی ، تکنیکی یا فنی موضوع پر تبادلہ خیال کرتے ہوئے کوئی دقت پیش نہیں آتی۔ انہوں نے کبھی یہ ضرورت محسوس نہیں کی کہ کسی بیرونی زبان میں علم حاصل کرنے کی سوچیں۔ ان کی اپنی زبان میں دنیا کی تازہ ترین ساری دریافتوں اور حالات و واقعات کی تفصیلات مل جاتی ہیں۔
اپنی قومی زبان کو بالائے طاق رکھ کر بیرونی زبان کو ذریعہ تعلیم بنانے کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم اپنی آبادی کے ایک بڑے حصے کو علمی ترقیوں سے محروم رکھنا چاہتے ہیں۔ غیر زبان میں تعلیم دینے سے پورا ملک اس میں شریک نہیں ہوسکتا اور تعلیم و تعلم کی سرگرمیاں ایک مخصوص طبقہ تک محدود ہوکر رہ جاتی ہیں۔ جیسا کہ ماضی میں ہندوستان میں علم پر برہمنوں کی اجارہ داری تھی۔
یہ قومی زبان میں تعلیم دینے کا نتیجہ ہی تو ہے کہ آج جاپان کی چھوٹی بستی میں بھی کتابوں اور رسائل کی بڑی بڑی دکانیں موجود ہیں۔ ٹوکیو میں نوکنیا نام کی ایک بہت بڑی کتابوں کی دکان ہے جو کہ ایک بڑی آٹھ منزلہ عمارت پر مشتمل ہے۔ اس کی ہر ایک منزل پر جاپانی زبان میں کتابیں ہی کتابیں بھری پڑی ہیں اور یہ سال کے بارہ مہینے روزانہ صبح دس بجے سے رات آٹھ بجے تک کھلی رہتی ہے۔ اور یہاں شائقین کا اتنا ہجوم ہوتا ہے کہ تل دھرنے کی جگہ نہیں ہوتی اور اس اژدھام میں ہر شخص کو اپنی مرضی کی کتاب اور رسالہ کی تلاش رہتی ہے۔ یہاں کبھی چھٹی نہیں ہوتی بلکہ ہفتہ ، اتوار اور دوسری چھٹیوں کے دنوں میں یہاں کتابوں کے خریداروں کا ہجوم اور بڑھ جاتا ہے۔
میرا اپنا تجربہ یہی ہے کہ جب کبھی میں پاکستان یا بنگلہ دیش جاتا ہوں تو جگہ جگہ لوگوں کی خواہش ہوتی ہے کہ مختلف قسم کے پروگرام رکھیں تاکہ جاپان اور جدید دنیا کے تازہ ترین حالات و واقعات سے واقفیت حاصل کریں۔ یہ علم کی پیاس ہر انسان میں ہوتی ہے لیکن اگر ہم قومی زبان نہ بنائیں تو یہ پیاس کبھی بجھ ہی نہیں سکتی اور نہ ہی لوگوں میں مطالعہ کا ذوق و شوق بڑھ سکتا ہے۔ پاکستان میں صرف دینی کتابیں اردو زبان میں مل سکتی ہیں یا پھر تفریحی ادب ، لیکن مختلف علوم و فنون پر اگر کوئی ہمت کرکے کتاب لکھ بھی ڈالے تو اس کو سمجھنے والے بھی کم اور اس طرح کی کتاب کے فروخت ہونے کے امکان بھی کم۔ ہمارے ہاں ہر کتاب کا پہلا ایڈیشن بالعموم ایک ہزار کی تعداد میں چھاپا جاتا ہے جبکہ جاپان میں ہر ہفتہ نئی کتاب ہزاروں کی تعداد میں فروخت ہوجاتی ہے۔
جاپان میں لائبریریوں کی صورتحال کا اندازہ اس سے لگائیے کہ میں آج کل جاپان کے شہر کوبے میں ہوں اور اس شہر میں اس وقت پانچ بڑی لائبریریاں ہیں ۔ میں اپنا شناختی کارڈ دکھا کر اپنے گھر کے قریب کی کسی لائبریری کا مفت میں رکن بن کر رکنیت کارڈ حاصل کرلوں تو کوبے کی ساری لائبریریوں سے ایک وقت میں 7 کتابیں پندرہ دن کے لیے لے جاسکتا ہوں اور جتنی چاہے ان کی مدت میں توسیع کرواتا رہوں۔ یہ لائبریریاں دیر تک کھلی رہتی ہیں تو یہاں بیٹھ کر بھی خوب مطالعہ کرسکتا ہوں۔ ان لائبریریوں میں یہ اصول ہے کہ انہوں نے کتابیں شایع کرنے والی ہر کمپنی کو یہ آرڈر دے رکھا ہے کہ ہر نئی کتاب کے پانچ دس نسخے انہیں فروخت کیے جائیں ، اس طرح ہر شہر کی بلدیہ کی لائبریریوں کے علاوہ ہر سکول ، کالج اور یونیورسٹی کی لائبریریاں ہوتی ہیں جو اسی قسم کی ہر نئی کتاب کے چند نسخے ہمیشہ منگوا کر ضرور رکھتی ہیں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
اس طرح پورے جاپان میں ہزاروں لائبریریاں ہیں جو بھی نئی کتاب شائع ہوتی ہے وہ ہزاروں دوکانوں پر فروخت ہونے کے علاوہ ہزاروں لائبریریوں کو بھی فروخت کی جاتی ہے۔ گویا ہر کتاب شائع کرنے والی کمپنی کی لاگت اور نفع پہلے ہفتہ ہی نکل آتا ہے ۔ اس لیے جاپان کے علاوہ یورپ اور امریکہ میں بھی اخبارات و رسائل میں اشتہارات چھپتے ہیں کہ ہمیں مختلف موضوعات پر چھاپنے کے لیے کتابیں لکھ کر دیں ۔ ہزاروں کی تعداد میں کتابوں کے چھپنے چھپانے کا یہ سلسلہ جاپان جیسے ملک میں یا دیگر ترقی یافتہ ممالک میں اتنے بڑے پیمانے پر اسی لیے چل رہا ہے کہ ان ممالک میں تعلیم ان کی اپنی قومی زبان ہے اور ہر شخص پڑھا لکھا ہے جو جدید اور تازہ ترین معلومات اور دریافتوں کو جاننے کے لیے فطری طور پر ایک علمی پیاس رکھتا ہے۔ اس طرح کی پیاس کا پیدا ہونا اور اس کا بجھانا ، اسی وقت ممکن ہے جبکہ ساری تعلیم کسی ملک کی قومی زبان میں ہو۔
پوری انسانی تاریخ میں ایک ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی ایسی قوم نے ترقی کی ہو جس کا ذریعہ تعلیم کوئی غیر ملکی زبان رہی ہو۔ ملک کی آبادی کا کثیر حصہ جہالت کا شکار ہوجاتا ہے۔
میں نے حیدر آباد دکن میں انٹرمیڈیٹ تک تعلیم حاصل کی اور یہ سب تعلیم حیدرآباد کی سرکاری زبان اردو میں حاصل کی تھی۔ تاریخ ، جغرافیہ ، اردو ادب کے علاوہ طبیعات ، کیمیا ، ریاضی ، نباتات ، حیوانیات ، جمادات ، فلکیات ، عمرانیات غرض سارے سائنسی اور غیر سائنسی علوم کو حیدرآباد دکن میں اردو زبان میں منتقل کردیا گیا تھا۔ نظام حیدر آباد ، میر عثمان علی خان نے جو دنیا کے چند دولت مندوں میں شمار کیے جاتے تھے ، کافی پیسہ لگا کر حیدر آباد میں ایک دارالترجمہ قائم کیا تھا اور تقسیم ہند سے قبل کے سارے مسلمان جید علماء اور پروفیسروں کو حیدر آباد میں پرکشش تنخواہوں پر دعوت دی تھی کہ وہ سارے علوم و فنون اور سائنس کی اصطلاحات کا اردو میں ترجمہ کریں اور ان اصطلاحات کو بنیاد بنا کر اردو زبان میں اعلی تعلیم کے نصاب کی کتابیں لکھیں اور غیرملکی زبانوں سے ترجمے بھی شائع کریں۔ مرحوم مولوی عبدالحق کو ، جنہیں بابائے اردو کہا جاتا ہے ، اس دارالترجمہ کا صدر نشین بنایا تھا ، چناچہ جامعہ عثمانیہ میں عمرانیات اور سائنس کے سارے شعبوں کی تعلیم ایم اے اور ڈاکٹریٹ کی سطح تک سب اردو میں ہوا کرتی تھی اور یہ اس وقت کی بات ہے جب پاکستان وجود میں نہیں آیا تھا اور اس جامعہ کی شان بان اور سہولتیں دیکھ کر ایسا لگتا ہے کہ یہ طالبعلموں کی نہیں نوابوں کی جامعہ ہے جہاں اردو زبان میں ساری تعلیم ہوتی تھی۔
 

الف نظامی

لائبریرین
ملک کی ساری جامعات اور کالجوں میں آج بھی اعلی تعلیم انگریزی ہی میں ممکن ہے، ویسے ہی ہمارے ملک میں جہالت کی کون سی کمی تھی کہ اس پر اردو دان طبقہ کو مزید جاہل بنا کر رکھ دیا گیا۔ صورتحال یہ ہے کہ اردو میں نہ تو اعلی علمی معیاری کتب دستیاب ہیں اور نہ ہی کوئی ہمت کرے تو ایسا کاروبار ہوسکتا ہے۔ اس طرح ہم نے اپنی آبادی کے بیشتر حصہ کو علم کی روشنی سے محروم کردیا ہے اور ان کے اندر علم کی وہ پیاس ہی پیدا نہیں ہونے دی جو جاپان جیسے ہر ترقی یافتہ ملک کے ہر باشندے میں پائی جاتی ہے۔ جاپان کے تعلیمی نظام کے قومی زبان میں ہونے کے ملک گیر جو اثرات ہوئے ہیں اس سے ہر شخص ملک کی تعمیر میں اپنا حصہ بٹانے کے قابل ہوگیا ہے اور اب ملک کی تعمیر و ترقی میں ‌حصہ لینے والے کروڑوں عوام ہیں نہ کہ ہماری طرح کا کوئی محدود طبقہ جس کے دل و دماغ کی تعمیر کسی غیر ملکی ثقافت کی غیر ملکی زبان میں ہوئی ہے جس کا پاکستان کے عوام کے ذہن و سوچ و طرز و فکر سے دور کا بھی کوئی تعلق نہیں۔

ماہنامہ اخبار اردو جولائی 1997 سے لیا گیا‌
 

جاویداقبال

محفلین
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ،

بہت خوب ، بہت بہتر راجہ بھائی، واقعی پرمغزمضمون لکھاہے آپ نے قومی زبان پر۔ ہمارے ہاں بس ایک احساس کمتری ہے کہ جب تووہ اردومیں بھی ایک دوانگلش کے لفظ بول نہ لیں توبات نہیں کرتے ہیں۔ واقعی بات ہے اردوکوپھیلانے کی لیکن ہمارے ہاں حکومت کے تمام کام انگریزی میں ہوتے ہیں خواہ وہ کوئی فارم پرکرواناہی کیوں نہ ہواوریہی بات ہے کہ ہماری اردومیں انگلش کی آمیزش ہوگئی ہے بس یہی دعاہے کہ اللہ تعالی ہم سب پراپناکرم کرے اورہم کویہ سمجھ عطاء کرے کہ جب تک ہرکام اردومیں نہیں ہوگاتواس کی ترقی کسطرح ہوگی توکوشش یہی کرنی چاہیے کہ اردوکوعام کریں۔

والسلام
جاویداقبال
 

تلمیذ

لائبریرین
اس مضمون میں ایک نکتہ جو بطور خاص اجاگر کیا گیا ہے وہ لائبریریوں کی افادیت ہے۔ بلاشبہ کسی بھی قوم کی علمی ترقی میں کتب خانوں کی اہمیت سے انکار نہیں کیا جاسکتا۔ یوں تو ہمارے ہاں بھی ہمارے وسائل کے مطابق کتب خانوں کی تعداد خاطر خواہ ہے لیکن مقام افسوس یہ ہے کہ دور جدید کی دیگر دلچسپیوں مثلاً کمپیوٹر وغیرہ کی وجہ سے ہماری نوجوان نسل میں مطالعے کے رجحان میں بہت کمی واقع ہو چکی ہے۔ گریجوئٹ اورماسٹرزطلباء کی واقفیت عامہ کی کیفیت قابل رحم حد تک دگر گوں ہے۔ پڑھے لکھے والدین، اساتذہ اور دیگر بزرگوں پر معاشرتی اور اخلاقی طور پر یہ فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ حتی المقدورنئی پود میں کتابیں پڑھنے کا شوق پیدا کرنے کی کوشش کریں۔
 

الف نظامی

لائبریرین
شکریہ جاوید اقبال
javediqbal26 نے کہا:
ہمارے ہاں بس ایک احساس کمتری ہے کہ جب تووہ اردومیں بھی ایک دوانگلش کے لفظ بول نہ لیں توبات نہیں کرتے ہیں۔ واقعی بات ہے اردوکوپھیلانے کی لیکن ہمارے ہاں حکومت کے تمام کام انگریزی میں ہوتے ہیں خواہ وہ کوئی فارم پرکرواناہی کیوں نہ ہو۔ اور یہی بات ہے کہ ہماری اردومیں انگلش کی آمیزش ہوگئی ہے
اردو میں انگریزی کی اس پیوندکاری نے ہمیں ثقافتی طور پر بہت نقصان بہنچایا ہے، ذرائع ابلاغ میں اردو بولتے ہوئے انگریزی کی اتنی زیادہ پیوند کاری کی جاتی ہے کہ ستیاناس ہوجاتا ہے اردو اور انگریزی دونوں کا۔
جس طرح انگریزی کا کوئی پروگرام ذرائع ابلاغ پر نشر ہوتا ہے اوراس میں تو خالص انگریزی ہی بولی جاتی ہے ، اردو کی یا کسی اور زبان کی پیوندکاری کو معیوب سمجھا جاتا ہے، بعینہ اسی اصول کی پیروی اردو پروگراموں میں کیوں نہیں کی جاتی اور اردو میں انگریزی کی پیوند کاری کیوں کی جاتی ہے۔
کئی دفعہ تو ایسا ہوتا ہے کہ کسی نے سوال اردو میں پوچھا اور جواب دینے والے موصوف ہیں کہ انگریزی میں جواب دینے کو باعث فخر سمجھ رہے ہیں۔ اب ان کو کوئی سمجھائے کہ بھئی یہ اردو کا پروگرام ہے یہاں اردو بولیے اور اگر انگریزی کا شوق ہے تو انگریزی پر مبنی پروگراموں میں طبع آزمائی کیجیے۔
javediqbal26 نے کہا:
بس یہی دعاہے کہ اللہ تعالی ہم سب پراپناکرم کرے اورہم کویہ سمجھ عطاء کرے کہ جب تک ہرکام اردومیں نہیں ہوگاتواس کی ترقی کسطرح ہوگی توکوشش یہی کرنی چاہیے کہ اردوکوعام کریں۔
والسلام
جاویداقبال
اللہ تعالی ہمیں ، اردو کے ٹھیکے داروں کو اور خصوصا ذرائع ابلاغ والوں کو عقلِ سلیم عطا فرمائے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
راجا بھیا، جزاک اللہ۔ آپ نے بہت فکر انگیز مضمون یہاں‌منتقل کیا ہے۔ اس پر میرا دل چاہ رہا ہے کہ ایک اچھی بحث کی جائے کہ ہم لوگ اردو میں کیوں‌ پیچھے رہ گئے ہیں؟

میرے نزدیک یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اردو میں اس قدر سائنسی مواد نہیں‌ موجود یا ہم لوگ اس کو استعمال نہیں کرنا چاہ رہے؟ پہلی بات اس لحاظ سے دل کو نہیں‌ لگتی کہ میں نے ایک بار پڑھا تھا کہ تقسیم سے قبل، اردو ترجمہ شدہ سارا مواد پاکستان منتقل ہوا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا، کوئی نہیں‌جانتا۔ دوسرا یہ بات اس لیے بھی قابلٍ قبول نہیں ہے کہ کیا پچاس سال میں ہم لوگ یہ کام نہیں کرسکے؟

بھارت اور جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سرکاری طور پر بھارت اور جاپان سے طلباء امریکہ اور برطانیہ اعلٰی تعلیم کے لیے بھیجے گئے جنہوں‌نے واپس آکر اپنے ملک کو فائدہ دیا۔ یہی کام ہم نے کیا تو سارے بندے باہر جا کر سیٹل ہوگئے۔ ملک تو بھول گئے

اب ہمارا مسئلہ ہے کہ کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔ ہم نے ابتداء میں ہر ملک کی طرح اپنے استادوں کو باہر بھیجا، جو انگریزی اور دیگر زبانوں میں تعلیم پا کر واپس آئے۔ اس مرحلے پر ہم نے ٹھوکر کھائی۔ اب یہ نوکر شاہی کا کمال تھا کہ ہماری اپنی ذہنی پسماندگی۔ ہم نے اس کو ٹرانسلیٹ کرنے کی بجائے انگریزی میں ہی علم کو رہنے دیا۔ شاید ہم نے سوچا ہو کہ اگلے سال تک کتب لکھ لی جائیں گی، یا پھر یہ کہ اپنے طلباء کو باہر بھیجنا آسان رہے گا

مگر کوئی بھی بات ہو، یہ ہماری لاپرواہی ہو یا ہماری غفلت۔ اس کا خمیازہ ہمیں‌ بھگتنا پڑ رہا ہے۔ میں اس بارے میں‌مزید بعد میں‌ لکھوں گا
 

الف نظامی

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
میرے نزدیک یہ ایک اہم مسئلہ ہے کہ کیا ہمارے پاس اردو میں اس قدر سائنسی مواد نہیں‌ موجود یا ہم لوگ اس کو استعمال نہیں کرنا چاہ رہے؟ پہلی بات اس لحاظ سے دل کو نہیں‌ لگتی کہ میں نے ایک بار پڑھا تھا کہ تقسیم سے قبل، اردو ترجمہ شدہ سارا مواد پاکستان منتقل ہوا تھا۔ اس کے بعد کیا ہوا، کوئی نہیں‌جانتا۔ دوسرا یہ بات اس لیے بھی قابلٍ قبول نہیں ہے کہ کیا پچاس سال میں ہم لوگ یہ کام نہیں کرسکے؟
مواد موجود ہے ، کم از کم بی ایس سی کی سطح تک اردو میں کتابیں میں نے دیکھی اور پڑھی ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ حکومت اردو کا تعلیمی سطح ہر نفاذ کے لیے مخلص نہیں۔ اور تو اور حال ہی میں اردو نصاب کو جدت کے نام پر بجائے جدید کرنے کے اردو اصطلاحوں کو بھی انگریزی میں تبدیل کردیا گیا ہے۔ یہ سمجھ نہیں آتی کہ اردو میں انگریزی کی پیوند کاری کیوں کی جارہی ہے، جس نے انگریزی میں پڑھنا ہے وہ پڑھے انگریزی میں ، اردو والوں کا بھی بیڑہ غرق کردیا گیا ہے۔
قیصرانی نے کہا:
بھارت اور جاپان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔ سرکاری طور پر بھارت اور جاپان سے طلباء امریکہ اور برطانیہ اعلٰی تعلیم کے لیے بھیجے گئے جنہوں‌نے واپس آکر اپنے ملک کو فائدہ دیا۔ یہی کام ہم نے کیا تو سارے بندے باہر جا کر سیٹل ہوگئے۔ ملک تو بھول گئے
واقعی ہمیں سوچنا چاہیے کہ ہم نے پاکستان کے لیے کو کیا دیا ہے۔
 

قیصرانی

لائبریرین
راجا بھیا۔ ہر نیا کام ایک دیوانگی ہی ہوتا ہے۔ ہم دیوانے سہی، لیکن کیا میرا ساتھ دیں گے؟

ابھی ہم دو ہی سہی، کل کو تین اور پھر ایک ٹیم بنے گی۔

میں جاوا کی تعلیم کو بین الاقوامی معیار کی سطح پر اردو میں منتقل کرنا شروع کر رہا ہوں۔ کیا آپ یہی کام سی شارپ کے لیے کر سکتے ہو؟ بے شک ایک ہی صفحہ روزانہ کی بنیاد پر ہو؟ چاہے کسی کتاب کی لفظ بلفظ نقل ہی ہو؟ کم از کم ایک بنیاد تو بنے گی۔ ایک ابتداء تو ہوگی؟ اور یہ سارا مواد ہم نے مفت رکھنا ہے۔ یعنی مختلف کتب سے مواد اکٹھا کریں اور اس کو استعمال کریں، یعنی تحقیق کا نام دے کر مفت میں لوگوں تک پہنچائیں؟

جب مقدار ہوگی تو معیار کی طرف توجہ دیں گے۔ اگر معیار ہی کو دیکھتے رہے تو مقدار اور معیار دونوں ہی رہ جائیں گے

دیگر دوستوں کو بھی یہی کہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی فیلڈ سے متعلق ایک ہی مضمون کی ایک ہی کتاب پر کام شروع کر دیں؟ اس سلسلے میں‌ اگر کئی ای بکس درکار ہوں تو ان کا بھی بندوبست ہو سکتا ہے

اگر ہم صرف ماضی کو ہی دیکھتے رہ گئے تو کچھ بھی نہیں‌ ہونے کا۔ ہمیں ماضی کے احتساب کے ساتھ ساتھ مستقبل کو بھی دیکھنا ہے

ہیں کوئی اور جیالے جو ہمارا ساتھ دینا چاہیں؟
 

الف نظامی

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
میں جاوا کی تعلیم کو بین الاقوامی معیار کی شطح پر اردو میں منتقل کرنا شروع کر رہا ہوں۔ کیا آپ یہی کام سی شارپ کے لیے کر سکتے ہو؟ بے شک ایک ہی صفحہ روزانہ کی بنیاد پر ہو؟ چاہے کسی کتاب کی لفظ بلفظ نقل ہی ہو؟ کم از کم ایک بنیاد تو بنے گی۔ ایک ابتداء تو ہوگی؟ اور یہ سارا مواد ہم نے مفت رکھنا ہے۔ یعنی مختلف کتب سے مواد اکٹھا کریں اور اس کو استعمال کریں، یعنی تحقیق کا نام دے کر مفت میں لوگوں تک پہنچائیں؟
سی شارپ اور جاوا پر اردو میں کتب لکھی ہوئی ہیں کل کتابوں کی دکانوں میں جاکر ان کے نام دیکھتا ہوں ، پھر یہاں لکھوں گا۔
ان کو ہی برقیا دیا جائے اور جو اچھی کتب ابھی اردو میں منتقل نہیں ہوئیں ان کے لیے آپ والا عندیہ(idea)۔
قیصرانی نے کہا:
دیگر دوستوں کو بھی یہی کہ سکتے ہیں کہ وہ کسی بھی فیلڈ سے متعلق ایک ہی مضمون کی ایک ہی کتاب پر کام شروع کر دیں؟ ہیں کوئی اور جیالے جو ہمارا ساتھ دینا چاہیں؟
بالکل ، میں تو محسن حجازی صاحب سے فونٹ کی تیاری پر اردو کتاب کی آس لگائے بیٹھا ہوں۔ دیکھیں کب امیدیں بر آتی ہیں۔
 

قیصرانی

لائبریرین
اگر کتب موجود ہیں تو بہت اچھی بات ہے :) ہم ان پر بھی کام شروع کر سکتے ہیں

بالکل ، میں تو محسن حجازی صاحب سے فونٹ کی تیاری پر اردو کتاب کی آس لگائے بیٹھا ہوں۔ دیکھیں کب امیدیں بر آتی ہیں۔

یہ بہت عمدہ آئیڈیا رہے گا :)
 

الف نظامی

لائبریرین
قیصرانی نے کہا:
اگر کتب موجود ہیں تو بہت اچھی بات ہے :) ہم ان پر بھی کام شروع کر سکتے ہیں

بالکل ، میں تو محسن حجازی صاحب سے فونٹ کی تیاری پر اردو کتاب کی آس لگائے بیٹھا ہوں۔ دیکھیں کب امیدیں بر آتی ہیں۔

یہ بہت عمدہ آئیڈیا رہے گا :)
پتہ نہیں محسن حجازی صاحب کو بھی اس کی خبر ہے یا نہیں؟
 

دوست

محفلین
قیصرانی نے کہا:
اگر کتب موجود ہیں تو بہت اچھی بات ہے :) ہم ان پر بھی کام شروع کر سکتے ہیں

بالکل ، میں تو محسن حجازی صاحب سے فونٹ کی تیاری پر اردو کتاب کی آس لگائے بیٹھا ہوں۔ دیکھیں کب امیدیں بر آتی ہیں۔

یہ بہت عمدہ آئیڈیا رہے گا :)
یہ کاپی رائٹڈ ہونگی۔۔
 

جیسبادی

محفلین
Urdu wikipedia

اردو میں علمی مواد پیدا کرنے کے سلسلہ میں اردو وکیپیڈیا پر کام ہو رہا ہے۔ سائنس پر زیادہ تر مضامین فرد واحد نے لکھے ہیں۔ اس شخص کا نام ڈاکٹر افراز ہے اور وہ آج کل جاپان میں ہی مقیم ہیں۔ آپ سب لوگوں کو بھی دعوت ہے کہ وکیپیڈیا پر تشریف لائیں اور اردو میں مواد پید ا کریں۔ اس سلسلہ میں اس فورم کے رکن وہاب صاحب نے اردو ادب اور سوانح پر سینکڑوں مضامین لکھے ہیں۔ اپنے قیصرانی صاحب نے بھی انگریزی وکیپیڈیا سے کچھ ممالک پر مضامیں کے طویل ترجمے کیے ہیں۔ آپ لوگ بھی اپنی پسند کے شعبے میں مضامین لکھ سکتے ہیں۔ چاہے خود لکھیں۔ کچھ شعبوں میں انگریزی وکیپیڈیا کے مضامین کا ترجمہ کرنے میں بھی کوئ حرج نہیں (مگر سب شعبوں میں نہیں)۔ جب تک علم اردو میں عام دستیاب نہیں ہو گا، ایک دوسرے کو الزام دینے سے کچھ حاصل نہیں۔

http://ur.wikipedia.org
 
Top