جام چلنے لگے، دل مچلنے لگے، انجمن جھوم اٹھی، بزم لہرا گئی۔ شمیم کرہانی

جام چلنے لگے، دل مچلنے لگے، انجمن جھوم اٹھی، بزم لہرا گئی
بعد مدت جو محفل میں تم آ گئے جیسے بے جان قالب میں جان آ گئی

وہ ہیں ساقی تو پھر ہم کو بادہ کشو کیا چمن کی ہوس کیا بہاروں کا غم
ان کی رنگیں نظر جس طرف اٹھ گئی پھول بکھرا گئی رنگ برسا گئی

وعدے ہوتے رہے، عہد ہوتے رہے، ان کو آنا نہ تھا وہ نہ آئے کبھی
یاد ان کی مگر آ کے ہر شامِ غم مجھ کو سمجھا گئی دل کو بہلا گئی

ایک ہی صحنِ گل، ایک ہی انجمن، کوئی درد آشنا کوئی نا آشنا
سن کے رودادِ غم عشقِ برباد کی، روئی شبنم تو گل کو ہنسی آ گئی

شوق پینے کا ایسا زیادہ نہ تھا، ترکِ توبہ کا کوئی ارادہ نہ تھا
پر گھٹاؤں نے کچھ اٹھ کے بہکا دیا کچھ طبیعت بھی کم بخت للچا گئی

حُسن جتنا ڈھکا اور دلکش ہوا رنگ جتنا چھپا اور رنگیں ہوا
پھوٹ نکلی شفق بن کے رخسار سے وہ ادائے تبسم کو شرما گئی

رنگ، خوشبو، صبا، چاند، تارے، کرن، پھول، شبنم، شفق، آبجُو، چاندنی
ان کی دلکش جوانی کی تکمیل میں، حُسنِ فطرت کی ہر چیز کام آ گئی


زندگی بھی شمیمؔ اک چمن ہے مگر اس چمن کی بہار و خزاں کچھ نہیں
وہ نہ آئیں تو سمجھو خزاں کے ہیں دن وہ جو آ جائیں سمجھو بہار آ گئی

شمیم کرہانی
 

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
بہت خوبصورت انتخاب ہے

ایک ہی صحنِ گل، ایک ہی انجمن، کوئی درد آشنا کوئی نا آشنا
سن کے رودادِ غم عشقِ برباد کی، روئی شبنم تو گل کو ہنسی آ گئی
 
Top