جام حاضر، شراب حاضر ہیں (فاعلاتن مفاعلن فعلن)

درویش بلوچ

محفلین
جام حاضر، شراب حاضر ہیں
میکدے میں جناب حاضر ہیں

میرے ایماں کی خیر ہو یارب
آج وہ بے نقاب حاضر ہیں

میرے حصے میں خار نہ آئے
ان کی خاطر گلاب حاضر ہیں

نغمۂ درد مطربو چھیڑو
پھر سے چنگ و رباب حاضر ہیں

حشر میں کچھ تو دے نہیں سکتا
میرے سارے ثواب حاضر ہیں

تذکرہ کررہے تھے تم جس کا
لو وہ خانہ خراب حاضر ہیں

صورتِ شعر و شاعری اپنی
زندگی کی کتاب حاضر ہیں

ہم فقیروں کی بزم میں درویش
سارے میر و نواب حاضر ہیں
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
جام حاضر، شراب حاضر ہیں
میکدے میں جناب حاضر ہیں
۔۔ شراب کے ساتھ ’ہیں‘ کا صیغہ غلط ہے۔ واحد کا صیغہ ہونا تھا

میرے ایماں کی خیر ہو یارب
آج وہ بے نقاب حاضر ہیں
÷÷ٹھیک

میرے حصے میں خار نہ آئے
ان کی خاطر گلاب حاضر ہیں
÷÷÷ ’نہ‘ جو محض ’نَ‘ بادھا جاتا ہے۔ بطور ’نا‘ غلط مانتا ہوں۔

نغمۂ درد مطربو چھیڑو
پھر سے چنگ و رباب حاضر ہیں
÷÷ پہلے چنگ و رباب تھے تو کیا ہوا تھاَ۔ مطلب ’پھر سے‘ کی معنویت؟

حشر میں کچھ تو دے نہیں سکتا
میرے سارے ثواب حاضر ہیں
÷÷ٹھیک

تذکرہ کررہے تھے تم جس کا
لو وہ خانہ خراب حاضر ہیں
÷÷÷اپنے بارے میں کہا جا رہا ہے یا کسی اور کے۔ واضخ نہیں

صورتِ شعر و شاعری اپنی
زندگی کی کتاب حاضر ہیں
÷÷÷یہاں بھی جمع کا صیغہ غلط ہے

ہم فقیروں کی بزم میں درویش
سارے میر و نواب حاضر ہیں
درست
 
Top