جادہ و منزل از سید قطب شہید ص 351-400

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں

فرحت کیانی

لائبریرین
اُسے جان کی بازی لگانی چاہیئے، مسلمان کی قومیت جس سے وہ متعارف ہوتا ہے کسی حکومت کی عطا کردہ نیشنیلٹی نہیں ہے، مسلمان کی برادری جس کی وہ پناہ لیتا ہے اور جس کی خاطر لڑتا اور مرتا ہے وہ خون کے رشتہ سے ترکیب نہیں پاتی۔ مسلمان کا پرچم جس پر وہ ناز کرتا ہے اور جس کو اونچا رکھنے کے لیے وہ جان تک کی بازی لگا دیتا ہے وہ کسی قوم کا پرچم نہیں ہے، مسلمان کی فتح یابی جس کے لیے وہ بے تاب رہتا ہے اور جس سے ہمکنار ہونے پر وہ خدا کے سامنے سجدہء شکر ادا کرتا ہے ، وہ محض فوجی غلبہ نہیں ہے بلکہ وہ فتح حق ہے جسے قرآن نے ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:

اِذَا جَاءَ نَصْرُ اللَّہِ وَالْفَتْحُ ہ وَرَاَيْتَ النَّاسَ يَدْخُلُونَ فِي دِينِ اللَّہِ اَفْوَاجًا ہ فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّاُ كَانَ تَوَّابًا ہ (سورۃ النصر)
جب آ ئی اللہ کی مدد اور فتح۔ اور تُو نے دیکھ لیا لوگوں کو اللہ کے دین میں فوج در فوج داخل ہوتے ۔ سو تُو اپنے رب کی حمد کی تسبیح کر اور اُس سے استغفار کر، بے شک وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

یہ فتح یابی صرف پرچمِ ایمان کے تحت حاصل ہوتی ہے دوسرے کسی جھنڈے کی عصبیت اس میں شامل نہیں ہوتی، یہ جہاد دینِ خدا کی نصرت اور شریعتِ حقّہ کی سربلندی کے لیے کیا جاتا ہے، کسی اور مقصد اور مفاد کو اس میں دخل نہیں ہوتا۔ یہ اُس دارالسلام کا دفاع ہے جس کی شرائط و خصائص ہم اُوپر بیان کر آئے ہیں، اس دفاع میں کسی اور وطنی اور قومی تصور کی آمیزش نہیں کی جاسکتی۔ فتح یابی کے بعد فاتح فوج کی تمام تر توجہ، دلچسپی اور انہماک کا مرکز مالِ غنیمت کا حصول نہیں ہوتا، اور نہ یہ جنگ کسی دنیاوی شہرت یا ناموری کے لیے لڑی جاتی ہے، بلکہ اس کا مقصد خالصتہً اللہ تعالیٰ کی رضا ہوتا ہے اور اللہ کی رضاجوئی اور اس کی تسبیح اور استغفار اس کا اصل مقصود ہے۔ یہ جنگ وطنی حمیّت اور قومی عصبیت کی بنیاد پر بھی نہیں لڑی جاتی نہ اہل و عیال کا تحفظ اس کی اصل غرض اور محرک ہوتا ہے۔ البتہ ان کے تحفظ اور حمایت کا جذبہ اگر اس بنا پر شامل ہو کہ ان کے دین و ایمان کو فتنہ و آزمائش سے بچایا جائے تو اس میں کوئی قباحت نہیں۔
حضرت موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ ایک شخص بہادری دکھانے کے لیے لڑتا ہے، دوسرا حمیّت کی خاطر لڑتا ہے اور تیسرا ریا کے لیے لڑتا ہے۔ ان میں سے کون سا اللہ کی راہ میں لڑتا ہے؟ آپ نے جواب دیا، جو اس لیے لڑتا ہے کہ صرف اللہ کا کلمہ بلند ہو صرف وہ اللہ کی راہ میں لڑتا ہے۔
شہادت کا مرتبہ صرف اس جنگ جوئی کے نتیجے میں نصیب ہو سکتا ہے جو صرف اللہ کی خاطر ہو۔ دوسرے مقاصد کی خاطر جو قتال آرائی ہوگی اُس کو یہ مرتبہ بلند حاصل نہ ہو گا۔
 

ابوشامل

محفلین
کیونکہ فرحت صاحبہ نے مزید صفحات یہاں پیش نہیں کیے تھے اس لیے میں یہاں پیش کیے دیتا ہوں:

جو ملک مسلمان کے عقیدہ و ایمان سے برسرِ پیکار ہو، دینی امور کو سرانجام دینے میں اُسے مانع ہو اور اتباعِ شریعت کو معطل کر رکھا ہو وہ دارالحرب شمار ہو گا، چاہے اس میں اُس کے اعزّہ و اقارب اور خاندان اور قبیلہ کے لوگ بستے ہوں، اس میں اُس کا سرمایہ لگا ہو، اور اس کی تجارت و خوش حالی اُس سے وابستہ ہو۔ اس کے مقابلے میں ہر وہ خطہ ارض جس میں مسلمان کے عقیدہ کو فروغ و غلبہ حاصل ہو، اللہ کی شریعت کی عملداری ہو وہ دارالاسلام کہلائے گا خواہ اُس میں مسلمان کے اہل و عیال کی بودوباش نہ ہو، اُس کے خاندان اور قبیلہ کے لوگ وہاں نہ رہتے بستے ہوں اور اُس کی کوئی تجارت اور مادّی منفعت اُس سے وابستہ نہ ہو----------------------- “وطن“ اسلامی اصطلاح میں اُس دیار کا نام ہے جس میں اسلام کے عقیدہ کی حکمرانی ہو، اسلامی نظامِ حیات قائم اور برپا ہو اور شریعتِ الٰہی کو برتری حاصل ہو۔ وطن کا یہی مفہوم انسانیت کے مرتبہ و مذاق کے مطابق ہے ۔ اسی طرح قومیت اسلام کی رُو سے عقیدہ اور نظریۂ حیات سے عبارت ہے ، اور آدمیت کے شرف و فضل کے ساتھ جو رابطہ اور رشتہ مناسبت رکھتا ہے وہ یہی تصّورِ قومیت ہو سکتا ہے ۔
قومی اور نسلی نعرے جاہلیت کی سڑاند ہیں
رہی قبیلہ و برادری اور قوم و نسل اور رنگ و وطن کی عصبیت اور دعوت تو نہ صرف یہ دعوت تنگ نظری، تنگ دامانی اور محدود الاثر ہے بلکہ انسانی پس ماندگی اور دورِ وحشت کی یادگار ہے ۔ یہ جاہلی عصبیت ان ادوار میں انسان پر مسلط ہوئی تھی جب اُس کی روح انحطاط اور پستی کا شکار تھی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ واسل نے اسے “سڑاند“ سے تعبیر فرمایا ہے ، یعنی ایسا مردار جس سے عفونتکی لپٹیں اُٹھ رہی ہوں۔ اور انسان کا ذوقِ نفیس کرب و کراہت محسوس کر رہا ہو۔
جب یہود نے یہ دعویٰ کیا کہ وہ نسلی اور قومی بنیاد پر اللہ کی محبوب اور چہیتی قوم ہیں تو اللہ تعالیٰ نے اُن کا یہ دعوٰے اُن کے منہ پر دے مارا اور ہر دور میں ہر نسل اور ہر قوم کے لیے اور ہر جگہ کے لوگوں کے لیے بزرگی اور تقرب الہٰی اور شرف و فضیلت کا صرف ایک ہی معیار بتایا اور وہ ہے ایمان باللہ۔ ارشاد ہوا۔
وَقَالُواْ كُونُواْ ہودًا أَوْ نَصَارَی تَہتَدُواْ قُلْ بَلْ مِلَّۃ إِبْرَاہيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ • قُولُواْ آمَنَّا بِاللّہ وَمَآ أُنزِلَ إِلَيْنَا وَمَا أُنزِلَ إِلَی إِبْرَاہيمَ وَإِسْمَاعِيلَ وَإِسْحَقَ وَيَعْقُوبَ وَالأسْبَاطِ وَمَا أُوتِيَ مُوسَی وَعِيسَی وَمَا أُوتِيَ النَّبِيُّونَ مِن رَّبِّہمْ لاَ نُفَرِّقُ بَيْنَ أَحَدٍ مِّنْہمْ وَنَحْنُ لَہ مُسْلِمُونَ • فَإِنْ آمَنُواْ بِمِثْلِ مَا آمَنتُم بِہ فَقَدِ اہتَدَواْ وَّإِن تَوَلَّوْاْ فَإِنَّمَا ہمْ فِي شِقَاقٍ فَسَيَكْفِيكَہمُ اللّہ وَہوَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ • صِبْغَۃ اللّہ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہ صِبْغَۃ وَنَحْنُ لَہ عَابِدونَ (البقرہ: 135 تا 138)
یہودی کہتے ہیں: یہودی ہو جاؤ تو راہِ راست پاؤ گے ۔ عیسائی کہتے ہیں: عیسائی ہو جاؤ تو ہدایت ملے گی۔ ان سے کہو: نہیں بلکہ سب کو چھوڑ کر ابراہیم کا طریقہ اختیار کرو اور ابراہیم مشرکوں میں سے نہ تھا۔ مسلمانو! کہو کہ ہم ایمان لائے اللہ پر اور اس ہدایت پر جو ہماری طرف نازل ہوئی ہے اور جو ابراہیم، اسمٰعیل، اسحاق، یعقوب اور اولادِ یعقوب کی طرف نازل ہوئی تھی اور جو موسیٰ اور عیسٰی اور دوسرے تمام پیغمبروں کو اُن کے رب کی طرف سے دی گئی تھی۔ ہم ان کے درمیان کوئی تفریق نہیں کرتے اور ہم اللہ کے مسلم ہیں۔ پھراگر وہ اُسی طرح ایمان لائیں جس طرح تم لائے ہو، تو ہدایت پر ہیں، اور اگر اس سے منہ پھیریں، تو کُھلی بات ہے کہ ہٹ دھرمی میں پڑ گئے ہیں۔ لہٰذا اطمینان رکھو کہ اُن کے مقابلے میں اللہ تمہاری حمایت کے لیے کافی ہے ۔ وہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے ۔ اللہ کا رنگ اختیار کرو۔ اس کے رنگ سے اچھا اور کس کا رنگ ہو گا؟ اور ہم اُسی کی بندگی کرنے والے لوگ ہیں۔
اللہ کی محبوب اور برگزیدہ اور پسندیدہ قوم درحقیقت وہ امتِ مسلمہ ہے جو نسلی اور قومی اختلاف، رنگ و روپ کی بوقلمونی اور وطن و ملک کی مغایرت کے باوجود صرف اللہ کے پرچم کے نیچے مجتمع اور متحد ہوتی ہے :
خَيْرَ أُمَّۃ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ (آلِ عمران : 110)
تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بدی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔
یہ خدا پرست اُمت ہے جس کے ہراول دستہ کی شان یہ تھی کہ اس میں عرب کے معزز خاندان کے چشم و چراغ ابوبکر شامل تھے تو حبش کے بلال اور روم کے صہیب اور فارس کے سلمان بھی موجود تھے ۔ بعد کی نسلیں بھی ہر دور میں اسی دل نشین انداز اور حیرت زا نظام کے جلو میں یکے بعد دیگرے منصۂ شہود پر ابھرتی رہیں۔ عقیدۂ توحید اس امت کی قومیت رہی ہے ، دارلالسلام اس کا وطن رہا ہے ، اور اللہ کی حاکمیت اس کا امتیازی شعار رہا ہے اور قرآن اس کا دستورِ حیات رہا ہے ۔
وطن و قوم کی عصبیتیں منافئ توحید ہیں
وطن و قومیت اور قرابت کا یہ پاکیزہ اور ارفع تصور آج داعیانِ حق کے دلوں پر پوری طرح نقش ہو جانا چاہیے ۔ اور اس وضاحت اور درخشندگی کے ساتھ ان کے دل و دماغ کے ریشے ریشے میں اُتر جانا چاہیے کہ اس میں جاہلیت کے بیرونی تصورات کا شائبہ تک موجود نہ ہو اور شرکِ خفی کی کوئی قسم اُس میں راہ نہ پا سکے ۔ ہر قسم کے شرک سے خواہ وطن پرستی ہو ، یا نسل پرستی، قوم پرستی ، دنیا کے گھٹیا مفادات اور منفعتوں کی پرستش ہو، ان سب سے یہ تصور پاک و شفاف ہے ۔ شرک کی یہ سب قسمیں اللہ تعالیٰ نے ایک آیت میں جمع کر دی ہیں اور ایک پلڑے میں ان سب کو رکھا ہے اور دوسرے میں ایمان اور اُس کے تقاضوں کو رکھ دیا ہے اور پھر انسان کو اس بات کی کُھلی چُھٹی دے دی ہے کہ وہ ان دونوں میں سے کس پلڑے کو ترجیح دیتا ہے :
قُلْ إِن كَانَ آبَاؤُكُمْ وَأَبْنَآؤُكُمْ وَإِخْوَانُكُمْ وَأَزْوَاجُكُمْ وَعَشِيرَتُكُمْ وَأَمْوَالٌ اقْتَرَفْتُمُوہا وَتِجَارَۃ تَخْشَوْنَ كَسَادَہا وَمَسَاكِنُ تَرْضَوْنَہا أَحَبَّ إِلَيْكُم مِّنَ اللّہ وَرَسُولِہ وَجِہادٍ فِي سَبِيلِہ فَتَرَبَّصُواْ حَتَّی يَأْتِيَ اللّہ بِأَمْرِہ وَاللّہ لاَ يَہدِي الْقَوْمَ الْفَاسِقِينَ (التوبہ: 24)
اے نبی! کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے اور تمہارے بھائی اور تمہاری بیویاں اور تمہارے عزیزواقارب اور تمہارے وہ مال جو تم نے خود کمائے ہیں، اور تمہارے وہ گھر جو تم کو پسند ہیں ، تم کو اللہ اور اُس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز تر ہیں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا فیصلہ تمہارے سامنے لے آئے اور اللہ فاسق لوگوں کی رہنمائی نہیں کیا کرتا۔
اسی طرح داعیانِ حق اور اسلامی تحریک کے علمبرداروں کے دلوں میں جاہلیت اور اسلام کی حقیقت اور دارالحرب اور دار الاسلام کی تعریف کے بارے میں سطحی قسم کے شکوک و شبہات پیدا نہیں ہونے چاہئیں۔ دراصل ایسے شکوک و شبہات کے راستے ہی سے ان میں سے اکثر کے اسلامی تصور اور یقین و اذعان ہر ڈاکہ ڈالا جاتا ہے ------- ورنہ یہ بات کسی وضاحت کی محتاج نہیں ہے کہ جس ملک پر اسلامی نظام کی حکمرانی نہ ہو اور اسلامی شریعت قائم نہ ہو اس کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں۔ یہ بات بھی محتاجِ تشریح نہیں کہ کوئی ایسا ملک دار الاسلام نہیں ہو سکتا جس میں اسلام کے لائے ہوئے طرزِ زندگی اور قانونِ حیات کو اقتدار حاصل نہ ہو۔ ایمان کو چھوڑ کر انسان کفر ہی کے نرغے میں جاتا ہے ۔ جہاں اسلام نہ ہو گا وہاں لازماً جاہلیت کا چلن ہو گا اور حق سے روگردانی کے بعد اُسے گمراہی اور ضلالت کے سوا کچھ نصیب نہ ہوگا۔
 

ابوشامل

محفلین
باب دہم
دُوررس تبدیلی کی ضرورت​
ہم اسلام کو کیسے پیش کریں
جب ہم لوگوں کے سامنے اسلام کو پیش کریں تو چاہے ہمارے مخاطب مسلمان ہوں یا غیر مسلم بہرحال ایک بدیہی حقیقت سے ہمیں پوری طرح باخبر رہنا چاہیے ، اور یہ وہ حقیقت ہے جو خود اسلام کے مزاج اور فطرت کا نتیجہ ہے ، اور اسلام کی تاریخ اس کا ثبوت فراہم کر رہی ہے ۔ مختصر الفاظ میں اس حقیقت کو یوں بیان کیا جا سکتا ہے :
اسلام اس زندگی اور کائنات کا جو تصور پیش کرتا ہے وہ ایک نہایت درجہ جامع اور منفرد تصور ہے ، اور امتیازی اوصاف کا حامل ہے ۔ اس تصور سے انسانی زندگی کا جو نظام ماخوذ ہوتا ہے وہ بھی اپنے تمام اجزائے ترکیبی سمیت اپنی ذات میں ایک مستقل اور کامل نظام ہے اور مخصوص امتیازات سے بہرہ مند ہے ۔ یہ تصور بنیادی طور پر اُن تمام جاہلی تصورات سے متصادم ہے جو قدیم زمانے میں رائج رہے یا دورِ حاضر میں پائے جاتے ہیں۔ ہو سکتا ہے کہ یہ تصور بعض سطحی اور ضمنی جزئیات اور تفصیلات میں جاہلی تصورات سے کبھی کبھار اتفاق کرے لیکن جہاں تک ان اصولوں اور ضابطوں کا سوال ہے جن سے یہ جزوی اور ضمنی پہلو برآمد ہوتے ہیں تو وہ ان تمام نظریات اور تصورات سے مختلف اور بالکل جدا ہیں جو انسانی تاریخ کے اندر اب تک رائج اور فروغ پذیر رہے ہیں۔ چنانچہ اسلام کا سب سے پہلا کام یہ ہے کہ وہ ایک ایسی انسانی زندگی کی تشکیل کرتا ہے جو اُس کے تصور کی صحیح نمائندہ اور اس کی عملی تفسیر ہو۔ وہ دنیا کے اندر ایک ایسا نظام قائم کرتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے پسندیدہ طریقۂ حیات کی تصویر ہوتا ہے ۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے امتِ مسلمہ کو دنیا کے اندر اٹھایا ہی اس غرض کے لیے ہے کہ وہ الہٰی طریقۂ زندگی کی ترجمان بن کر رہے اور اُسے دنیا کے سامنے عمل کی زبان میں پیش کرے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
كُنتُمْ خَيْرَ أُمَّۃ أُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَأْمُرُونَ بِالْمَعْرُوفِ وَتَنْہوْنَ عَنِ الْمُنكَرِ وَتُؤْمِنُونَ بِاللّہ (آلِ عمران : 110)
تم وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کے لیے اٹھایا گیا ہے ۔ تم نیکی کا حکم دیتے ہو اور بُرائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان لاتے ہو۔
اس امت کی وہ یہ صفت بیان کرتا ہے کہ:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاہمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلاَۃ وَآتَوُا الزَّكَاۃ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَہوْا عَنِ الْمُنكَرِ (الحج: 41)
یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دیں تو یہ نماز قائم کریں گے ، زکوٰۃ دیں گے ، نیکی کا حکم دیں گے اور برائی سے روکیں گے ۔
اسلام کی یہ شان نہیں ہے کہ وہ دنیا کے اندر قائم شدہ جاہلی تصورات کے ساتھ مصالحانہ رویہ اختیار کرے یا جاہلی نظاموں اور جاہلی قوانین سے بقائے باہم کے اصول پر معاملہ کرے ۔ یہ مؤقف اسلام نے اُس روز بھی نہیں اختیار کیا تھا جس روز اُس نے دنیا میں قدم رکھا تھا، اور نہ آج یہ اُس کا مؤقف ہو سکتا ہے اور نہ آئندہ کبھی اُمید ہے کہ اس مؤقف کو وہ اپنائے گا۔ جاہلیت خواہ کسی دور سے تعلق رکھتی ہو وہ جاہلیت ہی ہے ۔ اور وہ حقیقت میں اللہ تعالیٰ کی بندگی سے انحراف اور اللہ تعالیٰ کے بھیجے ہوئے نظامِ زندگی سے بغاوت ہے ۔ وہ ناخدا شناس مآخذ سے زندگی کے قوانین و شرائع، قواعد و اصول، عادات و روایات اور اقدارو معیارات اخذ کرنے کا نام ہے ۔ اس کے برعکس اسلام اللہ کے سامنے سرافگندگی کا نام ہے ۔ اسلام کسی دور اور کسی حالت کے ساتھ مخصوص نہیں ہے بلکہ یہ ہر دور کے لیے ہے اور ہر حالت کے لیے نافع ہے ۔ اس کا مشن انسانوں کو جاہلیت کی تاریکیوں سے نکال کر ہدایت کی روشنی میں لانا ہے ۔ زیادہ واضح الفاظ میں جاہلیت یہ ہے کہ انسان اپنے ہی جیسے انسانوں کی بندگی کریں۔ یعنی کچھ انسان غالب و برتر بن کر دوسرے انسانوں کے لیے منشائے خداوندی سے ہٹ کر قانون سازی کریں اور انہیں اس سے بحث نہ ہو کہ قانون سازی کے اختیارات کس شکل میں استعمال کیے گئے ہیں۔ اور اسلام یہ ہے کہ تمام انسان صرف خدائے واحد کی بندگی کریں۔ اپنے تمام تصورات و عقائد، قوانین و شرائع اور اقدارِحیات اور ردوقبول کے معیار اللہ سے حاصل کریں اور مخلوق کی عبودیت سے آزاد ہو کر ہمہ تن خالق کی بندگی کے لیے یکسو ہو جائیں۔
یہ حقیقت خود اسلام کی فطرت کا تقاضا ہے اور اسلام کے اُس کردار سے عیاں ہوتی ہے جو دنیا کے اندر اُس نے انجام دیا ہے یا انجام دینا چاہتا ہے ۔ یہی حقیقت ہمیں ان تمام انسانوں کے سامنے جنہیں ہم اسلام کی دعوت پیش کریں، وہ خواہ مسلمان ہوں یا غیرمسلم یکساں طور پر واضح کر دینی چاہیے ۔
اسلام اور جاہلیت میں ہرگز مصالحت نہیں ہو سکتی
اسلام جاہلیت کے ساتھ نیمے دروں نیمے بروں نوعیت کی کوئی مصالحت قبول نہیں کرتا۔ معاملہ خواہ اس کے تصور اور نظریہ کا ہو اور خواہ اس تصور اور نظریہ پر مرتب ہونے والے قوانینِ حیات کا، اسلام رہے گا، یا جاہلیت رہے گی تیسری ایسی کوئی شکل جس میں آدھا اسلام ہو اور آدھی جاہلیت اسلام کو قبول یا پسند نہیں ہے ۔ اس معاملے میں اسلام کا نقطۂ نظر بالکل واضح اور روشن ہے ۔ وہ یہ کہتا ہے کہ حق ایک ایسی اکائی ہے جس کا تجزیہ نہیں ہو سکتا۔ حق نہ ہوگا تو لازماً باطل ہو گا۔ حق اور باطل دونوں میں اختلاط و امتزاج اور بقائے باہم محال ہے ۔ حکم یا اللہ کا چلے گا، یا جاہلیت کا۔ اللہ کی شریعت کا سکہ رواں ہوگا یا پھر ہوائے نفس کی عملداری ہوگی۔ اس حقیقت کو قرآن نے بکثرت آیات میں بیان کیا ہے :
وَأَنِ احْكُم بَيْنَہم بِمَآ أَنزَلَ اللّہ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاءہمْ وَاحْذَرْہمْ أَن يَفْتِنُوكَ عَن بَعْضِ مَا أَنزَلَ اللّہ إِلَيْكَ (المائدہ: 49)
(پس اے محمد!) آپ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق ان لوگوں کے معاملات کا فیصلہ کریں۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔ ان سے ہوشیار رہیں کہ کہیں یہ لوگ آپ کو فتنہ میں ڈال کر اُس ہدایت کے کچھ حصے سے منحرف نہ کر دیں جو خدا نے آپ کی طرف نازل کی ہے ۔
فَلِذَلِكَ فَادْعُ وَاسْتَقِمْ كَمَا أُمِرْتَ وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاءہمْ (شوریٰ: 15)
پس اس طرف دعوت دیں، اور اس پر جمے رہیں جیسا کہ آپ کو حکم دیا گیا ہے ۔ اور ان کی خواہشات کی پیروی نہ کریں۔
فَإِن لَّمْ يَسْتَجِيبُوا لَكَ فَاعْلَمْ أَنَّمَا يَتَّبِعُونَ أَہوَاءہمْ وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ہوَاہ بِغَيْرِ ہدًی مِّنَ اللَّہ إِنَّ اللَّہ لاَ يَہدِي الْقَوْمَ الظَّالِمِينَ (القصص: 50)
اور اگر آپ کے مطالبے کا جواب نہ دیں تو جان لو کہ یہ لوگ اپنی خواہشات کے پیروکار ہیں۔ اور اس شخص سے بڑھ کر گمراہ کون ہوسکتا ہے جس نے اپنی خواہش کی پیروی کی اور اللہ کی ہدایت کی پرواہ نہ کی۔ بے شک اللہ تعالیٰ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔
ثُمَّ جَعَلْنَاكَ عَلَی شَرِيعَۃ مِّنَ الْأَمْرِ فَاتَّبِعْہا وَلاَ تَتَّبِعْ أَہوَاء الَّذِينَ لاَ يَعْلَمُونَ • إِنَّہمْ لَن يُغْنُوا عَنكَ مِنَ اللَّہ شَيئًا وإِنَّ الظَّالِمِينَ بَعْضُہمْ أَوْلِيَاء بَعْضٍ وَاللَّہ وَلِيُّ الْمُتَّقِينَ (الجاثیہ: 18 – 19)
اے نبی ہم نے تم کو دین کے معاملے میں ایک صاف شاہراہ (شریعت) پر قائم کیا ہے ۔ لہٰذا تم اُسی پر چلو اور ان لوگوں کی خواہشات کا اتباع نہ کرو جو علم نہیں رکھتے ۔ یہ اللہ کے سامنے تمہارے کچھ کام نہ آئیں گے ۔ اور بے شک ظالم ایک دوسرے کے رفیق ہیں اور اللہ پرہیزگاروں کا دوست ہے ۔
أَفَحُكْمَ الْجَاہلِيَّۃ يَبْغُونَ وَمَنْ أَحْسَنُ مِنَ اللّہ حُكْمًا لِّقَوْمٍ يُوقِنُونَ (المائدہ: 50)
پس کیا یہ جاہلیت کا فیصلہ چاہتے ہیں حالاں کہ جو لوگ اللہ پر یقین رکھتے ہیں ان کے نزدیک اللہ سے بہتر فیصلہ کرنے والا کوئی نہیں ہے ۔
ان آیات سے صاف واضح ہوتا ہے کہ صرف دو ہی راہیں ہیں، تیسری کوئی راہ نہیں ہے ۔ یا تو اللہ اور اس کے رسول کی دعوت پر سرِ تسلیم خم کرنا ہوگا۔ اور یا بصورتِ دیگر خواہشِ نفس کی پیروی ہوگی، اللہ کا فیصلہ تسلیم کرنا ہوگا یا جاہلیت کے سامنے سرافگندگی۔ اگر اللہ کے نازل کردہ قانون کو بنائے فیصلہ نہ ٹھہرایا جائے گا تو طبعی طور پر احکامِ الٰہی سے اعراض و انکار ہو گا۔ کتاب اللہ کے مذکورہ بالا واضح بیانات کے بعد کسی بحث و مجادلہ اور حیلہ جوئی کی گنجائش نہیں ہے ۔
اِسلام کا اصل مشن
اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ دنیا کے اندر اسلام کا فرضِ اولین یہ ہے کہ جاہلیت کو انسانی قیادت کے منصب سے ہٹا کر زمامِ قیادت خود اپنے ہاتھ میں لے اور اپنے مخصوص طریقِ حیات کو جو مستقل اور جُداگانہ اوصاف و خصائص کا حامل ہے نافذ کرے ۔ اس صالح قیادت سے اُس کا مقصد انسانیت کی فلاح و بہبود ہے جو صرف انسان کے اپنے خالق کے سامنے جُھک جانے اور انسان اور کائنات کی حرکت میں توافق و ہم آہنگی قائم ہوجانے سے پیدا ہو سکتی ہے ۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ انسان کو اُس مقامِ رفیع پر متمکن کر دے جو اللہ تعالیٰ نے اُس کے لیے تجویز کیا ہے اور خواہشاتِ نفس کے غلبہ و استیلاء سے اُسے نجات دے ۔ یہ وہی مقصد ہے جسے حضرت ربیع بن عامر نے فارسی فوج کے قائد رستم کے جواب میں بیان کیا تھا۔ رستم نے پوچھا تھا کہ “تم لوگ یہاں کس غرض کے لیے آئے ہو؟“ ربیع نے کہا: اللہ تعالیٰ نے ہمیں اس لیے بھیجا ہے کہ ہم انسانوں کو انسانوں کی بندگی سے نکال کر خدائے واحد کی بندگی میں داخل کریں۔ دُنیا پرستی کی تنگنائیوں سے نکال کر دنیا اور آخرت دونوں کی وسعتوں سے ہمکنار کریں، انسانی ادیان کے ظلم و ستم سے نجات دے کر انہیں اسلام کے عدل میں لائیں۔“
اسلام انسان کی ان نفسانی خواہشات کی تائید و توثیق کے لیے نہیں آیا جن کا انسان مختلف نظریات و تخیلات کے رُوپ میں اور گوناگوں رسم و رواج کے پردے میں اظہار کرتا رہا ہے ۔ اسلام کی ابتدا کے وقت بھی ایسے نظریات و رسوم پائے گئے تھے اور آج بھی مشرق و مغرب میں انسانیت پر خواہشاتِ نفس کا غلبہ و حکمرانی ہے ۔ اسلام خواہشات کی اس حکمرانی کو مضبوط بنانے نہیں آیا، بلکہ اس لیے آیا ہے کہ وہ ایسے تمام تصورات و قوانین اور رسوم و روایات کی بساط لپیٹ دے ۔ اور ان کی جگہ اپنی مخصوص بنیادوں پر انسانی زندگی کی تعمیرِنو کرے ، ایک نئی دنیا تخلیق کرے ، زندگی کی نئی طرح ڈالے جس کا مرکز و محور اسلام ہو۔
 

ابوشامل

محفلین
جاہلیت کیساتھ اسلام کی جزوی مشابہت
بعض اوقات ایسا ہوتا ہے کہ اسلام کے بعض جزوی پہلو اُس جاہلیت کی زندگی کے بعض پہلوؤں کے مماثل و مشابہ نظر آتے ہیں جن میں لوگ عملاً گھرے ہوتے ہیں لیکن اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ جاہلیت کے کچھ اجزاء اسلام میں پائے جاتے ہیں بلکہ یہ محض اتفاق ہے کہ بعض سطحی اور فروعی امور میں اسلام اور جاہلیت میں مشابہت پیدا ہو گئی ہے ۔ ورنہ دونوں الگ الگ درخت کی مانند ہیں اور دونوں کی جڑیں اور تنے اور شاخیں ایک دوسرے سے جُدا ہیں۔ بلکہ اُن میں زمین و آسمان کا فرق ہے ۔ ایک وہ درخت ہے جسے حکمتِ الٰہی نے کاشت کیا اور سینچا ہے اور دوسرا وہ (شجرِ خبیث) ہے جو انسانی خواہشات کی زمین میں سے برآمد ہوا ہے ۔
وَالْبَلَدُ الطَّيِّبُ يَخْرُجُ نَبَاتُہ بِإِذْنِ رَبِّہ وَالَّذِي خَبُثَ لاَ يَخْرُجُ إِلاَّ نَكِدًا (اعراف: 58)
جو زمین اچھی ہوتی ہے وہ اپنے رب کے حکم سے خوب پَھل پُھول لاتی ہے اور جو زمین خراب ہوتی ہے اس سے ناقص پیداوار کے سوا کچھ نہیں نکلتا۔
جاہلیت خبیث اور فاسد مادہ ہے ۔ خواہ وہ قدیم جاہلیت ہو یا جدید۔ جاہلیت کے خبث اور فساد کا ظاہری ہیولیٰ تو مختلف زبانوں میں مختلف روپ دھارتا رہا ہے لیکن اس کی جڑ اور اصل ایک ہی رہی ہے اور یہ جڑ کوتاہ نظر اور جاہل انسانوں کی خواہشات میں پیوست ہوتی ہے جو اپنی نادانی اور خودبینی کے جال سے نکلنے کی سکت نہیں رکھتے ، یا پھر چند افراد یا چند طبقات یا چند قوموں یا چند نسلوں کی مفادپرستی اس کا ماخذ ہوتی ہے اور یہ مفادپرستی عدل و انصاف، حق و صداقت اور خیر و صلاح کے تقاضوں پر غالب آ جاتی ہے ۔ مگر اللہ کی بے لاگ شریعت ایسے تمام مفاسد و عوامل کی جڑ کاٹ دیتی ہے ، اور انسانوں کے لیے ایک ایسا قانون مہیا کر دیتی ہے جو انسان کی دخل اندازی سے پاک ہوتا ہے ۔ اور اُس کے بارے میں یہ شُبہ نہیں کیا جا سکتا کہ اس میں انسانی جہل کی آمیزش ہوگی یا انسانی اہواء و اغراض کی ناپاکی اُس میں شامل ہوگی یا وہ کسی انسانی گروہ کی مفادپرستی کی نذر ہو کر بے اعتدالی کا شکار ہوگا۔
اللہ کے بھیجے ہوئے نظریۂ حیات اور انسانوں کے اختراع کردہ نظریہ میں یہی بنیادی اور جوہری فرق ہے ۔ اور اس بنا پر دونوں کا ایک نظام کے تحت جمع ہونا محال اور دونوں میں کبھی توافق پیدا ہونا ناممکن ہے ۔ اور اسی بنا پر کسی ایسے نظامِ حیات کا ایجاد کرنا بھی سعی لاحاصل ہے جو آدھا تیتر ہو اور آدھا بٹیر۔ اس کا نصف اسلام سے ماخوذ ہو اور نصف جاہلیت سے ۔ جس طرح اللہ تعالیٰ شرک کو معاف نہیں کرتا اسی طرح وہ اپنے نازل کردہ نظریۂ زندگی کے ساتھ کسی اور نظریہ کی شرکت کو بھی قبول نہیں کرتا۔ یہ دونوں جُرم اللہ کے نزدیک ایک ہی درجہ رکھتے ہیں اور دونوں دراصل ایک ہی ذہنیت کی پیداوار ہیں۔
خالص اسلام کی دعوت
ہم جب لوگوں کو اسلام کی طرف بُلائیں اور دعوت و تبلیغ کا کام سرانجام دیں تو اسلام کے بارے میں یہ مذکورہ ہدایت ہمارے ذہنوں میں اس قدر مضبوطی کے ساتھ جاگزیں اور پیوست اور واضح ہونی چاہیے کہ اس کے اظہار و اعلان میں کبھی ہماری زبان نہ لڑکھڑائے اور کسی موقع پر ہم شرم محسوس نہ کریں، اور لوگوں کو اس بارے میں کسی شک و اشتباہ میں نہ رہنے دیں، اور ان کو اس بات کا پوری طرح قائل کرکے چھوڑیں کہ اگر وہ دامنِ اسلام میں آئیں گے تو ان کی زندگیوں کی کایا پلٹ جائے گی۔ اُن کے اعمال و کردار اور اُن کے اصول و ضوابط بھی بدلیں گے اور اُن کے تصورات اور اندازِ فکر بھی تبدیل ہوگا۔ اس تبدیلی کی بدولت اسلام انہیں وہ خیرِ کثیر عطا کرے گا جس کی وسعتیں انسانی قیاس میں نہیں سما سکتیں۔ وہ ان کے افکار و نظریات میں رفعت پیدا کرے گا، ان کے حالات و معاملات کا معیار بلند کرے گا اور انہیں اُس مقامِ عزت و مرتبۂ شرف سے قریب تر کرے گا جو سزاوارِ انسانیت ہے ۔ جس پست جاہلی زندگی سے وہ اب تک آلودہ رہے ہیں اُس کی کوئی آلائش باقی نہ چھوڑے گا، اِلا یہ کہ جاہلی دور کی کوئی ایسی جزئیات پائی جائیں جو اتفاق سے نظامِ اسلامی کی بعض جزئیات سے ہمرنگ اور ہم آہنگ ہوں، لیکن وہ بھی اپنی اصلی حالت میں نہ رہیں گی بلکہ اسلام کی اس اصل عظیم سے مربوط ہوجائیں گی جو جاہلیت کی اس خبیث اور غیربار آور اصل سے بنیادی طور پر مختلف ہے جس کے ساتھ وہ آج تک وابستہ تھے ۔ اسلام یہ انقلابِ عظیم برپا کرنے کے بعد انسانوں کو علم و تحقیق کے ان شعبوں سے محروم نہیں کرے گا جو مشاہدہ و استقراء پر مبنی ہیں بلکہ ان شعبوں کو مزید ترقی دے گا۔ الغرض داعیانِ اسلام کا فرض ہے کہ وہ لوگوں کو اس وہم میں نہ رہنے دیں کہ اسلام بھی انسان کے وضع کردہ اجتماعی نظریات میں سے ایک نظریہ اور خودساختہ نظاموں میں سے ایک نظام ہے جو مختلف ناموں اور مختلف جھنڈوں کے ساتھ رُوئے زمین میں پائے جاتے ہیں۔ بلکہ وہ خالص اور بے لاگ نظام ہے ۔ وہ مستقل بالذات انفرادیت کا مالک ہے ، جداگانہ تصورِزندگی رکھتا ہے اور جداگانہ طرزِ حیات لے کر آیا ہے ۔ وہ انسانیت کو جو کچھ دینا چاہتا ہے وہ وضعی نظاموں کی خیالی جنتوں سے ہزار درجہ بہتر و سُودمند ہے ۔ وہ ایک اعلیٰ و ارفع نظام ہے پاکیزہ و اُجلا نظریۂ حیات ہے ، وہ جمال جہاں افروز ہے ، وہ معتدل و متوازن راہ ہے ، اُس کے سوتے براہِ راست خدائے برتر و عظیم کے ازلی و ابدی چشموں سے پُھوٹے ہیں۔
جب ہم اس انداز پر اسلام کا شعور حاصل کر لیں گے تو یہ شعور ہمارے اندر یہ فطری صلاحیت بھی پیدا کر دے گا کہ ہم اسلام کی دعوت پیش کرتے وقت پُوری خوداعتمادی اور قوت کے ساتھ ، بلکہ پُوری ہمدردی اور دل سوزی کے ساتھ لوگوں سے مخاطب ہوں، اس شخص کی سی خوداعتمادی جسے یہ بھرپور یقین ہو کہ وہ جس دعوت کا حامل ہے ، وہ سراسر حق ہے اور اس کے برخلاف دوسرے لوگ جس راہ پر چل رہے ہیں وہ باطل کی راہ ہے ، اس شخص کی سی ہمدردی جو انسانوں کو شقاوت اور بدنصیبی میں گِھرا ہوا پا رہا ہو اور یہ جانتا ہوکہ انہیں آغوشِ سعادت میں کیونکر لایا جا سکتا ہے ۔ اس شخص کی سی دل سوزی جو لوگوں کو تاریکی میں ٹامک ٹوئیے مارتا ہوا دیکھ رہا ہو، اور جانتا ہو کہ انہیں وہ روشنی کہاں سے دستیاب ہو سکتی ہے جس کے بغیر وہ راہِ حق نہیں پا سکتے ۔ الغرض اسلام کا سچا شعور حاصل ہو جانے کے بعد ہمیں یہ حاجت نہیں ہوگی کہ ہم چور دروازوں سے لوگوں کے ذہنوں میں اسلام کو اُتاریں اور ان کی نفسانی خواہشات اور باطل اور گمراہانہ نظریات کو تھپکی دیں۔ بلکہ ہم ڈھکی چُھپی رکھے بغیر صاف صاف اسلام کی دعوت ان کے سامنے رکھیں گے اور ان کو توجہ دلائیں گے کہ یہ جاہلیت جس میں تم گھرے ہوئے ہو یہ ناپاک اور نجس ہے ۔ اللہ تعالیٰ تمہیں اس نجاست اور گندگی سے پاک کرنا چاہتا ہے ، یہ صورتِ حال جس میں تم سانس لے رہے ہو سراسر خبث اور فساد ہے اور اللہ تمہارے لیے پاکیزہ و طیب نظام پسند کرتا ہے ، یہ طرزِ زیست جسے تم نے اختیار کر رکھا ہے انتہائی پستی اور گراوٹ سے عبارت ہے اور اللہ تعالیٰ تمہیں تمہارا مقامِ بلند عطا کرنا چاہتا ہے ، تمہارے یہ لیل و نہار شقاوت اور ذلت اور پسماندگی و پژمردگی سے کُہرآلود ہوچکے ہیں اور اللہ تعالیٰ چاہتا ہے کہ تمہارے لیے آسانی پیدا کرے ، تمہیں اپنی آغوشِ رحمت میں لے اور تمہیں سعادت مندی کا تاج پہنائے ۔ اسلام تمہارے نظریات و افکار کو بدل ڈالے گا، تمہارے حالات کا پانسہ پلٹ دے گا، تمہیں نئی قدروں سے متعارف کرائے گا، تمہیں ایسی بالا و برتر زندگی سے سرفراز کرے گا کہ اس کے مقابلے میں تم اپنی موجودہ زندگی کو خودبخود ہیچ سمجھنے لگو گے ۔ تمہارے لیل و نہار میں وہ ایک ایسا انقلاب برپا کر دے گا کہ تم خود اپنی موجودہ عالم گیر صورتِ حال سے نفرت کرنے لگو گے ، وہ تمہیں ایسے تہذیبی سانچوں سے بہرہ یاب کرے گا کہ ان کو پا کر تم اپنے موجودہ تہذیبی سانچوں کو جو روئے زمین میں رائج ہیں حقیر سمجھنے لگو گے ۔ اگر تم اپنی حرماں نصیبی کی وجہ سے اسلامی زندگی کی عملی صورت نہیں دیکھ سکے ہو کیونکہ تمہارے دشمن اس بات پر متحد اور صف آراء ہیں کہ زندگی کا یہ نظام دنیا میں کبھی برپا نہ ہو سکے اور جامۂ عمل نہ پہنے ، تو آؤ ہم تمہیں اس کی حلاوت سے آشنا کرتے ہیں کیونکہ بتوفیقِ ایزدی اس زندگی کا ہم اپنے قلب و ضمیر کی دنیا میں مشاہدہ کر چکے ہیں، ہم اپنے قرآن، اپنی شریعت اور اپنی تاریخ کے جھروکوں سے اُس کا نظارہ کر چکے ہیں، اپنے مستقبل کے خوشنما تخیل میں جس کے آنے میں ہمیں شمّہ بھر شک نہیں ہے اُسے جھانک چُکے ہیں۔
ہمیں چاہیے کہ اسی طرز پر اور اسی انداز سے ہم لوگوں کے سامنے اسلام پیش کریں، اسلام کی طبیعت و فطرت بھی یہی ہے اور یہی وہ اصل شکل ہے جس میں اسلام پہلی مرتبہ انسانوں سے انسانوں سے مخاطب ہوا تھا۔ جزیرۃالعرب میں، فارس میں، روم میں اور ہر اُس خطے میں جہاں اسلام نے لوگوں کو پُکارا اسی انداز اور اسی ڈھنگ سے پُکارا۔ اُس نے انسانیت سے دردبھری زبان میں گفتگو کی کیوں کہ یہی اُس کی فطرت تھی، اُس نے انسانیت کو کسی ابہام و تردد کے بغیر دوٹوک الفاظ میں چیلنج کیا کیونکہ یہی اُس کا طریقہ تھا، اُس نے کبھی لوگوں کو اس خوش فہمی میں نہیں رہنے دیا کہ وہ اُن کی عملی زندگی کو، ان کے تصورات وافکار کو اور ان کی اقدارواخلاق کو مس نہیں کرے گا اور اگر کیا بھی تو محض اِکّادُکّا تبدیلیوں کے لیے !!، اسی طرح اُس نے کبھی انسانوں کے من بھاتے اصول و ضوابط اور نظریات و افکار سے اپنے آپ کو وابستہ نہیں کیا، نہ ان سے اپنے آپ کو تشبیہ دی، جیسا کہ آج کل ہمارے بعض مفکرینِ اسلام کا شیوہ بن چکا ہے ۔ کبھی وہ “اسلامی ڈیموکریسی“ کی اصطلاح وضع کرتے ہیں اور کبھی “اسلامی سوشلزم“ کی۔ اور کبھی کہتے ہیں کہ دنیا کے موجودہ اقتصادی، سیاسی اور قانونی نظاموں میں اسلام کو بس چند معمولی سی تبدیلیاں کرنے کی ضرورت ہے ۔ اس طرح کی چکنی چپڑی باتیں صرف اس لیے کی جاتی ہیں کہ لوگوں کی خواہشات کو تھپکی دی جائے ۔
لیکن یہ اسلام ہے ، خالہ جی کا گھر نہیں ہے ۔ یہ اسلام اُس اسلام سے بالکل مختلف ہے جو بعض مفکرینِ اسلام پیش کرتے ہیں۔ یہ جاہلیت کا طوفان جو روئے زمین کا احاطہ کیے ہوئے ہے ، انسانیت کو اس سے نکال کر اسلام کے پُرامن گہوارے میں داخل کرنے کے لیے دُور رَس اور وسیع تبدیلی کی ضرورت ہے ۔ اسلام کا نقشۂ حیات جاہلیت کے اُن تمام نقشوں سے یک قلم مختلف و متضاد ہے جو دورِقدیم میں پائے گئے تھے یا عہدِحاضر میں پائے جاتے ہیں، موجودہ انسانیت شقاوت و زَبُوں حالی کے جن تودوں کے نیچے کراہ رہی ہے وہ چند معمولی تبدیلیوں سے نہیں ہٹائے جا سکتے ۔ انسانیت اس شقاوت و زَبُوں حالی کی زندگی سے اگر نجات پا سکتی تو وہ صرف اسی صورت میں کہ ایک ہمہ گیر، دُور رَس اور جوہری انقلاب برپا کیا جائے ------------------------ مخلوق کے وضع کردہ نظاموں کو ہٹا کر خالق کے نازل کردہ نظام کو جاری کیا جائے ، انسانی قوانین کو فارغ خطی دے کر انسانوں کے پروردگار کے قانون کو اختیار کیا جائے ، بندوں کی حکمرانی سے نجات پا کر بندوں کے رب کی غلامی کا طوق گلے میں ڈالا جائے - یہ ہے وہ صحیح اور حقیقت پسندانہ طریقِ کار۔ اس طریقِ کار کا اظہار ہمیں برملا اور دوٹوک کر دینا چاہیے اور اس معاملے میں لوگوں کو کسی شک والتباس میں نہ رہنے دینا چاہیے ۔
ہو سکتا ہے کہ لوگ شروع شروع میں اس طرزِ دعوت سے بدکیں، اس سے دُور بھاگیں اور خوف کھائیں۔ لیکن یہ کوئی نئی بات نہیں ہے ، لوگ اُس وقت بھی اسلام کی دعوت سے ایسے ہی دُور بھاگتے تھے اور خوف زدہ اور متنفر تھے جب پہلی مرتبہ ان کے سامنے یہ دعوت پیش کی گئی تھی۔انہیں شدید ناگوار گزرتا تھا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) اُن کے افکار و اوہام کی تحقیر کرتے ہیں، ان کے دیوتاؤں پر نقطہ چینی کرتے ہیں، ان کے قوانینِ حیات پر نکیر کرتے ہیں، ان کے رسوم و رواج اور عادات سے بیزار ہیں اور اپنے لیے اور اپنے چند ماننے والوں کے لیے ان کے رسوم و روایات اور قوانین و ضوابط کے برخلاف نئے اصول و ضوابط اور اقدار و اخلاق اختیار کر رکھے ہیں---------------- لیکن آخرکار ہوا کیا؟ یہی لوگ جنہیں پہلی مرتبہ حق اچھا نہیں لگا اُسی حق کے دامنِ رحمت میں انہوں نے پناہ لی، جس حق سے وہ اس طرح بدکتے تھے کہ کانھم حمر مستنفرۃ فدت من قسورۃ (گویا وہ جنگلی گدھے ہیں اور شیر کو دیکھ کر بھاگ اُٹھے ہیں) جس کے خلاف انہوں نے اپنی پوری طاقت اور ساری تدبیریں صرف کر دیں ، جس کے ماننے والوں کو انہوں نے مکہ کی بے بس زندگی کے دوران میں طرح طرح کے اذیت ناک اور زہرہ گداز عذاب دیے اور پھر ہجرت کے بعد مدینہ کی زندگی میں بھی جب انہیں طاقت پکڑتے دیکھا تو اُن کے خلاف تند و تیز جنگیں برپا کر دیں اُسی کے بالآخر وہ غلامِ بے دام بن کے رہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
دعوتِ اسلامی کی کامیابی کی کلید
دعوتِ اسلامی کو آغاز میں جن حالات سے گزرنا پڑا تھا وہ آج کے حالات کی بہ نسبت زیادہ حوصلہ افزا، امیدبخش اور سازگار نہ تھے ۔ اس وقت بھی وہ ایک انجانی دعوت تھی جاہلیت اُسے جھٹلاتی تھی ، وہ مکہ کی گھاٹیوں کے اندر محصور رہی، اربابِ جاہ و شوکت پنجے جھاڑ کر اُس کے پیچھے پڑے رہے ، اپنے دَور میں وہ تمام دنیا کے لیے ایک اجنبی چیز تھی، اُسے اطراف کی ایسی عظیم اور جابر و سرکش سلطنتوں نے گھیر رکھا تھا جو اُس کے تمام بنیادی اصولوں اور مقاصد کی دشمن تھیں۔ بایں ہمہ یہ دعوت ان شدید تر حالات میں بھی اپنے پاس قوت کا غیر معمولی سرمایہ رکھتی تھی اسی طرح آج بھی یہ اُسی قوت سے بہرہ ور ہے ، اور آیندہ بھی اس کی یہ قوت قائم و دائم رہے گی۔ اس کی قوت کا راز خود اس کے عقیدہ کی فطرت میں پنہاں ہے ۔ یہی وجہ ہے کہ بُرے سے بُرے حالات اور کٹھن سے کٹھن ماحول میں بھی اس کا کام جاری رہا ہے ۔ اس کی طاقت کا منبع وہ سیدھا سادا اور روشن “حق“ ہے جس پر یہ دعوت قائم ہے ، اس کی قوت کی کلید اس کی فطرتِ انسانی کے ساتھ ہم آہنگی ہے ۔ اس کی قوت کا سرچشمہ اس کی حیرت انگیز صلاحیت میں پوشیدہ ہے کہ یہ ہر مرحلہ میں انسانیت کی قیادت کی اہل ہے اور اُسے ترقی و عروج پر گامزن کر سکتی ہے ، خواہ انسانیت اقتصادی اور اجتماعی لحاظ سے اور علمی اور عقلی پہلو سے دورِ انحطاط میں ہو یا ترقی بکنار، نیز اس کی قوت کا ایک راز یہ بھی ہے کہ یہ واشگاف انداز میں جاہلیت اور اس کی تمام مادی طاقتوں کو چیلنج کرتی ہے ، اور اس اعتماد اور جزم کے ساتھ اُس کے سامنے خم ٹھونک کر آتی ہے کہ اپنے کسی اصول میں اُسے کسی ایک شوشے کی تحریف بھی گوارہ نہیں، وہ جاہلیت کی خواہشوں سے قطعاً مصالحت نہیں کرتی، اور نہ جاہلیت کے اندر سرایت کرنے کے لیے وہ چور دروازوں اور حیلے بہانوں کا سہارا ڈھونڈتی ہے ، وہ حق کا بہ بانگِ دہل اعلان کردیتی ہے اور لوگوں کو پُوری طرح آگاہ کردیتی ہے کہ وہ سراسر خیر، سراسر رحمت اور سراسر برکت ہے ۔ اللہ تعالیٰ جو انسانوں کا خالق ہے وہ خوب جانتا ہے کہ ان کی فطرت کیا ہے ، اور ان کے دلوں کے روزن کہاں کہاں ہیں۔ اُسے خوب معلوم ہے کہ اگر حق کو صراحت اور قوت کے ساتھ علانیہ پیش کردیا جائے اور اسے پیش کرنے میں کسی رازداری، نقاب پوشی اور گومگو کا طریقہ اختیار نہ کیا جائے تو وہ دلوں کے اندر اُتر کر رہتی ہے ۔
جزوی اسلام کی دعوت مضر ہے
انسانی نفوس ایک طرزِ زندگی کو چھوڑ کر دوسرا طرزِ زندگی اپنانے کی پوری صلاحیت اور استعداد رکھتے ہیں۔ بلکہ مکمل تبدیلی ان کے لیے بسا اوقات جزوی تبدیلیوں کی نسبت زیادہ آسان ہوتی ہے ۔ ایک ایسے نظامِ حیات کی طرف منتقل ہونا جو پہلے سے زیادہ برتر، زیادہ کامل اور پاکیزہ ہو خود انسانی فطرت بھی اس کی تائید کرتی ہے ۔ اس کے برعکس اگر اسلامی نظام خود ہی ادھر اُدھر کی چند سطحی تبدیلیوں پر اکتفا کر لے تو پھر پورے جاہلی نظام کو چھوڑ پورے اسلامی نظام کی طرف آنے کی وجہ جواز کیا ہوگی؟ ظاہر ہے کہ ایک مانوس نظام پر جما رہنا زیادہ قرینِ عقل ہے ، اس لیے کہ کم ازکم وہ جما جمایا نظام تو ہے ۔ اُسی کے اندر اصلاحات اور تبدیلیاں کی جا سکتی ہیں۔ پھر ایسے نظام کی طرف جس کی اکثر وبیشتر خصوصیات نئے نظام سے ملتی جُلتی ہوں اُسے اُٹھا کر پھینک دینے اور اُس کے بجائے ایک غیرقائم شدہ نظام کی طرف رجوع کرنے کی آخر ضرورت ہی کیا باقی رہ جاتی ہے ؟
اسلام کو اپنی صفائی کی کوئی ضرورت نہیں
اسی طرح بعض ایسے متکلمینِ اسلام بھی پائے جاتے ہیں جو لوگوں کے سامنے اسلام کو اس حیثیت سے پیش کرتے ہیں کہ گویا اسلام کا ایک ملزم ہے اور وہ اس کے وکیلِ صفائی ہیں۔ وہ اسلام کی صفائی اور دفاع جس طریقہ سے کرتے ہیں وہ کچھ اس طرح کا ہے کہ“نظامِ حاضر نے فلاں اور فلاں کام کیے ہیں اور کہا جاتا ہے کہ اسلام نے یہ کام کر کے نہیں دکھائے ، مگر صاحبو! اسلام تو ان کاموں کو پہلے کر چکا ہے جنہیں موجودہ تہذیب 14 سو سال بعد کر رہی ہے " کیا گھٹیا دفاع ہے اور کیا بھونڈی صفائی ہے !! --------------- اسلام جاہلی نظاموں اور ان کے بُرے اور تباہ کُن تصرفات کو اپنے کسی عمل کے جواز کی دلیل ہرگز نہیں بناتا- یہ تہذیبیں جنہوں نے اکثر لوگوں کی آنکھوں کو خیرہ کر رکھا ہے اور ان کے دل و دماغ ماؤف کر رکھے ہیں یہ خالصۃً جاہلی نظام کے شاخسانے ہیں۔ اور اسلام کے مقابلے میں ہر لحاظ سے ناقص، کھوکھلے ، ہیچ اور پوچ ہیں۔ یہ دلیل قابلِ اعتبار نہیں ہے کہ ان تہذیبوں کے سائے میں بسنے والے لوگ ان لوگوں سے زیادہ خوش حال ہیں جو نام نہاد عالمِ اسلامی میں رہتے ہیں۔ ان علاقوں کے باشندے اپنی موجودہ زبوں حالی کو اس لیے نہیں پہنچے کہ یہ مسلمان ہیں بلکہ اس لیے کہ انہوں نے اسلام سے منہ موڑ رکھا ہے ۔ اسلام تو لوگوں کے سامنے اپنی صداقت کی یہ دلیل پیش کرتا ہے کہ وہ ناقابلِ قیاس حد تک جاہلیت سے اولیٰ اور افضل ہے ، جو جاہلیت کو برقرار رکھنے کے لیے نہیں بلکہ اُسے بیخ و بُن سے اُکھاڑ پھینکنے کے لیے آیا ہے ، وہ انسانیت کو اس آلودگی پر جسے تہذیب کا نام دیا جاتا ہے آشیرباد دینے کے لیے نہیں آیا بلکہ وہ انسانیت کو اس درک اسفل سے نکالنے آیا ہے ۔
ہمیں اس حد تک تو شکست خوردہ نہیں ہو جانا چاہیے کہ ہم رائج الوقت نظریات و افکار کے اندر اسلام کی شبیہیں ڈھونڈنے لگیں، ہمیں ان تمام نظریات و افکار کو خواہ مشرق ان کا علمبردار ہو اور خواہ مغرب، پسِ پُشت ڈالنا چاہیے اس لیے کہ یہ نظریات ان اعلیٰ وارفع مقاصد کے مقابلہ میں نہایت پست، حقیر اور غیرترقی یافتہ ہیں جن کو اسلام اپنا مطمع نظر قرار دیتا ہے اور انسانیت کے سامنے پیش کرتا ہے ۔ جب ہم لوگوں کو صحیح اسلام کی بنیاد پر دعوت دیں گے اور ان کے سامنے اسلام کے جامع تصور کا اساسی عقیدہ پیش کریں گے تو خود ان کی فطرت کی گہرائیوں سے اس کے حق میں آواز اٹھے گی جو ایک تصور سے دوسرے تصور کی طرف اور ایک حالت سے دوسری حالت کی طرف منتقل ہو جانے کا انہیں جواز بلکہ وجوب بھی فراہم کرے گی۔ لیکن یہ دلیل انہیں ہرگز متاثر نہیں کرسکتی کہ ہم اُن سے کہیں کہ رائج نظام کو چھوڑ کر ایک غیر رائج نظام کی طرف آؤ، یہ تمہارے رائج نظام کے اندر صرف ضروری تبدیلیاں کرے گا اور تمہیں اس پر کوئی اعتراض نہ ہونا چاہیے اس لیے کہ موجودہ نظام کے اندر بھی تم جو کچھ کر رہے ہو وہی کچھ تم نئے نظام میں بھی کر سکو گے ۔ بس تمہیں اپنی عادات اور خواہشات اور رکھ رکھاؤ میں بعض خفیف تبدیلیاں کرنی پڑیں گی۔ اور ان کے بعد جس عادت اور خواہش کے بھی رسیا ہو وہ علی حالہٖ باقی رہے گی۔ اُس سے کوئی تعرض نہیں کیا جائے گا، کیا بھی گیا تو یُونہی سرسری سا۔
یہ طریقہ بظاہر بڑا آسان اور مرنجان مرنج ہے مگر اپنی سرشت کے لحاظ سے کسی قسم کی کشش نہیں رکھتا۔ مزید برآں یہ حقیقت سے بھی بعید ہے ۔ کیوں کہ حقیقت تو یہ پکار رہی ہے کہ اسلام محض زندگی کے اصول و نظریات ہی تبدیل نہیں کرتا، محض حیاتِ اجتماعیہ کے قوانین و شرائع ہی دگرگوں کر کے نہیں رکھ دیتا بلکہ احساسات اور جذبات تک کی دنیا کو بھی اس طرح بنیاد و اساس کے لحاظ سے بدل کر رکھ دیتا ہے کہ جاہلی زندگی کے کسی اصول کے ساتھ اس کا رشتہ باقی نہیں رہتا۔ مختصر طور پر یُوں بیان کردینا کافی ہوگا کہ اسلام زندگی کے چھوٹے سے چھوٹے معاملہ سے لے کر بڑے سے بڑے تک میں انسانوں کو بندوں کی بندگی سے نکال خدائے واحد کی بندگی کی طرف منتقل کردیتا ہے ۔ اس کے بعد:
فَمَن شَاء فَلْيُؤْمِن وَمَن شَاء فَلْيَكْفُرْ وَمَن كَفَرَ فَإِنَّ اللہ غَنِيٌّ عَنِ الْعَالَمِينَ
جو چاہے ایمان لائے اور جو چاہے کفر کا راستہ اختیار کرے اور جو کفر کرتا ہے تو بے شک اللہ تعالیٰ تمام اہلِ جہان سے بے نیاز ہے ۔
یہ مسئلہ درحقیقت کفر و ایمان کا مسئلہ ہے ۔ شرک و توحید کا مسئلہ ہے ، جاہلیت اور اسلام کا مسئلہ ہے ۔ اسی بنیادی حقیقت کو اظہر من الشمس ہونا چاہیے ۔ جن لوگوں کی زندگی جاہلیت کی زندگی ہے ، وہ لاکھ اسلام کا دعوٰے کریں مگر وہ مسلمان نہیں ہیں۔ ان میں کچھ خودفریبی میں مبتلا ہیں یا دوسروں کو دھوکے میں ڈال رہے ہیں اور اس خیالِ خام میں مبتلا ہیں کہ اسلام ان کی جاہلیت کا ہمنوا ہو سکتا ہے تو انہیں کون روک سکتا ہے مگر ان کی خودفریبی یا جہاں فریبی سے حقیقت تو نہیں بدل سکتی۔ ان لوگوں کا اسلام نہ اسلام ہے نہ یہ مسلمان ہیں۔ آج اگر دعوتِ اسلامی برپا ہو تو پہلے انہی کشتگانِ جاہلیت کو اسلام کی طرف لانا اور انہیں ازسرِنو حقیقی مسلمان بنانا ہوگا۔
ہم لوگوں کو اسلام کی طرف اس لیے نہیں بُلا رہے کہ ان سے کسی اجر کے طالب ہیں اور نہ ہم ملک میں اقتدار حاصل کرنے یا فساد برپا کرنے کے خواہش مند ہیں۔ اپنی ذات کے لیے ہم سرے سے کسی منفعت کا لالچ نہیں رکھتے ۔ ہمارا اجر اور ہمارا حساب لوگوں کے ذمہ نہیں ہے ، اللہ کے ذمہ ہے ۔ لوگوں کو اسلام کی دعوت دینے پر جو چیز ہمیں مجبور کرتی ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ ہم ان کے سچے ہمدرد اور حقیقی بہی خواہ ہیں۔ خواہ ہم پر کتنے ہی مصائب کے پہاڑ توڑیں۔ داعی حق کی یہی فطری شاہراہ ہے اور یہی حالات اُسے مہمیز کا کام دیتے ہیں۔ لہٰذا لوگوں کو ہماری زندگیوں کے اندر اسلام کی صحیح تصویر نظر آنی چاہیے ۔ اور انہیں اُس بارِگراں کا بھی صحیح اندازہ ہو جانا چاہیے جس کے اُٹھانے کا اسلام اُن سے مطالبہ کرتا ہے اور جس کے عوض انہیں وہ لامتناہی خیر عطا کرتا ہے جس کا اسلام علمبردار ہے ۔ اس طرح لوگوں کو یہ بھی معلوم ہوجانا چاہیے کہ جس جاہلیت میں وہ غرق ہیں اُس کے بارے میں ہماری رائے یہ ہے کہ یہ نری جاہلیت ہے ، اسلام کا اس سے دُور کا بھی واسطہ نہیں ہے ۔ اس کا ماخذ چونکہ شریعت نہیں ہے اس لیے وہ سرتاپا ہوائے نفس ہے ، اور چونکہ وہ حق آشنا ہے اس لیے وہ بلاشُبہ باطل ہے ----- فماذا بعد الحق الا الضلال-
ہم جس اسلام کے علمبردار ہیں اس میں کوئی ایسا پہلو نہیں ہے جو ہمارے لیے کسی شرمندگی یا احساسِ کہتری کا موجب ہو یا جس کی صفائی کی ہمیں ضرورت ہو، اور نہ اس کے اندر کوئی ایسا نقص ہے جس کی وجہ سے ہم اُسے لوگوں تک پہنچانے کے لیے کسی طرح کی ریشہ دوانی کی ضرورت محسوس کریں۔ یا اُس کی اصلیت کے تقاضا کے تحت ڈنکے کی چوٹ اُس کا اعلان کرنے کی بجائے طرح طرح کی نقابیں ڈال کر اُسے پیش کریں۔ دراصل یہ روگ مغرب اور مشرق میں پھیلے ہوئے جاہلی نظاموں سے رُوحانی اور نفسیاتی شکست کھا جانے کی وجہ سے بعض “مسلمانوں“ کو لاحق ہوگیا ہے اور وہ انسانی قوانین کے اندر ایسے پہلو تلاش کرنے میں لگے رہتے ہیں جن سے وہ اسلام کی موافقت اور تائید کر سکیں، یا وہ جاہلیت کے کارناموں کے اندر ان باتوں کی ٹوہ کرتے رہتے ہیں جن سے یہ دلیل فراہم کر سکیں کہ اسلام نے بھی یہ کام کر دکھائے ہیں۔
جو شخص اسلام اور اس کی تعلیمات کی صفائی کی ضرورت محسوس کرتا ہے یا معذرت خواہانہ ذہنیت رکھتا ہے تو ایسا شخص ہرگز اسلام کی صحیح نمائندگی نہیں کرسکتا، بلکہ یہ وہ بیوقوف دوست ہے جو خود تو اس بودی اور کھوکھلی جاہلیت سے مرعوب و مغلوب ہوچکا ہے ، جو تضاد سے بھری ہوئی ہے اور نقائص سے جس کا جسم داغ داغ ہے مگر وہ کم کوش بایں ہمہ اُلٹا جاہلیت کے لیے جواز فراہم کرتا ہے ۔ یہ حضرات اسلام کے دشمن ہیں اور اسلام کی خدمت کے بجائے اُسے ضعف پہنچاتے ہیں۔ بلکہ دوسروں کو بھی مجبور کرتے ہیں کہ وہ ان کی ژاژخائیوں کا سدِباب کریں۔ ان کی باتیں سُن کر یُوں محسوس ہوتا ہے کہ اسلام مجرموں کے کٹہرے میں کھڑا ہے اور اپنا دفاع کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتا ہے !
 

ابوشامل

محفلین
مغرب زدہ ذہن کی درماندگیاں
جس زمانے میں میرا قیام امریکہ میں تھا انہی دنوں کی بات ہے کہ اسلام کے ایسے ہی نادان دوست ہمارے ساتھ اُلجھتے رہتے تھے ۔ ہم لوگ جو اسلام کی طرف منسوب تھے تعداد میں کم تھے ۔ مخالفینِ اسلام کے مقابلے میں ہمارے بعض دوست مدافعانہ مؤقف اختیار کرتے تھے مگر میں ان سب کے برعکس مغربی جاہلیت کے بارے میں جارحانہ مسلک پر قائم تھا اور احساسِ کہتری میں مبتلا ہوئے بغیر مغربی جاہلیت کے بودے اور متزلزل مذہبی عقائد پر تلخ تنقید کرتا، مغربی جاہلیت کے انسانیت سوز معاشرتی اور اقتصادی اور اخلاقی حالات کو بے جھجک ننگا کرتا اور بتاتا کہ مسیحیت کے یہ اقانیمِ ثلاثہ، اور گناہ اور کفارہ کے نظریات عقلِ سلیم اور ضمیرِ پاکیزہ کے لیے قابلِ قبول نہیں ہیں۔ یہ سرمایہ دارانہ نظام اور اجارہ داری اور سُود خوری اور دوسرے ظالمانہ اور انسانیت کش حربے ، اور یہ خودسر انفرادی آزادی جس میں اجتماعی کفالت اور باہمی ہمدردی کے لیے اس وقت تک کوئی گنجائش نہیں جب تک قانون کا ڈنڈا حرکت میں نہ آئے ، زندگی کا یہ مادہ پرستانہ سطحی اور بے جان تصور، یہ چوپائیوں کی سی بے لگامی جسے آزادی اختلاط کا نام دیا جاتا ہے ، یہ بردہ فروشی جسے آزادئ نسواں سے تعبیر کیا جاتا ہے ، یہ نظام و طلاق کے رکاکت آمیز، تکلیف دہ، اور عملی زندگی کے منافی قوانین و ضوابط، یہ ناپاک اور مجنونانہ نسلی امتیاز یہ سب کچھ عقلِ سلیم کے خلاف اور انسانیت کے لیے باعثِ عار ہے ۔ اس کے ساتھ ہی میں ان کو یہ بھی بتاتا تھا کہ اسلام کس قدر عقلی و علمی نظریہ ہے ، کس قدر بلند نگاہ انسانیت نواز اور شاداب و زرخیز نظام ہے ، یہ اُن اُفقوں تک اپنی کمندیں پھینکتا ہے جن تک انسان پرواز کرنا چاہتا ہے مگر آج پہنچنے سے عاجز ہے ۔ اسلام عملی زندگی کا نظام ہے اور یہ زندگی کی تمام گتھیوں کو انسان کی فطرتِ سلیم کے تقاضوں کی روشنی میں سُلجھاتا ہے ۔
مغرب کی زندگی کے عملی حقائق تھے جن سے ہم سب کو پالا پڑا تھا۔ اور جب اسلام کی روشنی میں ان حقائق کا جائزہ لیا جاتا تھا تو ان کے متوالوں کے سر بھی مارے شرم کے جُھک جاتے تھے ۔ لیکن اس کے باوجود اسلام کے ایسے دعویدار بھی موجود ہیں جو اس نجاست سے مرعوب ہو چکے ہیں جس میں جاہلیت لت پت ہے اور وہ مغرب کے اس کوڑے کرکٹ کے ڈھیروں کے اندر اور مشرق کی شرمناک اور کریہہ المنظر مادہ پرستی کے اندر وہ چیزیں ڈھونڈتے پھرتے ہیں جن کی اسلام سے مشابہت ثابت کرسکیں یا اسلام کو ان کے مشابہ و مماثل قرار دے سکیں!!
داعیانِ حق کے لیے صحیح طرزِعمل
اس کے بعد مجھے یہ کہنے کی حاجت محسوس نہیں ہوتی کہ ہمیں یعنی دعوتِ اسلامی کے علمبرداروں کو یہ زیب نہیں دیتا کہ ہم جاہلیت کا کس پہلو سے ساتھ دیں، جاہلیت کے کسی نظریہ کے ساتھ یا جاہلیت کے کسی نظام کے ساتھ یا جاہلیت کی کسی روایت کے ساتھ کسی نوعیت کی سودا بازی کریں، چاہے ہم پر کوہِ غم ہی ٹوٹ پڑے ۔ اور جبروتشدد کا نظام ہمارے خلاف آزمائشوں کا طوفان برپا کردے ۔
ہمارا اولین کام یہ ہے کہ ہم جاہلیت کو مٹا کر اُس کی جگہ اسلامی نظریات اور اسلامی اقدار و روایات کو براجمان کریں۔ یہ منشا جاہلیت کی ہمنوائی سے اور آغازِ سفر میں چند قدم اُس کا ساتھ دینے سے پورا نہیں ہو سکے گا۔ ہمارے بعض دوست اس طرح کی باتیں بالفعل سوچ رہے ہیں مگر اس کا مطلب یہ ہوگا کہ ہم نے اوّل قدم ہی پر اپنی شکست کا اعلان کردیا۔
بے شک رائج الوقت اجتماعی تصورات اور فروغ پذیر معاشرتی روایات کا دباؤ نہایت شدید اور کمرشکن ہے ، بالخصوص عورت کے معاملے میں یہ دباؤ اور بھی زیادہ ہے ۔ بے چاری مسلمان عورت اس جاہلیت کے طوفان میں بڑے سنگ دلانہ دباؤ اور بھیانک مخالفت سے دوچار ہے ۔ لیکن امر محتوم سے کوئی مفر نہیں ہے ۔ لازماً ہمیں پہلے ثابت قدمی اور جگرداری کا ثبوت دینا ہوگا اور پھر حالات پر غلبہ حاصل کرنا ہوگا۔ اسی طرح ہمیں جاہلیت کے اُس گہرے کھڈ کے حدود اربعہ کا مشاہدہ بھی کرانا ہوگا جس میں وہ اب گِری پڑی ہے اور مقابلۃً دنیا کو اُس اسلامی زندگی کے وہ نورافگن اور بلندوبالا افق دکھانے ہوں گے جس کے ہم داعی ہیں۔
اتنا عظیم کام یوں نہیں سرانجام پا سکتا کہ ہم چند قدم جاہلیت کے دوش بدوش چلیں اور نہ اس طرح سے انجام پا سکتا ہے کہ ہم ابھی سے جاہلیت کا یکسر مقاطعہ کردیں اور اس سے الگ تھلگ ہو کر گوشۂ عزلت میں جا بیٹھیں۔ یہ دونوں فیصلے غلط ہیں۔ ہم جاہلیت کے ساتھ ہم آمیز تو ہوں مگر اپنا تشخص باقی رکھ کر، جاہلیت کے ساتھ لین دین کریں مگر دامن بچا کر، حق کا واشگاف اعلان کریں مگر سوزومحبت کے ساتھ، ایمان و عقیدہ کے بل پر اونچے رہیں لیکن انکساری اور تواضع کے جلو میں، اور آخر میں یہ حقیقت نفس الامری ہمارے قلب و ذہن پر پوری طرح ثبت ہونی چاہیے کہ: ہم جاہلی فضا میں زندگی بسر کر رہے ہیں، اس جاہلیت کے مقابلے میں ہماری راہ زیادہ راست اور سیدھی ہے ، ہمارا مشن ایک دُور رَس تبدیلی برپا کرنا ہے ۔ جاہلیت اور اسلام کے مابین ایک وسیع و عریض وادی ہے جس پر کوئی پُل اس غرض کے لیے کھڑا نہیں کیا جا سکتا کہ دونوں بین بین آ کر مل سکیں، بلکہ ایسا پُل اگر قائم کیا جا سکتا ہے تو صرف اس غرض کے لیے کہ اہلِ جاہلیت اُسے عبور کر کے آغوشِ اسلام میں آ پناہ لیں خواہ وہ مبینہ اسلامی وطن کے رہنے والے مدعیانِ اسلام ہوں یا اس کے باہر کے لوگ ہوں۔ تاکہ وہ اندھیروں سے نکل کر اُجالے میں آئیں، اور اُس زَبُوں حالی سے نجات پائیں جس میں سرتاپا غرق ہیں اور اُس “خیر“ سے مستفید ہو سکیں جس سے وہ گروہ شادکام ہو چکا ہے جس نے اسلام کو پہچان لیا ہے اور جو اسلام ہی کے سائے میں جینے کی کوشش کر رہا ہے ۔ اور اگر کسی کو یہ دعوت پسند نہیں ہے تو ہمیں اُس سے وہی کہہ دینا چاہیے جس کا حکم اللہ نے اپنے رسول کو دیا تھا: لَكُمْ دِينُكُمْ وَلِيَ دِينِ (تمہارے لیے تمہارا دین اور میرے لیے میرا دین) سورۃ الکافرون

باب یازدہم
ایمان کی حُکمرانی​

ارشادِ باری ہے:
وَلاَ تَہنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ (آلِ عمران : 139)
دل شکستہ نہ ہو، غم نہ کرو تم ہی غالب رہوگے اگر تم مومن ہو۔
ایمان باللہ کا ہمہ گیر استیلاء
اس آیت سے بظاہر جو مفہوم متبادر ہوتا ہے وہ یہ ہے کہ اس میں اللہ کی طرف سے جو ہدایت دی گئی ہے اُس کا تعلق صرف اس جہاد سے ہے ، جس میں قتال ہوتا ہے ۔ لیکن اس ہدایت کی اصل رُوح اور اس کا دائرہ اپنے پورے پسِ منظر اور محرکات و اسباب کی رُو سے قتال کی مخصوص حالت سے کہیں زیادہ وسیع اور جامع ہے ۔ یہ ہدایت دراصل اُس دائمی کیفیت کا نقشہ پیش کرتی ہے جو ہر آن مومن کے احساسات و اعصاب پر، مومن کے ذہن و فکر پر اور اشیاء و اشخاص اور واقعات و اقدار کے بارے میں مومن کے نقطۂ نظر پر حاوی رہنی چاہیے ۔ بالفاظِ دیگر یہ ہدایت نفسیاتی تفوق و استیلاء کی اُس حالت کی نشاندہی کرتی ہے جس پر مومن کو ہمیشہ قائم رہنا چاہیے ، خواہ کیسی ہی دعوت اور کیسے ہی حالات سے اُس کا مقابلہ ہو، کیسے ہی لوگ اُس کی راہ میں حائل ہوں اور کیسی ہی اقدار اور پیمانوں کے خلاف وہ نبردآزما ہو۔
ایمان کی یہ بلندی اور بالاتری اُن تمام اقدار کے بارے میں ظاہر ہونی چاہیے جو چشمۂ ایمان کے سوا کسی اور ماخذ و منبع سے ماخوذ ہوں، دُنیا کی اُن طاقتوں کے بارے میں بھی جو شاہراہِ ایمان سے منخرف ہیں اور اُن دنیاوی پیمانوں کے بارے میں بھی جو شجرِ ایمان سے نہیں پُھوٹے ، اسی طرح اس کا اظہار دنیا کی ان روایات کے بارے میں بھی ہونا چاہیے جو ایمان کے رنگ میں نہیں رنگی گئی ہیں اور دنیا کے ان قوانین و ضوابط کے بارے میں بھی جن کی ساخت ایمان کے ہاتھوں نہیں ہوئی ہے ۔ ایمان کی یہ کیفیت ان تمام نظام ہائے حیات کے بارے میں بھی نمایاں ہونی چاہیے جن کا خمیر بصیرتِ ایمانی نے تیار نہیں کیا ہے ۔ اس کا عکس مادی کمزوری، عددی قلت اور ناداری میں بھی نظر آنا چاہیے اور مادی طاقت، عددی کثرت اور خوش حالی کی حالت میں بھی۔ ایمان کی طاقت بڑی سے بڑی سرکش اور منخرف طاقت سے بھی مات نہیں کھاتی، اور نہ کسی معاشرتی روایت اور باطل قانون کے آگے گھٹنے ٹیکنا جانتی ہے ، یہ کسی ایسے نظام کے آگے سرِ تسلیم خم بھی نہیں کر سکتی ، جو چاہے لوگوں میں کتنا ہی ہر دل عزیز ہو مگر نورِ ایمان سے محروم ہو۔ جہاد کے دوران ثابت قدمی اور پامردی اور صف شکنی کا مظاہرہ ایمانی قوت کے ان مختلف مظاہر میں سے صرف ایک کیفیت ہے جو اللہ تعالیٰ نے آیت مذکورہ کے اندر بیان فرمائی ہیں۔
ایمان کی بدولت پیدا ہونے والی طاقت اور قدرت محض ایک وقتی عزم اور ارادہ کا نتیجہ نہیں ہوتی، نہ یہ کسی عارضی جذبہ کے تحت بھڑک اُٹھنے والی نخوت و حمیّت کا کرشمہ ہے ، اور نہ کسی ہنگامی جذبے کا کمال ہے ، بلکہ یہ طاقت و تفوق ایک ابدی کیفیت ہے اور اس غیرمتزلزل اور دائمی حق پر مبنی ہے جو کائنات کی فطرت کے رگ و پے میں سمایا ہوا ہے ۔ اور جو طاقت کی منطق، ماحول کے تصور، معاشرے کی اصطلاح اور انسانی عرف سے زیادہ پائیدار اور طاقت ور ہے کیونکہ وہ اُس زندہ خدا سے مربوط ہے جسے فنا نہیں ہے ۔
ایمانی قوت کے اثرات
معاشرے پر کچھ افکارو نظریات کی حکمرانی ہوتی ہے ، کچھ ہمہ گیر روایات کا چلن ہوتا ہے ، جن کی پُشت پر اُس کا سخت گیرانہ دباؤ اور مضبوط معاشرتی زنجیریں ہوتی ہیں۔ یہ حالات اُس شخص‌کے لیے ناقابلِ برداشت ہوتے ہیں جسے کسی طاقت ور ہستی کی پناہ نہ حاصل ہو اور جو بغیر کسی مضبوط سہارے کے معاشرے کو چیلنج کرتا ہے ۔ غالب افکار اور نظریات کے اپنے مخصوص اثرات اور تقاضے ہوتے ہیں جن سے اُس وقت تک چھٹکارا پانا دشوار ہوتا ہے جب تک کسی ایسی اعلیٰ و ارفع حقیقت سے انسان کا رشتہ استوار نہ ہو جائے جس کی پناہ میں آ جانے کے بعد یہ تمام افکار و نظریات اسے پرِکاہ نظر آنے لگیں، اور جب تک کسی ایسے ذریعہ سے طاقت (Energy) حاصل نہ کی جائے جو ان افکار و نظریات کے ماخذ سے بالادست، بااثر اور زیادہ قوی و قادر ہو۔ جو شخص معاشرے کے عام بہاؤ کے مخالف رُخ پر کھڑا ہو جاتا ہے ، معاشرے کی حکمران منطق کو چیلنج کرتا ہے ، معاشرے کی عرفِ عام ، اُس کے مروجہ قوانین و اقدار اور افکار و نظریات اور اُس کی گمراہیوں اور کجرویوں کے خلاف نبردآزما ہوتا ہے ، وہ جب تک کسی ایسی ہستی کا سہارا نہیں لے گا جو انسانوں سے زیادہ قوی، پہاڑ سے زیادہ اٹل اور زندگی سے زیادہ عزیز ہو تو اُسے نہ صرف اپنی ناتوانی کا شدید احساس ہوگا بلکہ بھری پُری دنیا میں وہ اپنے آپ کو بالکل اجنبی و بے کس بھی پائے گا----------------- اس لیے اللہ تعالیٰ کی شفیق و رحیم ذات مومن کو اس طرح میدان میں نہیں اُتار دیتی کہ وہ یکہ و تنہا معاشرے کا دباؤ سہتا رہے ، اُس کے بوجھ تلے کراہتا رہے ، رنج و ملال اور بے کسی و بے بسی میں گِھرا رہے بلکہ اُس کی طرف سے مومن کو یہ پیغامِ جانفزا پہنچتا ہے کہ : “وَلاَ تَہنُوا وَلاَ تَحْزَنُوا وَأَنتُمُ الأَعْلَوْنَ إِن كُنتُم مُّؤْمِنِينَ “ یہ تعلیم اور ہدایت اُس کی دل شکستگی اور رنج دونوں کا مداوا بن کر آتی ہے ۔ یہ دونوں وہ احساسات ہیں جو نامساعد حالات میں انسان پر بالعمعوم طاری ہوجاتے ہیں۔ لیکن مردِمومن ان دونوں احساسات کو مجرّد صبر و ثبات سے نہیں بلکہ ایک جذبۂ برتری اور نگاہِ بلند سے دبا دیتا ہے ۔ وہ ایک ایسے مقامِ بلند پر متمکن ہوتا ہے جہاں سے اُسے طاغوتی طاقتیں، غالب اقدار، فروغ یافتہ افکار، دنیاوی دساتیر و قوانین اور رچی بسی عادات و رسوم اور گمراہی پر جمع ہونے والے عوام پست نظر آتے ہیں۔
مومن ہی غالب و برتر ہے ، اپنے سہارے کے لحاظ سے بھی اور ماخذ کے نقطۂ نظر سے بھی۔ اس کے نزدیک ملک و سلطنت کوئی وقعت رکھتے ہیں، نہ بڑی بڑی شخصیتیں کوئی قدر و قیمت رکھتی ہیں۔ مقبولِ عام اقدار و معیارات جنہیں ملک کے اندر عروج حاصل ہے اُس کی نگاہ میں ہیچ ہیں، عوام میں مقبول و مروّج نظریے اور خیالات اُسے خیرہ نہیں کرسکتے ---------اس لحاظ سے وہ اعلیٰ ترین ہستی ہے ، وہ ہمیشہ خدا کے سرمدی چشمہ سے اکتسابِ ہدایت کرتا ہے ، وہ ہر معاملے میں خدا کی طرف لپکتا ہے ، اور ہر دم اُس کی بتائی ہوئی راہ پر گامزن رہتا ہے ۔
 

ابوشامل

محفلین
اسلامی عقیدہ کی افضلیت و جامعیت
کائنات کی معرفت و ادراک میں بھی مومن دوسروں سے اونچا اور فائق ہوتا ہے ۔ اس لیے ایمان باللہ اور نظریۂ توحید--------اپنی اُس صورت میں جس میں اسلام انہیں پیش کرتا ہے ، کائنات کی عظیم حقیقت کی معرفت حاصل کرنے کی شاہ کلید ہے ۔ چنانچہ نظریۂ توحید کائنات کی جو تصویر پیش کرتا ہے وہ اس قدر درخشاں، اُجلی، حسین اور متناسب ہے کہ جب ہم اُس کا موازنہ اُن تصورات و عقائد کے انباروں سے کرتے ہیں جو کائنات کے بارے میں ماضی و حال کے مرعوب کُن نظریات سے عبارت ہیں یا جو مشرکانہ مذاہب اور محرف آسمانی ادیان کے نتیجے میں پیدا ہوئے ہیں، یا جنہیں مکروہ مادہ پرستانہ تحریکوں نے جنم دیا ہے تو اسلامی عقیدہ کی عظمت و رفعت بالکل نکھر کر ہمارے سامنے آ جاتی ہے ۔ چناچہ جو لوگ کائنات کے بارے میں اس طرز کی معرفت کے حامل ہیں، لاریب وہ کائنات کی ساری مخلوقات سے اعلیٰ و افضل اور بالا و برتر ہونے ہی چاہئیں ۔۔
مومن اپنے اُس تصور میں بھی دوسروں سے اُونچا اور فائق ہوتا ہے جو زندگی کی ان قدروں اور پیمانوں کے بارے میں وہ رکھتا ہے جن سے حیاتِ انسانی ، اس کے احوال و وقائع اور اشیاء و اشخاص کی قیمت اور حیثیت متعین کی جاتی ہے ۔ جو عقیدہ خداشناسی (ان خدائی صفات کی روشنی میں جو اسلام بیان کرتا ہے ) کی اساس پر قائم ہو اور اقدار و معیارات کے اُن حقائق سے آگاہی کے نتیجے میں ظاہر ہو جو کہ زمین کے اس چھوٹے سے کرہ تک ہی محدود نہیں بلکہ پُوری کائنات کو محیط ہیں ایسا عقیدہ فطرتاً مومن کو قدروں اور پیمانوں کا ایک ایسا تصور عطا کرتا ہے جو ان ناقص اور غیرمتوازن پیمانوں سے کہیں زیادہ اعلٰی، پاکیزہ اور ٹھوس ہوتا ہے جو عام انسانوں کے ہاتھوں میں ہوتے ہیں اور جن کاعلم انتہائی محدود ہوتا ہے ، اور جو ایک ہی نسل میں کئی بار اپنے پیمانے بدلتے ہیں، بلکہ ایک ہی قوم کے اندر بار بار بدلتے ہیں، بلکہ ایک ہی فرد کے بارے میں ان کے پیمانے صبح کچھ ہوتے ہیں اور شام کو کچھ اور۔
مومن اپنے احساس و ضمیر اور اخلاق و معاملات میں بھی نہایت راستباز اور انتہائی بلندیوں پر فائز ہوتا ہے ۔ وہ جس خدا پر ایمان رکھتا ہے وہ اسماء حسنٰی اور بہترین صفات سے متصف ہے ۔ یہ عقیدہ بذاتِ خود مومن کے اندر عظمت و رفعت، پاکیزگی و طہارت، اور عفت و تقویٰ کا احساس اُبھارتا ہے ، اور عملِ صالح اور خلافتِ الٰہی کا صحیح مفہوم اس کے ذہن نشین کرتا ہے ۔ مزید برآں یہ عقیدہ مومن کو یہ یقینِ محکم بھی عطا کرتا ہے کہ آخرت ہی اصل دارالجزاء ہے ۔ اور وہاں نیک اعمال اور پاکیزہ زندگی کا جو اجر ملے گا اُس کے مقابلے میں دُنیا کی تکالیف و آلام ہیچ ہیں۔ یہ چیز مومن کے ضمیر میں اطمینان و سکون کی ایک ایسی بہار پیدا کیے رکھتی ہے کہ اگر وہ عُمربھر دنیاوی مال و متاع سے کلیۃً محروم رہے ، تو بھی اُسے کوئی شکایت نہیں ہوتی۔
مومن اپنے قانون اور نظامِ زندگی کی رُو سے بھی اعلیٰ و افضل ہے ۔ انسان نے عہدِ قدیم سے لے کر آج تک جو شریعتیں اور جتنے نظام ہائے زندگی وضع کیے ہیں مومن جب اُن کا جائزہ لیتا ہے اور اپنی شریعت اور اپنے نظامِ زندگی سے ان کا موازنہ کرتا ہے تو اُسے معلوم ہوتا ہے کہ ہزاروں برس کی یہ انسانی کاوشیں اسلام کی محکم شریعت اور جامع نظام کے سامنے بچوں کے کھیل اور اندھوں کے ٹامک ٹوئیے سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتیں۔ چنانچہ وہ اپنے اس مقامِ بلند پر کھڑا ہو کر جب بھٹکی ہوئی انسانیت کی بے چارگی اور شقاوت پر محبت آمیز اور دردبھری نگاہ ڈالتا ہے ، تو اس کو سوائے اس بات کے کوئی اور چارہ نظر نہیں آتا کہ انسان کی سوختہ نصیبی اور گمراہی پر قابو پانے کے لیے اسے کچھ کرنا چاہیے ۔
جاہلی نقطۂ نظر اور مومنانہ نقطۂ نظر
یہی وہ نقطۂ نظر ہے جو صدرِاول کے مسلمانوں نے جاہلیت کے ان تمام کھوکھلے مظاہر اور طاقتوں اور اُن قوانین کے مقابلے میں اختیار کیا تھا جنہوں نے دورِ جاہلیت میں انسانوں کو اپنا غلام بنا رکھا تھا۔ جاہلیت تاریخ کے کسی مخصوص دور کا نام نہیں ہے ۔ بلکہ ایک خاص حالت کا نام ہے ۔ اور ماضی اور حال میں جب کبھی انسانی سوسائٹی اسلام کی راہِ راست سے منحرف ہوتی ہے جاہلیت کی یہ حالت عود کر آتی ہے ۔ اور آئندہ جب بھی انسانیت راہِ راست سے منحرف ہوگی، یہی حالت پیش آئے گی۔
جنگِ قادسیہ میں ایرانی سپاہ کے نامور قائد رستم کے کیمپ میں جب حضرت مغیرہ بن شعبہ گئے اور انہوں نے وہاں جاہلیت کے رنگ ڈھنگ اور جلال و شکوہ دیکھا، اور اُس کے بارے میں جو رویہ اختیار کیا ابو عثمان نہدی نے اُسے ان الفاظ میں بیان کیا ہے :
“ جب مغیرہ بن شعبہ دریا کے پُل کو پار کر کے ایرانی فوج میں پہنچ گئے تو ایرانی سپاہیوں نے مغیرہ کو پاس بٹھا لیا۔ اور رستم سے ان کی ملاقات کی اجازت طلب کی۔ انہوں نے اپنی شکست چُھپانے کے لیے اپنی زیب و زینت میں کوئی تبدیلی نہیں کی تھی۔ مغیرہ آگے بڑھے ۔ سب لوگوں نے اپنی مخصوص وردیاں پہن رکھی تھیں۔ سروں پر تاج تھے ۔ سونے کے تاروں سے بُنا ہوا لباس زیبِ بدن تھا۔ غالیچے چار چار سو قدم کے فاصلے تک بچھے ہوئے تھے ۔ چار سو قدم غالیچوں تک چلنے کے بعد رستم تک پہنچا جا سکتا تھا۔ مغیرہ خیمے میں داخل ہوئے ۔ ان کے بال چار حصوں میں گُندھے ہوئے تھے ۔ اندر پہنچتے ہی وہ رستم کے تخت پر چڑھ کر اُس کی مسند پر بیٹھ گئے ۔ درباری یہ دیکھ کر فوراً مغیرہ پر جھپٹے اور انہیں نیچے گرا دیا۔ مغیرہ نے کہا: ہم تک تمہاری دانشمندی کی خبریں پہنچا کرتی تھیں مگر تم میں سے زیادہ کوئی بیوقوف نہیں ہو گا۔ ہم عربوں میں یہ اُونچ نیچ نہیں ہے ۔ ہم میں سے کوئی کسی دوسرے کو اپنا غلام نہیں بناتا اِلا یہ کہ وہ جنگ پر اُتر آئے اور گرفتار ہو جائے ۔ میرا گمان تھا کہ تم بھی اپنی قوم کی اُسی طرح مواسات کرتے ہوگے جس طرح ہم کرتے ہیں۔ تم نے جو حرکت اب کی ہے اس سے بہتر تو یہی تھا کہ تم مجھے پہلے ہی یہ اطلاع کر دیتے کہ تم میں سے کچھ لوگ تمہارے لیے رب کا مقام رکھتے ہیں اور تمہارا نظام گڑبڑ ہے ۔ میں تمہارے پاس خود سے نہیں آیا ہوں، بلکہ تمہارے بُلانے پر آیا ہوں۔ یہاں آ کر آج مجھے معلوم ہوا ہے کہ تمہارا نظام اضمحلال کا شکار ہے ۔ اور تم شکست کھا کر رہنے والے ہو۔ بے شک ایسے سلوک اور اس طرح کی ذہنیتوں کے بَل پر بادشاہت قائم نہیں رہا کرتی۔“
ربعی بن عامر نے بھی جنگِ قادسیہ سے پہلے رستم اور اس کے درباریوں کے سامنے اس جراتِ ایمانی اور بلندنگاہی کا رویہ اختیار کیا تھا (ابنِ کثیر نے البدایہ و النہایہ میں بیان کیا ہے ):
“حضرت سعد بن ابی وقاص نے رستم کے پاس جو کہ ایرانی افواج کا سپہ سالار تھا ربعی بن عامر کو اپنا سفیر بنا کر بھیجا۔ ربعی بن عامر پہنچے تو دربار فرش فروش سے آراستہ تھا۔ رستم یاقوت اور بیش بہا موتی زیبِ بدن کیے ، بیش قیمت لباس پہنے ، تاج سر پر رکھے سونے کے تخت پر بیٹھا تھا۔ ربعی بن عامر پھٹے پُرانے لباس میں پہنچے ، مختصر سی ڈھال، چھوٹا سا گھوڑا یہ ان کی حیثیت تھی، وہ گھوڑے پر سوار فرش کو روندتے ہوئے بڑھتے چلے گئے اور پھر گھوڑے سے اُترے ، قیمتی گاؤ تکیہ سے گھوڑے کو باندھ دیا، اور خود رستم کے پاس جانے لگے ، آلاتِ حرب ساتھ، سر پر خود اور جسم پر زرہ تھی۔ لوگ بولے جنگی لباس تو اُتار دو۔ کہنے لگے میں خود سے نہیں آیا ہوں، مجھے بُلایا گیا ہے ، اگر تم کو منظور نہیں تو ابھی واپس جاتا ہوں۔ رستم نے کہا: آنے دو، وہ اِسی فرش پر نیزہ ٹیکتے ہوئے بڑھے ۔ نیزے کی نوک نے فرش کو جابجا کاٹ دیا۔ لوگ بولے تمہارا آنا کیسے ہوا۔ بولے : ہم کو اللہ نے اِسی لیے بھیجا ہے کہ جس کی مرضی ہو اس کو بندوں کی بندگی سے نجات دلا کر اللہ کی بندگی میں داخل کر دیں اور دُنیا کی تنگیوں سے نکال کر آخرت کی وسعتوں میں پہنچا دیں اور مذاہب کی زیادتیوں سے چھٹکارا دلا کر اسلام کے عدل کے سایہ تلے لے آئیں۔“
اس کے بعد ایک انقلاب آتا ہے ، اور مسلمان کا نقطۂ نگاہ مغلوبانہ اور مادی طاقت سے تہی شخص کا ہو جاتا ہے ۔ مگر احساسِ برتری سے وہ محروم نہیں ہوتا۔ اگر اُس کے دل میں شمعِ ایمان اب بھی روشن ہے تو وہ غالب اقوام کو اپنے سے فروتر ہی دیکھے گا، اور اسے پختہ یقین ہوگا کہ مادی محکومی ایک عارضی مرحلہ ہے جو آج نہیں تو کل ختم ہو جائے گا، ایمان کا لشکر بالآخر پانسہ پلٹ کر رکھ دے گا اور اُسے لازماً فتح حاصل ہوگی، اور بالفرض اگر یہ مرحلہ جان لیوا ثابت بھی ہو تو اپنی کمزوری کے باوجود مومن اس کے آگے گُھٹنے نہیں ٹیکے گا۔ وہ اس یقین سے سرشار ہوتا ہے کہ دوسرے انسان تو معمول کی موت مرتے ہیں، مگر اُسے شہادت کی موت نصیب ہوگی، وہ اس دنیا سے کُوچ کرے گا تو سیدھا اپنے رب کی جنت میں داخل ہو گا۔ جو لوگ آج اس پر غالب و قاہر ہیں وہ جب دنیا سے رُخصت ہوں گے تو عبرت ناک جہنم اُن کا ٹھکانا ہوگا۔ دونوں کے اس انجام میں زمین و آسمان کا بُعد ہے ۔ انہی احساسات میں وہ مستغرق ہوتا ہے کہ اُسے اپنے ربِ کریم کا یہ فرمان سُنائی دیتا ہے :
لاَ يَغُرَّنَّكَ تَقَلُّبُ الَّذِينَ كَفَرُواْ فِي الْبِلاَدِ • مَتَاعٌ قَلِيلٌ ثُمَّ مَأْوَاہمْ جَہنَّمُ وَبِئْسَ الْمِہادُ • لَكِنِ الَّذِينَ اتَّقَوْاْ رَبَّہمْ لَہمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِہا الأَنْہارُ خَالِدِينَ فِيہا نُزُلاً مِّنْ عِندِ اللّہ وَمَا عِندَ اللّہ خَيْرٌ لِّلأَبْرَارِ (آلِ عمران: 196 – 198)
ملکوں میں خدا کے نافرمان لوگوں کی چلت پھرت تمہیں کسی دھوکے میں نہ ڈالے ۔ یہ محض چندروزہ زندگی کا تھوڑا سا لطف ہے ، پھر یہ سب جہنم میں جائیں گے جو بدترین جائے قرار ہے ۔ برعکس اس کے جو لوگ اپنے رب سے ڈرتے ہوئے زندگی بسر کرتے ہیں ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہتی ہیں، ان باغوں میں وہ ہمیشہ رہیں گے ، اللہ کی طرف سے یہ سامانِ ضیافت ہے ان کے لیے ، اور جو کچھ اللہ کے پاس ہے نیک لوگوں کے لیے وہی سب سے بہتر ہے ۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top