جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

اشتیاق علی

لائبریرین
جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم

جاتے ہیں سوئے مدینہ گھر سے ہم
باز آئے ہند بد اختر سے ہم

مار ڈالے بے قراری شوق کی
خوش تو جب ہوں اس دل مضطر سے ہم

بے ٹھکانوں کا ٹھکانہ ہے یہی
اب کہاں جائیں تمھارے در سے ہم

تشنگی ء حشر سے کچھ غم نہیں
ہیں غلامان شہ کوثر سے ہم

اپنے ہاتھوں میں ہے دامان شفیع
ڈرا چکے بس فتنہ ء محشر سے ہم

نقش پا سے جو ہوا ہے سرفراز
دل بدل ڈالیں گے اس پتھر سے ہم

گردن تسلیم خم کرنے کے ساتھ
پھینکتے ہیں بار عصیاں سر سے ہم

گور کی شب تار ہے پر خوف کیا
لو لگائے ہیں رخ انور سے ہم

دیکھ لینا سب مرادیں مل گئیں
جب لپٹ کر روئے ان کے در سے ہم

کیا بندھا ہم کو خد جانے خیال
آنکھیں ملتے ہیں جو ہر پتھر سے ہم

جانے والے چل دئیے کب کے حسن
پھر رہے ہیں ایک بس مضطر سے ہم
 
Top