ثنا یوسف كا قتل اور ہمارا معاشرہ

فاخر

محفلین
كل اسلام آباد میں ايک معروف ٹک ٹاكر ثنا یوسف كو موت كے گھاٹ اُتار دیا گیا‏۔ آج پولیس نے ملزم كی گرفتاری كا دعویٰ كیا ہے۔ غیر مصدقہ خبر كے مطابق ملزم ثنا یوسف كا شناسا تھا۔ (اب سوشل میڈیا انفلوئنسر كی شناسائی كی نوعیت مخفی نہیں ہے)
كسی مشہور سوشل میڈیا انفلوئنسر كی موت كا یہ پہلا معاملہ نہیں ہے‏، بلكہ اس سے قبل بھی كئی خاتون انفلوئنسر موت كی گھاٹ اتاری گئی ہے۔ اور یہ بھیانک عمل ہندو پاک میں مشترک ہے۔
قندیل بلوچ سے لے كر ثنا یوسف كے قتل تک ایک ہی چیز مشترک نظر آتی ہے‏‏، وہ یہ كہ معاشرہ عدم برداشت كے دائرہ سے بہت دور جا چكا ہے۔
تحمل اور برداشت كرنے كی قوت بالكل ہی ختم ہوچكی ہے۔
سوشل میڈیا پر ہمیشہ متحرک رہنے كے مضر اثرات سے انكار نہیں كیا جاسكتا؛ اپنی ہر چیز كو سوشل میڈیا پر شیئر كرنا‏، تباہی ہے‏، پھر مزید تباہی ان نوجوان لڑكیوں كا سوشل میڈیا پر آنا ہے‏، جو مكمل طور پر بے پردہ ہو كر اپنے فالورز كے ہر طرح كے ویڈیوز بناتی ہیں۔
سوشل میڈیا كے شوق نے نوجوان نسل كو تباہی كے اس دَہانے پر لا كھڑا كردیا ہے‏، كہ جہاں سے واپس آنا آج ناممكن سا نظر آ رہا ہے‏، كیوں كہ سوشل میڈیا سے موٹی كمائی بھی ہوتی ہے۔ جس سے اپنے تمام شوق پورے كیے جا سكتے ہیں۔
بات محض سوشل میڈیا سے ڈالر كمانے كی ہوتی تو‏، كچھ دیر كے لیے یہ بات بھی ہضم كر لی جاتی؛ لیكن اسی سوشل میڈیا سے غیر شرعی تعلق استوار ہوتے ہیں‏، پھر كسی اجنبی سے یہ ’’تعلق‘‘ جسمانی قربت میں بدل كر بھیانک نتیجے پر ختم ہوتا ہے۔
اسی تعلق میں جب كچھ بگاڑ پیدا ہوتا ہے‏، تو نازیبا ویڈیو وائرل كر دیئے جاتے ہیں‏، بعد ازاں قتل بھی ہوتا ہے‏، جس كے پس پردہ یہی مخصوص ’’تعلق‘‘ كار فرما ہوتا ہے۔

كبھی كبھی تو یہ سوچ كر دماغ ماؤف ہونے لگتا ہے‏، كہ ہم كس دور میں جی رہے ہیں‏، جتنی ترقی ہم نے كرلی ہے‏، اسی قدر ہم نے اپنے لیے تباہی كے اسباب بھی پیدا كرلیے ہیں۔
اور یہ بات صرف كسی ایک ملک كی نہیں ہے‏، بلكہ پورا برصغیر ہندوپاک-بنگلہ دیش‏‏،نیپال‏، بھوٹان‏، تبت‏، برما‏، چین جاپان حتیٰ كہ تمام عرب ممالک؛ بلكہ تمام دُنیا میں یہ قباحت رائج ہوچكی ہے۔ یورپ اور امریكہ كی بات نہیں كرسكتا؛ كیوں كہ وہاں غیر شرعی تعلقات ہی اصل تعلقات ہیں۔
آخر سوچیے كہ نئی نسل كا كیا ہوگا‏، ہم كب سوچیں گے‏؟ جب سر سے پانی اوپر ہوچكا ہوگا؟
 

سید ذیشان

محفلین
بجائے اس کے کہ لوگ اس سٹاکر کو بلیم کریں۔ الٹا سوشل میڈیا پر وکٹم کو بلیم کیا جا رہا ہے۔

اسی لنک شدہ آرٹیکل سے:

یہ کیس رپیٹیٹو ریجکشن کا تھا۔ ملزم نے ثنا یوسف کو اس لیے قتل کیا کہ وہ بار بار ثنا سے رابطہ کر رہا تھا اور وہ اس کو منع کر رہی تھی۔ وہ گذشتہ کئی دنوں سے ثنا یوسف سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور دو جون کو بھی اس نے ثنا یوسف کے گھر آ کر سات آٹھ گھنٹے انتظار کیا اور جب ثنا نے اس دن بھی اس سے ملنے سے انکار کیا تو اس نے پلاننگ کی اور اس واردات کو انجام دیا۔'
 

سیما علی

لائبریرین
بجائے اس کے کہ لوگ اس سٹاکر کو بلیم کریں۔ الٹا سوشل میڈیا پر وکٹم کو بلیم کیا جا رہا ہے۔

اسی لنک شدہ آرٹیکل سے:

یہ کیس رپیٹیٹو ریجکشن کا تھا۔ ملزم نے ثنا یوسف کو اس لیے قتل کیا کہ وہ بار بار ثنا سے رابطہ کر رہا تھا اور وہ اس کو منع کر رہی تھی۔ وہ گذشتہ کئی دنوں سے ثنا یوسف سے سوشل میڈیا کے ذریعے رابطہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا، اور دو جون کو بھی اس نے ثنا یوسف کے گھر آ کر سات آٹھ گھنٹے انتظار کیا اور جب ثنا نے اس دن بھی اس سے ملنے سے انکار کیا تو اس نے پلاننگ کی اور اس واردات کو انجام دیا۔'
🥲🥲🥲🥲🥲
 

سیما علی

لائبریرین
خطرناک ملزم پکڑے جاتے ہیں سات سات سال کورٹ کیسز کو چیونٹی کی رفتار سے چلاتیں ہیں اور مظلوم انصاف کا انتظار کرتے کرتے تھک ہار کے بیٹھ جاتے ہیں یہ پہلا واقعہ نہں ایسے افسوسناک واقعات میں بد ترین صورتحال کا سامنا لواحقین کو کرنا ہوتا ہے ۔
 
🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲🥲
رپیٹیٹو ریجکشن کا بدلہ جان لیناُ کہاں جارہے ہیں ؟؟؟؟؟؟؟
مجھے بڑے عرصے سے لگتا ہے کہ یہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں رہی، ہم بس رہے جا رہے ہیں کہ سانسیں پوری کرنی ہیں! کوشش کیے جا رہے ہیں کہ کوئی بیج کسی بھلائی کا بھی بو چلیں، اور بس!
یہ دنیا پہلے ہوتی ہوگی امتحان، اب تو رہنے کے قابل جگہ رہی ہی نہیں ہے۔ صرف یہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات ہی نہیں بلکہ عالمی لیول پہ دن دیہاڑے بڑے پیمانے پر ہونے والی نسل کشیاں اور خدا جانے کیا کیا ہو رہا ہے جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے کرائسز ہی کرائسز ہیں اور چاند پہ پہنچ جانے والا انسان ان معاملات کو حل کرنے کے لیے فیصلے نہیں لے پا رہا۔ ایک ہی دل ہے، کس کس واقعے پہ توڑوں اور ہر روز توڑوں!

میرے خدا نہ دکھانا ہمارا حال اسے :brokenheart2:
 

زیک

مسافر
مجھے بڑے عرصے سے لگتا ہے کہ یہ دنیا رہنے کی جگہ نہیں رہی، ہم بس رہے جا رہے ہیں کہ سانسیں پوری کرنی ہیں! کوشش کیے جا رہے ہیں کہ کوئی بیج کسی بھلائی کو بھی بو چلیں، اور بس!
یہ دنیا پہلے ہوتی ہوگی امتحان، اب تو رہنے کے قابل جگہ رہی ہی نہیں ہے۔ صرف یہ عورتوں کے ساتھ ہونے والے واقعات ہی نہیں بلکہ عالمی لیول پہ دن دیہاڑے بڑے پیمانے پر ہونے والی نسل کشیاں اور خدا جانے کیا کیا ہو رہا ہے جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے کرائسز ہی کرائسز ہیں اور چاند پہ پہنچ جانے والا انسان ان معاملات کو حل کرنے کے لیے فیصلے نہیں لے پا رہا۔ ایک ہی دل ہے، کس کس واقعے پہ توڑوں اور ہر روز توڑوں!

میرے خدا نہ دکھانا ہمارا حال اسے :brokenheart2:
یہ واقعات یقیناً افسوسناک ہیں لیکن ایسا آج سے نہیں بلکہ اس طرح ہمارے بچپن میں اور ہمارے والدین کے بچپن میں اور پڑدادا سے پہلے بھی ہوتا آیا ہے۔
 

سیما علی

لائبریرین
جہاں ہماری آنکھوں کے سامنے کرائسز ہی کرائسز ہیں اور چاند پہ پہنچ جانے والا انسان ان معاملات کو حل کرنے کے لیے فیصلے نہیں لے پا رہا۔ ایک ہی دل ہے، کس کس واقعے پہ توڑوں اور ہر روز توڑوں!

میرے خدا نہ دکھانا ہمارا حال اسے
سچ ہے سچ ۔۔
 
Top