امجد اسلام امجد تیرے ارد گررد وہ شور تھا ،مری بات بیچ میں رہ گئی ۔

تیرے ارد گررد وہ شور تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی
نہ میں کہہ سکا نہ تو سن سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

میرے دل کو درد سے بھر گیا ، مجھے بے یقین سا کرگیا
تیرا بات بات پہ ٹوکنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

ترے شہر میں مرے ہم سفر، وہ دکھوں کا جم غفیر تھا
مجھے راستہ نہیں مل سکا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

وہ جو خواب تھے مرے سامنے ، جو سراب تھے مرے سامنے
میں انہی میں ایسے الجھ گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

عجب ایک چپ سی لگی مجھے ، اسی ایک پل کے حصار میں
ہوا جس گھڑی ترا سامنا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

کہیں بے کنار تھیں خواہشیں ، کہیں بے شمار تھیں الجھنیں
کہیں آنسوؤں کا ہجوم تھا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

تھا جو شور میری صداؤں کا ، مری نیم شب کی دعاؤں کا
ہوا ملتفت جو مرا خدا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

مری زندگی میں جو لوگ تھے ، مرے آس پاس سے اٹھ گئے
میں تو رہ گیا انہیں روکتا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

تری بے رخی کے حصار میں ، غم زندگی کے فشار میں
مرا سارا وقت نکل گیا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

مجھے وہم تھا ترے سامنے ، نہیں کھل سکے گی زباں مری
سو حقیقتا بھی وہی ہوا ، مری بات بیچ میں رہ گئی

امجد اسلام امجد​
 
Top