تیرے آفاق بھی ہیں حیرت میں - یوسف حسن

شمشاد

لائبریرین
تیرے آفاق بھی ہیں حیرت میں
رمز کیا ہے مری حقیقت میں

تو کہاں سے پکارتا ہے مجھے
میں تجھے ڈھونڈتا ہوں خلقت میں

ہم نہ اپنے دیے بجھائیں گے
کچھ بھی ہو رات کی مشیت میں

کوئی پہرا نہیں فصیلوں پر
شہر اندر سے ہے حراست میں

ایک دنیا ہے تیرے ساتھ مگر
کس کا دل ہے تری رفاقت میں

منہ چھپائے پھریں گے سورج سے
جو ستارے ہیں شب کی خلعت میں

سن صدا ممکنات کی یوسف
کھول پر آسماں کی وسعت میں
(یوسف حسن)
 
Top