تیرا اگر ہے ساتھ تو ہر دم جواں ہے زندگی--- برائے اصلاح

الف عین
عظیم
------------
مستفعلن مستفعلن مستفعلن مستفعلن
--------------
تیرا اگر ہے ساتھ تو ہر دم جواں ہے زندگی
میرے لئے اس کے سوا بارِ گراں ہے زندگی
------------------
تیری وفا میں زندگی جنّت سے کم کیسے کہوں
بن پیار کے میرے لئے سوزِ نہاں ہے زندگی
----------------
آساں کہے جو زندگی کو وہ فقط نادان ہے
الجھی ہوئی اک ڈور اور وہم و گماں ہے زندگی
-----------------
جیتا نہیں کوئی یہاں اس زندگی کے کھیل میں
سمجھا اسے جو کھیل تو سود و زیاں ہے زندگی
---------------------
اپنے لئے تو یہ فقط تیری وفا کا نام ہے
یہ چاہتوں اور راحتوں کے درمیاں ہے زندگی
-------------
جو بھوک سے بے حال ہے کچھ حال اس کا پوچھئے
اس کے لئے تو اس جہاں میں اک فغاں ہے زندگی
---------------
بیوہ کسی کا جانئے غربت میں اس کا حال تو
پوچھیں گے اس سے آپ تو نوحہ کناں ہے زندگی
-------------
سب زندگی کا فلسفہ بے کار ہے اس کے لئے
جو پوچھتا ہو بات یہ ملتی کہاں ہے زندگی
--------------
کوئی چلے یا وہ رکے رکتی نہیں ہے یہ کبھی
چلنا ہے اس کا کام بس ،ہر دم رواں ہے زندگی
------------
ارشد ترا ہے کام یہ سارے جہاں کے ساتھ چل
تنہا چلو گے تم اگر تو ناتواں ہے زندگی
--------------
 

عظیم

محفلین
تیرا اگر ہے ساتھ تو ہر دم جواں ہے زندگی
میرے لئے اس کے سوا بارِ گراں ہے زندگی
------------------تیرا اگر ہے ساتھ تو کا ٹکڑا رواں نہیں لگ رہا۔
تیرا جو ساتھ ہے تو پھر... میرے خیال میں بہتر ہو گا
دوسرے مصرع میں 'اس کے سوا' واضح محسوس نہیں ہو رہا، اس کی جگہ
میرے لیے تیرے بغیر.... کیا جا سکتا ہے

تیری وفا میں زندگی جنّت سے کم کیسے کہوں
بن پیار کے میرے لئے سوزِ نہاں ہے زندگی
----------------'تیری وفا' کی بجائے 'تجھ سے وفا' بھی مجھے زیادہ واضح محسوس ہو رہا ہے
'بن پیار' میں بھی خوبصورتی کی کمی ہے۔ الفت بغیر اپنے لیے.... میرا خیال ہے کہ اچھا رہے گا

آساں کہے جو زندگی کو وہ فقط نادان ہے
الجھی ہوئی اک ڈور اور وہم و گماں ہے زندگی
-----------------دوسرا مصرع پسند آیا مگر پہلا اس کا ساتھ نہیں دے پا رہا۔
آسان سمجھے اس کو جو، ناداں ہے وہ اپنے لیے
یا اس طرح کا کوئی اور مصرع بہتر رہے گا

جیتا نہیں کوئی یہاں اس زندگی کے کھیل میں
سمجھا اسے جو کھیل تو سود و زیاں ہے زندگی
---------------------یہ شعر سمجھ میں نہیں آ رہا۔ کھیل بھی دہرایا گیا ہے اور گنجلک ہے شعر

اپنے لئے تو یہ فقط تیری وفا کا نام ہے
یہ چاہتوں اور راحتوں کے درمیاں ہے زندگی
-------------'تو' طویل کھنچا ہوا ہے اور یہاں بھی مجھے 'تیری وفا' کی جگہ 'تجھ سے وفا' بہتر معلوم ہو رہا ہے
دوسرے مصرع میں 'یہ' کی معنویت سمجھ میں نہیں آ رہی

جو بھوک سے بے حال ہے کچھ حال اس کا پوچھئے
اس کے لئے تو اس جہاں میں اک فغاں ہے زندگی
---------------یہاں بھی 'تو' طویل کھنچا ہوا ہے۔ 'اس جہاں' بھی بھرتی کا محسوس ہو رہا ہے۔ کسی طرح 'آہ و فغاں' لے آئیے
ابھی صرف اتنا ہی وقت تھا۔

بیوہ کسی کا جانئے غربت میں اس کا حال تو
پوچھیں گے اس سے آپ تو نوحہ کناں ہے زندگی
-------------

سب زندگی کا فلسفہ بے کار ہے اس کے لئے
جو پوچھتا ہو بات یہ ملتی کہاں ہے زندگی
--------------

کوئی چلے یا وہ رکے رکتی نہیں ہے یہ کبھی
چلنا ہے اس کا کام بس ،ہر دم رواں ہے زندگی
------------
ارشد ترا ہے کام یہ سارے جہاں کے ساتھ چل
تنہا چلو گے تم اگر تو ناتواں ہے زندگی
--------------
 

الف عین

لائبریرین
مطلع مجھے درست ہی لگ رہا ہے عظیم کے مجوزہ مصرعے اس بحر میں نہیں ہیں
تیری وفا... واقعی ذو معنی بلکہ بے معنی ہے، تجھ سے وفا بھی بطور اسم اچھا نہیں، تجھ سے عشق، تیری چاہت وغیرہ شاید بہتر اظہار کر سکیں

یہ چاہتوں اور راحتوں کے درمیاں ہے زندگی
راحت اور چاہت دونوں مسرت والے مثبت الفاظ ہیں، کلفتوں اور راحتوں کا ذکر ہو تو بہتر ہے، 'یہ ' کی جگہ بھی 'گو' کر دیں پہلے مصرع میں بھی
چاہت کا تیری نام ہے
کیا جا سکتا ہے
اب وہ اشعار جو عظیم نہیں دیکھ سکے۔

بیوہ کسی کا جانئے غربت میں اس کا حال تو
پوچھیں گے اس سے آپ تو نوحہ کناں ہے زندگی
------------- شاید یہ کہنا تھا کہ کسی غریب بیوہ سے اس کا حال پوچھا جائے تو وہ کہے گی کہ نوحہ کناں ہے زندگی!! شعر میں یہ بات ظاہر نہیں ہوتی کہ شعر عجز بیان کا شکار ہء

سب زندگی کا فلسفہ بے کار ہے اس کے لئے
جو پوچھتا ہو بات یہ ملتی کہاں ہے زندگی
-------------- سمجھ نہیں سکا

کوئی چلے یا وہ رکے رکتی نہیں ہے یہ کبھی
چلنا ہے اس کا کام بس ،ہر دم رواں ہے زندگی
------------ محض رکے درست ہے 'وہ رکے' نہیں

ارشد ترا ہے کام یہ سارے جہاں کے ساتھ چل
تنہا چلو گے تم اگر تو ناتواں ہے زندگی
------- شتر گربہ۔زندگی کا ناتواں ہونا بھی عجیب ہے
 
Top