حسان خان
لائبریرین
بہ نامِ خداوندِ جان و خرد
(ہستی اور عقل کے مالک خدا کے نام سے)
(ہستی اور عقل کے مالک خدا کے نام سے)
فارسی زبان کا موجودہ منظرنامہ دوگانگیِ لسان (diglossia) پر مشتمل ہے یعنی فارسی کی معیاری ادبی زبان اور فارسی گو علاقوں میں بولے جانی والی فارسی بولیوں میں وسیع تفریق پیدا ہو چکی ہے۔ اور یہ فارسی بولیاں نہ صرف ادبی زبان سے متفاوت ہیں، بلکہ آپس میں بھی کئی اختلاف رکھتی ہیں۔ ایک دوسرے سے دور جغرافیائی منطقوں کی فارسی بولیاں تو آپس میں اتنی متفاوت ہیں جتنی اطالوی اور ہسپانوی یا اردو اور پنجابی زبانیں متفاوت ہیں، یعنی وہ دونوں بولیاں تقریباً باہم قابلِ فہم نہیں ہیں۔ دوسری طرف، ادبی زبان ایک ہی ہے جسے بچے مکاتب میں سیکھتے ہیں اور جو بین العلاقائی گفتگو کا ذریعہ بنتی ہے۔
اس لسانی تفریق کی بنیادی وجہ جو میں سمجھ سکا ہوں وہ یہ ہے کہ فارسی اپنی ابتداء سے ایک صدی قبل تک بین الاقوامی زبان تھی، جسے مغرب میں بوسنیا سے لے کر مشرق میں بنگال تک مکاتب میں بچوں کو پڑھایا جاتا تھا اور جسے اس پورے وسیع خطے کے اہلِ قلم حضرات اپنے جذبات و احساسات کے اظہار کا ذریعہ بناتے تھے۔ اُس دور میں فارسی سیکھنے اور فارسی لکھنے والوں کی اکثریت وہ تھی جن کی مادری زبان فارسی نہیں تھی۔ ایسے میں وہ اُسی شعری و نثری اسلوب کی پیروی کرتے تھے جو شیخ سعدی کے زمانے میں رائج ہو گیا تھا۔ لہذا فارسی کی ادبی زبان میں لچک کا نہ ہونا اور اس کی وحدت کا برقرار رہنا فطری بات ہے۔ دیکھا جائے تو یہ ایک طرح سے فارسی کے لیے رحمت کی بات ہے۔ کیونکہ انگریزی دانوں کو محض چار سو سال پرانی شیکسپیئر کی زبان سمجھنے کے لیے خصوصی لسانی مطالعے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ فارسی دان حضرات گیارہ سو سالہ پرانی رودکی سمرقندی اور فردوسی طوسی کی تحریریں بغیر کسی مسئلے کے سمجھ لیتے ہیں اور ان میں غرابت محسوس نہیں کرتے۔ گفتاری بولیاں چونکہ لچک دار ہوتی ہیں اس لیے وہ وقت کے ساتھ ساتھ بدلتی اور ایک دوسرے سے الگ ہوتی رہتی ہیں، یہی وجہ ہے کہ آج فارسی کی گفتاری بولیاں ایک دوسرے سے مختلف ہو چکی ہیں۔
ویسے تو ہر فارسی گو علاقے کی بولی جدا ہے، لیکن جغرافیائی لحاظ سے انہیں تین گروہوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے: ایرانی فارسی بولیاں، افغان فارسی بولیاں اور تاجک فارسی بولیاں۔ پھر ان بڑے گروہوں کے اندر بھی مزید تقسیم در تقسیم کی جا سکتی ہے مثلاً ایرانی گروہ میں تہرانی، تبریزی، اصفہانی اور مشہدی بولیاں نمایاں ہیں، افغان گروہ میں کابلی، ہراتی، بلخی، ہزارگی وغیرہ کا نام لیا جا سکتا ہے۔ جبکہ تاجک گروہ میں بخارائی، خجندی اور بدخشانی اہم بولیاں ہیں۔
یہاں یہ بھی واضح کرتا چلوں کہ بھلے تینوں فارسی گو ممالک میں بہت ساری علاقائی بولیاں رائج ہیں، لیکن جہاں تک ایک پورے ملک کی بات ہے، تینوں ملکوں میں کسی ایک بولی کو وقار کا رتبہ حاصل ہے۔ اسے سمجھانے کے لیے پاکستان کی مثال دیتا چلوں۔ ہمارے ملک میں ہر صوبے بلکہ ہر علاقے کی اردو کے لہجے اور ساخت میں فرق ہے۔ لیکن چونکہ یہاں کراچی سب سے بڑا شہر ہے، اور برقی ذرائع ابلاغ کے مراکز یہیں قائم ہیں اور اکثر ٹی وی چینلوں میں کراچی کی زبان ہی استعمال ہوتی ہے، لہذا کراچی کی اردو کا پھیلاؤ دوسرے لہجوں کے مقابلے میں وسیع تر ہے، اور اس سے پورے ملک کے لوگ آشنا ہیں۔ اسی طرح تاجکستان میں یہ وقار بخارا (اور اب دوشنبہ) کی بولی کو حاصل ہے، افغانستان میں کابلی بولی کو جبکہ ایران میں یہ حیثیت تہرانی بولی کو ہے۔
معیاری ادبی فارسی صرف تحریروں، رسمی تقریروں اور خبرناموں میں استعمال ہوتی ہے۔ بقیہ ساری چیزوں مثلاً باہمی گفتگو، ڈراموں فلموں کی زبان، گانوں وغیرہ کے لیے گفتاری زبان ہی کا استعمال ہوتا ہے۔ ادبی فارسی کا سیکھنا تحریری زبان پڑھنے کے لیے یقیناً ضروری ہے، لیکن اگر ٹی وی یا فلم کی زبان سمجھنی ہے تو ادبی فارسی کا اُس میں استعمال بہت قلیل ہے، اور لامحالہ گفتاری زبان سیکھنی پڑے گی۔
اس مضمون میں میری کوشش ہے کہ ٹی وی اور فلموں میں استعمال ہونے والی تہران کی گفتاری فارسی کے خد و خال واضح کروں۔ کابلی اور تاجکی فارسی بولیاں بھی بہت ضروری اور دلچسپ ہیں، خاص طور پر ازبک لب و لہجے کی منفرد تاجک بولی میں تو بہت زیادہ دلچسپی کا سامان موجود ہے۔ اس لیے انشاءاللہ اُن کے بارے میں بھی کبھی لکھوں گا۔
جاری ہے۔۔۔
آخری تدوین: