میر تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا

تھا مستعار حسن سے اُس کے جو نور تھا
خورشید میں بھی اس ہی کا ذرہ ظہور تھا

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبور تھا
پیدا ہر ایک نالے سے شورِ نشور تھا

پہنچا جو آپ کو تو میں پہنچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برقِ خرمنِ صد کوہِ طور تھا

مجلس میں رات ایک ترے پرتوے بغیر
کیا شمع کیا پتنگ ہر اک بے حضور تھا

منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اُس رند کی بھی رات گزر گئی جو غور تھا

ہم خاک میں ملے تو ملے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرور تھا

ق
کل پاؤں ایک کاسۂ سر پر جو آگیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر!
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غرور تھا

تھا وہ تو رشکِ حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصور تھا
 

طارق شاہ

محفلین
تھا مستعار حُسن سے اس کے جو نُور تھا
خورشید میں بھی اُس ہی کا ذرّہ ظہُور تھا

ہنگامہ گرم کن جو دلِ ناصبُور تھا
پیدا ہرایک نالے سے شورِ نشُور تھا

پہونچا جو آپ کو تو پہونچا خدا کے تئیں
معلوم اب ہوا کہ بہت میں بھی دُور تھا

آتش بلند دل کی نہ تھی ورنہ اے کلیم
یک شعلہ برق خرمن صد کوہِ طوُر تھا

مجلس میں رات ایک تِرے پرتوے بغیر
کیا شمع، کیا پتنگ، ہراِک بے حضُور تھا


منعم کے پاس قاقم و سنجاب تھا تو کیا
اُس رِند کی بھی رات کٹی جو کہ عُور تھا

ہم خاک میں مِلے تو مِلے لیکن اے سپہر
اُس شوخ کو بھی راہ پہ لانا ضرُور تھا

کل پانو ایک کاسۂِ سر پر جو آ گیا
یکسر وہ استخوان شکستوں سے چُور تھا

کہنے لگا کہ دیکھ کے چل راہ بے خبر
میں بھی کبھو کسو کا سرِ پُر غُرور تھا

تھا وہ تو رشک حور بہشتی ہمیں میں میرؔ
سمجھے نہ ہم تو فہم کا اپنی قصُور تھا

میرتقی میرؔ

بہت خوب، ناصر صاحب
تشکّر شیر کرنے پر :)
بہت خوش رہیں
 

محمد وارث

لائبریرین
شاید یہ شعر درست یوں ہوں
"اس رند کی بھی رات کٹی جو کہ عور تھا
یعنی عریاں
محمد وارث سر
عور تو آپ نے درست لکھا۔ میں نے ویب پر ہر جگہ "گزر گئی" لکھا دیکھا جو کہ یقینا غلط اور بے وزن ہے۔ اور تو اور عروض ڈاٹ کام اور ریختہ پر بھی ایسے ہی ہے۔ آپ نے درست لکھا لیکن پھر بھی کسی نسخے میں سے دیکھنا پڑے گا۔
 

فرخ منظور

لائبریرین
Top