تکرار اور یادداشت

نسیم زہرہ

محفلین
میرے ایک عزیز اسرار کاظمی صاحب اکثر بہت عجیب و غریب منطق والی کہاوتیں سناتے اور مثالیں دیتے رہتے ہیں، اک بار کسی محفل میں مختلف انسانی عادات و اطوار بشمول تکیہ کلام وغرہ اور ان سے کیسے پیچھا چھڑایا جائے کے موضوع پر بحث ہو رہی تھی اور ان کے انسانی عادات میں شامل ہونے کی وجوہات اور ان کے منفی و مثبت پہلووٗں پر بات ہوتی رہی
آخر میں بات چل نکلی کہ ان عادات سے کیسے چھٹکارا پایا جائے، سب نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور بہت سی تجاویز و آرا ٗ پیش کی گئیں- اپنی باری پر اسرار کاظمی صاحب بولے ان میں سے اکثر تکیہ کلام اور دیگر بری عادات سے چھٹکارا پانا نہایت آسان ہے بشرطیکہ انسان ان سے چھٹکارا پانے کی سچی نیت رکھتا ہو
سوال ہوا کہ وہ کیسے؟
کاظمی صاحب بولے: آپ نے سنا ہوگا کہ کسی جگہ پر مسلسل قطرہ قطرہ پانی گرتا رہے تو خواہ وہ جگہ کتنی سخت یا پتھریلی کیوں نہ ہو وہاں نشان یا معمولی سا ایک گڑھا ضرور بن جاتا ہے چاہیں تو آپ خود تجربہ کر لیں- اسی نقطہ کو سامنے رکھتے ہوئے آپ کسی بھی تکیہ کلام یا کسی اور بری عادت سے چھٹکارا پانا چاہتے ہیں تو اس قطرہ قطرہ گرتے پانی کی طرح اپنی یادداشت پر میرے بتائے ہوئے وظیفے کی تکرار سے نشان بنانا پڑے گا
کچھ لوگ حیرت اور کچھ تمسخرانہ انداز میں ان کی گفتگو سن رہے تھے، میں نے پوچھا بھائی وہ وظیفہ کیا ہے تو وہ بولے کچھ خاص نہیں
فرض کریں آپ کو بات بات پر جھوٹ بولنے کی عادت ہے اور آپ دلی و ذہنی طور پر اس عادت سے چھٹکارا پانا چاہتی ہیں تو بس آپ کو ایک کام کرنا ہوگا کہ آپ کو آپ کی روزمرہ زندگی میں جتنا بھی فارغ وقت ملے بلکہ کچھ کام کرتے ہوئے بھی اک جملہ کی تکرار کرنی ہے
جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ نہیں بولنا
میرا دعویٰ ہے کہ کم از کم تین دن یا زیادہ سے زیادہ ایک ہفتہ، آپ جب بھی اپنی گفتگو میں جھوٹ بولنا چاہیں گی آپ کے دماغ سے آواز آنا شروع ہوجائے گی کہ
جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ نہیں بولنا، جھوٹ نہیں بولنا
 
Top