تو گیا تو اس دل میں، درد نے جگہ لے لی - میرے گھر کے آنگن میں، گرد نے جگہ لے لی

سلمان حمید

محفلین
میں یہ اشعار کسی استاد کو دِکھا نہیں سکا تو اس میں غلطیوں کے قوی امکانات ہیں۔ امید کرتا ہوں کہ اساتذہ راہنمائی فرمائیں گے۔

تُو گیا تو اس دل میں، درد نے جگہ لے لی
میرے گھر کے آنگن میں، گرد نے جگہ لے لی

وحشتوں کا موسم تو، ٹھہر سا گیا ہے اب
سبز رنگ اُڑتے ہی، زرد نے جگہ لے لی

دہر اور تری محفل، ایک ہی طرح کے ہیں
میرے اُٹھتے ہی اک اور، فرد نے جگہ لے لی
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اچھی غزل ہے سلمان میاں، مشکل زمین میں تین اشعار تو ہو ہی گئے ہیں، مزید دو اشعار ۔۔
مجھے ایک ہی خامی محسوس ہوئی۔
دہر اور تری محفل۔ میں ’اُر‘ لا تقطہع ہونا۔
دہر اور تیری بزم کہہ سکتے ہیں نا؟
 

سلمان حمید

محفلین
اچھی غزل ہے سلمان میاں، مشکل زمین میں تین اشعار تو ہو ہی گئے ہیں، مزید دو اشعار ۔۔
مجھے ایک ہی خامی محسوس ہوئی۔
دہر اور تری محفل۔ میں ’اُر‘ لا تقطہع ہونا۔
دہر اور تیری بزم کہہ سکتے ہیں نا؟
بہت شکریہ الف عین بھائی پڑھنے اور غلطی کی نشاندہی کرنے کے لیے۔ میں کیونکہ ابھی طالبعلم ہی ہوں تو مجھے "لا تقطہع ہونا۔" کی سمجھ نہیں آئی۔ ہاں یہ پتہ لگ گیا ہے کہ "اور" کو "ار" پڑھا جا رہا ہے جو کہ "دہر" کے "ر" اور "اور" کو دو حرفی کے طور پہ شامل کرتے ہوئے سہہ حرفی بنا رہا ہے (اگر میں غلط نہیں ہوں تو) اس لیے "لا تقطہع ہونا۔" کا مطلب سمجھا دیجیئے کیونکہ میں نے اکثر "اور" کو دو حرفی کے طور پہ ہی استعمال کیا ہے :(

"دہر اور تیری بزم" میں "م" یک حرفی کے طور پر بچ جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو کہ مصرعے کے آخر میں چھوٹ دیتا تو سنا تھا بیچ میں نہیں۔ لیکن میرا علم بہت ہی نا پختہ ہے تو یہ صرف اپنے علم کے مطابق عرض کر رہا ہوں سب۔ آپ تشریح عنایت فرما دیں :)

مشکل زمین ہے اسی لیے تو مزید کہہ نہیں سکا۔ زبردستی لکھا نہیں جاتا تو یہ بہت پہلے لکھ لیے گئے یونہی اور ناقص علم مزید قافیے ملانے کی اجازت نہیں دے رہا :(
 

ابن رضا

لائبریرین
بہت عمدہ اشعار۔
استادِ محترم کی "لا" تقطیع سے مراد " اور " کو بروزن جا ، گا (ہجائے بلند) باندھنا ہے انکی رائے میں اور کو بروزن "جان"(سبب خفیف، بلند + کوتاہ) تقطیع ہونا چاہیے یہاں۔

دہر اور تیری بزم، ایک ہی طرح کے ہیں
 

الف عین

لائبریرین
اف میری ٹائپو۔۔ میرا مطلب تھا ’کا تقطیع ہونا‘ لا نہیں۔ اور کیونکہ ’اُر‘ آتا ہے۔
دہر اور تیری بزم، ایک ہی طرح کے ہیں
یا
دونوں ایک جیسے ہیں
بہتر ہو گا۔ عروض کے لحاظ سے درست ہے
 

شوکت پرویز

محفلین
میں نے اکثر "اور" کو دو حرفی کے طور پہ ہی استعمال کیا ہے :(
سلمان بھائی !
"اور" کو تین حرفی باندھنا زیادہ فصیح ہے، مجبوری میں دو حرفی باندھا جا سکتا ہے لیکن وہ ثقیل (بھاری، مشکل) نہیں لگنا چاہئے۔ مثلاً استاد غالب کا یہ شعر دیکھئے:
کہاں میخانے کا دروازہ غالب اور کہاں غالب
پر اتنا جانتے ہیں کل وہ جاتا تھا کہ ہم نکلے
یہاں "اور" دو حرفی باندھا گیا ہے لیکن وہ روانی میں پڑھنے میں ثقیل نہیں لگتا۔۔۔
رہا آپ کا شعر، تو اس میں کچھ ثقالت محسوس ہوتی ہے؛
ویسے بھی جب اپنے پاس متبادل ہو تو اسے ضرور استعمال کرنا چاہئے، الف عین انکل کا متبادل مصرعہ بہت عمدہ ہے، آپ اسے ہی استعمال کر لیں۔۔۔
چونکہ آپ نے اس متبادل مصرعہ پر ایک خدشہ ظاہر کیا ہے تو اس کا بھی تصفیہ ہو جائے۔۔۔ :)
آپ نے کہا:
"دہر اور تیری بزم" میں "م" یک حرفی کے طور پر بچ جاتا ہوا محسوس ہوتا ہے جو کہ مصرعے کے آخر میں چھوٹ دیتا تو سنا تھا بیچ میں نہیں۔ لیکن میرا علم بہت ہی نا پختہ ہے تو یہ صرف اپنے علم کے مطابق عرض کر رہا ہوں سب۔ آپ تشریح عنایت فرما دیں :)
آپ کی بحر (بحر ہزج مثمن اشتر) فاعلن مفاعیلن ÷ فاعلن مفاعیلن ہے۔
اس کا ہر مصرعہ دو حصوں پر مشتمل ہوتا ہے، اور ہر حصے کے آخری میں ایک حرف کا اضافہ جائز ہے۔
یعنی ہر "مفاعلین" کو "مفاعیلان" کیا جا سکتا ہے۔
مثال کے لئے غالب کا یہ شعر دیکھئے:
حالِ دل نہیں معلوم، لیکن اس قدر یعنی
ہم نے بار ہا ڈھونڈھا، تم نے بارہا پایا
یہاں "معلوم" میں آخری "م" وہی اضافی حرف ہے جس کے جواز کی بات ہو رہی ہے۔۔۔
----
حسنِ اتفاق دیکھئے کہ اس میں بھی "م" ہی زائد ہے اور انکل کے متبادل مصرعہ میں بھی "م" ہی زائد ہے :)
 
آخری تدوین:

سلمان حمید

محفلین
یہ ہوئی نہ بات، اتنا کچھ سیکھ لیا میں نے۔ بہت شکریہ شوکت پرویز بھائی اتنے اچھے طریقے سے سمجھانے کے لیے۔ جزاک اللہ :)

ابن رضا بھائی آپ کا بھی بہت شکریہ اور انکل الف عین کا تو سب سے پہلے شکریہ کہ انہوں نے نشاندہی کر کے ایک اصلاح بھی عنایت فرما دی :)

دہر اور تیری بزم، ایک ہی طرح کے ہیں
میرے اُٹھتے ہی اک اور، فرد نے جگہ لے لی

جزاک اللہ
 
Top