تو بھی غضب کی نازنیں میں بھی یگانہ آدمی ٭ راحیلؔ فاروق

تو بھی غضب کی نازنیں میں بھی یگانہ آدمی
عشق سے بچ سکیں کہیں جو نہ خدا نہ آدمی

ہائے ضمیر مر گیا وائے مرا نہ آدمی
آدمیوں کی بھیڑ میں ایک بھی تھا نہ آدمی

ایک فریب زندگی ایک فسانہ آدمی
مر کے مرا تو کیا مرا جی کے جیا نہ آدمی

مسئلہ خیر و شر نہیں مسئلہ اقتدار ہے
جنگ خدائیوں کی ہے اور بہانہ آدمی

دیر و حرم کے کھیل کا چکھے خدا بھی اب مزا
آدمی آدمی تو تھا وہ بھی رہا نہ آدمی

درد تو خیر درد ہے اس کی دوا بھی درد ہے
چارہ گری ہو یوں تو پھر روئے بھی کیا نہ آدمی

ایک میں دو چھپے ہیں یا دو میں چھپا ہوا ہے ایک
ایک زمانہ خود خدا ایک زمانہ آدمی

ایسی بھی کیا لطافتیں ایسی بھی کیا نزاکتیں
تجھ کو ترے جہان میں ڈھونڈ سکا نہ آدمی

دہلی و لکھنئو کا مان ایک ہراجؔ٭ کی زبان
عشق غزل سے پھر کرے کیسے بھلا نہ آدمی

راحیلؔ فاروق​
 
Top