تنقید کے لئے ۔۔۔

اِس طرف اور اُس پار کے درمیاں۔
زندگانی ہے منجدھار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
مصلحت بیں ہے منصِف تو ملحوظ رکھ۔
فاصلہ دست و دستار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
دشمنِ جان اٹکا ہے، جاں کی طرح۔
داغِ دل، خال و رخسار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
برق رَفتاریِٔ شیخ تو دیکھیے۔
مسجِد و کوچۂِ یار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
پھر حساب ہائے یاراں کی فرصت کسے۔
پہلے اور آخری وار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
مسجِد و میکدے میں کہا بھی تو کیا۔
سچ جو بولا نہ دربار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
اک ترا دھیان ملجائے معنی مگر۔
زیست کی لغو پَیکار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
ایک پل، جاوداں پل، ازل اور ابد۔
حرفِ انکار و اقرار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
کچھ تو ہے اور بھی قصّۂِ شاخِ گل۔
عارضِ گل کے اور خار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
کنتے سردار ہیں جو نہیں جانچتے۔
فاصلہ سر کے اور دار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
وائے سجدہ، کہ حیرت میں گم رہ گئے۔
ہم مصوِر و شہکار کے درمیاں۔
٭ ٭ ٭
کام کی تھی اگر زندگی تو وہی۔
عشق کی سعیِٔ بیکار کے درمیاں۔
 

شوکت پرویز

محفلین
پھر حساب ہائے یاراں کی فرصت کسے۔
پہلے اور آخری وار کے درمیاں۔
وقت کب احتسابِ غمِ یار کا
وائے سجدہ، کہ حیرت میں گم رہ گئے۔
ہم مصوِر و شہکار کے درمیاں۔
ہم تو نقّاش و شہکار کے درمیاں
۔۔۔۔۔۔
یہ دونوں صرف تمثیلاً (وزن میں لانے کے لئے) بیان کیا گیا ہے، اسے ہی استعمال کرنا یا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں :)
 
محترم بشارت گیلانی صاحب۔ گو کہ آپ سے پہلے بات نہیں ہو چکی ہے۔ پھر بھی آپ کی غزل پر چند سطور لکھنے کی جسارت کرنے کے لیے یہ حقیر و نا چیز انسان قلم (استعاراتی) اٹھا رہا ہے۔ امید ہے کہ خاکسار کے ساتھ شفقت والا معاملہ فرمائیں گے۔
چونکہ ادبی تنقید، معانی، فصاحت اور بلاغت کے قوانین کے لیے علمِ ریاضی کی طرح سخت گیر پیمانے تو موجود ہیں نہیں۔ اس لیے یہ ہر کسی کے اپنے ذوق، مزاج اور زبانی چاشنی پر بھی کافی حد تک منحصر ہے۔ بہر حال یہ باتیں تو تفصیل طلب ہیں جن کے لیے لمبا وقت، بہت سارا تجربہ اور بے تحاشا علم درکار ہے جس میں سے خاکسار کے پلے میں کچھ بھی نہیں۔
اب غزل کی طرف آتے ہیں۔

اِس طرف اور اُس پار کے درمیاں۔
زندگانی ہے منجدھار کے درمیاں۔
غزل کی بحر، بحر متدارک مثمن سالم جسے اخفش نحوی نے ایجاد کیا۔ ایک انتہائی مترنم بحر ہے (گو کہ تمام بحور مترنم ہوتی ہیں، یہ کچھ زیادہ ہی ہے)۔ ارکانِ بحر "فاعلن" شعر میں آٹھ بار۔
گو کہ شعر اپنے معانی میں پورے ہے کہ زندگی منجدھار کے درمیاں ہے۔ مزید وضاحت کی جائے تو شعر کہتا ہے کہ زندگانی دریا کے اس پار اور اس پار کے درمیان ہے۔ دوسرے مصرعے کو تھوڑا غور کرکے پڑھا جائے تو واضح ہوتا ہے کہ "منجدھار کے درمیاں" حقیقت میں کچھ ہے ہی نہیں۔ کیونکہ منجدھار تو خود ہی درمیان ہے۔ اس طرح شعر کا مطلب ہوتا ہے کہ "زندگانی کسی دریا، کسی سیلاب یا طوفان کے درمیان کے درمیان ہے" شعر کی لفظی باریکی سے قطع نظر مضمون کے حوالے سے کوئی نئی بات نہیں پائی جاتی جس پر قابل ذکر بات ہو سکے۔


مصلحت بیں ہے منصِف تو ملحوظ رکھ۔
فاصلہ دست و دستار کے درمیاں۔
صفت مصلحت بیں اور دست و دستار کے درمیان فاصلے رکھنے میں کیا علاقہ؟ میں نہیں پا سکا۔ شاعر خود ہی وضاحت کرے تو کچھ بات بنے۔ لیکن ابلاغ مجروح ہے۔ اس کے علاوہ اس شعر میں ایک عجیب عیب پیدا ہوگیا ہے جسے اصطلاح میں "ضعفِ خاتمہ" کہتے ہیں۔ یعنی شعر میں پہلا مصرع جہاں ختم ہو وہاں عبارت سمیت جملہ بھی درمیان میں ٹوٹ جائے اور اگلا مصرع آگے سے شروع ہوکر جملہ مکمل کرے۔

دشمنِ جان اٹکا ہے، جاں کی طرح۔
داغِ دل، خال و رخسار کے درمیاں۔
افسوس کہ اس شعر میں بھی وہی مسئلہ درپیش ہے۔
دشمنِ جان یعنی داغِ دل؟ اس طرح اٹکا ہے جیسے جان اٹکی ہے؟ خال و رخسار کے درمیاں؟
معذرت۔۔۔ جناب شاعر ہی کچھ کہیں تو بات بنے۔

برق رَفتاریِٔ شیخ تو دیکھیے۔
مسجِد و کوچۂِ یار کے درمیاں۔
ایک ایسا شعر جس سے کوئی تخلیقی بات ظاہر نہیں ہوتی۔ یا اس میں خاکسار کی ہی کج فہمی ہے۔

پھر حساب ہائے یاراں کی فرصت کسے۔
پہلے اور آخری وار کے درمیاں۔
"یار کے حسابوں" یا "یار کے وار کے حساب"؟ پھر حساب ہائے کی ترکیب کبھی سنی نہیں۔ غالباً ہا بطور علامت جمع صرف فارسی اسماء سے مخصوص ہے یا وہ اسماء جو عربی سے فارسی میں آئے۔
پھر یار کے حساب کی فرصت کسے؟ یہاں تک تو بات واضح ہے، لیکن اس سے آگے کی بات سے شعر ایک دم اپنے معیار سے گر پڑا ہے۔ پہلے اور آخری وار کے درمیاں؟ اگر یہی بات کہنی ضروری ہے تو پہلے مصرعے میں لفظ "پھر" کا مطلب میں نہیں سمجھ سکا۔
اس کے علاوہ پہلا مصرع بحر سے خارج ہے۔

مسجِد و میکدے میں کہا بھی تو کیا۔
سچ جو بولا نہ دربار کے درمیاں۔
شعر میں تعقیدِ معنوی پائی جاتی ہے۔ اس کے علاوہ پہلے مصرعے میں محاورے کا درست ابلاغ نہیں ہوتا۔ "اگر مسجد و مے کدے میں کہا تو کیا کہا؟" یہ تأثر نہیں ملتا شعر میں۔

اک ترا دھیان ملجائے معنی مگر۔
زیست کی لغو پَیکار کے درمیاں۔
زیست کی پیکار وہ بھی لغو؟ بہر حال خیال اچھا ہے۔ لیکن دوسرا مصرع معنی خیز عبارتی ترتیب کا طالب ہے۔

ایک پل، جاوداں پل، ازل اور ابد۔
حرفِ انکار و اقرار کے درمیاں۔
شعر کے معانی واضح نہیں۔ کس کا حرفِ اقرار و انکار؟

کچھ تو ہے اور بھی قصّۂِ شاخِ گل۔
عارضِ گل کے اور خار کے درمیاں۔
خوب ہے۔ لیکن پہلے مصرعے سے یہ واضح نہیں ہوا کہ قصہ تو شاخ کا ہے اور "درمیاں" خار اور عارضِ گل کے ہے؟

کنتے سردار ہیں جو نہیں جانچتے۔
فاصلہ سر کے اور دار کے درمیاں۔
اس شعر پر تبصرہ کرنے کی ضرورت نہیں سمجھتا۔

وائے سجدہ، کہ حیرت میں گم رہ گئے۔
ہم مصوِر و شہکار کے درمیاں۔
سجدہ اور مصور و شہکار کا تعلق؟
مزید یہ کہ دوسرا مصرع بحر سے خارج ہے۔

کام کی تھی اگر زندگی تو وہی۔
عشق کی سعیِٔ بیکار کے درمیاں۔
یہ اچھا ہے۔ جیسے:
عشق نے غالب نکما کردیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

پس نوشت: یہ محض ناچیز کی رائے تھی۔ اس کا مقصد شاعر کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانا نہیں تھا۔ یونہی ہم شعرا کے کلام پر تبصرہ کرنے سے بہت پرے رہتے ہیں۔ آج یہاں یہ دھاگہ برائے تنقید دیکھا تو اپنی آرا سامنے رکھ دی ہیں۔ کسی بھی قسم کی دل آزاری ہوئی تو بہت سی معذرت۔
دعاؤں میں یاد رکھئے۔
بہت آداب۔
 
آپ کی ذرہ نوازی ہے جو اتنی گراں قدر رائے سے نوازا۔ میں نے یہ غزل پیش ہی تنقید کے لئے کی تھی۔ آپ کی تنقید تو شاعری کی اساسیات کی تفہیم میں مدد کر رہی ہے، آپ دل آزاری کی بات کیوں کریں گے؟ غزل، کسی بھی تخلیقی عمل کی طرح نمو کے عمل سے گزرتی رہے گی۔ آپ کی رہنمائی کی ہمیشہ ضرورت رہے گی۔ سلامت رہیں۔
 

الف عین

لائبریرین
میرا خیال ہے کہ ’درمیاں‘ کی بجائے کچھ اور لفظ ردیف بنایا جائے تو بہتر ہو، اکثر جگہ یہ نبھ نہیں سکا ہے۔اس کے علاوہ دو مصرعون کو بحر سے خارج ہونے کی بات کہی گئی ہے، جو درست ہے۔ لیکن حغلطی کی نشان دہی میں کر دیتا ہوں۔
حساب ہائے۔ میں ب گر رہی ہے یا ہ غائب ہے۔ حسابھائے تقطیع ہوتا ہے
مصور و شہکارمیں واو عطف محض پیش کی طرح مانا جاتا ہے، ’وا‘ کی طرح نہیں، یہ ہندی زبان کی شاعری میں چل جاتا ہے، اردو میں نہیں
 
مسائل تو ہیں صاحب! تسلیم کرنا پڑے گا۔ جناب مزمل شیخ بسمل اور جناب الف عین کے کہے پر توجہ فرمائیے گا، خاص طور پر ردیف کے حوالے سے۔
شیخ صاحب نے خاصی تفصیل سے بات کر دی، اس پر تو کوئی اضافہ نہیں کر سکوں گا۔ تاہم کچھ نکات ہیں۔
اِس طرف اور اُس پار کے درمیاں۔
زندگانی ہے منجدھار کے درمیاں۔
تکلف بر طرف۔ مطلع دوبارہ کہئے صاحب۔
٭ ٭ ٭

مصلحت بیں ہے منصِف تو ملحوظ رکھ۔
فاصلہ دست و دستار کے درمیاں۔
ایسے جب دو چیزوں کی الگ الگ شناخت اور ان کے درمیان یا بیچ افتراق کی بات ہو تو ترکیب عطفی (واو کے ساتھ) جچتی نہیں ہے۔ یہاں ’’اور‘‘ کا تقاضا ہے، جو ظاہر ہے اوزان کو متاثر کرے گا۔
٭ ٭ ٭

دشمنِ جان اٹکا ہے، جاں کی طرح۔
داغِ دل، خال و رخسار کے درمیاں۔
دشمنِ جان اور ایسی تراکیب میں کہا جاتا ہے کہ نون کو غنہ کرنا لازمی ہے ’’دشمنِ جاں‘‘ ۔ دیکھ لیجئے گا۔ یہاں ترکیبِ عطفی کا وہ مسئلہ نہیں لگ رہا۔
٭ ٭ ٭

برق رَفتاریِٔ شیخ تو دیکھیے۔
مسجِد و کوچۂِ یار کے درمیاں۔
پہلا مصرع بہت چست ہے، دوسرے میں وہی ترکیبِ عطفی والا مسئلہ نہ ہوتا تو بہت شوخ شعر بنتا۔
٭ ٭ ٭

پھر حساب ہائے یاراں کی فرصت کسے۔
پہلے اور آخری وار کے درمیاں۔
حساب ہا ۔۔ یہاں ہ کا گرانا مجھے تو اچھا نہیں لگا۔ دونوں مصرعوں میں بھی کچھ فاصلہ سا لگ رہا ہے۔
٭ ٭ ٭

مسجِد و میکدے میں کہا بھی تو کیا۔
سچ جو بولا نہ دربار کے درمیاں۔
یا تو ’’مسجد و مے کدہ میں‘‘ کہئے یا پھر ’’مسجد اور مے کدے میں‘‘۔ ’’دربار کے درمیاں‘‘؟ ردیف نہیں نبھ رہی، صاحب!
٭ ٭ ٭

وائے سجدہ، کہ حیرت میں گم رہ گئے۔
ہم مصوِر و شہکار کے درمیاں۔
اس پر اعجاز عبید صاحب کا کہا بہت کافی ہے۔
٭ ٭ ٭

کام کی تھی اگر زندگی تو وہی۔
عشق کی سعیِٔ بیکار کے درمیاں۔
یہاں پھر ردیف کا مسئلہ ہے۔
٭ ٭ ٭

بہت آداب
 
Top