تم پریوں کے سنگ اُڑو، میں کچھ پتھر سہہ لوں۔اسلم کولسری

تم پریوں کے سنگ اُڑو، میں کچھ پتھر سہہ لوں
بیٹے، اب تم سو جاؤ، میں ایک غزل کہہ لوں
اکثر یونہی کٹ جاتی ہے رات دسمبر کی
ہاتھ میں جلتا سگریٹ لے کر، آنگن میں ٹہلوں
مجبوری کے جنگل میں اتنی مختاری ہے
گھٹنوں پہ سر رکھ کر اپنی آنکھوں سے بہہ لوں
روشنیوں نے روح پہ اتنے زخم لگائے
دور ذرا سا جگنو بھی اب چمکے تو دہلوں
من اک دانہ، تن اک بالی، سال مہینے بیل
یارو تم پر کھل جاؤں گا اور ذرا گہہ لوں
اور اسی میں اسلم ؔ اپنی ساری عمر کٹی
کون نگر کا رستہ پوچھوں کس گھر کی رہ لوں

اسلم کولسری
 
Top