تم نہ رویا کرو!

عادت عادت ہوتی ہے
مگر عادت وہاں چھوٹ بھی جاتی ہے جہاں سے کچھ جچنا شروع ہو۔ :)

جچتا تو وہی ہے جس کی آنکھوں کو، کانوں کو، زبان کو، اور دل کو عادت ہو۔ :)
یہ الگ بات ہے کہ پرانی عادات بعض اوقات چھوٹ کر نئی عادتوں میں معدوم ہو جاتی ہیں۔ پھر وہی جچتا ہے جس کی اب عادت ہو۔ :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
جچتا تو وہی ہے جس کی آنکھوں کو، کانوں کو، زبان کو، اور دل کو عادت ہو۔ :)
یہ الگ بات ہے کہ پرانی عادات بعض اوقات چھوٹ کر نئی عادتوں میں معدوم ہو جاتی ہیں۔ پھر وہی جچتا ہے جس کی اب عادت ہو۔ :)
نہیں نہیں نہیں عادت کا جچنے سے کوئی ایسا تعلق نہیں
رنگوں کا کوئی بھی امتزاج جو پہلے میں دیکھنے میں نہ آیا ہو،
مگر اچانک ایک دن سامنے آئے اور خوب جچ رہا ہو ۔۔۔
عادت تو نہ ہوئی نہ :)
 
نہیں نہیں نہیں عادت کا جچنے سے کوئی ایسا تعلق نہیں
رنگوں کا کوئی بھی امتزاج جو پہلے میں دیکھنے میں نہ آیا ہو،
مگر اچانک ایک دن سامنے آئے اور خوب جچ رہا ہو ۔۔۔
عادت تو نہ ہوئی نہ :)

یہ دماغی خوبی ہے۔ ہم جو کرتے ہیں، جو پسند کرتے ہیں، جو کہتے ہیں یا جس طرف جاتے ہیں چاہے وہ چاہ کر ہو یا خود کار یا برجستہ ہو، یہ سارے معاملات دماغ سے جڑے غیر ارادی اور لاشعوری علوم اور "تدارک" سے علاقہ رکھتے ہیں۔ انسان "بعض" یا "بہت" سی چیزوں کو محض اجنبی، یا انجان جانتا ہے مگر حقیقت میں وہ ان سے انجان نہیں ہوتا۔
تفصیل پھر کسی دھاگے میں :)
 
یہ دماغی خوبی ہے۔ ہم جو کرتے ہیں، جو پسند کرتے ہیں، جو کہتے ہیں یا جس طرف جاتے ہیں چاہے وہ چاہ کر ہو یا خود کار یا برجستہ ہو، یہ سارے معاملات دماغ سے جڑے غیر ارادی اور لاشعوری علوم اور "تدارک" سے علاقہ رکھتے ہیں۔ انسان "بعض" یا "بہت" سی چیزوں کو محض اجنبی، یا انجان جانتا ہے مگر حقیقت میں وہ ان سے انجان نہیں ہوتا۔
تفصیل پھر کسی دھاگے میں :)
واہ کیا فلسفہ ہے! :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
یہ دماغی خوبی ہے۔ ہم جو کرتے ہیں، جو پسند کرتے ہیں، جو کہتے ہیں یا جس طرف جاتے ہیں چاہے وہ چاہ کر ہو یا خود کار یا برجستہ ہو، یہ سارے معاملات دماغ سے جڑے غیر ارادی اور لاشعوری علوم اور "تدارک" سے علاقہ رکھتے ہیں۔ انسان "بعض" یا "بہت" سی چیزوں کو محض اجنبی، یا انجان جانتا ہے مگر حقیقت میں وہ ان سے انجان نہیں ہوتا۔
تفصیل پھر کسی دھاگے میں :)
ضرور :)
 

ماہی احمد

لائبریرین
یہ دماغی خوبی ہے۔ ہم جو کرتے ہیں، جو پسند کرتے ہیں، جو کہتے ہیں یا جس طرف جاتے ہیں چاہے وہ چاہ کر ہو یا خود کار یا برجستہ ہو، یہ سارے معاملات دماغ سے جڑے غیر ارادی اور لاشعوری علوم اور "تدارک" سے علاقہ رکھتے ہیں۔ انسان "بعض" یا "بہت" سی چیزوں کو محض اجنبی، یا انجان جانتا ہے مگر حقیقت میں وہ ان سے انجان نہیں ہوتا۔
تفصیل پھر کسی دھاگے میں :)

صرف اتنا کہوں گی
انجان نہ ہونا (جاننا)
اور کسی چیز کی عادت ہونا
دو مختلف باتیں ہیں :)
 

ندیم مراد

محفلین
حجاز صاحب
میں نے آپ کی یہ پہلی نظم پڑھی ہے
آپ نے اس نظم میں اختر شیرانی کی یاد تازہ کردی
اپنی محبوبہ کا نام لینا میں نے ان کے یہاں ہی دیکھا ہے،
امید ہے آپ نے یہ نظم افزا صاحبہ کو بھی سنائی ہوگی
اب یہ نہیں پتا انہوں نے اسے پسند کیا یا چنگیزیت کا مظاہرہ کیا،
نظم بہت لطیف تھی اس لئے لطف بھی بہت آیا،
خوش رہیں لکھتے رہیں
 
حجاز صاحب
میں نے آپ کی یہ پہلی نظم پڑھی ہے
آپ نے اس نظم میں اختر شیرانی کی یاد تازہ کردی
اپنی محبوبہ کا نام لینا میں نے ان کے یہاں ہی دیکھا ہے،
امید ہے آپ نے یہ نظم افزا صاحبہ کو بھی سنائی ہوگی
اب یہ نہیں پتا انہوں نے اسے پسند کیا یا چنگیزیت کا مظاہرہ کیا،
نظم بہت لطیف تھی اس لئے لطف بھی بہت آیا،
خوش رہیں لکھتے رہیں
قبلہ، ایک بات کی وضاحت یہاں میں اپنا فرض سمجھتا ہوں کہ، افزا چنگیزی صاحبہ، ہماری محبوبہ نہیں ہیں (خدا کا صد شکر :)
آپ کی تعریف اور حوصلہ افزائی کا بہت شکریہ حضور۔ مایۂ فخر ہے کہ آپ کو پسند آئی۔
اس نظم کا پس منظر در اصل کچھ ایسا ہے کہ محترمہ نے خود فرمائش کی تھی کہ ان پر نظم لکھی جائے! ورنہ انکا خیال یہ تھا کہ ان کے احباب میں ایک شاعر ہونے کا کوئی فائدہ نہیں :) :) تو نظم لکھ کر انہیں ضرور سنائی گئی، چنگیزیت کا مظاہرہ خشم کی صورت میں نہیں، جود و سخا کی صورت میں ہوا۔ (یعنی کھانے کی رقم انہیں نے بہ "جیبِ خود" ادا کی) :)
 
Top