تمام رات گزر جائے گی سنانے میں ٭ راحیلؔ فاروق

تمام رات گزر جائے گی سنانے میں
غزل سی بات نہ ہو پائے گی فسانے میں

یہ مصلحت ہے محبت کے ہر بہانے میں
کہ جان ہی نہ چلی جائے جان جانے میں

کسی نے قدر کسی کی نہ کی زمانے میں
نگار کون نہیں تھا نگار خانے میں

چنی ہیں ڈر نے سلاخیں بجائے تنکوں کے
قفس کا رنگ نمایاں ہے آشیانے میں

فریب خود کو بھی دیکھے ہیں دے کے لاکھ مگر
مزہ ہی اور ہے ان سے فریب کھانے میں

ہم آپ ہیں کہ لپکتے ہیں ہر تجلی کو
قصور ان کا نہیں بجلیاں گرانے میں

کھلا تو پول ہمارا کھلا سوالوں سے
خود آزمائے گئے ان کو آزمانے میں

غزال خوب سمجھتے ہیں یہ نوا راحیلؔ
غزل کی تان ہے الفت کے ہر ترانے میں

راحیلؔ فاروق​
 
Top