تلخیِ جاں

La Alma

لائبریرین
تلخیِ جاں
کوئی مانوس سی سرسراہٹ تھی، جس سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ شاید وقت کے قافلے سے بچھڑا، کوئی اداس لمحہ پھر سے دبے پاؤں رات کے پہلو میں آ بیٹھا تھا۔ اگرچہ شب تاروں بھری تھی لیکن من میں گھپ اندھیرا تھا۔ میں نے ذرا سا پردہ سرکا کر کھڑکی سے باہر جھانکا، تو پل بھر کو یوں لگا کہ جیسے اچانک فلک نے اپنا دامن جھاڑ دیا ہو اور کتنے ہی ستارے ٹوٹ کر وقت کی مانگ میں جڑ گئے ہوں۔ لیکن یہ محض ایک سراب تھا۔ ستارے تو نہ تھے مگر شہابِ ثاقب کی طرح یادوں کے لپکتے شعلے ضرور پیچھے ہو لیے تھے۔ اس آتش کو مزید سلگانے کے لئے دیر تک حال کی چھت سے ماضی ٹپکتا رہا۔ اک انجانا سا درد ذہن کے کونوں کھدروں سے رستا رہا۔
درد کی بھی عجب حقیقت تھی۔ اس کے احساس کے لئے زندہ ہونا کتنا ضروری تھا۔ وگرنہ کتنے ہی لوگ اس سے بھی زیادہ گہری تاریکیوں میں منوں مٹی تلے بےخوف و خطر سوئے ہوئے تھے۔ اِس رات کے اندھیرے کا موازنہ صدیوں پر محیط اُس کالی رات سے کیا بھی نہیں جا سکتا تھا، جس کا نہ تو کوئی آسمان تھا۔۔۔ نہ ہی اس پر ٹانکے ہوئے روشن چاند ستارے۔۔۔نہ ہی شب کے کناروں سے ابھرتے امید کے سورج کی کوئی شبیہ تھی ۔۔۔ اور نہ ہی صبحِ نو کی کوئی خبر۔۔۔ نہ کوئی پچھتاوا تھا، نہ کسی کا انتظار۔۔۔اور نہ ہی کوئی احساس۔۔۔ بس ہر طرف گہرا سکوت تھا۔۔۔ ایک مکمل خاموشی اور بے خبری تھی۔۔۔
شاید مجھے بھی زندگی میں اب کسی ایسے ہی سکوت کی تلاش تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی تھی۔ کشفِ راز کا کوئی سودا تھا یا آگہی کا جنون، جو کہیں چین نہیں پڑتا تھا۔ رشک آتا تھا ان لوگوں پر، جو وقت کے پھیر میں کسی لگے بندھے اصول کے تحت، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ۔۔۔ امید، مایوسی، محبت، نفرت، خوشی، غم، دوستی، دشمنی، الغرض ہر جذبے کو دل کھول کر برتتے۔۔۔اور پھر کسی روز اچانک اجل کا ہاتھ تھام کر چپ چاپ گمنام جزیروں میں اتر جاتے۔ اپنا تو حال یہ تھا کہ آج تک خود پہ نہ محبت کا کوئی بھید کھلا تھا، نہ نفرت ہی آشکار ہوئی تھی۔ بس ہر موڑ پر ایک نیا تحیر پاؤں جکڑ لیتا۔ ماہ و سال بیت جاتے لیکن چند قدم کی مسافت بھی نہ طے ہو پاتی۔
وقت، تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر گزرتا جا رہا تھا۔ یہ زمانہ بھی رندانِ بلا کش سے کچھ کم نہ تھا۔اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے، یہاں سبھی میخوار تھے۔ اب تو کبھی کبھی شدت سے جی چاہتا تھا کہ ان تلخیوں کی کڑواہٹ رگوں میں بھی خون کی مانند دوڑے۔۔۔تاکہ غم کا ذائقہ معلوم ہی نہ ہو۔ رات کے اس پہر کا کسیلا پن اب آنکھوں کے ساغر میں اترتا جا رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ نجانے کس وقت چھلک پڑے، کھڑکی سے ہٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی۔ واپس بستر پر لیٹتے ہوئے ذہن میں اب فقط ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا، کہ کل سے صبح اٹھ کر بغیر چینی کے کڑوی چائے پینی ہے۔
 

احمد محمد

محفلین
نا محبت کا کوئی بھید کھلا نا کوئی نفرت آشکار ہوئی تو پھر کڑواہٹ کیسی؟
چوہدری صاحب! شاید آپ درجِ ذیل کیٹگری میں ہیں اس لیے آپ کو سمجھ نہیں آئے گی۔ :D
رشک آتا تھا ان لوگوں پر، جو وقت کے پھیر میں کسی لگے بندھے اصول کے تحت، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ۔۔۔
اِگنور کریں آپ۔ :p
 

احمد محمد

محفلین
تلخیِ جاں
کوئی مانوس سی سرسراہٹ تھی، جس سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ شاید وقت کے قافلے سے بچھڑا، کوئی اداس لمحہ پھر سے دبے پاؤں رات کے پہلو میں آ بیٹھا تھا۔ اگرچہ شب تاروں بھری تھی لیکن من میں گھپ اندھیرا تھا۔ میں نے ذرا سا پردہ سرکا کر کھڑکی سے باہر جھانکا، تو پل بھر کو یوں لگا کہ جیسے اچانک فلک نے اپنا دامن جھاڑ دیا ہو اور کتنے ہی ستارے ٹوٹ کر وقت کی مانگ میں جڑ گئے ہوں۔ لیکن یہ محض ایک سراب تھا۔ ستارے تو نہ تھے مگر شہابِ ثاقب کی طرح یادوں کے لپکتے شعلے ضرور پیچھے ہو لیے تھے۔ اس آتش کو مزید سلگانے کے لئے دیر تک حال کی چھت سے ماضی ٹپکتا رہا۔ اک انجانا سا درد ذہن کے کونوں کھدروں سے رستا رہا۔
درد کی بھی عجب حقیقت تھی۔ اس کے احساس کے لئے زندہ ہونا کتنا ضروری تھا۔ وگرنہ کتنے ہی لوگ اس سے بھی زیادہ گہری تاریکیوں میں منوں مٹی تلے بےخوف و خطر سوئے ہوئے تھے۔ اِس رات کے اندھیرے کا موازنہ صدیوں پر محیط اُس کالی رات سے کیا بھی نہیں جا سکتا تھا، جس کا نہ تو کوئی آسمان تھا۔۔۔ نہ ہی اس پر ٹانکے ہوئے روشن چاند ستارے۔۔۔نہ ہی شب کے کناروں سے ابھرتے امید کے سورج کی کوئی شبیہ تھی ۔۔۔ اور نہ ہی صبحِ نو کی کوئی خبر۔۔۔ نہ کوئی پچھتاوا تھا، نہ کسی کا انتظار۔۔۔اور نہ ہی کوئی احساس۔۔۔ بس ہر طرف گہرا سکوت تھا۔۔۔ ایک مکمل خاموشی اور بے خبری تھی۔۔۔
شاید مجھے بھی زندگی میں اب کسی ایسے ہی سکوت کی تلاش تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی تھی۔ کشفِ راز کا کوئی سودا تھا یا آگہی کا جنون، جو کہیں چین نہیں پڑتا تھا۔ رشک آتا تھا ان لوگوں پر، جو وقت کے پھیر میں کسی لگے بندھے اصول کے تحت، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ۔۔۔ امید، مایوسی، محبت، نفرت، خوشی، غم، دوستی، دشمنی، الغرض ہر جذبے کو دل کھول کر برتتے۔۔۔اور پھر کسی روز اچانک اجل کا ہاتھ تھام کر چپ چاپ گمنام جزیروں میں اتر جاتے۔ اپنا تو حال یہ تھا کہ آج تک خود پہ نہ محبت کا کوئی بھید کھلا تھا، نہ نفرت ہی آشکار ہوئی تھی۔ بس ہر موڑ پر ایک نیا تحیر پاؤں جکڑ لیتا۔ ماہ و سال بیت جاتے لیکن چند قدم کی مسافت بھی نہ طے ہو پاتی۔
وقت، تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر گزرتا جا رہا تھا۔ یہ زمانہ بھی رندانِ بلا کش سے کچھ کم نہ تھا۔اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے، یہاں سبھی میخوار تھے۔ اب تو کبھی کبھی شدت سے جی چاہتا تھا کہ ان تلخیوں کی کڑواہٹ رگوں میں بھی خون کی مانند دوڑے۔۔۔تاکہ غم کا ذائقہ معلوم ہی نہ ہو۔ رات کے اس پہر کا کسیلا پن اب آنکھوں کے ساغر میں اترتا جا رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ نجانے کس وقت چھلک پڑے، کھڑکی سے ہٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی۔ واپس بستر پر لیٹتے ہوئے ذہن میں اب فقط ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا، کہ کل سے صبح اٹھ کر بغیر چینی کے کڑوی چائے پینی ہے۔
واہ بہت خوب۔ کچھ جملے تو لاجواب ہیں۔
 

فرقان احمد

محفلین
تلخیِ جاں
کوئی مانوس سی سرسراہٹ تھی، جس سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ شاید وقت کے قافلے سے بچھڑا، کوئی اداس لمحہ پھر سے دبے پاؤں رات کے پہلو میں آ بیٹھا تھا۔ اگرچہ شب تاروں بھری تھی لیکن من میں گھپ اندھیرا تھا۔ میں نے ذرا سا پردہ سرکا کر کھڑکی سے باہر جھانکا، تو پل بھر کو یوں لگا کہ جیسے اچانک فلک نے اپنا دامن جھاڑ دیا ہو اور کتنے ہی ستارے ٹوٹ کر وقت کی مانگ میں جڑ گئے ہوں۔ لیکن یہ محض ایک سراب تھا۔ ستارے تو نہ تھے مگر شہابِ ثاقب کی طرح یادوں کے لپکتے شعلے ضرور پیچھے ہو لیے تھے۔ اس آتش کو مزید سلگانے کے لئے دیر تک حال کی چھت سے ماضی ٹپکتا رہا۔ اک انجانا سا درد ذہن کے کونوں کھدروں سے رستا رہا۔
درد کی بھی عجب حقیقت تھی۔ اس کے احساس کے لئے زندہ ہونا کتنا ضروری تھا۔ وگرنہ کتنے ہی لوگ اس سے بھی زیادہ گہری تاریکیوں میں منوں مٹی تلے بےخوف و خطر سوئے ہوئے تھے۔ اِس رات کے اندھیرے کا موازنہ صدیوں پر محیط اُس کالی رات سے کیا بھی نہیں جا سکتا تھا، جس کا نہ تو کوئی آسمان تھا۔۔۔ نہ ہی اس پر ٹانکے ہوئے روشن چاند ستارے۔۔۔نہ ہی شب کے کناروں سے ابھرتے امید کے سورج کی کوئی شبیہ تھی ۔۔۔ اور نہ ہی صبحِ نو کی کوئی خبر۔۔۔ نہ کوئی پچھتاوا تھا، نہ کسی کا انتظار۔۔۔اور نہ ہی کوئی احساس۔۔۔ بس ہر طرف گہرا سکوت تھا۔۔۔ ایک مکمل خاموشی اور بے خبری تھی۔۔۔
شاید مجھے بھی زندگی میں اب کسی ایسے ہی سکوت کی تلاش تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی تھی۔ کشفِ راز کا کوئی سودا تھا یا آگہی کا جنون، جو کہیں چین نہیں پڑتا تھا۔ رشک آتا تھا ان لوگوں پر، جو وقت کے پھیر میں کسی لگے بندھے اصول کے تحت، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ۔۔۔ امید، مایوسی، محبت، نفرت، خوشی، غم، دوستی، دشمنی، الغرض ہر جذبے کو دل کھول کر برتتے۔۔۔اور پھر کسی روز اچانک اجل کا ہاتھ تھام کر چپ چاپ گمنام جزیروں میں اتر جاتے۔ اپنا تو حال یہ تھا کہ آج تک خود پہ نہ محبت کا کوئی بھید کھلا تھا، نہ نفرت ہی آشکار ہوئی تھی۔ بس ہر موڑ پر ایک نیا تحیر پاؤں جکڑ لیتا۔ ماہ و سال بیت جاتے لیکن چند قدم کی مسافت بھی نہ طے ہو پاتی۔
وقت، تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر گزرتا جا رہا تھا۔ یہ زمانہ بھی رندانِ بلا کش سے کچھ کم نہ تھا۔اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے، یہاں سبھی میخوار تھے۔ اب تو کبھی کبھی شدت سے جی چاہتا تھا کہ ان تلخیوں کی کڑواہٹ رگوں میں بھی خون کی مانند دوڑے۔۔۔تاکہ غم کا ذائقہ معلوم ہی نہ ہو۔ رات کے اس پہر کا کسیلا پن اب آنکھوں کے ساغر میں اترتا جا رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ نجانے کس وقت چھلک پڑے، کھڑکی سے ہٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی۔ واپس بستر پر لیٹتے ہوئے ذہن میں اب فقط ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا، کہ کل سے صبح اٹھ کر بغیر چینی کے کڑوی چائے پینی ہے۔
کیا خوب صورت اسلوب اور منظر کشی ہے! معانی پر غور و خوض جاری ہے؛ اس حوالے سے تبصرہ اُدھار رہا۔
 

La Alma

لائبریرین
نا محبت کا کوئی بھید کھلا نا کوئی نفرت آشکار ہوئی تو پھر کڑواہٹ کیسی؟
کیا یہ تلخی کم ہے کہ کوئی عقدہ وا نہ ہوا۔
چائے بغیر چینی کے پھیکی کہلائے گی یا کڑوی !
زیادہ اسٹرانگ ہو تو کڑوی۔
واہ بہت خوب۔ کچھ جملے تو لاجواب ہیں۔
بہت نوازش
کیا خوب صورت اسلوب اور منظر کشی ہے! معانی پر غور و خوض جاری ہے؛ اس حوالے سے تبصرہ اُدھار رہا۔
پسندیدگی کے لیے مشکور ہوں۔ ضرور کیجیے تبصرہ۔
 
کیا یہ تلخی کم ہے کہ کوئی عقدہ وا نہ ہوا۔
ایسی صورتحال میں تو دو تین بار شکر الحمد للہ بنتا ہے۔
زیادہ اسٹرانگ ہو تو کڑوی۔
ٹھیک۔
نفسیاتی الجھنوں کی سزا، جسم کو دینا کوئی بہت اچھی بات نہیں ہے۔
خیالوں کی لڑائی خیالوں سے ہی کرانی چاہیے۔ :)
 

نور وجدان

لائبریرین
تلخیِ جاں
کوئی مانوس سی سرسراہٹ تھی، جس سے میری آنکھ کھل گئی تھی۔ شاید وقت کے قافلے سے بچھڑا، کوئی اداس لمحہ پھر سے دبے پاؤں رات کے پہلو میں آ بیٹھا تھا۔ اگرچہ شب تاروں بھری تھی لیکن من میں گھپ اندھیرا تھا۔ میں نے ذرا سا پردہ سرکا کر کھڑکی سے باہر جھانکا، تو پل بھر کو یوں لگا کہ جیسے اچانک فلک نے اپنا دامن جھاڑ دیا ہو اور کتنے ہی ستارے ٹوٹ کر وقت کی مانگ میں جڑ گئے ہوں۔ لیکن یہ محض ایک سراب تھا۔ ستارے تو نہ تھے مگر شہابِ ثاقب کی طرح یادوں کے لپکتے شعلے ضرور پیچھے ہو لیے تھے۔ اس آتش کو مزید سلگانے کے لئے دیر تک حال کی چھت سے ماضی ٹپکتا رہا۔ اک انجانا سا درد ذہن کے کونوں کھدروں سے رستا رہا۔
درد کی بھی عجب حقیقت تھی۔ اس کے احساس کے لئے زندہ ہونا کتنا ضروری تھا۔ وگرنہ کتنے ہی لوگ اس سے بھی زیادہ گہری تاریکیوں میں منوں مٹی تلے بےخوف و خطر سوئے ہوئے تھے۔ اِس رات کے اندھیرے کا موازنہ صدیوں پر محیط اُس کالی رات سے کیا بھی نہیں جا سکتا تھا، جس کا نہ تو کوئی آسمان تھا۔۔۔ نہ ہی اس پر ٹانکے ہوئے روشن چاند ستارے۔۔۔نہ ہی شب کے کناروں سے ابھرتے امید کے سورج کی کوئی شبیہ تھی ۔۔۔ اور نہ ہی صبحِ نو کی کوئی خبر۔۔۔ نہ کوئی پچھتاوا تھا، نہ کسی کا انتظار۔۔۔اور نہ ہی کوئی احساس۔۔۔ بس ہر طرف گہرا سکوت تھا۔۔۔ ایک مکمل خاموشی اور بے خبری تھی۔۔۔
شاید مجھے بھی زندگی میں اب کسی ایسے ہی سکوت کی تلاش تھی۔ سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ غلطی کہاں ہوئی تھی۔ کشفِ راز کا کوئی سودا تھا یا آگہی کا جنون، جو کہیں چین نہیں پڑتا تھا۔ رشک آتا تھا ان لوگوں پر، جو وقت کے پھیر میں کسی لگے بندھے اصول کے تحت، بچپن سے جوانی اور پھر بڑھاپے کی منازل طے کرتے ۔۔۔ امید، مایوسی، محبت، نفرت، خوشی، غم، دوستی، دشمنی، الغرض ہر جذبے کو دل کھول کر برتتے۔۔۔اور پھر کسی روز اچانک اجل کا ہاتھ تھام کر چپ چاپ گمنام جزیروں میں اتر جاتے۔ اپنا تو حال یہ تھا کہ آج تک خود پہ نہ محبت کا کوئی بھید کھلا تھا، نہ نفرت ہی آشکار ہوئی تھی۔ بس ہر موڑ پر ایک نیا تحیر پاؤں جکڑ لیتا۔ ماہ و سال بیت جاتے لیکن چند قدم کی مسافت بھی نہ طے ہو پاتی۔
وقت، تلخیِ ایام کو گھونٹ گھونٹ پی کر گزرتا جا رہا تھا۔ یہ زمانہ بھی رندانِ بلا کش سے کچھ کم نہ تھا۔اپنی اپنی حسرتوں کے جام تھامے، یہاں سبھی میخوار تھے۔ اب تو کبھی کبھی شدت سے جی چاہتا تھا کہ ان تلخیوں کی کڑواہٹ رگوں میں بھی خون کی مانند دوڑے۔۔۔تاکہ غم کا ذائقہ معلوم ہی نہ ہو۔ رات کے اس پہر کا کسیلا پن اب آنکھوں کے ساغر میں اترتا جا رہا تھا۔ یہ سوچ کر کہ نجانے کس وقت چھلک پڑے، کھڑکی سے ہٹ جانے میں ہی عافیت محسوس ہوئی۔ واپس بستر پر لیٹتے ہوئے ذہن میں اب فقط ایک ہی خیال گردش کر رہا تھا، کہ کل سے صبح اٹھ کر بغیر چینی کے کڑوی چائے پینی ہے۔
نثری شاعری اسے کہتے ہیں ...
یہی تو رائیگانی کا احساس ہے ..
رائیگانی کا اندازہ نہیں تجھے
شب گزیدہ میں تاروں کی گردش ہے
 

نور وجدان

لائبریرین
تلخی پی جانے کا انداز الگ، ایسے جیسے دہک رہے ہیں انگارے دل میں. دل میں درد بھرجائے اور زمین نہ توٹے، اسکا مطلب ہے کہیں نہ کہیں زیرِ آب ہے ... بس تارے جو حیات کو جاوداں کرجائیں گے، یہ عمل کے شاخچے خیال سے رواں ہوں گے. رائیگانی کا دکھ نہ ہوگا جب مقصد عظیم کی جہت سامنے معتبر ہوگی. میں کن فکاں ہستی کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گی، مرا عالم سے رشتہ نہ ہوگا، جلد چھوڑ جائیں گے اس عالمِ فانی کو کہ جاودانی شے کچھ اور ہے. دل میں زنجیر بھی ہے، بسمل جو کرتا ہے اک پھنسا شہتیر بھی ہے. شب ظلمت کا نور اللہ ہے
 

La Alma

لائبریرین
نثری شاعری اسے کہتے ہیں ...
یہی تو رائیگانی کا احساس ہے ..
رائیگانی کا اندازہ نہیں تجھے
شب گزیدہ میں تاروں کی گردش ہے
تلخی پی جانے کا انداز الگ، ایسے جیسے دہک رہے ہیں انگارے دل میں. دل میں درد بھرجائے اور زمین نہ توٹے، اسکا مطلب ہے کہیں نہ کہیں زیرِ آب ہے ... بس تارے جو حیات کو جاوداں کرجائیں گے، یہ عمل کے شاخچے خیال سے رواں ہوں گے. رائیگانی کا دکھ نہ ہوگا جب مقصد عظیم کی جہت سامنے معتبر ہوگی. میں کن فکاں ہستی کے سامنے سجدہ ریز ہوجاؤں گی، مرا عالم سے رشتہ نہ ہوگا، جلد چھوڑ جائیں گے اس عالمِ فانی کو کہ جاودانی شے کچھ اور ہے. دل میں زنجیر بھی ہے، بسمل جو کرتا ہے اک پھنسا شہتیر بھی ہے. شب ظلمت کا نور اللہ ہے
بہت شکریہ نور کہ آپ نے میری تحریر پڑھی اور اپنے قیمتی خیالات کا اظہار کیا۔ آپ کے تبصرے کے اصل مفہوم تک میری رسائی نہیں ہو سکی، اس لئے اس پر کچھ کہنے سے قاصر ہوں۔ لیکن اس تھریڈ میں آپکی آمد اور پیغام سے خوشی ہوئی۔:)
 
Top