قسیم حیدر

محفلین
موضوع اور مضمون
یہ سورہ مشرکینِ مکہ کے تین سوالات کے جواب میں نازل ہوئی ہے جو انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا امتحان لینے کے لئے اہل کتاب کے مشورے سے آپ کے سامنےپیش کیے تھے: اصحابِ کہف کون تھے؟ قصہ خضر کی حقیقت کیا ہے؟ اور ذوالقرنین کا قصہ کیا ہے؟ یہ تینوں قصے عیسائیوں اور یہودیوں کی تاریخ سے متعلق تھے۔ حجاز میں ان کا کوئی چرچا نہ تھا۔ اسی لئے اہل کتاب نے امتحان کی غرض سے اِن کا انتخاب کیا تھا تا کہ یہ بات کھل جائے کہ واقعی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کوئی غیبی ذریعہ علم ہے یا نہیں۔ مگر اللہ تعالی نے صرف یہی نہیں کہ اپنے نبی کی زبان سے ان کے سوالات کا پورا جواب دیا، بلکہ ان کے اپنے پوچھے ہوئے تینوں قصوں کو پوری طرح اس صورتحال پر چسپاں بھی کر دیا جو اس وقت مکہ میں کفر و اسلام کے درمیان درپیش تھی:
۱۔ اصحابِ کہف کے متعلق بتایا کہ وہ اسی توحید کے قائل تھے جس کی دعوت یہ قرآن پیش کر رہا ہے، اور ان کا حال مکے کے مٹھی بھی مظلوم مسلمانوں کے حال سے اور ان کی قوم کا رویہ کفّارِ قریش کے رویّہ سے کچھ مختلف نہ تھا۔ پھر اسی قصے سے اہل ایمان کو یہ سبق دیا کہ اگر کفار کا غلبہ بے پناہ ہو اور ایک مومن کو ظالم معاشرے میں سانس لینے تک کی مُہلت نہ دی جا رہی ہو، تب بھی اس کو باطل کے آگے سر نہ جھکانہ چاہیئے بلکہ اللہ کے بھروسے پر تن بتقدیر نکل جانا چاہیئے۔ اسی سلسلے میں کفارِ مکہ کو ضمنًا یہ بھی بتایا کہ اصحابِ کہف کا قصہ عقیدہ آخرت کی صحت کا ایک ثبوت ہے۔ جس طرح خدا نے اصحابِ کہف کو ایک مدت دراز تک موت کی نیند سلانے کے بعد پھر جِلا اٹھایا اسی طرح اس کی قدرت سے وہ بَعث بعد الموت بھی کچھ بعید نہیں ہے جسے ماننے سے تم انکار کر رہے ہو۔
۲۔ اصحابِ کہف کے قصے سے راستہ نکال کر اس ظلم و ستم اور تحقیر و تذلیل پر گفتگو شروع کر دی گئی جو مکے کے سردار اور کھاتے پیتے لوگ اپنی بستی کی چھوٹی سی نو مسلم جماعت کے ساتھ برت رہے تھے۔ اس سلسلے میں ایک طرف نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو ہدایت کی گئی کہ نہ ان ظالموں سے کوئی مصالحت کرو اور نہ اپنے غریب ساتھیوں کے مقابلے میں اِن بڑے آدمیوں کو کوئی اہمیت دو۔ دوسری طرف ان رئیسوں کو نصیحت کی گئی کہ اپنے چند روزہ عیشِ زندگانی پر نہ پھولو بلکہ ان بھلائیوں کے طالب بنو جو ابدی اور پائیدار ہیں۔
۳۔ اسی سلسلہ کلام میں قصہ موسٰی و خضر کچھ اس انداز سے سنایا گیا کہ اس میں کفار کے سوالات کا جواب بھی تھا اور مومنین کے لیے تسلی کا سامان بھی۔ اس قصے میں دراصل جو سبق دیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اللہ کی مشیت کا کارخانہ جن مصلحتوں پر چل رہا ہے وہ چونکہ تمہاری نظر سے پوشیدہ ہیں اس لیے تم بات بات پر حیران ہوتے ہو کہ یہ کیوں ہوا؟ یہ کیا ہو گیا؟ یہ تو بڑا غضب ہوا۔ حالانکہ اگر پردہ اٹھا دیا جائے تو تمہیں خود معلوم ہو جائے کہ یہاں جو کچھ ہو رہا ہے ٹھیک ہو رہا ہے اور بظاہر جس چیز میں برائی نظر آتی ہے، آخر کار وہ بھی کسی نتیجہ خیر ہی کے لیےہوتی ہے۔
۴۔ اس کےبعد قصہ ذوالقرنین ارشاد ہوتا ہے اور اس میں سائلوں کو یہ سبق دیا جاتا ہے کہ تم تو اپنی اتنی ذرا ذرا سی سرداریوں پر پھول رہے ہو، حالانکہ ذوالقرنین اتنا بڑا فرمانروا اور ایسا زبردست فاتح اور اس قدر عظیم الشان ذرائع کا مالک ہو کر بھی اپنی حقیقت کو نہ بھولا تھا اور اپنے خالق کے آگے ہمیشہ سر تسلیم خم رکھتا تھا۔ نیز یہ کہ تم اپنی ذرا ذرا سی حویلیوں اور بغیچیوں کی بہار کو لازوال سمجھ بیٹھے ہو، مگر وہ دنیا کی سب سے زیادہ مستحکم دیوارِ تحفظ بنا کر بھی یہی سمجھتا تھا کہ اصل بھروسے کے لائق اللہ ہے نہ کہ یہ دیوار۔ اللہ کی مرضی جب تک ہے یہ دیوار دشمنوں کو روکتی رہے گی، اور جب اس کی مرضی کچھ اور ہو گی تو اس دیوار میں رخنوں اور شگافوں کے سوا کچھ نہ رہے گا۔
اس طرح کفار کے امتحانی سوالات کو انہی پر پوری طرح الٹ دینے کے بعد خاتمہ کلام میں پھر انہی باتوں کو دہرایا گیا ہے جو آغازِ کلام میں ارشاد ہوئی ہیں، یعنی یہ کہ توحید اور آخرت سراسر حق ہیں اور تمہاری اپنی بھلائی اسی میں ہے کہ انہیں مانو، ان کے مطابق اپنی اصلاح کرو اور خدا کے حضور اپنے آپ کو جواب دہ سمجھتے ہوئے دنیا میں زندگی بسر کرو۔ ایسا نہ کرو گے تو تمہاری اپنی زندگی خراب ہو گی اور تمہارا سب کچھ کیا کرایا اکارت جائے گا۔

سورة الكهف
بِسْمِ اللّهِ الرَّحْمنِ الرَّحِيمِ


تعریف اللہ کے لئے ہے جس نے اپنے بندے پر یہ کتاب نازل کی اور اس میں کوئی ٹیڑھ نہ رکھی(۱)۔ ٹھیک ٹھیک سیدھی بات کہنے والی کتاب، تاکہ وہ لوگوں کو خدا کے سخت عذاب سے خبردار کر دے، اور ایمان لا کر نیک عمل کرنے والوں کو خوشخبری دیدے کہ ان کے لیے اچھا اجر ہے جس میں وہ ہمیشہ رہیں گے، اور ان لوگوں کو ڈرا دے جو کہتے ہیں کہ اللہ نے کسی کو بیٹا بنایا ہے(۲)۔ اس بات کا نہ انہیں کوئی علم ہے اور نہ ان کے باپ دادا کو تھا(۳)۔ بڑی بات ہے جو ان کے منہ سے نکلتی ہے۔ وہ محض جھوٹ بکتے ہیں۔
اچھا، تو اے محمد، شاید تم ان کے پیچھے غم کے مارے اپنی جان کھو دینے والے ہو اگر یہ اس تعلیم پر ایمان نہ لائے(۴)۔ واقعہ یہ ہے کہ یہ جو کچھ سروسامان بھی زمین پر ہے اس کو ہم نے زمین کی زینت بنایاہے تا کہ اِن لوگوں کو آزمائیں اِن میں کون بہتر عمل کرنے والا ہے۔ آخر کار اِس سب کو ہم ایک چٹیل میدان بنا دینے والے ہیں(۵)۔
کیا تم سمجھتے ہو کہ غار(۶) اور کتبے(۷) والے ہماری کوئی بڑی عجیب نشانیوں میں سے تھے(۸)؟ جب وہ چند نوجوان غار میں پناہ گزین ہوئے اور انہوں نے کہا کہ "اے پروردگار، ہم کو اپنی رحمت خاص سے نواز اور ہمارا معاملہ درست کر دے"، تو ہم نے انہیں اسی غار میں تھپک کر سالہا سال کے لیے گہری نیند سلا دیا، پھر ہم نے انہیں اٹھایا تا کہ دیکھیں ان کے دو گروہوں میں سے کون اپنی مدتِ قیام کا ٹھیک شمار کرتا ہے۔


۱۔ یعنی نہ اس میں کوئی اینچ پینچ کی بات ہے جو سمجھ میں نہ آ سکے اور نہ کوئی بات حق و صداقت کے خطِ مستقیم سے ہٹی ہوئی ہے جسے ماننے میں کسی راستی پسند انسان کو تأمل ہو۔
۲۔ یعنی جو خدا کی طرف اولاد منسوب کرتے ہیں۔ اس میں عیسائی بھی شامل ہیں اور یہود بھی اور مشرکینِ عرب بھی۔
۳۔ یعنی ان کا یہ قول کہ فلاں خدا کا بیٹا ہے، یا فلاں کو خدا نے بیٹا بنا لیاہے، کچھ اس بنیاد پر نہیں ہے کہ ان کو خدا کے ہاں اولاد ہونے یا خدا کے کسی کو متبنّٰی بنانے کا علم ہے۔ بلکہ محض اپنی عقیدت مندی کے غلو میں وہ ایک من مانا حکم لگا بیٹھے ہیں اور ان کو کچھ احساس نہیں ہے کہ وہ کیسی سخت گمراہی کی بات کہہ رہے ہیں اور کتنی بڑی گستاخی اور افترا پردازی ہے جو اللہ رب اللعلمین کی جناب میں ان سے سرزد ہو رہی ہے۔
۴۔ یہ اشارہ ہے اس حالت کی طرف جس میں اس وقت نبی صلی اللہ علیہ و سلم مبتلا تھے۔ اس سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ آپ کو رنج ان تکلیفوں کا نہ تھا جو آپ کو اور آپ کے ساتھیوں کو دی جا رہی تھیں بلکہ جو چیز آپ کو اندر ہی اندر کھائے جا رہی تھی وہ یہ تھی کہ آپ اپنی قوم کو گمراہی اور اخلاقی پستی سے نکالنا چاہتے تھے اور وہ کسی طرح نکلنے پر آمادہ نہ ہوتی تھی۔ آپ کو یقین تھا کہ اس گمراہی کا لازمی نتیجہ تباہی اور عذابِ الٰہی ہے۔ آپ ان کو اس سے بچانے کے لئے اپنے دن اور راتیں ایک کئے دے رہے تھے۔ مگر انہیں اصرار تھا کہ وہ خدا کے عذاب میں مبتلا ہو کر ہی رہیں گے۔ اپنی اس کیفیت کو نبی صلی اللہ علیہ و سلم خود ایک حدیث میں اس طرح بیان فرماتے ہیں کہ "میری اور تم لوگوں کی مثال اس شخص کی سی ہے جس نے آگ جلائی روشنی کے لئے، مگر پروانے ہیں کہ اس پر ٹوٹ پڑتے ہیں۔ وہ کوشش کرتا ہے کہ یہ کسی طرح آگ سے بچیں، مگر پروانے اس کی ایک نہیں چلنے دیتے۔ ایسا ہی حال میراہے کہ میں تمہیں دامن سے پکڑ پکڑ کر کھینچ رہا ہوں اور تم ہو کہ آگ میں گرے پڑتے ہو۔" (بخاری و مسلم نیز تقابل کے لئے ملاحظہ ہو الشعراء، آیت۳)
اس آیت میں بظاہر تو بات اتنی ہی فرمائی گئی ہے کہ شاید تم اپنی جان ان کے پیچھے کھو دو گے، مگر اسی میں ایک لطیف انداز سے آپ کو تسلی بھی دے دی گئی کہ ان کے ایمان نہ لانےکی ذمہ داری تم پر نہیں ہے، اس لیے تم کیوں اپنے آپ کو رنج و غم میں گھلائے دیتے ہو؟ تمہارا کام صرف بشارت اور انذار ہے، لوگوں کو مومن بنا دینا تمہارا کام نہیں ہے۔ لہٰذا تم بس اپنا فریضہ تبلیغ ادا کیے جاؤ۔ جو مان لے اسے بشارت دے دو۔ جو نہ مانے اسے برے انجام سے متنبہ کر دو۔
۵۔ پہلی آیت کا خطاب نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے تھا اور ان دونوں آیتوں کا روئے سخن کفار کی جانب ہے۔ نبی صلی اللہ علیہ و سلم کو ایک حرفِ تسلی دینے کے بعد اب آپ کے منکرین کو مخاطب کیے بغیر یہ سنایا جا رہا ہے کہ یہ سروسامان جو زمین کی سطح پر تم دیکھتے ہو اور جس کی دلفریبیوں پر تم فریفتہ ہو، یہ ایک عارضی زینت ہے جو محض تمہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے مہیا کی گئی ہے۔ تم اس غلط فہمی میں مبتلا ہو کہ یہ سب کچھ ہم نے تمہارے عیش و عشرت کے لیے فراہم کیا ہے۔ اس لیے تم زندگی کے مزے لوٹنے کے سوا کسی اور مقصد کی طرف توجہ نہیں کرتے، اور اسی لیے تم کسی سمجھانے والے کی بات پر کان بھی نہیں دھرتے۔ مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ سامانِ عیش نہیں بلکہ وسائل امتحان ہیں جن کے درمیان تم کو رکھ کر یہ دیکھا جا رہا ہے کہ تم میں سے کون اپنی اصل کو فراموش کر کے دنیا کی ان دلفریبیوں میں گم ہو جاتاہے، اور کون اپنے اصل مقام (بندگی رب) کو یاد رکھ کر صحیح رویے پر قائم رہتا ہے۔ جس روز یہ امتحان ختم ہو جائے گا اسی روز یہ بساطِ عیش الٹ دی جائے گی اور یہ زمین ایک چٹیل میدان کے سوا کچھ نہ رہے گی۔
۶۔ عربی زبان میں "کہف" وسیع غار کو کہتے ہیں اور "غار" کا لفظ تنگ کھوہ کے لیے استعمال ہوتاہے، مگر اردو میں غار کہف کا ہم معنی ہے۔
۷۔ الرقیم کے معنی میں اختلاف ہے۔ بعض صحابہ و تابعین سے منقول ہےکہ یہ اس بستی کا نام ہے جہاں یہ واقعہ پیش آیا تھا، اور وہ اَیلہ (یعنی عَقَبَہ) اور فلسطین کے درمیان واقع تھی۔ اور بعض قدیم مفسرین کہتے ہیں کہ اس سے مراد وہ کتبہ ہے جو اس غار پر اصحابِ کہف کی یادگار میں لگایا گیا تھا۔ مولانا ابوالکلام آزاد نے اپنی تفسیر "ترجمان القرآن" میں پہلے معنی کو ترجیح دی ہے اور یہ خیال ظاہر کیا ہے کہ یہ وہ مقام ہے جسے بائیبل کی کتاب یشوع (باب۱۸أ آیت۲۷) میں رقم یا راقم کہا گیا ہے۔ پھر وہ اسے نَبطیوں کے مشہور تاریخی مرکز پیٹرا کا قدیم نام قرار دیتے ہیں۔ لیکن انہوں نے اس بات پر غور نہیں فرمایاکہ کتاب یشوع میں رقم یا راقم کا ذکر بنی بن یمین کی میراث کے سلسلے میں آیا ہے اور خود اسی کتاب کے بیان کی رو سے اس قبیلے کی میراث کا علاقہ دریائے اردن اور بحرِ لوط کے مغرب میں واقع تھا جس میں پیٹرا کے ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پیٹرا کے کھنڈر جس علاقے میں پائے گئے ہیں اس کے اور بنی بن یمین کی میراث کے درمیان تو یہوداہ اور اَدُومیہ کا پورا علاقہ حائل تھا۔ اسی بناء پر جدید زمانے کے محققین آثارِ قدیمہ نے یہ بات ماننے میں سخت تامل کیا ہے کہ پیٹرا اور راقم ایک چیز ہیں (ملاحظہ ہو انسائیکلو پیڈیا برٹانیکا طبع ۱۹۴۷ جلد ۱۷۔ ص۶۵۸)۔ ہمارے نزدیک صحیح بات یہی معلوم ہوتی ہے کہ رقیم سے مراد کتبہ ہے۔
۸۔ یعنی کیا تم اس خدا کی قدرت سے جس نے زمین و آسمان کو پیدا کیا ہے، اس بات کو کچھ بعید سمجھتے ہو کہ وہ چند آدمیوں کو دو تین سو برس تک سلائے رکھے اور پھر ویساہی جوان و تندرست جگا اٹھائے جیسے وہ سوئے تھے؟ اگر سورج اور چاند اور زمین کی تخلیق پر تم نے کبھی غور کیا ہوتا تو تم ہر گز یہ خیال نہ کرتے کہ خدا کے لیے یہ کوئی بڑا مشکل کام ہے۔
ہم ان کا اصل قصہ تمہیں سناتے ہیں(۹)۔ وہ چند نوجوان تھے جو اپنے رب پر ایمان لے آئے تھے اور ہم نے ان کو ہدایت میں ترقی بخشی تھی(۱۰)۔ ہم نے ان کے دل اس وقت مضبوط کر دیے جب وہ اٹھے اور انہوں نے اعلان کر دیا کہ "ہمارا رب تو بس وہی ہے جو آسمانوں اور زمین کا رب ہے۔ ہم اسے چھوڑ کر کسی دوسرے معبود کو نہ پکاریں گے۔ اگر ہم ایسا کریں تو بالکل بیجا بات کریں گے۔" (پھر انہوں نے آپس میں ایک دوسرے سے کہا) "یہ ہماری قوم تو ربِّ کائنات کو چھوڑ کر دوسرے خدا بنا بیٹھی ہے۔ یہ لوگ ان کے معبود ہونے پر کوئی واضح دلیل کیوں نہیں لاتے؟ آخر اس شخص سے بڑا ظالم اور کون ہو سکتا ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے؟ اب جبکہ تم ان سے اور ان کے معبودانِ غیر اللہ سے بےتعلق ہو چکے ہو تو چلو اب فلاں غار میں چل کر پناہ لو۔(۱۱) تمہارا رب تم پر اپنی رحمت کا دامن وسیع کرے گا اور تمہارے کام کے لیے سروسامان مہیا کردے گا۔"
تم انہیں غار میں دیکھتے (۱۱)تو تمہیں یوں نظر آتا کہ سورج جب نکلتا ہے تو ان کے غار کو چھوڑ کر دائیں جانب چڑھ جاتاہے اور جب غروب ہوتا ہے تو ان سے بچ کر بائیں جانب اتر جاتا ہے اور وہ ہیں کہ غار کے اندر ایک وسیع جگہ میں پڑے (۱۱) ہیں۔ یہ اللہ کی نشانیوں میں سے ایک ہے۔ جس کو اللہ ہدایت دے وہی ہدایت پانے والا ہے اور جسے اللہ بھٹکا دے اس کے لیے تم کوئی ولِیّ مرشِد نہیں پا سکتے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


9۔ اس قصے کی قدیم ترین شہادت شام کے ایک عیسائی پادری جیمس سروجی کے مواعظ میں پائی گئی ہے جو سریانی زبان میں لکھے گئے تھے۔ یہ شخص اصحابِ کہف کی وفات کے چند سال بعد ؁۴۵۳ء میں پیدا ہوا تھا اور اس نے ؁۴۷۴ ء کے لگ بھگ زمانے میں اپنے یہ مواعظ مرتب کیے تھے۔ ان مواعظ میں وہ اس پورے واقعے کو بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کرتا ہے۔ یہی سریانی روایت ایک طرف ہمارے ابتدائی دور کے مفسرین کو پہنچی جسے ابن جَریر طَبَری نےمختلف سندوں کے ساتھ اپنی تفسیر میں نقل کیا ہے، اور دوسری طرف یورپ پہنچی جہاں یونانی اور لاطینی زبانوں میں اس کے ترجمے اور خلاصے شائع ہوئے۔ گبن نے اپنی کتاب "تاریخ زوال و سقوطِ دولت روم" کے باب 33 میں "سات سونے والوں" ( ) کے عنوان کے تحت ان ماخذ سے اس قصے کا جو خلاصہ دیا ہے وہ ہمارے مفسرین کی روایات سے اس قدر ملتا جلتا ہے کہ دونوں قصے قریب قریب ایک ہی ماخذ سے ماخوذ معلوم ہوتے ہیں۔ مثلًا جس بادشاہ کے ظلم سے بھاگ کراصحابِ کہف غار میں پناہ گزین ہوئے تھے، ہمارے مفسرین اس کا نام دقیَنوس یا دقیانوس یا دقیوس بتاتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ وہ قیصر ڈِسیِس (Decius) تھا۔ جس نے ؁۲۴۹ ء سے ؁۲۵۱ ء تک سلطنتِ روم پر فرمانروائی کی ہے اور مسیح علیہ السلام کے پیرووں پر ظلم وستم کرنے کے معاملہ میں جس کا عہد بہت بدنام ہے۔ جس شہر میں یہ واقعہ پیش آیا اس کا نام ہمارے مفسرین اَفسُس یا افسوس لکھتےہیں، اور گبن اس کا نام اِفِسُس (Ephesus) بتاتا ہے جو ایشیائے کوچک کے مغربی ساحل پر رومیوں کا سب سے بڑا شہر اور مشہور بندرگاہ تھا، جس کے کھنڈر آج موجودہ ٹرکی کے شہر ازمیر (سمرنا) سے ۲۰۔۲۵میل بجانبِ جنوب پائے جاتے ہیں (ملاحظہ ہو نقشہ نمبر۲ صفحہ ۴۳۔ پھر جس بادشاہ کے عہد میں اصحابِ کہف جاگے اس کا نام ہمارے مفسرین تیذوسس لکھتے ہیں اور گبن کہتا ہے کہ ان کے بعث کا واقعہ قیصر ٹھیوڈوسس (Theodosius) ثانی کے زمانے میں پیش آیا جو رومی سلطنت کے عیسائیت قبول کر لینے کے بعد ؁؁۴۰۸ ء سے ؁؁۴۵۰ ء تک روم کا قیصر رہا۔ دونوں بیانات کی مماثلت کی حد یہ ہے کہ اصحابِ کہف نے بیدار ہونے کے بعد اپنے جس رفیق کو کھانا لانے کے لیے شہر بھیجا تھا اس کا نام ہمارے مفسرین یَملِیخا بتاتے ہیں اور گبن اسے یَملِیخُس (JAMBLCHUS) لکھتا ہے۔ قصے کی تفصیلات دونوں روایتوں میں یکساں ہیں اور ان کا خلاصہ یہ ہے کہ قیصر ڈِیسَس کے زمانے میں جب مسیح علیہ السلام کے پیرووں پر سخت ظلم و ستم ہو رہے تھے، یہ ساتھ نوجوان ایک غار میں جا بیٹھے تھے۔ پھر قیصر تھیوڈوسس کی سلطنت کے اڑتیسویں سال (یعنی تقریبًا ؁؁۴۴۵ ء یا ؁؁۴۴۶ ء میں) یہ لوگ بیدار ہوئے جبکہ پوری رومی سلطنت مسیح علیہ السلام کی پیرو بن چکی تھی۔ اس حساب سے غار میں ان کے رہنے کی مدت تقریبًا ۱۹۶ سال بنتی ہے۔
بعض مستشرقین نے اس قصے کو قصہ اصحابِ کہف کا مترادف ماننے سے اس بنا پر انکار کیا ہے کہ آگے قرآن ان کے غار میں قیام کی مدت ۳۰۹ سال بیان کر رہا ہے۔ لیکن اس کا جواب ہم نے حاشیہ نمبر۲۵ میں دے دیا ہے۔
 
Top