الف عین

لائبریرین
سورۃ القمان
نام : اس سورہ کے دوسرے رکوع میں وہ نصیحتیں نقل کی گئی ہیں جو لقمان حکیم نے اپنے بیٹے کو کی تھیں۔ اسی مناسبت سے اس کا نام لقمان رکھاگیا ہے۔
زمانۂ نزول:۔ اس کے مضامین پر غور کرنے سے صاف محسوس ہوتا ہے کہ یہ اس زمانے میں نازل ہوئی ہے جب اسلامی دعوت کو دبانے اور روکنے کے لے جبر وظلم کاآغاز ہوچکا تھا اور ہر طرح کے ہتھکنڈے استعمال کیے جانے لگے تھے لیکن ابھی طوفانِ مخالفت نے پوری شدت اختیار نہ کی تھی۔ اس کی نشان دہی آیت ۱۴۔۱۵ سے ہوتی ہے جس میں نئے نئے مسلمان ہونے والے نوجوانوں کو بتایاگیا ہے کہ والدین کے حقوق تو بے شک خدا کے بعد سب سے نہ مانو یہی بات سورۂ عنکبوت میں بھی ارشاد ہوئی ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ دونوں سورتیں ایک ہی دَور میں نازل ہوئی ہیں۔ لیکن دونوں کے مجموعی انداز بیان اور مضمون پر غور کرنے سے اندازہ ہوتا ہے کہ سورۂ لقمان پہلے نازل ہوئی ہے، اس لیے کہ اس کے پس منظر میں کسی شدید مخالفت کا نشان نہیں ملتا، اور اس کے برعکس سورۂ عنکبوت کو پڑھتے ہوئے محسوس ہوتا ہے کہ اس کے نزول کے زمانہ میں مسلمانوں پر سخت ظلم و ستم ہورہاتھا۔
موضوع و مضمون: اس سورہ میں لوگوں کو شرک کی لغویت و نامعقولیت اور توحید کی صداقت و معقولیت سمجھائی گئی ہے، اور انہیں دعوت دی گئی ہے کہ باپ دادا کی اندھی تقلید چھوڑدیں، کھلے دل سے اس تعلیم پر غور کریں جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم خداوندِ عالم کی طرف سے پیش کررہے ہیں، اور کھلی آنکھوں سے دیکھیں کر ہرطرف کائنات میں اور خود ان کے اپنے نفس میں کیسے کیسے صریح آثار اس کی سچائی پر شہادت دے رہے ہیں۔
اس سلسلے میں یہ بھی بتایاگیا ہے کہ یہ کوئی نئی آواز نہیں ہے جو دنیا میں یا خود دیارِ عرب میں پہلی مرتبہ ہی اٹھی ہو اور لوگوں کے لیے بالکل نامانوس ہو۔ پہلے بھی جو لوگ علم و عقل اور حکمت و دانائی رکھتے تھے وہ یہی باتیں کہتے تھے جو آج محمد صلی اللہ علیہ وسلم کہہ رہے ہیں۔ تمہارے اپنے ہی ملک میں لقمان نامی حکیم گزر چکا ہے جس کی حکمت و دانش کے افسانے تمہارے ہاں مشہور ہیں، جس کی ضرب الامثال اور جس کے حکیمانہ مقولوں کو تم اپنی گفتگوؤں میں نقل کرتے ہو، جس کا ذکر تمہارے شاعر اور خطیب اکثر کیا کرتے ہیں۔ اب خوددیکھ لو کہ وہ کس عقیدے اور کن اخلاقیات کی تعلیم دیتا تھا۔

(۱) یعنی ایسی کتاب کی آیات جو حکمت سے لبریز ہے، جس کی ہر بات حکیمانہ ہے۔
(۲) یعنی یہ آیات راہِ راست کی طرف رہنمائی کرنے والی ہیں اور خدا کی طرف سے رحمت بن کر آئی ہیں، مگر اس رحمت اور ہدایت سے فائدہ اُٹھانے والے صرف وہی لوگ ہیں جو حسنِ عمل کا طریقہ اختیار کرتے ہیں، جو نیک بننا چاہتے ہیں، جنہیں بھلائی کی جستجو ہے، جن کی صفت یہ ہے کہ برائیوں پر جب انہیں متنبہ کردیا جائے تو ان سے رُک جاتے ہیں اور خیر کی راہیں جب ان کے سامنے کھول کر رکھ دی جائیں تو ان پر چلنے لگتے ہیں۔ رہے بدکار اور شرپسند لوگ تو وہ نہ اس رہنمائی سے فائدہ اٹھائیں گے نہ اس رحمت میں سے حصہ پائیںگے۔
(۳) یہ مراد نہیں ہے کہ جن لوگوں کو ’’ نیکو کار‘‘ کہا گیا ہے وہ بس ان ہی تین صفات کے حامل ہوتے ہیں ۔ دراصل پہلے ’’ نیکو کار‘‘ کا عام لفظ اِستعمال کرکے اس امر کی طرف اشارہ کیا گیا کہ وہ اُن تمام بُرائیوں سے رُکنے والے ہیں جن سے یہ کتاب روکتی ہے ، اور اُن سارے نیک کاموں پر عمل کرنے والے ہیں جن کا یہ کتاب حکم دیتی ہے۔ پھر اُن ’’ نیکو کار‘‘ لوگوں کی تین اہم صفات کا خاص طورپر ذکر کیا گیا جسںسے یہ ظاہر کرنا مقصُود ہے کہ باقی ساری نیکیوں کا دارمدار اِن ہی تین چیزوں پر ہے۔ وہ نماز قائم کرتے ہیں ، جس سے خدا پرستی و خدا ترسی ان کی مستقل عادت بن جاتی ہے۔ وہ زکوٰۃ دیتے ہیں ، جس سے ایثار و قربانی کا جذبہ ان کے اندر مستحکم ہوتا ہے ،متاعِ دُنیا کی محبت دبتی ہے رضائے اِلٰہی کی طلب اُبھرتی ہے۔ اور وہ آخرت پر یقین رکھتے ہیں، جس سے ان کے اندر ذمّہ داری و جواب دہی کا احساس اُبھرتا ہے، جس کی بدولت وہ اُس جانور کی طرح نہیں رہتے جو چراگاہ میں چُھوٹاپھر رہا ہو ، بلکہ اس انسان کی طرح ہوجاتے ہیں جسے یہ شعور حاصل ہو کہ میں خود مختارنہیں ہوں ، کسی آقا کا بندہ ہوں اور اپنی ساری کارگزاریوں پر اپنے آقا کے سامنے جوات دہی کرنی ہے۔ اِن تینوں خصوصیات کی وجہہ یہ ’’ نیکوکار ‘‘اُس طرح کے نیکو کار نہیں رہتے جن سے اِتفاقاًنیکی سرزد ہوجاتی ہے اور بدی بھی اُسی شان سے سرزد ہو سکتی ہے جس شان سے نیکی سرزد ہو سکتی ہے ۔ اس کے برعکس یہ خصوصیات اُن کے نفس میں ایک مستقل نظام فکر و اخلا ق پیدا کردیتی ہیں جس کے باعث ان سے نیکی کا صدور باقاعدہ ایک ضابطہ کے مطابق ہوتا ہے اور بدی اگر سرزد ہوتی بھی ہے تو محض ایک حادثہ کے طور پر ہوتی ہے ۔ کوئی گہرے محرکات ایسے نہیں ہوتے جو اُن کے نظامِ فکر و اخلاق سے اُبھرتے اور ان کو اپنے اقتضائے طبع سے بدی کی راہ پر لے جاتے ہوں۔
(۴)جس زمانے میں یہ آیات نازل ہوئی ہیں اُس وقت کفّارِ مکّہ یہ سمجھتے تھے اور علانیہ کہتے بھی تھے کہ محمّد صلی اللہ علیہ وسلم اور اُن کی دعوت کو قبول کرنے والے لوگ اپنی زندگی برباد کررہے ہیں ۔ اِس لئے حصر کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ اور پورے زور کے ساتھ فرمایا گیا کہ ’’ یہی فلاح پانے والے ہیں ‘‘ یعنی یہ برباد ہونے والے نہیں ہیں جیسا کہ تم اپنے خیالِ خام میں سمجھ رہے ہو بلکہ دراصل فلاح یہی لوگ پانے والے ہیں اور اُس سے محروم رہنے والے وہ ہیں جنھوں نے اس راہ کو اختیار کرنے سے اِنکار کیا ہے۔
یہاں قرآن کے حقیقی مفہوم کو سمجھنے میں وہ شخص سخت غلطی کرے گا جو فلاح کو صرف اس دُنیاکی حد تک اور وہ بھی صرف مادّی خوشحالی کے معنی میں لے گا ۔ فلاح کا قرآنی تصوّر معلوم کرنے کے لئے حسب ذیل آیات کو تفہیمُ القرآن کے تشریحی حواشی کے ساتھ بغور دیکھناچاہیے: البقرہ، آیات ۲ تا ۵۔ آل عمران، آیات ۱۰۲، ۱۳۰، ۲۰۰۔ المائدہ، آیات ۳۵، ۹۰ الانعام، ۲۱۔ الاعراف، آیات ۷، ۸، ۱۵۷۔ التوبہ، ۸۸۔ یونس، ۱۷۔ النحل، ۱۱۶۔ الحج، ۷۷۔ المومنون، ۱۔۱۱۷۔ النور، ۵۱۔ الروم، ۳۸۔
(۵) یعنی ایک طرف تو خدا کی طرف سے یہ رحمت اور ہدایت آئی ہوئی ہے جس سے کچھ لوگ فائدہ اُٹھارہے ہیں ۔ دوسری طرف انہی خوش نصیب انسانوں کے پہلو بہ پہلو ایسے بدنصیب لوگ بھی موجود ہیں جو اللہ کی آیات کے مقابلہ میں یہ طرز عمل اختیار کررہے ہیں۔
(۶) اصل لفظ ہیں’’ لَھُوَالْحَدِیث‘‘یعنی ایسی بات جو آدمی کو اپنے اندر مشغول کرکے ہر دوسری چیز سے غافل کردے ۔لعنت کے اعتبار سے توان الفاظ میں کوئی ذم کا پہلو نہیں ہے۔ لیکن استعمال میںان کا اطلاق بُری اور فضول اور بے ہودہ باتوں پر ہی ہوتا ہے،مثلاً گپ خرافات ، ہنسی مذاق ،داستانیں، افسانے اور ناول ، گانا بجانا ، اور اسی طرح کی دوسری چیزیں ۔
لہوالحدیث ’’ خریدنے‘‘ کا مطلب یہ بھی لیا جاسکتا ہے کہ وہ حدیثِ حق کو چھوڑ کر حدیثِ باطل کو اختیار کرتا ہے اور ہدایت سے منہ کوڑ کر ان باتوں کی طرف راغب ہوتا ہے جن میں اس کے لئے نہ دنیا میں کوئی بھلائی ہے نہ آخرت میں ۔ لیکن یہ مجازی معنی ہیں ۔حقیقی معنی اس فقرے کے یہی ہیں کہ آدمی اپنا مال صَرف کرکے کوئی بیہودہ چیز خریدے۔ اور بکثرت روایات بھی اسی تفسیر کی تائید کرتی ہیں۔ ابن ہشام نے محمد بن اصحاق کی روایت نقل کی ہے کہ جب نبی صل اللہ علیہ وسلم کی دعوت کفار مکّہ کی ساری کوششوں کے باوجود پھیلتی چلی جارہی تھی تونَضَر بن حارِث نے قریش کے لوگوںسے کہا کہ جس طرح تم اس شخص کا مقابلہ کررہے ہو اس سے کام نہ چلے گا۔یہ شخص تمہارے درمیان بچپن سے ادھیڑ عمر کو پہنچا ہے۔ آج تک وہ اپنے اخلاق میں تمہارا سب سے بہترآدمی تھا۔سب سے زیادہ سچا اور سب سے بڑھ کر امانت دار تھا ۔ اب تم کہتے ہو کہ وہ کاہن ہے ، ساحر ہے، شاعر ہے،مجنوں ہے ۔ آخر ان باتوں کو کون باور کرے گا۔ کیا لوگ ساحروں کو نہیں جانتے کہ وہ کس قسم کی جھاڑ پھونک کرتے ہیں؟ کیا لوگوں کو معلوم نہیں کہ کاہن کس قسم کی باتیں بنایا کرتے ہیں ؟ کیا لوگ شعر و شاعری سے نا واقف ہیں ؟کیا لوگوں کوجُنون کی کیفیات کا علم نہیں ہے؟ اِن اِلزامات میں سے کونسا الزام محمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) پر چسپاں ہوتا ہے کہ اس کا یقین دلا کر تم عوام کو اُس کی طرف توجہ کرنے سے روک سکو گے۔ ٹھیرو ، اس کا علاج میں کرتا ہوں ۔ اس کے بعد وہ مکہ سے عراق گیا اور وہاں سے شاہان عجم کے قصے اور رستم و اسفند یار کی داستانیں لاکر اس نے قصہ گوئی کی محفلیںبرپا کرنا شروع کردیں تاکہ لوگوں کی توجہ قرآن سے ہٹے اور ان کہانیوں میں کھوجائیں (سیرۃابن ہشام ،ج ۱،ص۳۲۰۔۳۲۱) یہی روایات اسباب النزول میں واحدی نے کَلْبی اور مُقاتِل سے نقل کی ہے۔ اور ابن عباسؒ نے اس پر مزید اضافہ کیا ہے کہ نَضْر نے اس مقصد کے لئے گانے والی لونڈیاں بھی خریدی تھیں۔ جس کسی کے متعلق وہ سنتاکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی باتوں سے متاثر ہو رہا ہے اس پر اپنی لونڈی مسلط کردیتا اور اس سے کہتا کہ اسے خوب کھلا پلا اور گانا سناتاکہ تیرے ساتھ مشغول ہو کر اس کا دل ادھر سے ہٹ جائے ۔ یہ قریب قریب وہی چال تھی جس سے قوموں کے اکابرمجرمین ہر زمانے میں کام لیتے رہے ہیں۔ وہ عوام کو کھیل تماشوں اور رقص و سرود (کلچر ) میں غرق کردینے کی کوشش کرتے ہیں تاکہ انہیں زندگی کے سنجیدہ مسائل کی طرف توجہ کرنے کا ہوش ہی نہ رہے اور اِس عالم مستی میںان کو سرے سے یہ محسوس ہی نہ ہونے پائے کہ انہیں کس تباہی کی طرف ڈھکیلاجارہا ہے۔
لہوالحدیث کی یہی تفسیر بکثرت صحابہ و تابعین سے منقول ہے ۔عبداللہ بن مسعودؓ سے پوچھا گیا کہ اس آیت میں لہوالحدیث سے کیا مُراد ہے ؟انہوں نے تین مرتبہ زور دے کر فرمایا ھوواللہ الغناء،’’خدا کی قسم اس سے مُراد گانا ہے‘‘۔ (ابن جریر)ابن ابی شیبہ ، حاکم بہقی )۔ اسی سے ملتے جلتے اقوال حضرت عبداللہ بن عباس ؓ ،جابر بن عبداللہ،مجاہد، عِکرمہ ، سعید بن جُبیر ، حسن بصری اور مَکُحول سے مروی ہیں ۔ ابن ابی جریر ، ابن ابی حاتم اور ترمذی نے حضرت ابواُمہؓباہلی کی یہ نقل روایت کی ہے کہ نبی صلہ اللہ علیہ وسلم نے فرمایا لا یحل بیع المغنیات ولا شراؤھن ولاالتجارۃ فیھن ولا اثمانھن’’مغنیہ عورتوں کا بیچنااور خریدنا اور ان کی تجارت کرناحلال نہیں ہے اور نہ اُن کی قیمت لینا حلال ہے۔‘‘ایک دوسری روایت میںآخری فقرے کے الفاظ یہ ہیں اکل ثمنھن حرام۔’’ان کی قیمت کھانا حرام ہے‘‘۔ایک اور روایت انہی ابو اُمامہؓ سے ان الفاظ میں منقول ہے کہ لایحل تعلیم المغنیات ولا بیعھن ولا شراؤھن و ثمنھن حرام۔ ’’ لونڈیوں کو گانے بجانے کی تعلیم دینا اور ان کی خرید و فروخت کرنا حلال نہیں ہے ، اور ان کی قیمت حرام ہے۔‘‘ان تینوں حدیثوں میں یہ صراحت بھی ہے کہ آیت مَنْےَّشْترِیْلَھْوالْحَدِےْثِ۔ ان ہی کے بارے میں نازل ہوئی ہے ۔ قاضی ابوبکر ابن العربی’’احکام القرآن‘‘ میں حضرت عبداللہ بن مبارک اور امام مالک ؒکے حوالے سے حضرت انس رضی اللہ عنہ کی روایت نقل کرتے ہیںکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایامن خلس الیٰ قینۃیسمع منھا صُبّ فی اذنیہ الاٰنُک ےَوم القےٰمۃ۔ جو شخص گانے والی مجلس میں بیٹھ کر اس کا گانا سنے گا قیامت کے روزاس کے کان میں پگھلا ہُوا سیسہ ڈالا جائے گا۔‘‘( اس سلسلے میں یہ بات بھی جان لینی چاہیے کہ اُس زمانے میں بجانے کی ’’ثقافت ‘‘تمامتر، بلکہ کلیتہً لونڈیوں کی بدولت زندہ تھی۔ آزاد عورتیں اس وقت تک ’’آرٹسٹ ‘‘ نہ بنی تھیں ۔ اسی لئے حضور ؐ نے مغنیا ت کی بیع و شاکا ذکر فرمایا اور ان کی فیس کو قیمت کے لفظ سے تعبیر کیا اور گانے والی خاتون کے لئے قَینَہ کا لفظ استعمال کیا جو عربی زبان میں لونڈی کے لئے بولا جاتا ہے)۔
(۷) ’’ علم کے بغیر‘‘ کا تعلق ’’ خریدتا ہے ‘‘ کے ساتھ بھی ہو سکتا ہے اور ’’ بھٹکادے ‘‘ کے ساتھ بھی ۔ اگر اس کا تعلق پہلے فقرے سے مانا جائے تو مطلب یہ ہوگا کہ وہ جاہل اور نادان آدمی اس دلفیب چیز کو خریدتا ہے اور کچھ نہیں جانتا کہ کیسی قیمتی چیز کو چھوڑ کر وہ کس تباہ کن چیز کو خرید رہا ہے۔ایک طرف حکمت اور ہدایت سے لبریز آیاتِ الٰہی ہیں جو مفت اسے مل رہی ہیں مگر وہ ان سے منہ موڑ رہا ہے۔ دوسری طرف یہ بیہودہ چیزیں ہیں جو فکر و اخلاق کو غارت کردینے والی ہیں اور وہ اپنا مال خرچ کرکے انھیں حاصل کررہا ہے۔ اور اگر اسے دوسرے فقرے سے متعلق سمجھا جائے تو اس کے معنی یہ ہوں گے کہ وہ علم کے بغیر لوگوں کی رہنمائی کرنے اُٹھاہے، اسے یہ شعور نہیں ہے کہ خلقِ خدا کو راہ خدا سے بھٹکانے کی کوشش کرکے وہ کتنا بڑا مظلمہ اپنی گردن پر لے رہا ہے۔
(۸)یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کرکے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے ۔ اس کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اُڑادیا جائے ۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے ک
(۸)یعنی یہ شخص لوگوں کو قصے کہانیوں اور گانے بجانے میں مشغول کرکے اللہ کی آیات کا منہ چڑانا چاہتا ہے ۔ اس کوشش یہ ہے کہ قرآن کی اس دعوت کو ہنسی ٹھٹھوں میں اُڑادیا جائے ۔ یہ خدا کے دین سے لڑنے کے لیے کچھ اس طرح کا نقشۂ جنگ جمانا چاہتا ہے کہ ادھر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) خدا کی آیات سنانے نکلیں،اُدھر کہیں کسی خوش اندام و خوش گل مغنیہ کا مجرا ہورہا ہو، کہیں کوئی چرب زبان قصہ گو ایران توران کی کہانیاں سنا رہا ہو،اور لوگ ان ثقافتی سرگرمیوں میں غرق ہوکر اس موڈ ہی میںنہ رہیں کہ خدا اور آخرت اور اخلاق کی باتیں انھیں سنائی جاسکیں۔
(۹) یہ سزاان کے جرم کی مناسبت سے ہے۔ وہ خدا کے دین اور اس کی آیات اور اس کے رسول کی تذلیل کرنا چاہتے ہیں۔ خدا اس کے بدلے میں ان کو سخت زلت کا عذاب دے گا۔
(۱۰)یہ نہیں فرمایا کہ ان کے لئے جنّت کی نعمتیں ہیں، بلکہ فرمایا یہ ہے کہ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں۔ اگر پہلی بات فرمائی جاتی تو اس کا مطلب یہ ہوتا کہ وہ ان نعمتوں سے لطف اندوز تو ضرور ہوںگے مگر وہ جنتیں ان کی اپنی نہ ہوں گی ۔ اس کے بجائے جب یہ فرمایا گیا کہ ’’ ان کے لئے نعمت بھری جنتیں ہیں ،‘‘ تو اس سے خود بہ خود یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پوری پوری جنتیں ان کے حوالہ کردی جائیں گی اور وہ اُن نعمتوں سے اس طرح مستفید ہوںگے جس طرح ایک مالک اپنی چیز سے مستفید ہوتاہے، نہ کہ اُس طرح جیسے کسی کو حقوق ملکیت دیے بغیر محض ایک چیز سے فائدہ اُٹھانے کا موسع دے دیا جائے۔
(۱۱)یعنی کوئی چیز اس کو اپنا وعدہ پورا کرنے سے باز نہیں رکھ سکتی، اور وہ جو کچھ کرتا ہے ٹھیک ٹھیک حکمت اور عدل کے تقاضوں کے مطابق کرتا ہے ’’ یہ اللہ کا پختہ وعدہ ہے‘‘ کہنے کے بعد اللہ تعالیٰ کی ان دو صفات کو بیان کرنے کا مقصود یہ بتانا ہے کہ اللہ تعالیٰ نہ تو بالا رادہ اپنے وعدے کی خلاف ورزی کرتا ہے اور نہ اس کائنات میں کوئی طاقت ایسی ہے جو اس کا وعدہ پورا ہونے میں مانع ہوسکتی ہو، اس لئے اس امر کا کوئی خطرہ نہیں ہوسکتا کہ ایمان و عمل صالح کے انعام میں جو کچھ اللہ نے دینے کا وعدہ فرمایا ہے وہ کسی کو نہ ملے۔نیز یہ کہ اللہ کی طرف سے اس انعام کا اعلان سراسر اس کی حکمت اور اس کے عدل پر مبنی ہے۔ اس کے ہاں کوئی غلط بخشی نہیں ہے کہ مستحق کو محروم رکھا جائے اور غیر مستحق کو نوازدیا جائے۔ ایمان و عمل صالح سے متصف لوگ فی الواقع اس انعام کے مستحس ہیں اور اللہ یہ انعام انہی کو عطا فرمائے گا۔
(۱۲)اوپر کے تمہیدی فقروں کے بعد اب اصل مدّعا، یعنی تردیدِ شرک اور دعوتِ توحید پر کلام شروع ہوتا ہے۔
(۱۳) اصل الفاظ ہیں بِغَےْرِ عَمَدٍتَرَوْ نَھَا۔اس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں ۔ ایک یہ کہ ’’ تم خود دیکھ رہے ہو کہ وہ بغیر ستونوں کے قائم ہیں۔‘‘ دوسرا مطلب یہ کہ ’’ وہ ایسے ستونوں پر قائم ہیں جو تم کو نظر نہیں آتے ‘‘۔ ابن عباسؓ اور مجاہد نے دوسرا مطلب لیا ہے، اور بہت سے دوسرے مفسّرین پہلا مطلب لیتے ہیں۔ موجودہ زمانے کے علومِ طبیعی کے لحاظ سے اگر اس کا مفہوم بیان کیا جائے تو یہ کہا جاسکتا تمام عالمِ افلاک میں یہ بے حدوحسان عظیم الشان تارے اور سےّرے اپنے اپنے مقام و مدار پر غیر مرئی سہاروں سے قائم کئے گئے ہیں ۔ کوئی تار نہیں ہیں جنھوں نے ان کو ایک دوسرے سے باندھ رکھا ہو۔ کوئی سلاخیں نہیں ہیں جو ان کو ایک دوسرے پر گرجانے سے روک رہی ہوں۔ صرف قانونِ جذب و کشش ہے جو اس نظام کو تھامے ہوئے ہے ۔ یہ تعبیر ہمارے آج کے علم کے لحاظ سے ہے۔ ہوسکتا ہے کہ کل ہمارے علم میں کچھ اوراضافہ ہو اور اس سے زیادہ لگتی ہوئی ہوئی کوئی دوسری تعبیر اس حقیقت کی کی جاسکے۔
(۱۴)تشریح کے لئے ملاحظہ ہو تفہیم القرآن ، جلد۲ ، صفحہ۵۳۰، حاشیہ نمبر ۱۲۔
(۱۵)یعنی اُن ہستیوں نے جن کو تم اپنا معبود بنائے بیٹھے ہو ،جنہیں تم اپنی قسمتوں کا بنانے اور بگاڑنے والا سمجھ رہے ہو، جن کی بندگی بجالنے پر تمہیں اتنا اصرار ہے۔
(۱۶) یعنی جب یہ لوگ اللہ کے سوااس کائنات میں کسی دوسرے کی تخلیق کی کوئی نشان دہی نہیں کرسکتے اور ظاہر ہے کہ نہیں کرسکتے، تو ان کا غیر خالق ہستیوں کو خدائی میں شریک ٹھہرانا اور ان کے آگے سرِ نیاز جھکانا اوران سے دعائیں مانگنا اور حاجتیں طلب کرنا بجز اس کے کہ صریح بے عقلی ہے اور کوئی دوسر ی تاویل اُن کے اس احمقانہ فعل کی نہیں کی جاسکتی ۔ جب تک کوئی شخص بالکل ہی نہ بہک گیا ہو اس سے اتنی بڑی حماقت سرزد نہیں ہوسکتی کہ آپ کے سامنے وہ خود اپنے معبودوں کے غیر خالق ہونے اور صرف اللہ ہی کے خالق ہونے ک اعتراف کرے اور پھر بھی انہیں معبود ماننے پر مُصِررہے۔کسی کے بھیجے میں ذرہ برابر بھی عقل ہو تو و ہ لامحالہ یہ سوچے گا کہ جو کسی چیز کے پیدا کرنے پر قادر نہیں ہے، اور جس کا زمین و آسمان کی کسی شے کی تخلیق میں برائے نام بھی کوئی حصہ نہیں ہے وہ آخر کیوں ہمارا معبود ہو؟ کیوں ہم اس کے آگے سجدہ ریز ہوں یا اس کی قدم بوسی و آستانہ بوسی کرتے پھریں ؟ کیا طاقت اس کے پاس ہے کہ وہ ہماری فریادرسی اور حاجت روائی کرسکے ؟ بالفرض وہ ہماری دُعاؤں کو سنتا بھی ہو تو ان کے جواب میں وہ خود کیا کارروائی کرسکتے ہے جبکہ وہ کچھ بنانے کے اختیارات رکھتا ہی نہیں؟بگڑیتو وہی بنائے گا جو کچھ بنا سکتا ہو نہ کہ وہ جو کچھ بھی نہ بناسکتا ہو۔
(۱۷)شرک کی تردید میں ایک پُر زور عقلی دلیل پیش کرنے کے بعد اب عرب کے لوگوں کو یہ بتایا جارہا ہے کہ یہ معقول بات آج کوئی پہلی مرتبہ تمہارے سامنے پیش نہیں کی جارہی ہے بلکہ پہلے بھی عاقل و دانالوگ یہی بات کہتے رہے ہیں اور تمہارا اپنامشہور حکیم ، لقمان اب سے بہت پہلے یہی کچھ کہہ گیا ہے۔اس لئے تم محمد صلی اللہ علیہ و سلم کی اس دعوت کے جواب میں یہ نہیں کہ سکتے کہ اگر شرک کوئی نامعقول عقیدہ ہے تو پہلے کسی کو یہ بات کیوںنہیں سوجھی۔
لقمان کی شخصیت عرب میں ایک حکیم و داناکی حیثیت سے بہت مشہور تھی ۔شعرائے جاہلیت،مثلاًامرؤ الیقس ،لَبِید،اَعْشیٰ، طَرَفہ وغیرہ کے کلام میں اُن کا ذکر کیا گیا ہے۔ اہل عرب میں بعض پڑھے لکھے لوگوں کے پاس صحیفۂ لقمان کے نام سے اُن کے حکیمانہ اقوال کا ایک مجموُعہ بھی موجود تھا ۔چنانچہ روایات میں آیا ہے کہ ہجر ت سے تین سال پہلے مدینے کا اوّلین شخص جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے متاثر ہؤا وہ سُوَید بن صامت تھا۔ وہ حج کے لئے مکہ گیا ۔ وہاں حضوؐراپنے قاعدے کے مطابق مختلف علاقوں سے آئے ہوئے حاجیوں کی قیام گاہ جا جا کر دعوتِ اسلام دیتے پھررہے تھے ۔اس سلسلہ میں سُو ید نے جب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی تقریر سنی تو اس نے آپ سے عرض کیا کہ آپ سے عر ض کیا کہ آپ جو باتیں پیش کررہے ہیں ایسی ہی ایک چیز میرے پاس بھی ہے ۔ آپ نے پوچھا وہ کیا ہے ؟ اس نے کہا مجلّۂ لقمان ۔ پھر آپؐ کی فرمائش پر اسنے اس مجلّہ کا کچھ حصہ آپؐ کو سنایا۔
 
Top