تعارفِ شعری : محمد ندیم بھابھہ- تر و تازہ کیفیات کا شاعر : منتخب کلام

زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں
زمیں کے آخری حصے پہ میں ٹھہرا ہوا ہوں
تمہارے عشق میں جانے کہاں پہنچا ہوا ہوں
ہجومِ خواب سے گھبرا کے آنکھیں کھل گئی تھیں
پھر اس کے بعد میں تنہائی میں کھویا ہوا ہوں
گزارا تھا تمہارے شہر کی گلیوں میں بچپن
تمہارے شہر کی گلیوں میں ہی تنہا ہوا ہوں
نہ جانے کس گھڑی نام و نشاں مٹ جائے میرا
کھنڈر کی آخری دیوار پہ لکھا ہوا ہوں
تم اپنے واسطے کچھ شعر اچھے یاد کر لو
میں ہوں اک درد کا نغمہ بہت گایا ہوا ہوں
تمہارے شہر کے پتھر تو میرے آشنا ہیں
ندیمؔ ان کو تم اتنا کہہ دو میں آیا ہوا ہوں
 
جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت
جسے ہوئی ہے محبت میں اب کے مات بہت
ہیں اس قبیلے سے میرے تعلقات بہت
مری ہتھیلی پہ تم خود کو ڈھونڈنا چھوڑو
مرے نصیب میں آئیں گے حادثات بہت
وہ ہم ہی تھے کہ جنہیں ڈوبنا پڑا ورنہ
سمندروں کے کنارے رکھے تھے ہات بہت
کسی نے اپنے اندھیروں میں روشنی چاہی
کسی کا ذکر کیا چاند نے بھی رات بہت
وہ جس نے عین جوانی میں ہم کو مار دیا
ندیمؔ اس سے جڑی تھیں توقعات بہت
 
سہولت ہو اذیت ہو، تمہارے ساتھ رہنا ہے
سہولت ہو اذیت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
کہ اب کوئی بھی صورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے رابطے ہی اس قدر ہیں تم ہو اور بس تم
تمہیں سب سے محبت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
اور اب گھر بار جب ہم چھوڑ کر آہی چکے ہیں تو
تمہیں جتنی بھی نفرت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
ہمارے پاؤں میں کیلیں اور آنکھوں سے لہو ٹپکے
ہماری جو بھی حالت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
تمہیں ہر صبح اور ہر شام ہے بس دیکھتے رہنا
تم اتنی خوبصورت ہو تمہارے ساتھ رہنا ہے
 
یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے

یونہی اس عشق میں اتنا گوارا کر لیا جائے
کسی پچھلی محبت کو دوبارہ کر لیا جائے
شجر کی ٹہنیوں کے پاس آنے سے ذرا پہلے
دعا کی چھاؤں میں کچھ پل گزارا کر لیا جائے
ہمارا مسئلہ ہے مشورے سے اب بہت آگے
کسی دن احتیاطاً استخارا کر لیا جائے
مرا مقصد یہاں رکنا نہیں بس اتنا سوچا ہے
سفر سے پیشتر اس کا نظارا کر لیا جائے
حوالے کر کے اپنا جسم اک دن تیز لہروں کے
پھر اس کے بعد دریا سے کنارا کر لیا جائے
ندیمؔ اس شہر میں مانوس گلیاں بھی بہت سی ہیں
اور اب آئے ہیں تو ان کا نظارا کر لیا جائے
 
محبت لازمی ہے مانتا ہوں

محبت لازمی ہے مانتا ہوں
مگر ہمزاد اب میں تھک گیا ہوں
تمہارا ہجر کاندھے پر رکھا ہے
نہ جانے کس جگہ میں جا رہا ہوں
مری پہلی کمائی ہے محبت
محبت جو تمہیں میں دے چکا ہوں
مرے چاروں طرف اک شور سا ہے
مگر پھر بھی یہاں تنہا کھڑا ہوں
کوئی تو ہو جو میرے درد بانٹے
مسلسل ہجر کا مارا ہوا ہوں
محبت، ہجر نفرت مل چکی ہے
میں تقریباً مکمل ہو چکا ہوں
 
Top