تصوف ہے کیا

‌ السلام علیکم
تصوف ہے کیا؟ اور کیا یہ کچھ خاص لوگوں کی ملک ہے؟ اس کے عملی مظاہرے کے لیے کیا کچھ مافوق الفطرت صلاحیتوں کا ہونا ضروری ہے؟ آخر تصوف میں کرامتوں پر اتنا زور کیوں ہے؟ اور اس کی دنیا طلسم ہوش ربا اور بوستان خیال کی طرح اتنی پراسرا رکیوں ہے؟ کیا شریعت اور طریقت میں کچھ فرق ہے؟ یہ چند سوالات ہیں جو میرے ذہن میں صوفیا کرام کی سیرت، انکے ملفوظات اور تصوف پر کچھ اور کتب کے مطالعہ سے ہمیشہ پیدا ہوتے رہے ہیں۔ پھر اس سلسلے میں لوگوں کا رویہ بھی عجیب ہے۔ بعض لوگ زور دیتے ہیں کہ اس سلسلے میں پیر حضرات سے رابطہ کیا جائے وہی اس کے رموز سے آگاہ ہیں، یونیورسٹی میں اپنے ایک پروفیسر سے یہ سوالات کیے تو انہوں نے یہ کہ کر قصہ تمام کر دیا کہ
دل کے آئینہ میں ہے تصویر یار کی
جب گردن جھکا ئی دیکھ لی

مگر آخر کا ر مجھے تصوف کی ایک بڑی واضح تصور مل ہی گئی ہے مگر اس سے پہلے دوستو آپ بتائیے کہ آپ تصوف کے بارے میں کن خیالات کے حامل ہیں؟
 

شاکرالقادری

لائبریرین
جناب ابن حسن
سلام مسنون
میں نے تصوف پر کچھ لکھنا شروع کیا تھا اس کا پہلا باب ہے
"تصوف ۘ۔۔۔۔۔۔ لغوی بحث"
اس کو یہاں پیش کر رہا ہوں ۘ یاد رہے کہ یہ صرف لفظ تصوف کے لغوی معنوں پر بحث ہے ۘ تصوف سے مراد کیا ہے اور اس کے اندر کیا معنویت ہےے یہ بحث اگلے مرحلہ میں ہوگی جس کا عنوان ہوگا
"تصوف ۔۔۔۔۔۔۔ معنوی بحث" اور پھر تاریخ تصوف وعیرہ فی الحال پیش ہے تصوف کی لغوی بحث
 

شاکرالقادری

لائبریرین
تصوّف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لغوی بحث
سیدشاکر القادری
لفظ ’’تصوف ‘‘اور’’ صوفی‘‘ کی لغوی بحث میں ماہرین لسانیات و محققین کا ہر دور میں اختلاف رہا ہے چونکہ قرآن و صحاح ستہ میںیہ لفظ موجود نہیں اور عربی زبان کی قدیم لغات میں اس لفظ کا وجود نہیں اس لیے ہر دور کے علماء اور محققین اس بارے میںمختلف آراء اور خیالات ظاہر کرتے رہے ۔ حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش ؒ(۴۰۰۔۴۶۵ھ/۱۰۰۹۔۱۰۷۲ئ) (۱) فرماتے ہیں:
’’مردمان اندر تحقیقِ ایں اسم بسیار سخن گفتہ اند و کتب ساختہ‘‘
لوگوں نے اس اسم کی تحقیق کے بارے میں بہت گفتگو کی ہے اور کتابیں لکھی ہیں۔(۲)
کسی کا کہنا ہے کہ عہد جاہلیت میں ’’صوفہ‘‘ نامی ایک قوم تھی جو اللہ تعالیٰ کے لیے یکسو ہوگئی تھی، بت پرستی سے گریز کرتی تھی اور خانہ خدا کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر دیا تھا پس جن لوگوں نے اس قوم سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے۔ چنانچہ کوفہ کے ایک محدث ولیدبن القاسم(م:۸۳ھ/۷۰۲ئ)(۳) سے صوفی کی نسبت کے بارے میں استفسار کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
’قوم فی الجاھلیۃ یقال لھم صوفہ انقطوا الی اللّٰہ عزوجل وقطنواالکعبہ فمن تشبہ بھم فھم الصوفیۃ۔‘
جاہلیت میں صوفہ کے نام سے ایک قوم تھی جو اللہ تعالیٰ کے لیے یکسو ہوگئی تھی اور جس نے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے اپنے آپ کو وقف کر لیا تھا پس جن لوگوں نے ان سے مشابہت اختیار کی وہ صوفیہ کہلائے۔(۴)
’’صوفہ ‘‘ قوم کے متعلق کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ خانہ کعبہ کے مجاور تھے اور حاجیوں کے آرام وآسائش کے لیے انتظامات کیا کرتے تھے اس قوم کا پہلا شخص ’’غوث بن مُر‘‘ تھا۔ کہا جاتا ہے کہ غوث کی ماں کی کوئی اولاد نہ تھی اور اس نے منت مانی تھی کہ اگر اسکے لڑکا تولد ہوا تو وہ اسے خانہ کعبہ کی خدمت کے لیے وقف کرے گی چنانچہ لڑکا تولد ہوا تو اس کا نام ’’ غوث‘‘ رکھا گیا جوکہ بعد میں ’’ صوفہ‘‘ کے نام سے مشہور ہوا اور اس کی اولاد بھی صوفہ کہلائی۔ صوفہ کو’’ آل صوفان‘‘ اور ’’آل صفوان ‘‘کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے۔(۵)
لفظ صوفی کے اس اشتقاق کے بارے میں علماء مختلف الخیال ہیں کچھ کے نزدیک عربی زبان و قواعد کی رو سے لفظ’’صوفہ‘‘ سے ’’صوفی ‘‘ نہیں بلکہ ’’صوفانی‘‘ بنتا ہے۔جبکہ بعض ماہرین فن اس اشتقاق کو درست مانتے ہیں اور اس سلسلہ میں یہ دلیل پیش کرتے ہیں کہ اگر ’’کوفہ‘‘ سے’’کوفانی‘‘ کا الف نون گرا کر ’’کوفی‘‘ بن سکتا ہے تو ’’صوفہ‘‘ سے’’صوفی‘‘ کا اشتقاق کسی طور غلط نہیں ہوسکتا۔تاہم اس رائے کا اعتباراس وجہ سے نہیں کہ ایک غیر معروف قوم جس کا امتیاز رہبانیت رہا ہو، کی طف انتساب کو مسلمان اچھی نگاہ سے نہیں دیکھ سکتے۔
کسی کا خیال ہے کہ صوفی یا تصوف لفظ ’’ صف‘‘ سے ماخوذ ہے کیونکہ صوفیہ وہ لوگ ہیں جو خدا کے حضور صف اول میں کھڑے ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ کو سب سے زیادہ محبوب ہیںچنانچہ شیخ ابوالحسین نوریؒ(م ۲۹۵ھ/۹۰۷ئ) (۶)کا قول ہے:
’الصوفیۃ ھم الذی صفت ارواحھم فصاروا فی الصف الاول بین یدی الحق۔‘
’’صوفیہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے اپنی روحوں کو صاف کیا پس وہ اللہ کے حضور صف اول میں ہو گئے‘‘(۷)
امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیریؒ(۳۷۶۔ ۴۶۵ھ / ۹۸۶۔ ۱۰۷۲ء )(۸)کے نذدیک تصوف ’’صفوۃ‘‘ سے بنا ہے جس کے معنی بزرگی کے ہیں اس لفظ کو بہترین اور خالص کے معنوں میں بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ چنانچہ امام موصوف کے بیان کے مطابق ایک دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
’ذھب صفوالدنیا و بقی الکدر فالموت الیوم تحفۃ لکل مسلم‘
’’دنیا کی صفائی جاتی رہی اور کدورت باقی رہی پس موت آج ہر مسلمان کے لیے تحفہ ہے‘‘(۹)
امام قشیریؒ کے بقول چونکہ اس جماعت کے لوگ خدا اور رسول ؐ سے خالص تعلق پر زور دیتے ہیں اس لیے یہ صوفیہ کہلائے اوریہ جماعت اسی نام سے مشہور ہوئی۔امام قشیریؒ کا کہنا ہے کہ عربی زبان کے قیاس اور قاعدۂ اشتقاق سے اس نام کی تائید نہیں ہوتی اس لیے لگتا ہے کہ یہ لقب کے طور پر مشہور ہوا۔(۱۰)
ایک طبقہ کی رائے ہے کہ صوفی ’’صفا‘‘ سے مشتق ہے اور صوفیہ کی ایک بڑی جماعت اس رائے کی قائل ہے چنانچہ شیخ بشر بن الحارث الحافی[L:4 R:220]۱۵۰۔۲۲۷ھ/۷۶۷۔۸۴۱ئ[L:4 R:219](۱۱) کا قول ہے کہ:
’الصوفی من صفا قلبہ للّٰہ‘
’’ صوفی وہ ہے جس نے اللہ کے لیے اپنے دل کو صاف کیا‘‘(۱۲)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش ، شیخ زکریا انصاریؒ(۸۲۳۔۹۲۶ھ / ۱۴۲۰۔۱۵۲۰ئ) (۱۳) ، غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادرؒ جیلانی(۴۷۱۔۵۶۱ھ/۱۰۷۸۔۱۱۶۶ئ)(۱۴) اور بہت سے دوسرے اکابر صوفیا اسی نظریہ سے متفق ہیں۔
غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادرؒ جیلانی کا قول ہے:
’’ صوفی ’’فوعل‘‘ کے وزن پر ہے اور یہ مصافاۃ سے ماخوذ ہے یعنی وہ بندہ جسے حق تعالیٰ عزو جل نے صاف کیا‘‘(۱۵)
حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش کشف المحجوب میں فرماتے ہیں:
ہر ایک کے نزدیک تصوف کے معانی کی تحقیق میں بہت سے لطائف ہیں مگر لغت کے اعتبار سے اس لفظ تصوف کے مفہوم سے ان کا دور کا واسطہ بھی نہیں ہے۔پس ان سب میں سے صفا قابل تعریف ہے اور اس کی ضد کدورت ہے۔رسول اللہﷺ نے فرمایا ہے:’’دنیا کی صفائی جاتی رہی اور اس کی کدورت باقی رہ گئی‘‘ کسی چیز کی لطافت، خوبی اور پاکیزگی کا نام صفائی اور کسی چیز کی کثافت اور میلا پن اس کا تکدرہے پس جب اس قصہ والوںیعنی اہل تصوف نے اپنے تمام اخلاق و معاملات کو مہذب کر لیا اور اپنی طبیعت کو آفات و رزائل بشری سے بچا لیا اس لیے انہیں صوفی کہا جاتا ہے۔(۱۶)
حضرت داتا گنج بخشؒ نے کشف المحجوب میں کسی شاعر کا یہ شعر نقل کیا ہے جس سے اس رائے کی تائید ہوتی ہے:
ان الصفا صفۃ الصدیق
ان اردت صوفیا علی التحقیق
’’ اگر تم حقیقتاً صوفی بننا چاہتے ہوتو تمہیں صدیق اکبرؓ کی پیروی کرنا ہوگی کیونکہ صفائے باطن ان کی صفت ہے‘‘۔(۱۷)
بعض مورخین صوفی کو یونانی لفظ ’’سوف‘‘ سے ماخوذ بتاتے ہیں جس کے معنی حکمت و دانائی کے ہیں۔ یورپ کے کچھ مستشرقین کا خیال بھی یہی ہے۔ علامہ ابو ریحان البیرونی (۳۶۳۔۴۴۰ھ/۹۷۳۔۱۰۴۸ئ) (۱۸) کتاب الہند میں لکھتے ہیں:
’ھذا رای السوفیہ و ہم الحکماء فان سوف بالیونانیۃ الحکمۃ وبھا یسمی الفیلسوف فیلاسوفا ای محب الحکمۃ ولما ذھب فی الاسلام قوم الی قریب من رایھمسموا باسمھم ولم یعرف اللقب‘
’’ یہ صوفیہ کی رائے ہے جو حکماء ہیں کیونکہ سوف یونانی زبان میں حکمت کو کہتے ہیں اسی لیے فلسفی کو فلاسفر کہا گیا کیونکہ وہ حکمت سے محبت رکھتا ہے۔ اور مسلمانوں میں ایک طبقہ ان کی رائے کے قریب ہو گیا تو وہ بھی انہی کے نام سے موسوم ہوا‘‘(۱۹)
علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷۔۱۹۴۱ئ)(۲۰)بھی اسی رائے کی تائید کرتے ہیں ان کے خیال میں تصوف کا لفظ ’’سین‘‘ سے تھا جس کا ماد ’’ سوف‘‘ یعنی حکمت تھا دوسری صدی میں یونانی کتابوں کے تراجم ہوئے تو یہ لفظ عربی میں آیا اور بعد میں ’’ص‘‘ سے لکھا جانے لگا۔(۲۱)
بعض علماء کا خیال ہے کہ صوفی کی اصل ’’صفہ‘‘ ہے صفہ پیش دالان یا چبوترہ کو کہتے ہیں عہد رسالتؐ میں کچھ لوگ مسجد نبوی کے شمال میں واقع ایک چبوترے پر قیام رکھتے تھے۔ انہیں ’’اصحاب صفہ‘‘ کہتے ہیں۔ یہ وہ صحابی تھے جن کے پاس بجز توکل اور فقر و قناعت کے کوئی سرمایہ نہ تھا۔ اور یہ ماسوائے عبادت کے دنیا کے کسی کام میں دلچسپی نہ لیتے تھے انہوں نے دنیا کو بالکل ترک کر رکھا تھا حتیٰ کہ کھانے پینے سے بھی کوئی رغبت نہ رہتی تھی۔اس نظریہ کے حامل علمأ کی رائے میں یہ صوفیہ کی پہلی باقاعدہ جماعت تھی جس نے صوفیانہ ریاضت و مجاہدہ کو تمام دنیوی امور پر مقدم سمجھا اور مستقل طور پر بارگاہ نبویﷺ میں رہ کر سلوک و طریقت کی منازل طے کیں، انہی کے بارے میں یہ آیت نازل ہوئی:
وَلَاتَطرُدِالَّذِینَ یَدعُونَ رَبَّھُم بِالغَدَوٰ ۃِ وَالعَشِیِّ یُرِیدُونَ وَجہَہُ
’’اور ان لوگوں کو دور نہ کیجئے جو صبح وشام اپنے پروردگار کو پکارتے ہیں اور اس کی ذات پاک کی خواہش رکھتے ہیں‘‘(۲۲)
اور ایک مقام پر ارشاد ربانی ہے:
’للفقراء الذین احصروا فی سبیل اللّٰہ لا یستطیعون ضربا فی الارض یحسبھم الجاھل اغنیائَ من التعفف تعرفھم بسیماھم‘
خیرات ان لوگوں کاحق ہے جو اللہ کی راہ میں رکے ہوئے ہیں(کسب کے قابل نہیں رہے دین کے کاموں میں ہمہ تن مشغول ہیں) وہ زمین پر چل پھر نہیں سکتے ناواقف ان کو سوال نہ کرنے کے باعث تونگر اور دولت مند سمجھتے ہیں تم ان کو ان کے چہرے سے پہچان لیتے ہو۔(۲۳)
لفظ صوفی کی اصل’’صفہ‘‘ ہونے کے قائلین کا خیال ہے کہ اصحاب صفہ ہی در اصل گروہ صوفیہ کے پیش رو تھے۔ان کے نزدیک لغوی طور پر’’صفہ ‘‘سے لفظ ’’صوفی‘‘ کا بننا درست نہ قرار پائے تب بھی معنوی طور پر بالکل درست ہے کیونکہ’’ صوفیہ ‘‘ کا حال بالکل ’’ اصحاب صفہ‘‘ کے مشابہہ و مماثل ہے۔ اور یہی وجہ ہے کہ تمام صوفیہ اصحاب صفہ کی طرف منسوب ہونا اپنے لیے باعث فضیلت و افتخار سمجھتے ہیں۔
اصحاب صفہکی تعداد سترسے سات سو تک بیان کی جاتیہے۔ یہ لوگ مسجد نبوی کے چبوترہ پر قیام کرتے اور ہمہ وقت تزکیہ نفس اور تصفیہ باطن کی جدوجہد میں مضروف رہتے تھے ۔اصحاب صفہ میں کم کھانا اور تجرد، دو نمایاں خصوصیات تھیں۔
امام ترمذی روایت کرتے ہیں:
’کان اذا صلی بالناس بخر رجال من قامتھم فی الصلاۃ من الخصل صہ وھم اصحاب الصفہ حتی تقول الاعراب ھولاء مجانین او مجانون فاذا صلی رسول اللہ انصرف الیھم فقال لو تعلمون مالکم عند اللہ لا جیتم ان تزدادو افاقہ و حاجہ ‘
جب حضور ﷺ نماز پڑھا رہے ہوتے تو اصحاب صفہ میں کئی افراد بھوک کے باعث کمزوری کی وجہ سے گر پڑتے اعراب کہتے یہ لوگ پاگل ہیں۔جب حضور ﷺ نماز سے فارغ ہوتے تو ان کی طرف متوجہ ہو کر فرماتے۔ ’’اگر تمہیں معلوم ہو تاکہ تمہارے لیی اللہ تعالیٰ کے ہاں کیا (ثواب) ہے تو تم فقر اور فاقہ کا اضافہ چاہتے۔‘‘(۲۴)
اصحاب صفہ کے تجرد کے بارے میں امام صاویؒ اور علامہ شبلی نعمانی ؒ لکھتے ہیں۔
’’ ان لوگوں نے اپنی زندگی صرف عبادت اور انحضرت ﷺ کی تربیت پذیری پر نذر کر دی تھی۔ان کے بال بچے نہ تھے اور جب شادی کرلیتے تو اس حلقہ سے نکل جاتے تھے‘‘(۲۵)
حضرت عبداللہ بن عباس ؓ سے راوی ہیں کہ:
وقف رسول اللہ ﷺ اصحاب الصفتہ فرای فقرھم وجھہ ھم و طلب قلوبھم فقال ابشر وایا اصحاب الصفتہ فمن بقی من امتی علی النعت الذی انتم علیہ رضیاً بمآ فیہ فانھم من رفقائی فی الجنتہ۔
رسول اللہ ﷺ اصحاب صفہ کے پاس جا کی کھڑے ہو گئے اور ان کی تنگ دستی اور مجاہدے اور پھر اس حالت میں ان کے قلوب کے اطمینان کو دیکھا تو فرمایا اے صفہ والو !تمہیں مبارک کہ میری امت کا جو شخص اس صفت پر رہے گا جس پر تم ہو پھر اس پر راضی بھی رہے تووہ جنت میں میرے رفقاء میں ہو گا۔(۲۶)
بیشترعلما جن میں شیخ ابوبکر کلاباذی(م:۳۸۰ھ/۹۹۰ئ)(۲۷) امام ابن تیمیہ (۱۲۶۳ء۔۱۳۲۸ئ) ((۲۸) علامہ ابن خلدون(م:۱۳۳۲۔۱۴۰۶ئ)(۲۹) وغیرہ شامل ہیںکے مطابق تصوف ’’صوف‘‘ یعنی اُون سے بنا ہے اس نظریہ کے قائلین کا خیال ہے کہ چونکہ اونی لباس انبیائے کرام ؑاور اولیائے عظام ؒ کا پہناوا اور شعار رہا ہے اور صوف کو ہمیشہ ترک دنیا کی علامت سمجھا گیا ہے اس لیے اہل تصوف نے اس لباس کو اختیار کیا جس کی بنا پر یہ گروہ صوفیہ کے نام سے مشہور ہوا۔ ان کے نزدیک ان کا یہ معمول سنت نبویﷺ سے ماخوذ ہے چنانچہ مغیرہ بن شعبہ ؓ سے روایت ہے کہ:
’فغسل وجھہ و یدیہ و علیہ جبہ من صوف‘
’’پھر آپﷺ نے اپنے چہرہ اقدس اور دونوں ہاتھوں کو دھویا اس وقت آپ نے اونی جبہ زیب تن فرمایا ہوا تھا‘‘ (۳۰ )
حضرت انس بن مالکؓ سے مروی ہے کہ:
’لبس رسول اللّٰہ(ﷺ) الصوف‘
’’رسول اللہ(ﷺ) نے اونی لباس پہنا‘‘(۳۱)
المواہب اللدنیہ میں روایت ہے:
’کان رسول اللّٰہ(ﷺ) یلبس ثیابا من الصوف‘
’’حضور(ﷺ) اونی لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے‘‘ (۳۲ )
لفظ ’’صوفی‘‘ کے اشتقاق کے بارے میں علامہ ابن خلدون کی رائے کچھ اس طرح ہے:
’’ہمارے نزدیک یہ بات زیادہ قرین قیاس ہے کہ صوفی کا اشتقاق ’’صوف‘‘ ہی سے ہو اس کی وجہ یہ ہے کہ اول اول جب دوسرے لوگوں نے لباس فاخرہ پہننا شروع کیا تو انہوں نے پشمینہ کو ترجیح دی تاکہ ان میں اور ان لوگوں میں امتیاز ہو سکے جن کی توجہات دینی کو دنیا کی لذتوں نے اپنی طرف کھینچ لیا۔پھر جب زہد اور مخلوق سے علیحدگی و انفراد اور عبادت و ذوق ہی ان کا شیوہ قرار پایا تو ترقیات روحانی ان کے ساتھ مخصوص ہوئیں اور یہی اختصاص ان کی پہچان ہوئی۔‘‘(۳۳)
شیخسیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش کشف المحجوب پشمینہ پوشی کے بارے میں فرماتے ہیں:
’’یادرکھیں صوفیا کا طریقہ کمل اور گدڑی پہننا ہے اور مرقعات پہننا سنت ہے بایں وجہ کہ رسول اللہﷺ کا ارشاد ہے’ علیکم بلبس الصوف تجدون حلاوۃ الایمان فی قلوبکم‘ اپنے اوپر صوف کا پہننا لازم کر لوتو دلوں میں ایمان کا مٹھاس پائوگے نیز ایک صحابی کا قول ہے ’کان النبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم یلبس الصوف و یرکب الحمار‘ نبی کریم رؤف الرحیم صوف پہنتے تھے اور گدھے پر سواری فرمایا کرتے تھے نیز پیغمبر علیہ السلام نے سیدہ طاہرہ حمیرا حضرت عائشہ سے فرمایا ’ولاتضیعی الثوب حتیٰ ترقعیہ‘جب تک کپڑے پر پیوند نہ لگا لو کپڑے کو ضائع نہ کیا کرواور فرمایا تمہیں پشم کا لباس پہننا چاہیے‘‘(۳۴)
حضرت داتا گنج بخشؒ ایک اور مقام پر خواجہ حسن بصریؓ(۲۱۔۱۱۰ھ/۶۴۳۔۷۲۸ئ)(۳۵) کایہ قول نقل کرتے ہیں کہ:
میں نے ستر بدری صحابہ کی زیارت کی جن کا لباس پشم کا تھاحضرت ابوبکر صدیقؓ اپنے تجرد عن الدنیا کی وجہ سے ہمیشہ صوف کا لباس پہنتے تھے‘‘(۳۶)
مزید لکھتے ہیں:
’’امیر المؤمنین عمر ابن خطابؓ، امیر المؤمنین سید ناعلی ابن ابی طالبؑ اورحرم بن حیانؓ سے مروی ہے کہ انہوں نے اویس قرنی ؒ کو بھی اون کا لباس پہنے دیکھاجس پر کئی پیوند لگے تھے۔‘‘(۳۷)
اس کے علاوہ مختلف کتب تصوف و تاریخ میں اکثر اکابر صوفیا کی پشمینہ پوشی کے بارے میںتواتر سے لکھا گیا ہے جس کی اجمالی صورت کچھ اسطرح ہے :
O اور داؤدطائی جوکہ محقق صوفیا میں سے ہیں صوف کا لباس زیب تن فرمایا کرتے تھے۔(کشف المحجوب)
O حضرت ابراہیم بن ادھم اون کا لباس زیب تن فرما کر حضرت امام اب حنیفہؒ کی خدمت میں حاضر ہوئے۔(کشف المحجوب)
O بہلول ابن ذہیب نے جب زاہدانہ زندگی اختیار کی تو صوف پہن کر مدینہ کی پہاڑیوں میں چلا گیا۔
O شیخ ابراہیم بن ادھم نے زوہد اختیار کیا تو ایک گڈریے سے صوف کا جبہ حاصل کیا۔(طبقات الصوفیہ)
O حضرت حماد بن سلمہ جب بصرہ گئے تو حضرت حسن بصری کے شاگرد فرقد سے سبخی صوف کا لباس پہنے ان سے ملنے آئے ۔(العقد الفرید)
O عبدالکریم ابو امیہ صوف کا لباس پہن کر ابوالعالیہ کے پاس گئے ۔(تلبیس ابلیس)
O قتیبہ بن مسلم نے بصرہ کے ایک زاہد محمد بن واسع سے صوف پہننے کی وجہ پوچھی تو انہوں نے جواب دیا میں نہیں چاہتا کہ آپ سے کہوں کہ فقر کی وجہ سے پہنا ہے اس صورت میں اپنے رب کی شکایت کروں گا اور یہ بھی نہیں کہنا چاہتا کہ زہد کی وجہ سے پہنا اس صورت میں اپنی بزرگی جتلائوں گا۔(العقد الفرید ،احیاء العلوم)

صوف تارک الدنیا لوگوں کے لباس کی حیثیت سے اس قدر مشہور ہو چکا تھا کہ نام نہاد صوفی اور زاہد بھی اس لباس کو اپنانے لگے اور بعض ایسے لوگ بھی اس لباس کو پہننے لگے جو اپنے دلوں میں کبر و نخوت کے بت سجائے ہوئے تھے اور یہ محض ایک رسم و رواج بن کر رہ گیا۔حضرت داتا گنج بخش فرماتے ہیں :
اب اگر اہل زمانہ سے بعض دنیاوی جاہ جمال کی خاطر گدڑی پہنتے ہیں اور ان کا باطن ظاہر حال کے خلاف ہے تو یہ جائز ہے اس لیی کہ پورے لشکر میںمرد میدان بہادر تھوڑے ہوتے ہیں ۔اور اسی طرح پوری قوم میں محقق ایک آدھ ہوا کرتا ہے لیکن ان کے تمام اصحاب کو انہی کی طرف منسوب کیا جاتا ہے اس لیی کہ وہ ایک چیز میں تو ان سے مشابہ ہوتے ہیں اس لیی گدڑی پوش بھی ایک آدھ چیز میں تو صوفیوں سے مشابہت رکھتے ہیں اور نبی کریم ﷺ کا فرمان علی شان ہے کہ ’من تشبہ بقوم فھو منھم‘ جس نے کسی قوم کی لباس یا اعتقاد رسم و رواج میں مشابہت اختیار کی اس قوم سے شمار ہو گا ایک جماعت کی نگاہ ان کی ظاہری راہ و رسم پر پڑتی ہے اور دوسری جماعت کی ان کے باطن کی صفائی اورستر پر پڑتی ہے۔(۳۸)
 

شاکرالقادری

لائبریرین
حواشی و حوالہ جات​
(۱)

حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری ثم لاہوری معروف بہ داتا گنج بخش ؒ(۴۰۰۔۴۶۵ھ/۱۰۰۹۔۱۰۷۲ئ)ہجویر اور جلاب غزنین کے دو گائوں ہیں شروع میں آپ کا قیام یہیں رہا اس لیے ہجویری اور جلابی کہلائے۔ سلسلہ نسب حضرت علی مرتضیٰ ؑسے ملتا ہے۔روحانی تعلیم جنیدیہ سلسلہ کے بزرگ حضرت ابوالفضل محمد بن الحسن ختلی ؒ سے پائی ۔پیر کے حکم سے ۱۰۳۹ء میں لاہور پہنچے کشف المحجوب آپ کی مشہور تصنیف ہے۔لاہور میں بھاٹی دروازہ کے باہر آپ کا مزار مرجع خلائق ہے ۔عوام آپ کو گنج بخش (خزانے بخشنے والا) اور داتا صاحب کہتے ہیںاور آپ انہی القابات سے مشہور ہیں (انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۲) حضرت سیدابوالحسن علی بن عثمان الجلابی الہجویری۔کشف المحجوب۔ ص ۲۷،
۲۸(۳) الولید بن القاسم بن الوید ہمدانی کا تعلق کوفہ سے تھا۔ علماء رجال میں سے امام احمد بن حنبلؒ، ابن حبانؒ اور ابن عدیؒ انہیں ثقہ قرار دیتے ہیں مگر مشہور ماہر فن یحییٰ ابن معینؒ انہیں ضعیف کہتے ہیں۔ ابن حجر عسقلانیؒ انہیں حفاظ حدیث کے آٹھویں طبقہ میں شمار کرتے ہیں۔ اس طبقہ میں شامل افراد پر ضعف کا اطلاق ہوتا ہے اگرچہ ضعف کی صراحت نہیں کی گئی۔
(۴) محمد بن طاہر المقدسی، صفوۃ التصوف،تعلیق احمدشرباصی،دارالتصنیف مصر، ۱۳۷۰ھ/ ۱۹۷۱ء ، ص: ۷
بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ، لاہور، ۱۹۷۷ء
(۵) ابوالقاسم محمود بن عم الزمحشری۔ اسا س البلاغۃ۔ تحقیق استاذ عبدالرحیم محمود۔ دارالمعرفۃ، بیروت لبنان،۱۴۰۲ھ/۱۹۸۳ء۔ص:۲۶۲۔بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف (قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء
(۶) ابوالحسین احمد بن محمدبن محمدالمعروف بہ شیخ ابوالحسین نوریؒ بغداد میں پیدا ہوئے شیخ سری سقطیؒ کے مرید تھے۔ سلسلہ نوریہ آپ سے منسوب ہے۔آپ کی تعلیمات سلسلہ جنیدیہ سے ملتی جلتی ہیں۔شیخ جنید بغدادیؒ آپ کا بے حد احترام کیا کرتے تھے۔آپ صاحب کشف و شہود بزرگ تھے۔(حلیۃ الاولیاء، طبقات الکبریٰ، نفحات الانس وغیرہ)
(۷) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۶۳(۸) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیریؒ(۳۷۶۔ ۴۶۵ھ / ۹۸۶۔ ۱۰۷۲ء ) خراسان میں علم و فضل کے امام اور تصوف کے شیخ تھے شیخ ابو علی دقاقؒ سے خرقہ تصوف حاصل کیا۔ نیشا پور میں وفات پائی اور اپنے مرشد کے پہلو میں دفن ہوئے’’الرسالۃ القشیریہ‘‘ آپ کی مشہور تصنیف ہے( خطیب بغدادی۔ تاریخ بغداد۔بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد ساہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء حاشیہ،ص:
۱۸(۹) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیریؒ۔ الرسالۃ القشیریہ۔۔
(۱۰) امام ابوالقاسم عبدالکریم بن ہوازن قشیریؒ۔ الرسالۃ القشیریہ۔۔
’ لیس یشھد لھذاالاسم من حیث العربیۃ قیاس ولا اشتقاق والاظھرانہ فیہ کاللقب۔‘
(۱۱) ابونصر بشر بن الحارث بن علی بن عبدالرحمن المعروف بہ حافی مرو کے ایک گائوں میں پیدا ہوئے بعداد میں مشہور آئمہ سے حدیث سنی زہد و تقویٰ اور ریاضت میں اپنا ثانی نہیں رکھتے تھے۔آپ کو تمام آئمہ حدیث نے ثقہ قرار دیا ہے۔آپ کا انتقال ہوا تو تمام محدثیں کو انتہائی رنج ہوا۔ امام احمد بن حنبلؒ نے ان کی موت کی خبر سن کر فرمایا ’’ انہوں نے اپنی مثال نہیں چھوڑی‘‘ (الطبقات الکبریٰ، البدایہ والنہایہ، سفینۃ الاولیاء وغیرہ)
(۱۲) ابوالعلا عفیفی، التصوف، اسکندریہ، مصر،۱۹۶۳ء ص:۳۱بحوالہ ڈاکٹرغلام قادر لون، مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء: حاشیہ ص:
۲۰ (۱۳) شیخ زکریا انصاریؒ(۸۲۳۔۹۲۶ھ / ۱۴۲۰۔۱۵۲۰ئ) شیخ الاسلام ،قاضی،مفسر اور عالم حدیث تھے مصر میں پیدا ہوئے۔قاضی کے عہدے سے معزولی کے بعد جامع مسجد میں فقروفاقہ کی زندگی بسر کرتے تھے ۔رات کو نکلتے تو تربوزہ کے چھلکے اٹھا کر کے کھاتے ۔مدتوں ان کے زہدوتقویٰ اور فضل و کمال کا لوگوں کو پتا نہیں چلا۔تفسیر ، حدیث ،فقہ اور منطق میں کثیر التصانیف عالم تھے۔(مطالعہ تصوف(قرآن و سنت کی روشنی میں) ناشر محمد شاہد عادل ،لاہور، ۱۹۷۷ء: حاشیہ ص:۲۱)
(۱۴) غوث الاعظم سیدنا شیخ عبدالقادرؒ جیلانی(۴۷۱۔۵۶۱ھ/۱۰۷۸۔۱۱۶۶ئ)مشہور صوفی بزرگ ،ایران کے قصبہ گیلان میں پیدا ہوئے۔۱۸سال کی عمر میںوالدہ کی اجازت سے بغرض حصول تعلیم بغداد تشریف لے گئے تعلیم کی تکمیل کے بعد عبادات و مجاہدات شروع کیے ۲۵ برس تک رات دن یاد حق کے سوا کچھ کام نہ تھا۔سالہا سال عشا کے وضو میں صبح کی نماز پڑھی۔بے شمار راتیں آنکھوں میں گزرگئیں اور پلک سے پلک نہ ملنے دی۔نیند کا غلبہ ہوتا تو ایک پائوں پر کھڑے ہو جاتے اور نفلوں میں پورا قرآن شریف ختم کر دیتے۔عبادات و ریاضت اور صحرانوردی میں عرصہ در از گزرنے کے بعد بغداد میں وعظ کرنے لگے ۔آپ کے صاحبزادے ابو عبداللہ راوی ہیں کہ آپ ہفتے میں تین بار تقریر عام کرتے تھے۔چالیس برس تک دین کی علمی و روحانی خدمت نجام دی۔چار سو آدمی آپ کا وعظ قلمبند کرتے جاتے تھے۔فقہ میں آپ امام شافعی اور امام جنبل کے پیرو تھے۔آپ کی تصانیف’’فتوح الغیب اور غنیہ الطالبین‘‘بہت مشہور ہیں۔تمام اکابرصوفیا آپ کی جلالت منصب کے قائل ہیں۔صوفیہ کا کوئی تذکرہ آپ کے ذکر سے خالی نہیں۔تصوف میں سلسلہ قادریہ آپ ہی سے منسوب ہے۔(انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۱۵) حضرت عبد القادر جیلانی ؒ۔غنیہ الطالبین ص ۱۰۹۔
(۱۶) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۵۴(۱۷) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۵۵(۱۸) ماہر طبیعات و فلکیات، محقق و مؤرخ یونانی اور ہندی فلسفہ کے ماہر اور ریاضی داں ابوریحان محمد بن احمد البیرونی شہر خوارزم کے محلہ بیرون میں پیدا ہوئے اسی نسبت سے البیرونی کہلائے کئی برس تک ہندوستان میں قیام کیا اور سنسکرت زبان سیکھی محمود غزنوی کے دربار سے بھی وابستہ رہے۔۔ ہندوستان کے مسلمانوں کے مذہبی اور سماجی حالات پر معرکۃ الآراء کتاب لکھی جس کا نام ’’کتاب الہند‘‘ ہے خوارزم میں انتقال کیا۔( انسائیکلوپیڈیا فیروز سنز)
(۱۹) ابوریحان البیرونی۔ کتاب الہند۔ص
۱۶(۲۰) علامہ شبلی نعمانی (۱۸۵۷۔۱۹۴۱ئ) مشہور شاعر، محقق، نقاد، مؤرخ اور سیرۃ نگار ، اعظم گڑھ میں پیدا ہوئے۔علوم دینیہ کے فروغ کے لیے قائم ہونے والے مشہور ادارے’’ ندوۃ العلماء ‘‘کے بانی، حکومت کی جانب سے شمس العلماء کا خطاب ملا، ترکی کے سلطان کی جانب سے تمغہ مجیدی عطا ہوا۔ان کا خاص موضوع تاریخ تھا۔جدید طرز تنقید و تنقیح کے مطابق کئی سیاسی اور ادبی تاریخیں لکھیں، اردو اور فارسی دو نوں میں شعر کہتے تھے۔ ان کی تصانیف میں: الفاروق، المامون، الغزالی اور سیرۃ النبیؐ وغیرہ شامل ہیں ۔ (انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۲۱) علامہ شبلی نعمانی۔ الغزالی،ص
۱۰۴(۲۲) القرآن الحکیم:سورہ الانعام۶:
۵۲(۲۳) القرآن الکریم: سورہ بقرہ۲:
۲۷۲(۲۴) جامع الترمذی :۲:
۵۹(۲۵) سیرت النبی مطبوعہ اعظم گڑھ، ۱:۲۷۱ وحاشیہ الصاوی مطبوعہ مصر،۱:۱۳۰
بحوالہ پروفیسر ڈاکٹر محمد طاہر القادری۔سلوک و تصوف کا عملی دستور۔
منہاج القرآن پبلی کیشنز، لاہور،۲۰۰۲، ص
۴۵(۲۶) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۱۲۷(۲۷) ابوبکرمحمد بن ابراہیم الکلاباذی البخاری، بخارا کے محلہ کلاباذ کے رہنے والے اور اسی سے منسوب ہیںحفاظ حدیث اور کبار صوفیہ میں ان کا شمار ہوتا ہے تصوف میں ان کی کتاب ’’التعرف لمذہب اہل التصوف‘‘ بہت مشہور ہے اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ایک بزرگ کا قول ہے اگر کتابالتعرف نہ ہوتی توتصوف نہ جانا جاتا۔ یہ تصوف کی بنیادی کتابوں میں سے ہے(کشف الظنون و سفینۃ الاولیاء وغیرہ)
(۲۸) تقی الدین ابوالعباس احمد بن عبدالحکیم بن عبدالسلام بن عبداللہ بن محمد الحرافی الحنبلی، ساتویں پشت میں ان کی ایک دادی’’ تیمیہ‘‘ علم و فضل میں صاحب کمال تھین اسی وجہ سے اس خاندان کا ہر شخص ابن تیمیہ کے نام سے مشہور ہوا ابن تیمیہ موصل اور شام کے درمیاںن ایک چھوٹے سے شہر حران میں پیدا ہوئے بیس سال کی عمر میں تحصیلات سے فارغ ہوکر علمائے کبار میں شمار ہونے لگے۔علوم عقلی و نقلی اور علوم اہل کتاب کے فاصل تھے۔ مسلمانوں کے مختلف فرقوں میں امام ابن تیمیہ متنازعہ حیثیت رکھتے ہیں۔ تین سو کے قریب تصنیفات ہیں۔ (انسائیکلوپیڈیا فیروز سنز)
(۲۹) مشہور مؤرخ ، فقیہ، فلسفی اور سیاستدان، پورا نامابو زید ولی الدین عبدالرحمن ابن خلدون ہے۔ تیونس میں پیدا ہوئے۔انہیں علم تاریخ اور عمرانیات کا بانی تصور کیا جاتا ہے ان کا سب سے بڑا کارنامہ’’المقدمۃ فی التاریخ‘‘ کی تصنیف ہے جو کہ مقدمۂ ابن خلدون کے نام سے مشہور ہے۔ یہ تاریخ، سیاسیات، عمرانیات ،فلسفہ، ادبیات اور اقتصادیات کا گرانقدر سرمایہ ہے۔(انسائیکلو پیڈیا فیروز سنز)
(۳۰) صحیح بخاری، ۲:
۸۶۳(۳۱) سنن ابن ماجہ:
۲۶۳(۳۲) المواہب اللدنیہ:
۵۷(۳۳) مولانا محمد حنیف ندوی۔ ۔ افکار ابن خلدون، ادارۂ ثقافت اسلامیہ، لاہور، ۱۹۸۷ء، ص
۲۱۲(۳۴) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۷۳(۳۵) خواجۂ خواجگان حضرت ابو محمد حسن بصری ؒ کی ولادت با سعادت ۲۱ہجری بمطابق۶۴۲ء کو خلیفۂ ثانی حضرت عمر فاروق ؓ کے دور میں ہوئی آپ کے والد ماجد موسی راعی ؓ زیدبن ثابت انصاری ؓکے آزاد کردہ غلام تھے ۔آپ کی والدہ ماجدہ ،ام المؤمنین حضرت ام سلمہ ؓ کی لونڈی تھیں۔ تمام اکابر صوفیہ بالاتفاق آپ کو شیخ الشیوخ مانتے ہیں اور آپ کا حضرت علی ؓ سے اکتساب فیض اور خرقہ ٔخلافت پانا تسلیم کرتے ہیں ۔ آپ نے آخر عمر میں بصرہ میں سکونت اختیار کر لی تھی وہیں پانچویں رجب المرجب سن ۱۱۰ہجری بمطابق ۷۲۸ء واصل بحق ہوئے اور وہیں آپ کا مزار پرانوار ہے۔(سید شاکر القادری ۔چشمہ ٔ فیض،ن والقلم ادارہ مطبوعات اٹک ،ص ۵)
(۳۶) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۷۳(۳۷) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
۷۴(۳۸) شیخ ابوالحسن سید علی بن عثمانؒ ہجویری ثم لاہوری۔ کشف المحجوب۔،، مترجم محمد اسحاق ظفر۔، مشتاق بک کانر،لاہور ۔ ت ن۔ ص:
 
بہت خوب شاکر صاحب
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
اس سلسلے کی مزید کڑیوں کا انتظار رہے گا۔ آپ اس کو مکمل کر لیجیے پھر میں بھی کچھ عرض کروں گا۔
 

شاکرالقادری

لائبریرین
ابن حسن نے کہا:
بہت خوب شاکر صاحب
اللہ کرے زور قلم اور زیادہ
اس سلسلے کی مزید کڑیوں کا انتظار رہے گا۔ آپ اس کو مکمل کر لیجیے پھر میں بھی کچھ عرض کروں گا۔
شکریہ جناب قدر افزائی کا!
لیکن باقی کڑیوں کی تکمیل کے لیے زحمت کش انتظار نہ رہیے جب بھی وہ کام مکمل ہوا یہاں پوسٹ کردونگا اگر زندگی نے وفا کیۘ ۔
آپ اگر اس سلسلہ میں کچھ کہنا چاہتے ہیں تو کہیے
ہم منتظر ہیں ممکن ہے ہم آپ سے استفادہ کر سکیں
جزاک اللہ
 
Top