تصنیف را مصنف نیکو کند بیاں سید انصر از ناہید اختر انڈیا

تصنیف را مصنف نیکو کند بیاں سید انصر
ناہید اختر انڈیا، کے بی این ٹائمز ۲۵ دسمبر ۲۰۲۲ ء​

موجودہ دور میں ہماری فکر، ہماری سوچ اور ہم کن حالات میں جی رہے ہیں ۔ اسکی جامع تصویر و تشریح کرلیں تو مختلف قسم کے اختلافی ذخائر برآمد ہوتے ہیں ۔ اس میں ہمیں حیران ہونے کی ضرورت نہیں ہے ۔ چونکہ ہر دور اسی طرح بے بضاعتی رہا ہے ۔ جس ترتیب سے یہ ادوار ہمیں موصول ہوئے ہیں ۔ ان کی ہیت معنی و مفہوم پر بہ سلیقہ غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ کیونکہ انسانی زندگی کے غامض پہلوؤں کی تفسیر علم و دلیل سے کی جارہی ہے ۔ آج انسان کو در پیش مسئلہ اسکی ثقافت تہذیب وتمدن اور کلچر کا ہے۔ سائنسی علم کی بہتری میں مغرب کا بہ اختیار اور بلند مرتبہ ہونا مسلم الثبوت ہے۔یہ سارا کچھ فرانسیسی انقلاب اور بے پایاں معاشرتی اصلاحات کی دین ہے۔ جب کبھی اصلاحات کا میلان معاشرے سے ہوتا ہے۔ معاشرے کے بنیادی خاکے و قالب میں تغیر و تبدل کا فروغ ہوتا ہے۔ انسانی حیات کے خطوط کی تفہیم و تعبیر یک لخت تجدیدی ہوجاتی ہے۔ انسانی سوچ و فکر کی نوعیت، روایتی تصورات، عمرانیات کی تولائی قدریں، مولائی اقدار انسانی حیات پر منطقی و فلسفیانہ طور پر منطبق ہوتے ہیں۔ گاہے بگاہے رونما ہونے والے سال ہا سال تغیرات کی تالیف کو مہذب، شائستہ اور تہذیب یافتہ یعنی قرینہء اوصاف کو کلچر کا نام دیا گیا ہے۔ کلچر کا اصل تصور انیسویں صدی میں اصطلاحی طور سے سامنے آیا۔ گو کہ دو تین صدی پہلے تک اس کا کوئی ٹھوس وجود نہیں تھا۔ حالانکہ چودھویں صدی میں ابن خلدون اور ابن مقدم نے انسانی زندگی کے مختصر حالات کا نقشہ پیش کیا ہے۔ انسانوں کی نقل مکانی کی وجہءتحریک، قوموں کی ترقی پذیری، ایک قوم کا دوسری قوموں پر غلبے کے اسباب نیز ابن خلدون نے قوموں کی تاریخ کا ارتقاء اور ان کی یگانگی و انتصاب کو پیش کیا ہے۔ اس وقت کلچر یا فن و ہنر کی کوئی واضح تعریف و توصیف نہیں تھی۔
اردو ادب میں سب سے پہلے تہذیب کی اصطلاح "تذکرہ گلشن" مولوی عنایت اللہ، میر لکھنوی ( ڈاکٹر جانسن کی تواریخ رسلس کے دیباچہ) کی تحاریر میں متعارف ہوئی ہے۔ جس کو ہند ایران قدیم انداز نقد متصور کیا گیا ۔ لیکن سر سید نے انیسویں صدی کے مغرب میں رائج ( سویلزیش ) تہذیب کا مفہوم پیش کیا ۔جس میں معاشرتی تمدن، اخلاقی معاملات ، افعال ارادی، علوم ، فنون و ہنر کو آعلی و عمدہ اچھائی اور برائی کی علمی علی سطح پر تمیز وغیرہ کو بیان کیا گیا ہے ۔ جبکہ ہیگل نے سائنسی علوم ، استقرائی قوانین مرتب کئے ۔ مزید برآں سفید فام کا غلبہ، ایشیائی غلامی کو سامراجی مفادات کے لئے نظریاتی راہ ہموار کردی۔ حیرت تو اس وقت ہوتی ہے جب افلاطون اور ارسطو جیسے اخلاقیات کے مبلغین کے نزدیک غلامی جیسا غیر انسانی فعل معیوب نہیں ہے۔
روایتی و رسمی لحاظ سے کلچر کے دو تین مفاہیم و معنی مستعار ہیں۔ یعنی معاشرہ جس طریق سے ترقی پذیر ہوا ہے۔ معاشرے کا رہن سہن، زبان، لباس، غذائیں، رہائش، میل ملاپ، رسم و رواج، روز مرہ کی زندگی کو بھی کلچر کی مجموعی تعریف حاصل ہے۔ علاؤہ ازین کلچر عام طور پر صرف فنون لطیفہ کے لئے بھی مختص اور مستعمل ہوا ہے۔ اس کی منطقی تاویلات و تنقیحات یہ ہیں کہ خاص قسم کی جمالیاتی تخلیقات سے ایک نیا معاشرہ جنم لیتا ہے۔ اس میں ادب لطیف، مصوری، اور فن تعمیر مستمر ہیں۔
ساری تمہید کا مقصد صرف یہ ہے کہ ہم سید انصر جیسے فنکاروں کی شخصیت اور ان کے فن کو آسانی سے سمجھ سکیں۔سید انصر کی شخصیت ہمہ جہت ہے۔ ان کی متنوع سوچ ان کے فکری زاویے،مشاہدات و تجربات مختلف اور منفرج ہیں۔ چونکہ سید انصر نے انیسویں صدی کو نہایت انہماک سے پڑھا اور سمجھا ہے۔ آج وہ خود بیسویں اور اکیسویں صدی میں متنفس ہیں ۔ اسی لئے ان کا سارا کلام تینوں صدیوں کے حالات اور افکار کی آمیزش سے تر معلوم ہوتا ہے۔
سید انصر کے شعری رمز و ایمائیت کو مختلف النوع زاویہ سے دیکھنے کی ضرورت ہے۔ جہاں تشبیہ یا استعارہ و کنایہ کے علامتی پہلو نمایاں ہیں وہیں رومانی و جمالیاتی عناصر بھی قدم قدم ساتھ دیکھائی دیتے ہیں ۔ اس کے علاؤہ سید انصر نے فرد اور سماجی فرق کو بھی پیش کیا ہے۔ ان کے شعری مجموعہ کے عنوان سے ہی قاری تشویش زدہ ہوجاتاہے۔ " برسوں بعد" یہ ایسا ٹائٹل ہے کہ ہر کسی کو سسپنس میں ڈال دیتا ہے۔ برسوں بعد کیا ہوا ، یا کیا ملا ، اور آنجام کیا ہوا ۔ خود سید انصر کے ہاں بھی اس کی کوئی مجموعی صورتحال واضح نہیں ہے ۔

میں ریزہ ریزہ ہو گیا راہ حیات میں
سر سے اتارتے ہوئے عمر رواں کا بوجھ

کاغذ کی کشتیوں میں سواری کا شوق تھا
اب یہ شکایتیں ہیں کنارہ نہیں ملا

خواب اشکوں کی طرح آنکھ سے جھڑتے بھی نہیں
بوجھ ایسا ہے کہ دھویا بھی نہیں جا سکتا

ایک لمحہ جسے پانے میں زمانے بیتے
کھونا چاہا ہے تو کھویا بھی نہیں جاسکتا

روشنی کا خدا ہی حافظ ہے
جب شریک سفر ہوا ہے مری

مشعلِ بام کیا بجھی اشک سجا کے رکھ لئیے
میں نے پلک پلک کو آج گھر کی منڈیر کردیا

میں صرف اپنے قبیلے کی خیر کیوں مانگوں
کہ ایک جیسے ہیں انساں جہان بھر کے مجھے​

یہ بات فطری ہے کہ اس طرح کے مروجہ مشکل نارسا حالات میں مرفہ الحالی کے لئے سید انصر نے ایک مصنوعی معشوق تراش لیا ہے۔ جس کا ان کی عملی زندگی یا شعری سفر سے کوئی رشتہ ناطہ نہیں ہے۔نہ شکست احساس ، نہ احساسِ غم ، نہ جنسی چاہت و تشنگی محض عشقیزم کی تخلیقی رسم ادائیگی ہے۔ ایک آدھ شعر کسی درجہ مسطور حسن ہے۔ ہمارا مطالبہ خواب آور معرکتہ الآرا "آنکھوں بھر ہےآسماں" جیسی نظم کا نہیں ہے۔ جس کے بارے میں مغنی تبسم نے کہا تھا۔ یہ نظم کسی بھی صنف نازک کی تعریف کی معراج ہے۔ بہر غرض سید انصر کاعامیانہ اور سطحی رومانی حرفیہ سخن ہے۔

چاہا نہیں کسی کو کبھی آپ کی طرح
دنیا میں کوئی آپ سا پیارا نہیں ملا

چھو گئے تھے کسی کلی سے کہیں
آج تک لخت لخت ہیں ہم لوگ

کہاں بساؤں تجھے آرزوئے یار بتا
یہ دل شکستہ ہے شہرِ وفا شکستہ ہے

فراق یار کی الجھن کوئی نئی تو نہیں
یہ ایک بوجھ کئی بار ڈھوئے بیٹھے ہیں

ہنس ہنس کے طے کئے ہیں جدائی کے راستے
اس کاروبار میں بھی خسارہ نہیں ملا

اس ڈر سے کسی پھول کو چھو کرنہیں دیکھا
پاکیزگیٔ حسن پہ الزام نہ آئے

اس نے پلکوں سے چھوا پلکوں کو
میری آنکھوں پہ جھکا کر آنکھیں

یہ جو ملتے ہیں جھکا کر آنکھیں
لوٹ لیتے ہیں ملا کر آنکھیں

چوم لیتے ہیں ترے دھیان میں ہم
کورے کاغذ پہ بنا کر آنکھیں​

سید انصر نےاس غزل میں دو مقطع استعمال کئے ہیں

دھیرے دھیرے سے لہو دو انصر
چپکے چپکے سے فنا کر آنکھیں

دیکھ انصر یہ روش ٹھیک نہیں
ہر کسی کی نہ پڑھا کر آنکھیں​

سید انصر کی شاعری محاسن شعریات پر قانع نہیں ہے۔ بلکہ مضامین و جزئیات کی خاکہ کشی پر منقول ہے ۔ شعری و فنی تلازمات، جمالیات، احساس آگہی، جبلی تقاضے، معنوی حسن لطیف کی افراط، جذبات و کیفیات کا امتزاج ۔ اس کے علاؤہ شاعری کی جدت مخصوص ذہنیت پر مبنی ہے۔ مثلآ سابقہ دور کی پاسداری، موجودہ دور میں ملت کی بد حالی ، بے راہ روی ، سماجی محذوفیت بے حسی، احساس کی معطلی ، اگرچہ کے ان کی شاعری میں ملامت ، عبرت و نصیحت کے طور پر شامل ہے۔ وہیں ان کے کلام میں حالات کے تئیں اجتماعی صور، مرافیت کے لحاظ سے بازیابی کے لئے سلجھی طبیعت سے اجماعی فیصل کا رجزیہ شعری حصہ بھی موجود ہے۔ بیچ بیچ میں رومانی تکلم اور کہیں سماجی ظلم و جبر کا اظہار نظر آتا ہے۔

کیسا دور ہے کیسے لوگ ہیں امن کا دھوکہ دے کر
ہنستے بستے گھروں کو آگ لگاتے جاتے ہیں

اب تو ہر آنکھ کشیدہ ہے کمانوں کی طرح
شہر کا شہر ہے دشمن کی مچانوں کی طرح

سہارا لے کے پرانی رفاقتوں کا سدا
مرے عزیز مرا خون چوسنے آئے

ہجوم رنگ پہ شعلہ زنی کا شائبہ تھا
گلاب چھو نہ سکے آگ سے ڈرے ہوئے ہم

دیکھ ہم خاک نشینوں سے زمانے کا سلوک
جیسے سوکھے ہوئے پتوں سے ہوا بات کرے​

سید انصر کی شعری اساس احساس کی تازگی، جذبات و مشاہدات کی تجربہ کاری، انفرادی خصائص کی تہ داری اور معنوی کیفیت سے بھر پور ہے۔ آنے والی نسلیں اپنی استعداد اور مدرکات کی بنا پر معنی و مفہوم کا اضافہ کرلے سکتی ہے۔ چونکہ انھوں نے ملی سرد رگ و جاں اور مردہ ماحول میں فنون قدرت سے ملی خستگی کے معالج کی فہم جوئی کا کام کیا ہے۔ شاعری کو درکار سارے خد و خال اور بہتر اسلوب کے زریعے سے ابدی دین کی سربلندی ملت بیضا کے سنہرے دور کے واقعات کی دہائی اور تاریخی راز نہاں حوالوں سے سوچ و فکر کے مضامین کو بتدریج شعری اسلوب عطا کیا ہے ۔

خواہ بے ساز و رخت ہیں ہم لوگ
والئی تاج وتخت ہیں ہم لوگ

ہم چٹانوں کی طرح تھے تو گمان تک بھی نہ تھا
بیٹھ جائیں گے کبھی کچے مکانوں کی طرح

ایک اک کر کے رفاقت کی لڑی سے نکلے
یار ٹوٹی ہوئی تسبیح کے دانوں کی طرح

مصالحت کے بہانے کئی چھپے دشمن
نئی لڑائی کی بنیاد ڈالنے آئے​

سید انصر کی لفظیات عام سطح کی ہیں۔ لیکن شعری اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں ۔ ان کے بعض اشعار پر قدیم شعراء کے موضوعات کی موزنیت کا التزام ہوسکتا ہے۔
ایماں مجھے روکے ہے جو کھینچے ہے مجھے کفر ( غالب)​
ہلکے سے فرق سے سید انصر کا مصرعہ

اسے کعبہ تو اسے شوق صنم کھینچتا ہے ( سیدانصر)​

اس مصرعے سے شعری تفریق کا اندازہ و خلاصہ ترمیم ہوجاتا ہے کہ فلاں کا شہر معنی ہے۔ جس کو ہم غیر ارادی یا ارتجلا" شعر نہیں کہہ سکتے۔ اس طرح سے اساتذاوں کی زمین اور موضوعات میں شعر گوئی ہماری ادبی تہذیب کا حصہ ہے۔ اس لئے ان کے کلام میں کچھ جگہوں پر اپنے سے پیش رو قدیم شعراء کی یاد تازہ ہوتی ہے۔
عام طور پر یہ مانا جاتا ہےکہ فنکار کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ تخلیق خوب سے خوب تر ہو لہذا فنکار تخیل یا نازک خیالی کے ساتھ ساتھ تخلیقی ہیت، اسلوب،زبان و بیان، علائم و استعاریت، ایمائیت، اور کنایات سے شعر کو بھر پور مرصع کرنا چاہتا تاکہ تخلیقی عمل میں ایہام کی گنجائش پیدا ہوسکے۔
لہذا شعری سیاق و سباق مشترکہ خصائص و وسائل ، خارجی بندشیں ، شرائط و قاعدے نیز شعر کی پہچان و پرکھ شعری عناصر کے حوالے سے ہی ہونی چاہئیے ۔ اس کی تفصیل و تاویل یوں بیان ہوسکتی ہے کہ شعری بلاغت اور سلسلہء احکام شاعری کی ساختیات کا ملکہ ہوتا ہے۔

برف جیسا ہے لہو عشق بغیر
تھوڑی سی آگ ملا پانی میں

ان چمکتی ہوئی آنکھوں کو ذرا غور سے دیکھ
حیرتیں دیتے ہوئے آئینہ خانوں کی طرح

بے خد و خال سے رکھے ہیں کسی کونے میں
سنگِ بت خانہ ہیں آزر کی طرف دیکھتے ہیں

سارے عالم سے جدا ہو ترا اعجاز سخن
جس سے تو بات کرے اس سے خدا بات کرے

بلا ارادہ مسافت کا بوجھ اٹھائے ہوئے
ابھی ابھی تری جنت سے آ رہا ہوں میں​

سید انصر کے شعر جن کو ہم شاعری کے حامل سمجھ پائیں۔ نظریاتی طور پر متاع متن ممکن العمل مستحسن ہیں۔ کثرت معنی، عبارت سازی، انشراح مقصد ، خاص فکری قلعہ بندی کی غرض سے متعلقین ناقدین نے انہی پہلوؤں کو عمل تسخیر اور تدارک افضل قرار دیا ہے جو ایک ہی پہلوئے نگارش تنقید کا خاصہ ہے۔
بہر سو ان کے ہاں علم طبقات الشعر میں علم اکتساب ، علم الیقین دیگر امور فکر کے بین بین ملت کی غیرت مندی ، جذبہ خوداری ، زندگی کا تحفظ ، کامل اطاعت الٰہی اور عشق رسول ، مظاہر فطرت کی وسعتیں ، زمان ومکان سے ماورا، جراحت و ہزیمت ، کامرانیاں و کار کشائیاں ، مساوات اخوت، موزوں معاشرہ شرح و بسط کے طور پر جذباتی قوت کے ساتھ رہرہور ہے۔

جب بھی دیتے ہیں سنائی کسی مظلوم کے بین
تڑپ اٹھتا ہے وہیں پر مرے اندر کا حسین

آن پہنچی ہے قیامت کی گھڑی جاگ اٹھو
پھر بپا ہونے کو ہے معرکہ بدروحنین

حسینیت کی کرامات کا ظہور کہاں
کہ جب تلک کوئی جنگاہ کربلا نہ بنے

عشق کی انتہا دیکھنی ہے تو آ
چل ذرا اہلِ کرب و بلا سے ملیں

بلندیوں سے نہ یوں دیکھ دھیان بھر کے مجھے
تری طلب ہوں تو لے جا اڑان بھر کے مجھے

کس منہ سے کروں گا میں شفاعت کی گذارش
پوشیدہ رکھے ان سے خدا میری خطائیں

موقوف نہیں اہل زمیں پر ہی ترا ذکر
آتی ہیں فلک سے بھی درودوں کی صدائیں

ترے چراغ کا بجھنا انوکھی بات نہیں
بہت دنوں سے یہی مشغلہ ہوا کا ہے​

میری نظر میں یہ شعر ان کی ساری شاعری کا حاصل ہے۔

جیون راہ پہ چلتے چلتے مڑ کر دیکھا برسوں بعد
کیا کھویا کیا پایا ہم نے آج یہ جانا برسوں بعد​

سید عمران سید عاطف علی وقار علی ذگر محمد عبدالرؤوف محمد وارث سیما علی
 

سیما علی

لائبریرین
کس منہ سے کروں گا میں شفاعت کی گذارش
پوشیدہ رکھے ان سے خدا میری خطائیں
میرا کل اثاثہ علامہ اقبال رح کے اشعار ہیں ؀
علامہ اقبال نے عشق و بے خودی کے جہان کوسمودیااورعشق نبی ﷺکی وہ انتہابیان کی جودل والوں کورلاکراورتڑپاکررکھ دیتی ہے۔
تو غنی از ہر دو عالم من فقیر
روز محشر عذر ہائے من پذیر
ور حسابم را تو بینی ناگزیر
از نگاہ مصطفےٰ پنہاں بگیر
اے اللہ بے شک تُو تمام جہانوں سے غنی ہے اور بے شک میں فقیر ہوں- بس تو قیامت والے دن میری ایک درخوست قبول کر لینا- اگر وہاں میرا حساب لینا لازمی ہی ہو جائے تو مجھے نبی ﷺکے سامنے رسوا نہ کرنا اور ان کی نظروں سے چھپا کر میرا حساب لے لینا۔
بہ پایاں چوں رسد ایں عالم پیر
شود بے پردہ ہر پوشیدہ تقدیر
مکن رسوا حضور خواجہ ما را
حساب من زچشم او نہاں گیر
(اے میرے رب! روز قیامت) یہ جہان پیر اپنے انجام کو پہنچ جائے اور ہر پوشیدہ تقدیر ظاہر ہو جائے تو اس دن مجھے میرے آقا و مولا ﷺکے حضور رسوا نہ کرنا اور میرا نامہ اعمال آپ کی نگاہوں سے چھپا رکھنا۔
بس جب بھی یہ پڑھ لیتے ہیں بے پناہ رقت طاری ہوجاتی ہے ۔۔۔کیا ہم اس قابل ہیں بار با اپنے آپ سے یہ سوال کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں ۔۔۔
مالک ہمیں معاف فرما ہماری کوتاہیوں کو درگزر فرما اور ہماری لاج رکھ لے ہمارے آقائے و مولا ﷺ کے حضور ۔۔۔۔آمین ثم آمین
 
Top