تشریح ؟؟

فاتح

لائبریرین
نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکر تصویرکا
الف عین ، محمد وارث ، فاتح ، محمد یعقوب آسی
یہ فاتح صاحب کا میدان ہے، صاحب!
ظاہر ہے استادِ محترم میدان تو فاتح کا ہی رہے گا!!!!
آپ احباب کی محبت ہے کہ ناچیز کو اس قابل گردانا۔۔۔ جب کہ میرے خیال میں غالب کے جس قدر شارحین گزرے ہیں شاید ہی یہ مرتبہ کسی اور شاعر کو نصیب ہوا ہو۔ اس قدر شرحوں کی موجودگی میں ایک نئی شرح کرنا میری رائے میں کوئی کار خیر نہیں لہٰذا میں دو شارحین کی جانب سے کی گئی مذکورہ شعر کی تشریح یہاں درج کیے دیتا ہوں:
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
از نظم طباطبائی
نقش فریادی ہے کس کی شوخی تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا
مصنف مرحوم ایک خط میں خود اس مطلع کے معنی بیان کرتے ہیں کہتے ہیں، ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا، پس شاعر خیال کرتا ہے کہ نقش کس کی شوخی تحریر کا فریادی ہے کہ جو صورتِ تصویر ہے، اُس کا پیرہن کاغذی ہے، یعنی ہستی اگرچہ مثل ہستی تصاویر اعتبار محض ہو موجب رنج و ملال و آزار ہے، غرض مصنف کی یہ ہے کہ ہستی میں مبداء حقیقی سے جدائی و غیریت ہو جاتی ہے اور اس معشوق کی مفارقت ایسی شاق ہے کہ نقش تصویر تک اُس کا فریادی ہے اور پھر تصویر کی ہستی کوئی ہستی نہیں، مگر فنا فی اللہ ہونے کی اُسے بھی آرزو ہے کہ اپنی ہستی سے نالاں ہے، کاغذی پیرہن فریادی سے کنایہ فارسی میں بھی ہے اور اُردو میں، میر ممنونؔ کے کلام میں اور مومنؔ خاں کے کلام میں بھی میں نے دیکھا ہے، مگر مصنف کا یہ کہنا کہ ایران میں رسم ہے کہ دادخواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے، میں نے یہ ذکر نہ کہیں دیکھا نہ سنا، اس شعر میں جب تک کوئی ایسا لفظ نہ ہو جس سے فنا فی اللہ ہونے کا شوق اور ہستی اعتباری سے نفرت ظاہر ہو اس وقت تک اسے بامعنی نہیں کہہ سکتے، کوئی جان بوجھ کر تو بے معنی کہتا نہیں یہی ہوتا ہے کہ وزن و قافیہ کی تنگی سے بعض بعض ضروری لفظوں کی گنجائش نہ ہوئی اور شاعر سمجھا کہ مطلب ادا ہو گیا تو جتنے معنی کہ شاعر کے ذہن میں رہ گئے، اسی کو المعنی فی بطن الشاعر کہنا چاہیے، اس شعر میں مصنف کی غرض یہ تھی کہ نقش تصویر فریادی ہے، ہستی بے اعتبار و بے توقیر کا اور یہی سبب ہے کاغذی پیرہن ہونے کا ہستی بے اعتبار کی گنجائش نہ ہو سکی اس سبب سے کہ قافیہ مزاحم تھا اور مقصود تھا مطلع کہنا ہستی کے بدلے شوخی تحریر کہہ دیا اور اس سے کوئی قرینہ ہستی کے حذف پر نہیں پیدا ہوا آخر خود ان کے منہ پر لوگوں نے کہہ دیا کہ شعر بے معنی ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

از حسرت موہانی
نقش بمعنی تصویر۔ تصویر چونکہ کاغذ پر ہوتی ہے اس لیے اسے فریادی کہا کیونکہ ولایت میں فریادی کاغذی پیرہن پہن کر عدالت میں جاتے تھے۔ مطلب یہ ہے کہ ہسی چونکہ موجبِ ملال و آزار ہے اس لیے تصویر بھی اپنے صانع کی بزبانِ حال شکایت کرتی ہے کہ مجھ کو ہست کر کے کیوں مبتلائے رنجِ ہستی کیا۔ (ماخوذ از عود ہندی)۔ مقصودِ شاعر یہ ہے کہ ہستی بہرحال (یعنی اگرچہ مثلِ ہستیِ تصاویر اعتبارِ محض ہو) موجبِ آزار ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 

سید ذیشان

محفلین
فاتح نے اچھی تشریح کی ہے لیکن ہنوز تشنگی باقی ہے جیسے کہ
کچھ اور چاہیئے وسعت میرے بیاں کے لیئے

کچھ اشعار ایسے ہوتے ہیں جو تشریح سے ماورا ہوتے ہیں ۔ میرے خیال سے اس شعر میں مرزا عبدالقادر بیدل دہلوی کی گہری چھاپ ہے اس کو سمجھنے کے لیئے بیدل کا مطالعہ ضروری ہے۔
 
مقابلہ
غالب
نقشِ فریادی ہے کس کی شوخیِ تحریر کا
کاغذی ہے پیرہن ہر پیکرِ تصویر کا


تسلیم لکھنوی
رنگ لایا جوشِ بربادیِ وحشت ہر طرح
مدتوں اڑتا پھرا کاغذ میری تصویر کا
 
آخری تدوین:
میرے جیسا تو اسکی تشریح میں یہی لکھے گا
ایک محفل مشاعرہ میں ایک شاعرہ کا دودھ پیتا بچہ بے تحاشا رو رہا تھا اور مشاعرے کا مزہ خراب کررہاتھا ۔ درایں اثناء کسی کونے کھدرے سے یہ صدا آئی

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا

بچے کی ماں مارے شرم کے چپکے سے اٹھی اور بچے کو لے کر محفل مشاعرہ سے باہر چلی گئی
 
میرے جیسا تو اسکی تشریح میں یہی لکھے گا
ایک محفل مشاعرہ میں ایک شاعرہ کا دودھ پیتا بچہ بے تحاشا رو رہا تھا اور مشاعرے کا مزہ خراب کررہاتھا ۔ درایں اثناء کسی کونے کھدرے سے یہ صدا آئی

نقش فریادی ہے کس کی شوخیء تحریر کا

بچے کی ماں مارے شرم کے چپکے سے اٹھی اور بچے کو لے کر محفل مشاعرہ سے باہر چلی گئی
غنیمت ہے کہ بچے کے کاغذی پیرہن تک بات نہیں پہنچی
 

سید ذیشان

محفلین
ویسے میں نظم طباطبائی کی تشریح پر کچھ لکھنے لگا تھا لیکن آپ دونوں بھائی اس کو بچے کے کاغذی پراہن تک لے گئے۔ :laughing:
 

سید ذیشان

محفلین
نہیں نہیں ذیشان بھائی اس پر ضرور لکھیئے اور ہمارے علم میں بھی اضافہ فرمائیے

اب آپ نے کہہ دیا ہے تو کچھ نہ کچھ لکھنا ہی پڑے گا۔ :)

حیدر علی نظم طباطبائی خود استاد شاعر تھے۔ ان کی شرح جو کہ غالباً الطاف حسین حالی کے بعد غالب پر لکھی جانی والی دوسری شرح تھی۔ نظم طباطبائی کا انداز اس میں مغرورنہ قسم کا ہے کیونکہ وہ اپنے ایک فیلو کی شاعری پر بات کر رہے ہیں (اس کے برعکس حالی کا انداز بڑا قدر مندانہ ہے کیونکہ حالی غالب کے شاگرد رہے تھے)۔ اور غالب پر اپنی تشریح میں کافی جگہوں پر حملے کئے البتہ کئی ایک جگہوں پر غالب کی بہت تعریف بھی کی۔ یہ تو بات ہو گئی بیک گراونڈ کی۔

اس شعر کو انہوں نے بے معنی کہا اور ساتھ میں یہ بھی لکھا کہ غالب کے منہ پر لوگ کہتے تھے کہ یہ شعر بے معنی ہے۔

پہلا اعتراض تو انہوں نے اس واقعے پر کیا جس کو خود غالب نے اپنے خط میں یوں بیان کیا، "ایران میں رسم ہے کہ داد خواہ کاغذ کے کپڑے پہن کر حاکم کے سامنے جاتا ہے، جیسے مشعل دن کو جلانا یا خون آلودہ کپڑا بانس پر لٹکا لے جانا۔" ان کا اعتراض اس واقعے کی صحت پر تھا نہ کہ شعرا کے ہاں اس کے استعمال پر۔ کیونکہ "کاغذی پیراہن" کی ترکیب کی انہوں نے خود ہی مثالیں بھی فراہم کیں۔ تو اس لحاظ سے یہ اعتراض بے جا ہے۔ کیونکہ غزل کی اپنی ہی ایک دنیا ہے۔ اس میں کافی ساری چیزیں ایسی بیان کی جاتی ہیں جن کا تاریخ میں کوئی ثبوت نہیں ملتا۔ سب سے مشہور کہانی تو شائد لیلہ مجنوں کی ہی ہے جو کہ عرب، ایران و ہندوستان کے تقریباً ہر ایک شاعر ہی نے استعمال کی ہے، لیکن اس واقعے کا تاریخی ثبوت کوئی نہیں ہے۔

دوسرا اعتراض اس بات پر کیا کہ پہلے مصرعے میں کوئی ایسا لفظ نہیں ہے جس میں فنا فی اللہ کا شوق ظاہر ہو یا پھر ہستی اعتباری سے نفرت ظاہر ہو۔ اس اعتراض میں بھی اتنا وزن نہیں کیونکہ لفظ ”فریادی“ سے یہ معنی آسانی سے اخذ ہوتے ہیں۔

نظم طباطبائی نے اس شعر کو پہلے بے معنی کہا اور پھر اس کے معنی سمجھانا شروع ہو گئے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ان کو اس شعر کے معنی اخذ کرنے میں کسی دشواری کا سامنا نہیں ہوا۔

اب اس شعر کی تشریح کی کوشش (جو شرحیں میں نے پڑھیں ان کا خلاصہ) اور اس شعر کی چند خوبیوں کی طرف اشارہ:

پہلا مصرع کا انداز انشائیہ ہے، ایک طرح سے استفسار ہے لیکن جواب شاعر کو معلوم ہے۔ شاعر نے تجاہل عارفانہ (جب آپ کو جواب معلوم ہو لیکن پھر بھی آپ لاعلمی کا مظاہرہ کریں) کا مظاہرہ کیا ہے (یہ بذاتِ خود ایک طرح کی شوخی ہے) کہ "کس کی تحریر کی شوخی کا یہ نقش فریادی ہے؟" اس وقت ہمارے ذہن مین یہ سوالات اٹھتے ہیں کہ

1۔ ”کس“ یہاں پر کس کی طرف اشارہ ہے؟ ظاہری بات ہے مصور ہی کی بات ہو رہی ہے کیونکہ ”نقش“، ”تحریر“ ”تصویر“ ”کاغذ“ یہ سب الفاظ اسی طرف اشارہ کرتے ہیں۔ لیکن یہاں کسی خاص مصور کی بات ہے جو کہ ہر کسی کو معلوم ہے لیکن شاعر شوخی کا مظاہرہ کرتے ہوئے استفسار کر رہا ہے کہ وہ کون ہے؟ جواب: اس کائنات کا مصور!
2- ”نقش“ یہاں پر کن معنوں میں استعمال ہوا ہے؟ نقش کے بہت سارے معانی ہیں: تصویر، پینٹینگ، پرنٹ، وغیرہ۔ کائنات کے مصور کا نقش ظاہری بات ہے کہ یہی ہستی ہے اور کل مخلوق ہے۔
3- ”فریادی“ کیوں ہے؟ ہر ایک مخلوق فریاد کر رہا ہے اپنے خالق سے جدائی کا۔ ہر ایک کی طلب ہے خالق میں فنا ہو جانا۔ اور جب تک زندہ ہے تو اسی جدائی کا دکھ رہے گا۔ فنا فی اللہ، منصور حلاج، یہ سب غزل کی بنیادی تھیمز ہیں۔
4- ”شوخی“ محبوب کی ایک ادا ہے جس سے وہ چاہنے والے کو زچ کرتا رہتا ہے۔ خالق کی شوخی سے یہاں مراد یہ ہے کہ مخلوق کو خود سے جدا کر کے زچ کرتا رہتا ہے۔ اور اس سے چاہنے والے کی چاہت مزید بڑھتی ہے اگرچہ وہ لاکھ وصل کی تمنا کرے لیکن شوخ محبوب عاشق کو خود سے دور رکھتا ہے۔
5- ”تحریر“ کے معنی ”لکھائی“ بھی ہیں اور اس کے معنی ”آزادی“ کے بھی ہیں۔ اگر لکھائی کے معنوں میں لیں تو تب تو نقش اور تحریر ایک ہی چیز یعنی مخلوق کی طرف اشارہ ہے۔ اور اگر تحریر کے معنی آزادی یا حریت کے ہیں تو تب بھی اس کو طنز کے طور پر لیا جا سکتا ہے کہ کونسی آزادی؟ کہاں کی آزادی؟

دوسرے مصرعے میں یہی کہا ہے کہ ہر تصویر کا پیراہن یا جامہ کاغذی ہے۔ یہ علت یا سبب ہے فریادی ہونے کی۔ یعنی کہ پہلے تو ایک تصویر یا نقش بنایا۔ اور پھر اس کا جامہ بھی کاغذی بنایا۔ یعنی اس کو فریادی بنا دیا، یہ شوخی کی انتہا ہےٖ!!

غالب نے اس شعر کو دیوان کے پہلے شعر کی جگہ دی۔ عام طور پر دیوان کا پہلا شعر حمدیہ ہوتا ہے۔ یہ غالب کی اپنی ایک طرح کی شوخی ہے کہ یہ شعر دیوان کا پہلا شعر رکھا۔

اس کے علاوہ اس کی صوتی خوبیوں کو شمس الرحمٰن فارقی نے اپنی شرح میں بیان کیا ہے۔ یہ اوپر والے لنک پر پڑھ سکتے ہیں (انگریزی میں)

یہ میری معروضات تھیں۔ ان مین کوتاہی کا کافی امکان ہے۔ جہاں کوئی غلطی نظر آئے تو بلا جھجھک اس کی نشاندہی کریں۔
 
آخری تدوین:

سید عمران

محفلین
آسان سا مطلب ہے...
نقش اپنے بنانے والے کا پکار پکار کر اظہار کررہا ہے کہ مجھے کس نے بنایا...
اور چوں کہ تصویر کاغذ پر بنائی جاتی ہے لہذا اسے تصویر کے پیرہن سے تعبیر کیا گیا!!!
 
آخری تدوین:

انیس جان

محفلین
ان کے اکثر اشعار عوام کیا خواص کی سمجھ سے بھی بالا ہوتے تھے اور شہر میں یہ بات مشہور تھی کہ غالب کے شعر بے معنی ہوتے ہیں جس کا اظہار غالب نے اپنے ایک شعر میں بھی کیا ہے

نہ ستائش کی تمنّا نہ صلے کی پروا
گر نہیں ہیں مرے اشعار میں معنی، نہ سہی
 
Top