فارسی شاعری تساوی - خسرو گلسرخی (مع اردو ترجمہ)

حسان خان

لائبریرین
(تساوی)

معلم پای تخته داد می‌زد
صورتش از خشم گلگون بود
و دستانش به زیرِ پوششی از گرد پنهان بود
ولی آخر‌ کلاسی‌ها
لواشک بینِ خود تقسیم می‌کردند
وآن یکی در گوشه‌ای دیگر «جوانان» را ورق می‌زد
دلم می‌سوخت
برای آنکه بی‌خود های ‌و هو می‌کرد و با آن شورِ بی‌پایان
تساوی‌های جبری را نشان می‌داد
با خطی خوانا به روی تخته‌ای کز ظلمتی تاریک
غمگین بود
تساوی را چنین بنوشت:
یک با یک برابر است
از میانِ جمعِ شاگردان یکی ‌برخاست
همیشه یک نفر باید به پا خیزد...
به آرامی سخن سر داد:
تساوی اشتباهی فاحش و محض است.
نگاهِ بچه‌ها ناگه به یک سو خیره گشت و
معلم مات بر جا ماند
و او پرسید: اگر یک فردِ انسان، واحدِ یک بود
آیا باز یک با یک برابر بود؟
سکوتِ مدهشی بود و سوالی سخت.
معلم خشمگین فریاد زد:
آری برابر بود
و او با پوزخندی گفت:
اگر یک فردِ انسان واحدِ یک بود
آنکه زور و زر به دامن داشت بالا بود
وآنکه قلبی پاک و دستی فاقدِ زر داشت پایین بود
اگر یک فردِ انسان واحدِ یک بود
آنکه صورتِ نقره‌گون
چون قرصِ مه می‌داشت بالا بود
وآن سیه‌چرده که می‌نالید پایین بود
اگر یک فردِ انسان واحدِ یک بود
این تساوی زیر و رو می‌شد
حال می‌پرسم
یک اگر با یک برابر بود
نان و مالِ مفت‌خواران از کجا آماده می‌گردید؟
یا چه کس دیوارِ چین‌ها را بنا می‌کرد؟
یک اگر با یک برابر بود
پس که پشتش زیرِ بارِ فقرِ خم می‌گشت؟
یا که زیرِ ضربهٔ شلّاق له می‌گشت؟
یک اگر با یک برابر بود
پس چه کس آزادگان را در قفس می‌کرد؟
معلم ناله‌آسا گفت:
بچه‌ها در جزوه‌های خویش بنویسید:
یک با یک برابر نیست.......

(خسرو گلسرخی)


==========

(الجبرائی مساوات)

معلم تختے کے نیچے چلّا رہا تھا
اُس کا چہرہ غصے سے لال تھا
اور اُس کے ہاتھ خاک و گرد کے غلاف میں ڈھکے ہوئے تھے
لیکن آخری نشستوں کے طلبہ
اپنے مابین مٹھائی تقسیم کر رہے تھے
اور وہ والا دانشجو ایک دوسرے گوشے میں 'جوانان' کے ورق پلٹ رہا تھا
مجھے رحم آ رہا تھا
کیونکہ وہ بے وجہ ہا و ہو کر رہا تھا اور اُس بے انتہا شور کے باوجود
الجبرائی مساواتوں کی وضاحت کر رہا تھا
اُس نے قابلِ مطالعہ خط کے ساتھ اُس تختے پر کہ جو تاریکی سے
غمگین تھا
مساوات کو یوں لکھا:
ایک اور ایک برابر ہیں
شاگردوں کے درمیان میں سے ایک اٹھا
(ہمیشہ ایک شخص کو کھڑا ہونا چاہیے)
اُس نے آرام سے بات کہنا شروع کی:
یہ مساوات واضح طور پر اور مطلقاً غلط ہے۔
بچوں کی نگاہیں یکایک ایک جانب دیکھنے لگیں
اور معلم اپنی جگہ پر متحیر رہ گیا
اور اُس نے پوچھا: اگر ایک فردِ انسان، ریاضیاتی اکائی ہوتا
تو کیا پھر بھی ایک اور ایک برابر ہوتے؟
وحشت آور سکوت تھا اور سخت سوال۔
معلم غصے سے گرجا:
ہاں، برابر ہوتے۔
اور اُس نے زہریلی ہنسی کے ساتھ کہا:
اگر ایک فردِ انسان ریاضیاتی اکائی ہوتا
تو جس کے دامن میں طاقت اور ثروت ہوتیں، اوپر ہوتا
اور جس کا قلب پاک، لیکن ہاتھ مال و زر سے تہی ہوتے، نیچے ہوتا
اگر ایک فردِ انسان ریاضیاتی اکائی ہوتا
تو جو شخص چاند کے دائرے جیسی
نُقرئی صورت کا حامل ہوتا، اوپر ہوتا
اور وہ سیاہ فام کہ جو نالہ کر رہا ہوتا، نیچے ہوتا
اگر ایک فردِ انسان ریاضیاتی اکائی ہوتا
تو یہ مساوات الٹ پلٹ ہو جاتی
اب میں پوچھتا ہوں
اگر ایک اور ایک برابر ہوتے
تو مفت خوروں کا نان و مال کہاں سے مہیا ہوتا؟
یا کون شخص دیوارِ چین وغیرہ تعمیر کرتا؟
اگر ایک اور ایک برابر ہوتے
پس کس کی کمر فقیری کے بوجھ کے تلے خم ہوتی؟
یا کون تازیانے کی ضربوں کے نیچے کچلا جاتا؟
اگر ایک اور ایک برابر ہوتے
پس پھر کون آزادوں کو قفس میں کرتا؟
معلم نے نالے کے انداز میں کہا:
بچّو! اپنے کتابچوں میں لکھو
ایک اور ایک برابر نہیں ہیں۔۔۔

(خسرو گلسرخی)

* جوانان = پہلوی دور کا ایک رسالہ
 
آخری تدوین:
Top