ترے خیال کی مہک لیے لیے جدھر چلی

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
محفل میں تو انگریزی سے اردو رسم الخط میں تبدیلی کے وقت ایسا منتظم صاحب نے کیا تھا۔ ویسے یہاں عرب میں میرا نام ایسے ہی لکھتے ہیں۔
عربی میں چونكه ۔۔"ء " کے لئے کسی کرسی کی ضرورت ہوتی اس لئے اس لفظ میں اسے واؤ کے اوپر رکھ (لکھ) دیتے ہیں ۔( شاید اس کا تعلق عربی کیبورڈ کی کسی خصوصیت سے ہے ) ۔ ویسے مصحفِ عثمانی میں اسے ہر جگہ "رءوف" لکھا گیا ہے۔ لیکن اردو میں ہمزہ کو براہِ راست واؤ یا ی وغیرہ پر لکھ دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ عبدالرؤف درست ہوگا ۔
 

سیما علی

لائبریرین
وہ کوئی شعلہ تھا کہ وہ ہوائے یادِ یار تھی
جلا گئی، بجھا گئی دیے دیے، جدھر چلی

تری ہنسی کے ساز سے، مرے ہوئے بھی جی اٹھے
تو لب پہ سازِ زندگی لیے لیے جدھر چلی
بہت خوب بہت خوب!!!!
ماشاء اللہ
جیتے رہیے
پر ہمیں بار بار جون صاحب کا یہ مصرعہ یاد آرہا ہے ؀
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
بہت خوب بہت خوب!!!!
ماشاء اللہ
جیتے رہیے
پر ہمیں بار بار جون صاحب کا یہ مصرعہ یاد آرہا ہے ؀
ہم تو خود سے کلام کر رہے ہیں
بہت شکریہ آپا!سلامت رہیں
جون کی تو کیا ہی بات ہے۔ ان کی تو خود کلامی بھی کلامِ موزوں ہوتا ہو گا 😊
 

یاسر شاہ

محفلین
عربی میں چونكه ۔۔"ء " کے لئے کسی کرسی کی ضرورت ہوتی اس لئے اس لفظ میں اسے واؤ کے اوپر رکھ (لکھ) دیتے ہیں ۔( شاید اس کا تعلق عربی کیبورڈ کی کسی خصوصیت سے ہے ) ۔ ویسے مصحفِ عثمانی میں اسے ہر جگہ "رءوف" لکھا گیا ہے۔ لیکن اردو میں ہمزہ کو براہِ راست واؤ یا ی وغیرہ پر لکھ دیا جاتا ہے ۔ چنانچہ عبدالرؤف درست ہوگا ۔
ظہیر بھائی اس قبیل کی سختی املا میں کھٹی املی کی طرح لگتی ہے۔ایک صاحب یہیں کہیں فرما رہے تھے کہ ان شاء اللہ اور ماشاء اللہ کو بھی ان شا اللہ ماشااللہ لکھا جانا چاہیے۔
 

ظہیراحمدظہیر

لائبریرین
ظہیر بھائی اس قبیل کی سختی املا میں کھٹی املی کی طرح لگتی ہے۔ایک صاحب یہیں کہیں فرما رہے تھے کہ ان شاء اللہ اور ماشاء اللہ کو بھی ان شا اللہ ماشااللہ لکھا جانا چاہیے۔
یاسر بھائی ، اس موضوع پر تو کئی دفعہ متعدد دھاگوں میں تفصیلاً گفتگو ہوچکی ہے ۔ اب تکرار کی ہمت نہیں ۔
مختصراً یہ کہ اردو ایک باقاعدہ الگ اور منفرد زبان ہے۔ اس کی اپنی شناخت ہے ۔ اگر ہم ایسا نہیں مانیں گے تو پھر کون مانے گا ۔ یہ اصول تو طے ہوچکا کہ لفظ خواہ کسی زبان سے آیا ہو جب اردو میں آگیا تو پھر اس پر قواعد و ضوابط اردو ہی کے لاگو ہوں گے ۔اس کے معنی ، محلِ استعمال ، املا اور تلفظ سب کے سب اہلِ اردو سے لئے جائیں گے ۔ اگر عربی اور فارسی سے درآمدہ الفاظ کے معانی ، محلِ استعمال ، املا اور تلفظ کو انہی زبانوں کے مطابق مانا جائے تو پھر بہت ہی بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ اردو تو پھر اردو نہیں رہے گی، مذاق بن جائے گی ۔
متنازع امور میں جب تک کسی اتھارٹی کو نہ مانا جائے تب تک زبان کا ایک معیار مقرر نہیں ہوسکے گا ۔ اس سے آئندہ نسلوں کے لئے اردو سیکھنا اور اپنانا مشکل تر ہوتا جائے گا ۔ اس کے کچھ مشاہدات تو ہم موجودہ عہد ہی میں کررہے ہیں ۔
زبان کی ترویج اور ترقی میں املا ( اوررسم الخط) کی حیثیت بنیادی ہے ۔ املا کو معیاری بنانے کے لئے املا نامہ کو حکم بنانا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ املا نامہ کئی دہائیوں کی لسانی تحقیق اور متعدد ماہرینِ لسانیات کی تجاویز کا نچوڑ ہے ۔ یعنی کوزے میں دریا ہے ۔ ہمزہ کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کا اب نہ وقت ہے اور نہ جی چاہ رہا ہے ۔ کوئی مخصوص سوال ہو تو بات ہوسکتی ہے ۔ فی الحال آپ املا نامہ کا یہ باب دیکھ لیجیے ۔ پانچ منٹ لگیں گے ۔ آپ زیادہ بور نہیں ہوں گے ۔ :)
ہمزہ - املا نامہ

اردو میں رؤف اور عبدالرؤف کو ہمیشہ سے اسی طرح لکھا گیا ہے ۔ اب رؤوف اور عبدالرؤوف کےعربی املا پر اصرار کرنے سے کیا حاصل ۔ اردو ایک الگ زبان ہے ۔ اس کا اپنا املا ہے ۔ فارسی میں آزمایش اور فرمایش لکھتے ہیں لیکن اردو میں آزمائش اور فرمائش۔ فارسی میں صدای دل اور بوی گل لیکن اردو میں صدائے دل اور بوئے گل ۔ وغیرہ وغیرہ
یہ کھٹی املی بہت میٹھی لگے گی بھائی ۔ بس اس کو محبت اور چاہت سے دیکھنے کی ضرورت ہے ۔
 

یاسر شاہ

محفلین
یاسر بھائی ، اس موضوع پر تو کئی دفعہ متعدد دھاگوں میں تفصیلاً گفتگو ہوچکی ہے ۔ اب تکرار کی ہمت نہیں ۔
مختصراً یہ کہ اردو ایک باقاعدہ الگ اور منفرد زبان ہے۔ اس کی اپنی شناخت ہے ۔ اگر ہم ایسا نہیں مانیں گے تو پھر کون مانے گا ۔ یہ اصول تو طے ہوچکا کہ لفظ خواہ کسی زبان سے آیا ہو جب اردو میں آگیا تو پھر اس پر قواعد و ضوابط اردو ہی کے لاگو ہوں گے ۔اس کے معنی ، محلِ استعمال ، املا اور تلفظ سب کے سب اہلِ اردو سے لئے جائیں گے ۔ اگر عربی اور فارسی سے درآمدہ الفاظ کے معانی ، محلِ استعمال ، املا اور تلفظ کو انہی زبانوں کے مطابق مانا جائے تو پھر بہت ہی بڑے بڑے مسائل پیدا ہوجائیں گے ۔ اردو تو پھر اردو نہیں رہے گی، مذاق بن جائے گی ۔
متنازع امور میں جب تک کسی اتھارٹی کو نہ مانا جائے تب تک زبان کا ایک معیار مقرر نہیں ہوسکے گا ۔ اس سے آئندہ نسلوں کے لئے اردو سیکھنا اور اپنانا مشکل تر ہوتا جائے گا ۔ اس کے کچھ مشاہدات تو ہم موجودہ عہد ہی میں کررہے ہیں ۔
زبان کی ترویج اور ترقی میں املا ( اوررسم الخط) کی حیثیت بنیادی ہے ۔ املا کو معیاری بنانے کے لئے املا نامہ کو حکم بنانا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے ۔ املا نامہ کئی دہائیوں کی لسانی تحقیق اور متعدد ماہرینِ لسانیات کی تجاویز کا نچوڑ ہے ۔ یعنی کوزے میں دریا ہے ۔ ہمزہ کے بارے میں تفصیل سے لکھنے کا اب نہ وقت ہے اور نہ جی چاہ رہا ہے ۔ کوئی مخصوص سوال ہو تو بات ہوسکتی ہے ۔ فی الحال آپ املا نامہ کا یہ باب دیکھ لیجیے ۔ پانچ منٹ لگیں گے ۔ آپ زیادہ بور نہیں ہوں گے ۔ :)
ہمزہ - املا نامہ

اردو میں رؤف اور عبدالرؤف کو ہمیشہ سے اسی طرح لکھا گیا ہے ۔ اب رؤوف اور عبدالرؤوف کےعربی املا پر اصرار کرنے سے کیا حاصل ۔ اردو ایک الگ زبان ہے ۔ اس کا اپنا املا ہے ۔ فارسی میں آزمایش اور فرمایش لکھتے ہیں لیکن اردو میں آزمائش اور فرمائش۔ فارسی میں صدای دل اور بوی گل لیکن اردو میں صدائے دل اور بوئے گل ۔ وغیرہ وغیرہ
یہ کھٹی املی بہت میٹھی لگے گی بھائی ۔ بس اس کو محبت اور چاہت سے دیکھنے کی ضرورت ہے
واہ ظہیر بھائی آپ نے وقت دیا با وجود اتنی مصروفیات کے اور نہ چاہتے ہوئے بھی دوبارہ وہی باتیں(بقول آپ کے)میری خاطر سے لکھ دیں ۔اللہ تعالیٰ آپ کو شاد و آباد رکھے۔آمین ۔
جزاک اللہ خیر ۔
 

محمداحمد

لائبریرین
وہ کوئی شعلہ تھا کہ وہ ہوائے یادِ یار تھی
جلا گئی، بجھا گئی دیے دیے، جدھر چلی

تری ہنسی کے ساز سے جو مردہ دل تھے جی اٹھے
تو لب پہ سازِ زندگی لیے لیے جدھر چلی

بہت خوب عبدالرؤوف بھائی!

اچھے اشعار ہیں۔

بہت سی داد!
 

محمد عبدالرؤوف

لائبریرین
محترم یاسر شاہ ، عرفان علوی صاحبان! اب دیکھیے گا۔

ترے خیال کی مہک لیے لیے جدھر چلی
میں چل پڑا ہوں اپنے لب سیے سیے، جدھر چلی

گلی گلی دیار دل کی جھوم جھوم ہی گئی
تو زندگی کے جام کو لیے لیے جدھر چلی

وہ کوئی شعلہ تھا کہ وہ ہوائے یادِ یار تھی
جلا گئی، بجھا گئی دیے دیے، جدھر چلی

تری ہنسی کے ساز سے، جو مردہ دل تھے جی اٹھے
تو لب پہ سازِ زندگی لیے لیے جدھر چلی

مرے قدم قدم پہ تھا کوئی مزارِ آرزو
نسیم یادِ یار کی لیے لیے جدھر چلی (تدوین بشکریہ یاسر بھائی)

ترے نفس نفس سے ہی ہزار پھول کھل اٹھے
چمن میں تو لبوں کو اپنے وا کیے جدھر چلی
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
سدا مزارِ آرزو پہ لے کر آ گئی مجھے
نسیم یادِ یار کی لیے لیے جدھر چلی
کوئی مزارِ آرزو مرے قدم قدم پہ تھا
نسیم یادِ یار کی لیے لیے جدھر چلی
یا
مرے قدم قدم پہ تھاکوئی مزارِ آرزو
نسیم یادِ یار کی لیے لیے جدھر چلی
 
Top