اصغر گونڈوی ترے جلووں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی

ترے جلووں کے آگے ہمتِ شرح و بیاں رکھ دی
زبان بے نگہ رکھ دی نگاہ بے زبان رکھ دی

مٹی جاتی تھی بلبل جلوہء گل ہائے رنگیں پر
چھپا کر کس نے ان پردوں میں برقِ آشیاں رکھ دی

نیاز عشق کو سمجھا ہے کیا اے واعظِ ناداں !
ہزاروں بن گئے کعبے جبیں میں نے جہاں رکھ دی

قفس کی یاد میں یہ اضطرابِ دل، معاذ اللہ !
کہ میں نے توڑ کر ایک ایک شاخِ آشیاں رکھ دی

کرشمے حسن کے پنہاں تھے شاید رقصِ بسمل میں
بہت کچھ سوچ کر ظالم نے تیغِ خوں فشاں رکھ دی

الٰہی ! کیا کیا تو نے کہ عالم میں تلاطم ہے
غضب کی ایک مشتِ خاک زیر آسماںِ رکھ دی
 
شکریہ جناب ارسال فرمانے کیلیے
پسند کرنے کا شکریہ
اب بہت دیکھ بھال کر پوسٹ لگاتا ہوں :)
کہیں مکّرر پوسٹ نہ ہو جائے
اور طبعِ نازک پر گراں نہ گزرے
تیرے ماتھےکی شکن پہلے بھی دیکھی تھی لیکن
اب کہ یہ گرہ میرے دل میں پڑی ہو جیسے
 
Top