تری منزل کا راہی ہے وہی جو دل سے عاری ہے!

السلام علیکم دوستو! ذیل میں کچھ پریشان خیالیاں آپ کی کرم فرمائی کیلئے خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ میرا حسن ظن ہے کہ ان کا مجموعہ 'غزل' ہے جو بحر ہزج مثمن سالم میں ہے۔ آپ اس پر بنظر اصلاح روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں:

ترے رستے میں ایک غم کیا کہوں وہ سو پہ بھاری ہے
صبر کرتے گزارہ ہے مجھے تجھ سے جو یاری ہے

تری صحبت کو جو چاہوں تو خاموشی کی تلقین ہو
غضب کیا ہے کہ لب سینے پہ اب تقریر ساری ہے

مرے مولی ہے قصہ کیا یہاں ملا وہاں میاں
کہیں تو بت پرستی ہے کہیں خود بت پجاری ہے

ذکاوت سے تری پیدا ترے پانے کا سودا ہے
ادھر تعریف کے پل ہیں ادھر بدلے میں خواری ہے

خدا را امتحاں کر لو ترا طالب حقیقی ہوں
وہیں پر ہوں جہاں پر عشق کی مردم شماری ہے

سحر گاہی کے سجدوں سے نہیں پایا کہیں تجھ کو
تجھے کھونے کا سکتہ سا دماغ و دل پہ طاری ہے

پڑا افغان سے پالا تو کیسی خوف کی باتیں
تری منزل کا راہی ہے وہی جو دل سے عاری ہے

ملاحظہ اور اصلاح کے لئے چشم براہ اور پیشگی مشکور ہوں۔

محمد ابراہیم افغان
 
آخری تدوین:
السلام علیکم دوستو! ذیل میں کچھ پریشان خیالیاں آپ کی کرم فرمائی کیلئے خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔ میرا حسن ظن ہے کہ ان کا مجموعہ 'غزل' ہے جو بحر ہزج مثمن سالم میں ہے۔ آپ اس پر بنظر اصلاح روشنی ڈال کر ممنون فرمائیں:
ملاحظہ اور اصلاح کے لئے چشم براہ اور پیشگی مشکور ہوں۔

محمد ابراہیم افغان

و۔۔۔۔۔ع۔۔۔ل۔۔۔ی۔۔۔ک۔۔۔م۔۔۔ا۔۔۔ل۔۔۔س۔۔۔ل۔۔۔ا۔۔۔م۔

ا۔۔۔ق۔۔۔ت۔۔۔ب۔۔۔ا۔۔۔س ۔۔۔ش۔۔۔د۔۔۔ہ۔۔۔ ج۔۔۔م۔۔۔ل۔۔۔و۔۔۔ں۔۔۔ ک۔۔۔ی۔۔۔ ک۔۔۔ک۔۔۔ھ۔۔۔ س۔۔۔م۔۔۔ج۔۔۔ھ ۔۔۔ن۔۔۔ہ۔۔۔ی۔۔۔ں ۔۔۔آ۔۔۔ ر۔۔۔ہ۔۔۔ی۔
ا۔۔۔س۔۔۔ی ۔۔۔ط۔۔۔ر۔۔۔ح ۔۔۔ل۔۔۔ک۔۔۔ھ۔۔۔ی۔۔۔ں ۔۔۔ش۔۔۔ک۔۔۔ر۔۔ی۔۔۔ہ۔
 

الف عین

لائبریرین
ترے رستے میں ایک غم کیا کہوں وہ سو پہ بھاری ہے
صبر کرتے گزارہ ہے مجھے تجھ سے جو یاری ہے
... پہلے مصرع میں 'اک غم' وزن میں آتا ہے
دوسرے میں 'صبر' کا تلفظ غلط ہے
'شعر نہیں بن سکا، پانچ علیحدہ علیحدہ فقرے ہیں

تری صحبت کو جو چاہوں تو خاموشی کی تلقین ہو
غضب کیا ہے کہ لب سینے پہ اب تقریر ساری ہے
... تلقین وزن میں نہیں
مطلب نہیں سمجھ سکا، سارے بے ربط ٹکڑے لگتے ہیں

مرے مولی ہے قصہ کیا یہاں ملا وہاں میاں
کہیں تو بت پرستی ہے کہیں خود بت پجاری ہے
... پہلا مصرع بحر سے خارج 'میاں' کے باعث
بت پجاری کس طرح ہو سکتے ہیں؟

ذکاوت سے تری پیدا ترے پانے کا سودا ہے
ادھر تعریف کے پل ہیں ادھر بدلے میں خواری ہے
... ذکاوت سے کیا ربط؟

خدا را امتحاں کر لو ترا طالب حقیقی ہوں
وہیں پر ہوں جہاں پر عشق کی مردم شماری ہے
... واضح نہیں

سحر گاہی کے سجدوں سے نہیں پایا کہیں تجھ کو
تجھے کھونے کا سکتہ سا دماغ و دل پہ طاری ہے
.... دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی یہاں بھی ہے

پڑا افغان سے پالا تو کیسی خوف کی باتیں
تری منزل کا راہی ہے وہی جو دل سے عاری ہے
... ایضاً
 
ترے رستے میں ایک غم کیا کہوں وہ سو پہ بھاری ہے
صبر کرتے گزارہ ہے مجھے تجھ سے جو یاری ہے
... پہلے مصرع میں 'اک غم' وزن میں آتا ہے
دوسرے میں 'صبر' کا تلفظ غلط ہے
'شعر نہیں بن سکا، پانچ علیحدہ علیحدہ فقرے ہیں

تری صحبت کو جو چاہوں تو خاموشی کی تلقین ہو
غضب کیا ہے کہ لب سینے پہ اب تقریر ساری ہے
... تلقین وزن میں نہیں
مطلب نہیں سمجھ سکا، سارے بے ربط ٹکڑے لگتے ہیں

مرے مولی ہے قصہ کیا یہاں ملا وہاں میاں
کہیں تو بت پرستی ہے کہیں خود بت پجاری ہے
... پہلا مصرع بحر سے خارج 'میاں' کے باعث
بت پجاری کس طرح ہو سکتے ہیں؟

ذکاوت سے تری پیدا ترے پانے کا سودا ہے
ادھر تعریف کے پل ہیں ادھر بدلے میں خواری ہے
... ذکاوت سے کیا ربط؟

خدا را امتحاں کر لو ترا طالب حقیقی ہوں
وہیں پر ہوں جہاں پر عشق کی مردم شماری ہے
... واضح نہیں

سحر گاہی کے سجدوں سے نہیں پایا کہیں تجھ کو
تجھے کھونے کا سکتہ سا دماغ و دل پہ طاری ہے
.... دونوں مصرعوں میں ربط کی کمی یہاں بھی ہے

پڑا افغان سے پالا تو کیسی خوف کی باتیں
تری منزل کا راہی ہے وہی جو دل سے عاری ہے
... ایضاً
اول تو آنجناب کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میری ورق سیاہی کو لائق تبصرہ سجھا اور اپنا قیمتی وقت نکال کر تصحیح فرمائی!
آپ کی نگارشات پر کچھ معروضات پیش خدمت ہیں:
• 'ایک' دراصل 'اک' ہی تھا، غلطی سے 'ایک' لکھا ہے۔
• وزن یوں ہے: ترے رستے:مفاعیلن، کا اک غم کیا: مفاعیلن، کہوں وہ سو: مفاعیلن، پہ بھاری ہے:مفاعیلن
• صبر کا صحیح عربی تلفظ وہی ہے جس پر آپ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی میں اس کو 'مفا' کے مقابل لایا ہوں کیونکہ اردو میں بے تکلفی سے یوں ہی تلفظ ہوتا ہے۔
استشہاد کے لئے میں عربی سے قدر، جبر، ہجر، غدر، وزن، ہتک وغیرہ اور فارسی سے نرم، گرم وغیرہ کی مثالیں پیش کرسکتا ہوں جو أصل عربی اور فارسی میں بفتح اول و سکون ثانی ہیں لیکن ان میں سے اکثر کا تلفظ اردو میں بفتحتین ہوتا ہے، البتہ ہجر کی ہاء کو ساتھ کسرہ بھی دیتے ہیں۔
اگر یہ توجیہ دل کو نہ لگے تو ضرورت شعر و وزن ایک مستقل عذر ہے جس کو بڑے بڑے لوگ استعمال کرتے آئے ہیں، مانا کہ مجھ جیسے چھوٹے لوگوں کو بالکل ابتداء ہی میں اس کی عادت پڑنا شاید اچھا نہ ہو!
وزن: صبر کرتے:مفاعیلن، گزارہ ہے: مفاعیلن، مجھے تجھ سے:مفاعیلن، جو یاری ہے:مفاعیلن
• 'تلقیں' کو ن غنہ کے ساتھ پڑھا جائے تو کچھ مسئلہ نہیں ہوگا۔
• 'میاں' بالتشدید پڑھا جائے جو اس کا Colloquial یعنی روز مرہ کا تلفظ ہے تو کچھ مسئلہ نہیں ہوگا یعنی 'یہاں می یاں:مفاعیلن' پھر وزن میں رہتا ہے!
• 'بت پجاری۔۔۔'، چونکہ "شاعر" کا بت ہے اس لئے پجاری ہوسکتا ہے! (لطیفہ)
یہاں در اصل شعری مبالغہ ہے۔ معشوق کو پجاری اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ پر اترا رہا ہے، ناز و غرور اس کو اپنے آپ سے نکلنے نہیں دے رہا تو گویا اپنے آپ میں مگن ہے اور اپنے بت کا خود بجاری ہے۔ ملا اور میاں کی تلمیحات کا آپ نے ذکر مناسب نہیں سمجھا لیکن میں مختصرا عرض کرتا ہوں: ملا سے "شاعر" خود اور میاں سے اس کا معشوق مراد ہے۔ میاں یہاں ایک نسلی گروہ کا نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلی رشتے کا دعوی رکھتا ہے۔
• 'ذکاوت سے۔۔۔' سے ربط یہ ہے کہ اس عشق کی بنیاد معشوق کی ذکاوت و فطانت ہے (حسن نہیں یا شاید ثانوی ہے) جس کی "شاعر" داد پر داد دیئے جا رہا ہے لیکن وہاں سے اس کو کچھ بھی لفٹ نہیں مل رہا بلکہ الٹا دھتکارا جا رہا ہے اور خوار و ملامت کیا جا رہا ہے۔
• 'عشق کی مردم شماری' یعنی تیری طرف سے جہاں کہیں عاشق شماری اور اپنے عاشقوں کی گنتی ہوا کرتی ہے تو میں وہیں حاضر ہو جاتا ہوں مگر شومئ قسمت سے در خور اعتناء نہیں گردانا جاتا۔ آپ ایک بار میرا امتحاں کرکے تو دیکھ لیجئے، یکے از مردمان عشق نکلوں گا، پکا طالب نکلوں گا!
• 'سحر گاہی۔۔۔' یہاں تو ربط بالکل واضح ہے! تجھے سحر کے سجدوں میں اللہ سے مانگ رہا ہوں مگر قبولیت ندارد جس کا اثر یہ ہے کہ تو کہیں نہیں مل رہا، نہ تیری منت سماجت سے، نہ جرگے سے، وغیرہ۔۔۔
اس کو سجدوں میں نہ ملنے سے تعبیر کیا ہے۔
• 'پڑا أفغان...' یہ مصراع الفاظ کے چناو کے لحاظ سے شاید اتنا بر محل نہ ہو کیونکہ 'پالا پڑنا' اکثر منفی معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں پر اس سے ایک اور باریکی کو واضح کرنا مقصود تھا اور وہ یہ کہ معشوق کیلئے تو یہ مجھ سے پالا پڑنا ہی ہے کہ وہ اپنی طرف اس پیش قدمی سے بوجوہ خوش نہیں جن میں سے ایک خوف کا عنصر بھی ہے۔ بہر حال میں باقی مطلب بیان کئے دیتا ہوں، بعد میں رائے سے نوازئیے گا۔
تم یعنی معشوق اپنے عاشق کو عشق کی پر خطر راہوں کے خطرات، مشقتوں اور چیلنجوں سے خوف دلا رہے ہو کہ باز رہو ورنہ یہ اور وہ ہو جائے گا مگر عاشق یہ کہہ کر جواب دیتا ہے کہ جب تیرا پالا براستہ و بواسطہ عشق 'افغان' سے پڑ ہی چکا ہے تو پھر خوف کھانے اور دلانے کی باتیں کیسی! کیونکہ روایتی طور پر افغان خوف اور چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور میں ان ہی میں کا ہوں (یہاں لفظ أفغان میں ذو معنویت ہے)۔ پھر اس پر مستزاد تیری پر خطر منزل کا سفر تو طے کرتے ہی عاشق صادق ہیں جو پہلے ہی تجھے دل دے آئے ہیں اور گویا اب تو دل سے بالکل عاری اور خالی ہیں اور خوف کا مستقر چونکہ دل ہے اور دل ہے ہی نہیں تو خوف کاہے کو!!
امید ہے اس پس منظر سے اب آپ مزید بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔
 
آخری تدوین:

شکیب

محفلین
اول تو آنجناب کا بے حد شکریہ ادا کرتا ہوں کہ میری ورق سیاہی کو لائق تبصرہ سجھا اور اپنا قیمتی وقت نکال کر تصحیح فرمائی!
آپ کی نگارشات پر کچھ معروضات پیش خدمت ہیں:
• 'ایک' دراصل 'اک' ہی تھا، غلطی سے 'ایک' لکھا ہے۔
• وزن یوں ہے: ترے رستے:مفاعیلن، کا اک غم کیا: مفاعیلن، کہوں وہ سو: مفاعیلن، پہ بھاری ہے:مفاعیلن
• صبر کا صحیح عربی تلفظ وہی ہے جس پر آپ نے تنبیہ فرمائی ہے۔ لیکن یہ جانتے ہوئے بھی میں اس کو 'مفا' کے مقابل لایا ہوں کیونکہ اردو میں بے تکلفی سے یوں ہی تلفظ ہوتا ہے۔
استشہاد کے لئے میں عربی سے قدر، جبر، ہجر، غدر، وزن، ہتک وغیرہ اور فارسی سے نرم، گرم وغیرہ کی مثالیں پیش کرسکتا ہوں جو أصل عربی اور فارسی میں بفتح اول و سکون ثانی ہیں لیکن ان میں سے اکثر کا تلفظ اردو میں بفتحتین ہوتا ہے، البتہ ہجر کی ہاء کو ساتھ کسرہ بھی دیتے ہیں۔
اگر یہ توجیہ دل کو نہ لگے تو ضرورت شعر و وزن ایک مستقل عذر ہے جس کو بڑے بڑے لوگ استعمال کرتے آئے ہیں، مانا کہ مجھ جیسے چھوٹے لوگوں کو بالکل ابتداء ہی میں اس کی عادت پڑنا شاید اچھا نہ ہو!
وزن: صبر کرتے:مفاعیلن، گزارہ ہے: مفاعیلن، مجھے تجھ سے:مفاعیلن، جو یاری ہے:مفاعیلن
• 'تلقیں' کو ن غنہ کے ساتھ پڑھا جائے تو کچھ مسئلہ نہیں ہوگا۔
• 'میاں' بالتشدید پڑھا جائے جو اس کا Colloquial یعنی روز مرہ کا تلفظ ہے تو کچھ مسئلہ نہیں ہوگا یعنی 'یہاں می یاں:مفاعیلن' پھر وزن میں رہتا ہے!
• 'بت پجاری۔۔۔'، چونکہ "شاعر" کا بت ہے اس لئے پجاری ہوسکتا ہے! (لطیفہ)
یہاں در اصل شعری مبالغہ ہے۔ معشوق کو پجاری اس معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ اپنے آپ پر اترا رہا ہے، ناز و غرور اس کو اپنے آپ سے نکلنے نہیں دے رہا تو گویا اپنے آپ میں مگن ہے اور اپنے بت کا خود بجاری ہے۔ ملا اور میاں کی تلمیحات کا آپ نے ذکر مناسب نہیں سمجھا لیکن میں مختصرا عرض کرتا ہوں: ملا سے "شاعر" خود اور میاں سے اس کا معشوق مراد ہے۔ میاں یہاں ایک نسلی گروہ کا نام ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے نسلی رشتے کا دعوی رکھتا ہے۔
• 'ذکاوت سے۔۔۔' سے ربط یہ ہے کہ اس عشق کی بنیاد معشوق کی ذکاوت و فطانت ہے (حسن نہیں یا شاید ثانوی ہے) جس کی "شاعر" داد پر داد دیئے جا رہا ہے لیکن وہاں سے اس کو کچھ بھی لفٹ نہیں مل رہا بلکہ الٹا دھتکارا جا رہا ہے اور خوار و ملامت کیا جا رہا ہے۔
• 'عشق کی مردم شماری' یعنی تیری طرف سے جہاں کہیں عاشق شماری اور اپنے عاشقوں کی گنتی ہوا کرتی ہے تو میں وہیں حاضر ہو جاتا ہوں مگر شومئ قسمت سے در خور اعتناء نہیں گردانا جاتا۔ آپ ایک بار میرا امتحاں کرکے تو دیکھ لیجئے، یکے از مردمان عشق نکلوں گا، پکا طالب نکلوں گا!
• 'سحر گاہی۔۔۔' یہاں تو ربط بالکل واضح ہے! تجھے سحر کے سجدوں میں اللہ سے مانگ رہا ہوں مگر قبولیت ندارد جس کا اثر یہ ہے کہ تو کہیں نہیں مل رہا، نہ تیری منت سماجت سے، نہ جرگے سے، وغیرہ۔۔۔
اس کو سجدوں میں نہ ملنے سے تعبیر کیا ہے۔
• 'پڑا أفغان...' یہ مصراع الفاظ کے چناو کے لحاظ سے شاید اتنا بر محل نہ ہو کیونکہ 'پالا پڑنا' اکثر منفی معنی میں استعمال ہوتا ہے لیکن یہاں پر اس سے ایک اور باریکی کو واضح کرنا مقصود تھا اور وہ یہ کہ معشوق کیلئے تو یہ مجھ سے پالا پڑنا ہی ہے کہ وہ اپنی طرف اس پیش قدمی سے بوجوہ خوش نہیں جن میں سے ایک خوف کا عنصر بھی ہے۔ بہر حال میں باقی مطلب بیان کئے دیتا ہوں، بعد میں رائے سے نوازئیے گا۔
تم یعنی معشوق اپنے عاشق کو عشق کی پر خطر راہوں کے خطرات، مشقتوں اور چیلنجوں سے خوف دلا رہے ہو کہ باز رہو ورنہ یہ اور وہ ہو جائے گا مگر عاشق یہ کہہ کر جواب دیتا ہے کہ جب تیرا پالا براستہ و بواسطہ عشق 'افغان' سے پڑ ہی چکا ہے تو پھر خوف کھانے اور دلانے کی باتیں کیسی! کیونکہ روایتی طور پر افغان خوف اور چیلنج کو قبول کرتے ہیں اور میں ان ہی میں کا ہوں (یہاں لفظ أفغان میں ذو معنویت ہے)۔ پھر اس پر مستزاد تیری پر خطر منزل کا سفر تو طے کرتے ہی عاشق صادق ہیں جو پہلے ہی تجھے دل دے آئے ہیں اور گویا اب تو دل سے بالکل عاری اور خالی ہیں اور خوف کا مستقر چونکہ دل ہے اور دل ہے ہی نہیں تو خوف کاہے کو!!
امید ہے اس پس منظر سے اب آپ مزید بہتر رائے قائم کر سکتے ہیں۔
غلط العوام تلفظ کو بطور توجیہہ پیش کرنا درست نہیں۔ کبھی فرصت نکال کر یہاں عیب نمبر 1 پڑھیے:
شاعر نہیں، اچھے شاعر بنیے (۱) - نگہِ من
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
غلط العوام تلفظ کو بطور توجیہہ پیش کرنا درست نہیں۔ کبھی فرصت نکال کر یہاں عیب نمبر 1 پڑھیے:
شاعر نہیں، اچھے شاعر بنیے (۱) - نگہِ من
السلام علیکم شکیب صاحب
یہ دیے گئے ربط پہ مضمون جو آپ نے پیش کیا ہے، گو میں ساری اقساط تو پڑھ نہیں پایا کہ ڈیوٹی پہ جانا ہے مگر جتنا پڑھا ،اچھا لگا -اسے محفل پہ بھی استفادۂ عام کے لیے کیوں نہیں پیش کر دیتے ؟
 
غلط العوام تلفظ کو بطور توجیہہ پیش کرنا درست نہیں۔ کبھی فرصت نکال کر یہاں عیب نمبر 1 پڑھیے:
شاعر نہیں، اچھے شاعر بنیے (۱) - نگہِ من
اس گفتگو کے آغاز کا مقصد چونکہ 'اصلاح' لینا بیان کیا گیا تھا اس لئے میں دوستوں کی اصلاح کا برابر خیر مقدم کرتا ہوں۔ جو باتیں میں عرض کر رہا ہوں اس کو ممکنہ توجیہات کے طور پر پیش کر رہا ہوں۔
جناب شکیب صاحب! آپ نے غلط العام کی بحث چھیڑ دی تو میں نے مناسب خیال کیا کہ ذرا اس قضیے کی بھی کچھ تنقیح ہو جائے اور معیاری اور غلط العام تلفظ پر بحث کی جائے۔ نیز غلط العام اور غلط العوام کی جداگانہ حیثیت پر تبصرہ ہو جائے۔
میں جناب کے ملاحظے کے لئے کچھ منتخب الفاظ لکھ رہا ہوں جن کا "صحیح" تلفظ لوگ مکمل بھول چکے ہیں۔ اس فہرست میں وہ الفاظ شامل نہیں جن میں "غلط" تلفظ سے وزن عروضی تبدیل نہیں ہوتا مثلا رواج (صحیح بفتح اول، عام طور بکسر)، نفاذ (ایضا)، سید (بکسر و تشدید ثانی، عام طور بفتح)، تہیہ (صحیح بکسر ثانی، عام طور بفتح)، رویہ (ایضا)، حلیہ (صحیح بکسر اول، عام طور بضم)، تماشا (تماشی بکسر شین)، تمنا (تمنی بتشدید و کسر نون)، تقاضا (بکسر ضاد)، وغیرہ.
ذیل میں وہ بعض الفاظ لکھ کر رہا ہوں جن سے وزن عروضی متاثر ہوتا ہے (قوسین میں دیئے گئے جوڑوں میں سے پہلا اصل عربی تلفظ اور دوسرا اس کا عمومی اردو و فارسی تلفظ ہے):
غرق (بفتحتین، بسکون ثانی)، ہتک (بسکون ثانی، بفتحتین)، قتل (ایضا)، ہذیان (بفتحتین، بسکون ثانی)، فیضان (ایضا)، جریان (ایضا)، حیوان (ایضا)، سرطان (ایضا)، ترکہ (بفتح اول و کسر ثانی، بسکون ثانی)، عظمت (بفتحتین، بسکون ثانی)، حوصلہ (بفتح صاد، بسکون)، نمکین (بفتحتین، بسکون ثانی)۔۔۔
یہ الفاظ مجھے سر سری تلاش سے ملے ہیں، مزید تلاش سے مزید الفاظ مل سکتے ہیں۔
اب سوال یہ ہے کہ خالی 'غلط العام' کے لیبل سے ان کے روزمرہ تلفظ کو رد کیا جا سکتا ہے!؟ مزید برآں اگر ہم روزمرہ کے تلفظ کو یوں ہی صحت کی سند دینے سے گریزاں رہیں تو کیا ہم اس عربی تلفظ کو معیار قرار دے دیں جس پر اردو، فارسی میں یا تو تلفظ قریب قریب متروک ہوچکا ہے یا سخت دشوار اور نا مانوس! ایسا کرکے تو شاید ہم موجودہ دور کے تلفظ سے مکمل آنکھیں بند کر رہے ہیں اور ایک عجیب و غریب تلفظ جس کا اردو میں کوئی وجود نہیں، کا دروازہ کھول رہے ہیں۔
یہاں سے میں مذکورۃ الصدر الفاظ کے "صحیح" تلفظ کے بارے میں آپ کی رائے دریافت کرنا چاہوں گا؟
حافظ کا یہ شعر بھی پیش نظر رہے:
نہ بتنہا حیوانات و نباتات و جماد
ہر چہ در عالم امرست بفرمان تو باد
اس کا آپ کیا وزن نکالنا پسند کریں گے؟؟
اور یہ بات صرف تلفظ ہی تک کیا محدود، عربی فارسی کے وہ تمام الفاظ جن کے معانی اصل لغات میں کچھ اور تھے مگر اردو والوں نے ان کو اضافی معانی میں استعمال کیا تو ان کو "غلط العام" کہہ کر دھتکارا جا سکتا ہے!!
یہاں پہنچ کر غلط العام کو غلط العوام یعنی عام جاہل لوگوں کے تلفظ کے معانی نہیں پہنانا چاہئے کیونکہ اس کو کوئی سند نہیں دی جا سکتی بلکہ اس قدرتی تلفظ کی بات ہو رہی ہے جس کو تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت وقت کے ساتھ ساتھ قبول کرتی جاتی ہے۔
گفتگو کے خاتمے پر میں عرض گزار ہوں کہ اردو کا معیاری تلفظ وہ ہے جس کو تعلیم یافتہ اہل لسان قبول عام دے دیں۔ یہاں 'تعلیم یافتہ' کا مطلب یہ ہے اس کے اونچ نیچ اور لسانی مزاج و رویے کا علم بھی رکھتے ہوں۔
میں عربی سے انتہائی شغف رکھتا ہوں اور اس کا تقریبا پچیس سال سے مطالعہ ہے، لہذا اس گفتگو کو عربی سے نفرت پر محمول نہ کیا جائے اور نہ ہی اسے عربی تلفظ کو بگاڑنے کے معانی پہنائے جائیں۔ عربی قرآن کی زبان ہے اور اس کا تلفظ ہر جگہ محفوظ ہے۔ یہاں صرف اس تلفظ اور معانی پر بحث ہو رہی ہے جو اردو والوں کے ہاں تبدیل ہوئے۔ اس تلفظ کی بھی بات نہیں ہو رہی جو عربی، اردو یا فارسی میں یکساں ہے۔ اس کے علاوہ یہ گفتگو اگر چہ اکثر عربی کے بارے میں رہی کیونکہ 'صبر' اسی سے آمدہ تھا لیکن اس سے ہر زبان کے کلمات مستعار کا حکم سمجھنا چاہئے۔
آپ کا نظریہ غلط العام، غط العوام اور معیاری تلفظ کے متعلق جو ہو، اس سے مستفید کرانا نہ بھولئے گا!!
 
آخری تدوین:

الف عین

لائبریرین
اگر بول چال کی زبان کو ہی معیار بنایا جائے تو ہند و پاک کے پچھتر فی صد عوام گجل کہتے ہیں غزل کو۔
اساتذہ نے نہ کہیں صَبَر استعمال کیا ہے اور نہ میّاں، مشدد میاں تو ہم ہندوستانی پہلی بار سن بلکہ پڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ لفظ ہی وزن میں نہیں تھا، اس لیے اس کے معنی پر غور ہی نہیں کیا گیا کہ الفاط بدلنے پر شاید معنی واضح ہو سکیں۔
اگر واقعی کوئی تعلیم یافتہ ہے تو نہ وہ صبَر کہے گا اور نہ میّاں!
 
اگر بول چال کی زبان کو ہی معیار بنایا جائے تو ہند و پاک کے پچھتر فی صد عوام گجل کہتے ہیں غزل کو۔
اساتذہ نے نہ کہیں صَبَر استعمال کیا ہے اور نہ میّاں، مشدد میاں تو ہم ہندوستانی پہلی بار سن بلکہ پڑھ رہے ہیں۔ کیونکہ یہ لفظ ہی وزن میں نہیں تھا، اس لیے اس کے معنی پر غور ہی نہیں کیا گیا کہ الفاط بدلنے پر شاید معنی واضح ہو سکیں۔
اگر واقعی کوئی تعلیم یافتہ ہے تو نہ وہ صبَر کہے گا اور نہ میّاں!
"پاک؟؟ و ہند"!! پاکستان میں "غزل" کہنے والے تو آپ کو بہت ملیں گے البتہ "گجل" کہنے والا تو خاک ملتا، کوئی سمجھنے والا بھی نہیں ملے گا. ہندوستان کی بات الگ ہے، وہاں تو بسا اوقات کسی کو یہ تک پتہ نہیں ہوتا کہ میں کونسی زبان بول رہا ہوں، کوئی اسے اردو کہہ رہا ہے تو کوئی ہندی اور کوئی ہندوستانی۔ کوئی ہندی اردو کو ایک کہہ رہا ہے تو کوئی دونوں کو ہندوستانی کہہ رہا ہے۔ وہاں بھی اگر کوئی شعوری طور پر سمجھ رہا ہو کہ میں اردو بول رہا ہوں تو وہ کبھی بھی غزل کو گجل نہیں کہے گا۔ پتہ نہیں یہ پچہتر فیصد کا افسانہ کہاں سےتراش لیا آپ نے! میں تو پہلے ہی کہہ چکا ہوں کہ تعلیم یافتہ اہل زبان کا تلفظ جن کو زبان دانی آتی ہو اور جس تلفظ کا ان کے ہاں رواج بھی ہو، ہر کس و ناکس کی تو میں بات ہی نہیں کر رہا۔ آپ دونوں حضرات کی یہی مصیبت ہے کہ ایک تو غلط العام اور غلط العوام میں فرق نہیں کر رہے اور دوسرے غلط العام کو غلط محض کے مترادف سمجھ رہے ہیں!! غلط العام کا مرتبہ پایۂ اعتبار و صحت سے قطعا ساقط نہیں ہوتا بلکہ اس کو سند حاصل ہوتی ہے، آپ سمجھنے کی کوشش کریں۔ شکیب صاحب کی پوسٹ کے جواب میں، میں نے دسیوں الفاظ گنائے ہیں جن کا تلفظ اب وہ نہیں رہا جو اصل عربی میں ہے اور حافظ شیرازی کے شعر سے استدلال بھی کیا ہے۔ اس سے پہلے آپ ہی کی پوسٹ کے جواب میں ضرورت شعر و وزن کو مستقل عذر شمار کیا تھا۔ لیکن نہ جانے آپ پوسٹ کو پڑھتے بھی ہیں یا نہیں!
اب آپ کے لئے میں عربی کے ایک شعر سے ایک لفظ کا تلفظ اس کے عمومی تلفظ سے ہٹ کر نکال رہا ہوں، ملاحظہ فرمائیے:
اِنَّ ابنَ زیدٍ لا زالَ مستعمِلاً
للخیرِ یُفشِی فی مِصرهِ العُرُفا
یہ شعر بحر منسرح میں ہے، اس کی عروض صحیح اور ضرب مطوی ہے۔ پہلے مصراع کا وزن مستفعلن مفعولات مستفعلن اور دوسرے کا مستفعلن مفعولات مفتعلن۔ ہمارا مقصد صرف ضرب مفتعلن سے ہے جو لفظ 'مِصْرِہِ' کے ہاء سے 'العُرُفا' کے الف تک ہے۔ اسی ضرب میں لفظ عُرُفا کا وزن تَعِلن ہے۔ پس اس سے لفظ عرف (بغیر الف لام کے) کا تلفظ عُرُف، بضمتین نکلتا ہے۔ حالانکہ آپ کوئی بھی مشہور و معروف عربی لغت مثلا قاموس، صحاح، معجم وسیط وغیرہ نکال دیں اس کا تلفظ وہی ہے جو ہم اردو میں کرتے ہیں یعنی عُرْف، بضم اول و سکون ثانی۔ اسی طرح قرآن کی آیت خُذِ العَفْوَ وأْمُرْ بالعُرْفِ الخ (الاعراف) میں بھی یہی تلفظ ہے تو کیا یہ شاعر کی غلطی ہوئی کہ وزن بنانے کے لئے تلفظ میں حرکت یا سکون کی کچھ تبدیلی کرلے۔ Poetic License اسی چیز ہی کا تو نام ہے جسے ہم اردو والے ضرورت شعری کہتے ہیں اور ہر زبان کے شعراء اس کو ضرورةً استعمال کرتے آئے ہیں۔ باقی شعر سے تلفظ پر استدلال کوئی حرج کی بات نہیں جبکہ شاعر کے بارے میں اطمینان ہو کہ ضرورت شعری کا استعمال یا تو بالکل نہیں کرتا یا بہت کم۔ مگر یہ بات کچھ ضروری بھی نہیں کہ ہر بار شعر ہی سند ہو کیونکہ شعر کے حلال حرام نثر کے حلال حرام سے بہت مختلف ہیں۔ یہ کام اہل لغت کے زیادہ شایاں ہے کہ لفظ کا صحیح تلفظ قلمبند کریں۔ عربی کے واقف کار جانتے ہیں کہ اس میں الفاظ کا ضبط کتنا کٹھن اور کتنا مشکل کام ہے کہ ایک زبر زیر کے فرق سے معانی کہاں سے کہاں پہنچ جاتے ہیں مگر وہاں بھی شعراء ضرورت شعری کے قائل ہیں اور اس کو استعمال بھی کرتے آئے ہیں، مثال میں دے چکا ہوں۔ مزید برآں شعر سے تلفظ پر استدلال آپ جیسے لائق و فائق لوگوں کا کام ہے جن کو بحر، وزن، عروض اور تقطیع وغیرہ کی شد بد ہے۔ عام لوگوں کی کیا اوقات و لیاقت کہ وزن کو دیکھ کر تلفظ معلوم کرسکیں اگر تو وہ ایسا کر بھی سکتے تو پھر ان کے لئے تلفظ میں غلطی کا پتہ لگانا کیا مشکل!؟
ایک گزارش! آپ اور جناب شکیب نے پورے شد و مد سے 'صبر اور میاں' کو درمیان میں لا کھڑا کرکے میری باقی غزل سے تو بالکل منہ ہی پھیر لیا جس سے میرا سارا صبر و حوصلہ اور زور زیر و زبر ہوگیا۔۔۔
خیر ہم ہر وار یار کو سہہ رہے ہیں۔۔
 
آخری تدوین:

یاسر شاہ

محفلین
ابراہیم صاحب !آپ کا انداز گفتگو جارحانہ محسوس ہوتا ہے ،یوں لگتا ہے آپ اصلاح لینے نہیں دینے آئے ہیں -اعجاز صاحب کی باتوں پر تسلّی سے غور کریں -اور اگر آپ کو لگتا ہے آپ درست ہیں تو دور از کار تاویلات کے بجائے اسناد پیش کریں -اور شاعری کے باب میں سند دو چیزیں ہیں :

١-اساتذہ کے اشعار
٢-مستند فرہنگ

جیسے آپ نے اوپر نہ جانے کیا ثابت کرنے کے لئے عربی شعر پیش کیا ہے ویسے ہی اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے اردو کے کسی استاد شاعر کا شعر پیش کر دیں یا فرہنگ کا حوالہ دے دیں - قصہ مختصر -

باقی رہی ضرورت شعری تو اس کا استعمال تب ہوتا ہے جب خیال بلند ہو اور عام ڈگر سے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو -اور یہاں آپ کے پاس چارہ بھی ہے کہ بحر میں بہت گنجائش ہے آپ "میاں" اور "صبر " کو آرام سے درست تلفظ کے ساتھ باندھ سکتے ہیں پھر مذکورہ اشعار میں خیالات بھی بلند نہیں -اب بھی ضرورت شعری سے ہی کام لینا ہے تو شعر گوئی چہ ضرور ؟
 
ابراہیم صاحب !آپ کا انداز گفتگو جارحانہ محسوس ہوتا ہے ،یوں لگتا ہے آپ اصلاح لینے نہیں دینے آئے ہیں -اعجاز صاحب کی باتوں پر تسلّی سے غور کریں -اور اگر آپ کو لگتا ہے آپ درست ہیں تو دور از کار تاویلات کے بجائے اسناد پیش کریں -اور شاعری کے باب میں سند دو چیزیں ہیں :

١-اساتذہ کے اشعار
٢-مستند فرہنگ

جیسے آپ نے اوپر نہ جانے کیا ثابت کرنے کے لئے عربی شعر پیش کیا ہے ویسے ہی اپنا مدعا ثابت کرنے کے لئے اردو کے کسی استاد شاعر کا شعر پیش کر دیں یا فرہنگ کا حوالہ دے دیں - قصہ مختصر -

باقی رہی ضرورت شعری تو اس کا استعمال تب ہوتا ہے جب خیال بلند ہو اور عام ڈگر سے ہٹنے کے سوا کوئی چارہ نہ ہو -اور یہاں آپ کے پاس چارہ بھی ہے کہ بحر میں بہت گنجائش ہے آپ "میاں" اور "صبر " کو آرام سے درست تلفظ کے ساتھ باندھ سکتے ہیں پھر مذکورہ اشعار میں خیالات بھی بلند نہیں -اب بھی ضرورت شعری سے ہی کام لینا ہے تو شعر گوئی چہ ضرور ؟
جناب عالی! میرے رویے پر تنبیہ کا تہ دل سے مشکور ہوں اور کسی موہومہ گستاخی کے لئے معافی کا خواستگار ہوں۔ عرض یہ ہے کہ میری طرف سے کوئی جارحیت نہیں بس یہ آپ کا سوء ظن ہے اور سچ پوچھئے تو اس کا پہل آپ ہی کر رہے ہیں کہ مجھ پر مثلا "مذکورہ اشعار میں خیالات بھی بلند نہیں" کی پھبتی کس رہے ہیں۔ خدا جانے آپ کے ہاں خیالات کی بلندی کتنی بلند پروازی سے حاصل ہوتی ہے!
خیر اگر آپ نے غور فرمایا ہو تو میں نے اصلاح دینے والوں کی کئی اصلاحات کو قبول فرمایا ہے۔ "ایک" کی جگہ"اک"، تلقین کی جگہ تلقیں، مصرعوں میں ربط کی شکایت کی گئی تو میں نے فورا واضح کرنے کی کوشش کی جس کو آپ نے غالبا نوٹ نہیں فرمایا۔ میں نے جو بحث کی اس کا بنیادی مقصد اس سے زیادہ کچھ نہیں تھا کہ کوئی پہلو تشنہ ہو تو اس کی کوئی معقول توجیہ بیان کردی جائے۔ اس کا مقصد معاذ اللہ کسی کی کسر شان ہرگز نہیں تھی۔ مثلا کوئی بے ربط نظر آنے والا مصرع شاید واقعی ایسا نہ ہو اگر اس کی مناسب توضیح اور پس منظر بیان کر دیا جائے۔
باقی اصلاح لینے کا مفہوم تو میرے ذہن میں یہ ہے کہ جو اصلاح دے رہا ہے، وہ صلاح دے رہا ہے اور شاید کوئی حتمی حکم نہیں دے رہا جس کو بے چون و چرا ماننا واجب التسلیم ہو اور اگر میں سمجھتا ہوں کہ مجھے اور میرے منظوم ٹکڑے کو سمجھنے میں لوگوں کو کچھ دقت ہو رہی ہے تو اس کو صاف کر دوں۔
بہرحال آپ نے مجھ سے دو چیزوں کا مطالبہ کردیا: مستند لغت اور اساتذہ کا کلام تو عرض ہے کہ خاص لفظ صبر کیلئے تو میں اس چیلنج سے عاجز ہوں کہ غالبا کسی شاعر یا لغت نے بفتح ثانی استعمال نہ کیا ہوگا لیکن اس کے کچھ نظائر میں عربی لغات سے اور دو شعروں سے پہلے ہی عرض کر چکا ہوں۔ جن کو آپ غلط العام کہہ رہے ہیں، ان کو فیروز اللغات میں دیکھ لیں، جیسے ہتک کے تلفظ میں یہ لغت لکھتی ہے:
"بفتح اول و سکون دوم و سوم"
پھر آخر میں ہے:
"اردو میں بفتح اول و دوم مستعمل ہے"
اسی طرح ہذیان کا تلفظ دیکھیں:
"ہَذ-یان"
پھر آخر میں لکھا ہے:
"صحیح بفتح اول و دوم ہے۔ فارسیوں نے بسکون دوم استعمال کیا۔ اردو میں بیشتر بکسر اول مستعمل ہے۔"
اب اگر میں ہتک یا ہذیان کو نظم میں ڈھالنا چاہوں تو کون سا وزن بہتر رہے گا؟؟!! اگر صحیح پہلے والے ہیں تو کیا یہ باقی جو مستعمل ہیں، ان کو غلط کہہ کر متروک قرار دیں جب ڈکشنری ان کو درج کرنے کے ساتھ ساتھ مستعمل بھی کہہ رہی ہے؟ میں بالکل اس صورت حال سے مطمئن نہیں!
ان جیسے الفاظ کو دیکھ کر اگر میں نے صبر میں بھی یہ کلیہ جاری کردیا تو کیا ظلم کیا اگر اچھے بھلے لوگ عملا ایسا کر بھی رہے ہوں۔ اور غالبا آپ بھی کر رہے ہوں گے مگر مان نہیں رہے۔ پھر میاں پر آپ تشدید کے حیران کن طور پر منکر ہیں اور میں کہتا ہوں کہ صرف لکھنے کی حد تک ہی ایسا ہے اور تشدید کا انکار دور از کار ہے۔
گویم ز سوخت دل:
ع
میں اس کو صبر پڑھ لوں یا صبر پڑھ لوں تو کیا حاصل
زباں پر صبر دل نالاں تو ہے دعوی ہی بس دعوی
والسلام!
 
غلط العوام تلفظ کو بطور توجیہہ پیش کرنا درست نہیں۔ کبھی فرصت نکال کر یہاں عیب نمبر 1 پڑھیے:
شاعر نہیں، اچھے شاعر بنیے (۱) - نگہِ من
محترم شکیب صاحب، آداب عرض ہے! آج اچانک اردو ویب پر آپ کے نام کے انگریزی ہجے دل کی آنکھوں سے دیکھنے کا اتفاق ہوا جس سے غلط العام تلفظ کے بارے میں ایک اور سنجیدہ بات پر غور و فکر کا موقع ملا جو آپ کے خلاف حجت ہے اور آپ ہی کے موقف کا خون کرتی ہے۔ ہجوں کو دیکھ کر بڑے ادب سے عرض کرنا پڑ رہا ہے کہ آپ اپنے ہی نام کے درست تلفظ سے واقف نہیں!! آپ کی سپیلنگ Shakeeb میں دو فاش غلطیاں ہیں:
ایک تو ڈبل ای کے ساتھ ہے جس سے یائے معروف (ی) کا پتہ چلتا ہے، دوسری ایس ایچ کے بعد اے لکھا ہے جس سے شین پر زبر کا پتہ چلتا ہے یعنی شَكِيب۔
اب اٹھائیے غیاث اللغات فارسی اور فیروز اللغات اردو، دونوں جگہ شِکیب بیائے مجہول اور بکسر شین لکھا ہے اور ان میں آپ کے "غلط العام تلفظ" کا دور دور تک کچھ پتہ نہیں بلکہ غیاث میں تو زبر کو صراحةً غلط لکھا ہے اور یائے معروف کا دونوں لغات میں بطور غلط بھی ذکر نہیں!
غیاث کی عبارت ملاحظہ ہو:
"بکسرتین و یائے مجہول بمعنی صبر و آرام و بفتح خطا ست۔"
امید ہے آپ اسے "اصلاح دینے" سے تعبیر نہیں فرمائیں گے بلکہ غلط العام تلفظ سے متعلق اپنے رویے میں تھوڑا لچک پیدا کریں گے۔
آخر میں ایک تجویز ذہن میں آرہی ہے کہ اگر تلفظ کے حوالے سے اردو محفل پر ایک کھلا مباحثہ ہو جس میں آپ کے خیال میں اس بابت سمجھ بوجھ رکھنے والے شرکاء ہی کی آرا شامل ہوں۔ اس کا مقصد محض روزمرہ Colloquial اور کتابی تلفظ کا تقابل ہو اور پاک و ہند میں تلفظ کی موجودہ صورتحال کی درست تصویر کشی ہو۔ کسی کی طرف سے تلفظ پر اپنا حاکمانہ فیصلہ نہ ہو بلکہ صرف انفرادی رائے ہو۔
شکریہ۔
 
آخری تدوین:

محمد وارث

لائبریرین
غلط العام فصیح ہے اور شاعری میں جائز ہے۔

غلط العوام بالکل غلط ہے جیسے صبر کو زبر کے وزن پر بولنا۔

کسی شاعر کا غلط العوام کو شعر میں غلطی سے باندھ دینا فاش غلطی ہے، جسے درست کرنا ضروری ہے۔

کسی شاعر کا غلط العوام کو جانتے بوجھتے شعر میں باندھ دینا ادبی بد دیانتی ہے۔

کسی شاعر کا غلط العوام کو شعر میں باندھ کر اس کے درست ہونے پر اصرار کرنا محض ہٹ دھرمی ہے!
 
غلط العام فصیح ہے اور شاعری میں جائز ہے۔

غلط العوام بالکل غلط ہے جیسے صبر کو زبر کے وزن پر بولنا۔

کسی شاعر کا غلط العوام کو شعر میں غلطی سے باندھ دینا فاش غلطی ہے، جسے درست کرنا ضروری ہے۔

کسی شاعر کا غلط العوام کو جانتے بوجھتے شعر میں باندھ دینا ادبی بد دیانتی ہے۔

کسی شاعر کا غلط العوام کو شعر میں باندھ کر اس کے درست ہونے پر اصرار کرنا محض ہٹ دھرمی ہے!
وارث صاحب، آپ کی بات بسر و چشم! میں بہت چھوٹا آدمی ہوں، میری کیا اوقات کہ غلط تلفظ کو رواج دوں۔ اس پے درپے سرزنش سے تو اب صَبَر کا دامن چھوٹ رہا ہے اور دھیرے دھیرے صَبْر کا دامن ہاتھ آرہا ہے۔ مگر صرف ایک بات پر مسلسل اصرار کئے جا رہا ہوں کہ غلط العوام کیلئے کوئی حد بندی ہے کہ کب تک اس میں رہ کر غلط العام کے مرتبے پر فائز ہو؟ مثلا لفظ "شَكِيب" (بفتح اول و یائے معروف) ہی کو لے لیجئے، اس کو کسی لغت نے غلط العام یا غلط العوام تو کیا، غیاث اللغات نے تو صراحةً غلط لکھا ہے! کل کو گرامی قدر شکیب صاحب لفظ "شَكِيب" پر "قریب" کے لفظ سے قافیہ باندھنا چاہیں گے تو خود ان ہی کے اصول سے غلط ہوگا۔ نہ صرف اس وجہ سے کہ وہ "صَبَر" (بفتحتین) کو "غلط العام" مان کر گویا غلط محض قرار دے چکے ہیں (تو ان کا "غلط العام" یعنی "شَكِيب" کسی بھی تعریف سے کیونکر صحیح ہوسکتا ہے) بلکہ اس وجہ سے بھی کہ لفظ "شَكِيب" غلط العام کے رتبے سے بھی بہت گھٹا ہوا یعنی غلط محض ہے!
میری اب تک کے کلام کا مدعا یہ ہے کہ زبانیں جب ترقی کی منزلیں طے کرتی ہیں تو کوئی لفظ غلط سے غلط العوام، غلط العام (جس کی فصاحت میں "لطیف مزاج" لوگ ابھی ایک گونہ تشنگی محسوس کرتے ہیں) اور آخر کار فصیح بن جاتا ہے یعنی دھیرے دھیرے مجہولیت و اجنبیت سے نکل کر معروفیت اور اپنائیت کا رنگ دھارتا ہے۔
یہ ہماری اردو کی بد نصیبی ہے یا خوش نصیبی کہ یہاں کی بھائی بندی ایک قسم کی Hypercorrection میں بری طرح جکڑی ہوئی ہے کہ جب تک ڈکشنری کسی لفظ کو سند تصحیح نہیں دیتی اس وقت تک شائع و مستعمَل کا انکار کرتی پھرے۔ کل کو اگر اسی لغت کی اگلی اشاعت اس کو شرَف قبول دیدے تو پھر خاموشی سے مان لیتے ہیں۔ بھائی! کسی زبان کی لغت کسی تلفظ یا معنی کی مُجوِّز و آمر یعنی Normative/Prescriptive نہیں ہوتی بلکہ صرف مُبَيِّن اور بیان کنندہ یعنی Descriptive ہوتی ہے لغت معاصرہ کی۔
فی الحال بس اسی قدر پر کفایت کرتا ہوں۔
 
آخری تدوین:
Top