تری بات بے تاثیر،تیرا اقدام بے ثمر

گورنر پنجاب جناب سلمان تاثیر نے بولنے کا ٹھیکہ تو اٹھا رکھا ہے مگر انکو معلوم نہیں کہ کب اور کیا بولنا چاہئے؟ زبان اللہ تعالیٰ نے بولنے ہی کو نہیں، اچھا بولنے کیلئے عطا کی ہے، اول ، فول اور لچر پن کیلئے نہیں ۔
اچھے بول اور عمدہ بات میں جادو جیسا اثر ہوتا ہے۔ زباں سے نکلی بات دل پر اثر کرتی ہے اور اسکی تاثیر بڑی گہری ہوتی ہے، قوموں کے عروج و زوال میں بڑوں کی باتوں اور فیصلوں کو بہت دخل ہوتا ہے، کسی بھی شخصیت کی پہچان اور بڑا پن اسکی بات و بیان سے ہوتا ہے، بولنے کیلئے عمدہ الفاظ اور نفیس جملوں کا انتخاب ضروری ہے، بات کرنے والے کیلئے لازمی ہے کہ وہ خیرو بھلائی اور معروف کے دامن کو نہ چھوڑے ۔محمد عربی ﷺ کا فرمان ہے، جو شخص اللہ تعالیٰ اور آخرت کے دن پر ایمان و یقین رکھتا ہے اسکو چاہیے کہ وہ اچھائی کی بات کر ے یا خاموش رہے ۔
اچھی بات اور عمدہ کلام نہ ہونے کی صورت میں خاموش رہنا بھی نیکی ہے ۔ تاثیر صاحب نیکی کو جرم جان کر اسکے قریب نہیںجاتے، تاہم جرم کو ثواب سمجھ کر کرتے ہیں، اس لئے مجرموں کی سر پرستی اور پشتی بانی کرتے ہیں۔
ننکانہ کی باسی گستاخ رسول ﷺ آسیہ مسیح جسکا جرم عدالت میں ثابت ہو گیا تھا، کے ساتھ اہل خانہ کو لے جا کر جیل میں ملاقات کی اور رحم کی اپیل پر دستخط کروائے۔
ان کے دل میں محبت مصطفی ﷺ ہوتی تو کبھی بھی اس مجرمہ کی حمایت نہ کرتے اور نہ ہی اس کو وی آئی پی پروٹو کول دیتے ۔
انکو امریکی جیل میں قید مظلوم عافیہ نظر نہیں آئی، مجرمہ آسیہ نظر آ گئی۔ پوپ کے بیان اور یورپ کے اشارے پر یہ حرکت میں آگئے اور اب نازیبا حرکتیں اور شرارتیں کر رہے ہیں ۔ان کے اس اقدام سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ امریکہ کے کلرک اور پوپ کے روحانی پسر ہیں ۔ جس قانون 295-cکے تحت گستاخ آسیہ مسیح کو موت کی سزا سنائی گئی، گورنرصاحب کی نظر میں وہ کالا قانون ہے۔
انہوں نے ہر وقت دونوں آنکھوں پر سیا ہ کالا چشمہ لگایا ہوتا ہے، اس لئے زمین و آسماں ، سورج اور چاند ، آئین اور قانون انکو کالانظر آتا ہے ۔ان کے بیان کے پس منظر میںیہود و نصاریٰ سے محبت و ہمدردی ، خیر خواہی ، نوکری اور نمک حلالی کے انداز نظر آرہے ہیں، جن کو پورا کرنے کیلئے انہوںنے توہین رسالت اور توہین عدالت کا ارتکاب کر لیا ہے اور پاکستان کے قانون کو کالا قرار دیا ہے جبکہ 295-cگستاخان رسول ﷺ کیلئے ایسا قانون ہے جو شریعت کے تقاضوں کے مطابق ہے، قیام امن کیلئے اس کا نفاذ ضروری ہے۔
یورپی یونین نے ناپاک جسارت کرتے ہوئے توہین رسالت قانون ختم کرنے کا مطالبہ کیا ہے اور اس کے بدلے اپنی منڈی اور مارکیٹ تک رسائی کا لالی پاپ دیا، تاہم اہل محبت صاف کہتے ہیں کہ یہ رسائی رسوائی کے سوا کچھ نہیں ۔
حرمت رسولﷺ پر سودے بازی ، لین دین اور کاروبار ایمان کی بربادی ہے، ناموس محمد ﷺ کا قانون کوئی بکاﺅ چیز نہیں کہ جسکو منڈیوں میں نیلام کر دیا جائے۔
اہل یورپ کو شرم آنی چاہیے یہ تو حیا سے ہاتھ دھو بیٹھے ہیں، یہ لوگ، پورا یورپ بلکہ ساری دنیا کی پیشکش کر دیں تو تب بھی اس میں گنجائش نہیں، یہ تھوڑا انتظار کریں وقت اور حالات ان کو بتا دیں گے کہ انکی منڈیوں اور محلات میں وفاداران محمد ﷺ اور محبا ن رسول ﷺ عزت و سرفرازی سے داخل ہونگے اور ہر طرف مصطفوی پرچم سر بلند ہوگا ۔
سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ یورپ کو جرا ¿ت کیسے ہوئی کہ اس نے نامو س مصطفی کا سودا کرنے کی بات کی ؟
جب گورنر صاحب اور ان کے ہمنوا قانون رسالت کوکالا قرار دیں گے تو یورپ کے کالے دل والے گورے اس قسم کی کمینگی کریں گے ۔
تاثیر صاحب کے ضمیر و خمیر میں نہ حب رسالت ہے اور نہ ہی حب الوطنی، ان کے اقدامات ابتدا سے ملک دشمنی پر مبنی ہیں۔یہ پرویزی ، امریکی اور یورپی ایجنڈے کے علمبردار اور انہی کے وفا دار ہیں، منہ میں زبان انکی ہے اور بات انکی ، گورنر ہمارے ہیں اور نوکر ان کے، انکا وجود پاکستان کیلئے بالعموم اور پنجاب کیلئے بالخصوص باعث ابتلاءو آزمائش ہے، موصوف کے منصب پر عوام نے صبر کے دامن کو تھام رکھا ہے تو اسکامطلب قطعا یہ نہیںکہ یہ ناموس محمدﷺ اور قانون رسالت سے کھل کھیلنا شروع کر دیں ۔
پاکستان کے عوا م خصوصاً مسلمان اپنے حقوق اور عزت کے چھن جانے پر تو صبر کرلیتے ہیں مگر جب بات حرمت رسول ﷺ اورناموس مصطفی کی ہو تو پھر کٹ مرنا سعادت سمجھتے ہیں ۔
گورنر کا اقدام و بیان جو انہو ںنے آسیہ مسیح کے حوالے سے کیا اور دیا ہے خود گستاخی پر مبنی ہے، یہ توہین رسالت اور توہین عدالت ہے۔ عدالت کے فیصلے کے بعد آسیہ کو ملک سے باہر بھگانے کی کوشش مذموم، غیر آئینی اور غیر اسلامی ہے ۔
ان کیلئے میری تجویز ہے کہ یہ خود اس ملک کی جان چھوڑکر اپنے آقاﺅں کے سایہ اور انکی سر پرستی میں چلے جائیں، بلکہ شیریں رحمن اور شہباز بھٹی کو بھی ہمراہ لے جائیں، مفادات کی منڈی میںمناسب دام لگ جائیں گے ۔
ملک پاکستان جو کلمہ توحید کی بنیاد علامہ اقبال کے افکار ، قائد اعظم کی جدو جہد ،شہداءکی قربانیوں اورعلماءکرام کی کاوشوں کا ثمر ہے اس طرح سے پاک ہو جائیگا۔ علماءکیخلاف جس قسم کی زبان موصو ف نے استعمال کی ہے وہ چاند پر تھوکنے کے مترادف ہے۔ اپنے تھوک کے علاوہ پورے عوام کی تھوکیں اب انکے منہ پہ پڑ رہے ہیں اور تھوکوں سے کبھی چہرہ دہکتا نہیں تعفن زدہ ہوتا ہے ۔
علماءکرام جہاں محمد ﷺ کے وارث ہیں وہاں ناموس نبوت کے محافظ و چوکیدار اور پہرہ دار بھی ہیں، امت کی رہنمائی اور بیداری انکی ذمہ داری ہے۔یہ لوگ علم و بصیرت کے ساتھ اسلام اور پیغمبر اسلام کیخلاف ناپاک عزائم و ارادہ رکھنے اور اقدامات کرنے والے لشکر شیطان کی پس پائی کا فریضہ سر انجام دیتے رہیں گے ۔ ان شا ءاللہ ملک میں بد امنی پیدا کرنے اور یورپ کے ایجنڈے کو لیکر چلنے والے ان کے ایجنٹوں کے عزائم کو خاک میںملا دیںگے۔ حضرت محمد ﷺ کیخلاف وہی خانہ خراب بات کریگا یا اور قدم اٹھائے گا جو عقل و عدل اور ایمان سے خالی ہو ایسے انسان کے دونوں جہاں خراب ہیں ۔ اللہ ہدایت دے آمین








بشکریہ جرار
 
Top