ترکی کی تاریخ میں عشقیہ داستانیں

اسماء خان سلطان اور ملک احمد پاشا بھی ایسے دو دیوانے ہیں جنہوں نے اپنے عشق کو شادی کے بعد پایا

ایک سوال بہت تواتر سے پوچھا جاتا ہے اور وہ یہ کہ کیا محبت میں دُوری ہو تو ہی اس کا نام عشق ہوتا ہے یا پھر عشق ملاپ کے بعد بھی جاری رہتا ہے؟
اس سوال کا درست جواب تو معلوم نہیں کیا ہے لیکن یہ ضرور ہے کہ عشق کی داستانیں عام طور پر ایسی ہیں جن میں ملاپ نہیں ہوسکا۔لیکن تاریخ میں ایسے دیوانے بھی موجود ہیں جنہوں نے ملاپ کے بعد اپنے عشق کو پایا اور پھر اس عشق کے ساتھ زندگی گزاری۔ اسماء خان سلطان اور ملک احمد پاشا بھی ایسے ہی دو دیوانے ہیں جنہوں نے اپنے عشق کو شادی کے بعد پایا اور 15 سالہ ازدواجی زندگی کو ایسے گزار جیسے ہر آنے والا دن ان کی محبت کا پہلا دن ہو۔
اسماء خان کھایا سلطان راضی بہ رضا، نفیس اور حساس روح کی مالک اور عثمانی بادشاہ مراد چہارم کی بیٹی تھی۔سلطان احمد اور ماہ پیکر کوسیم سلطان کی پوتی تھی۔ حرم میں اس حسین شہزادی کو بہت مقبولیت حاصل تھی ۔ اسے بھی شاہی خاندان کی دیگر خواتین کی طرح سیاسی مفاد کی شادی کرنا تھی۔لہذا جب وہ شادی کی عمر کو پہنچی تو اسے شاہی انتظام میں ایک اہم عہدے پر فائز ملک احمد پاشا کے ساتھ بیاہ دیا گیا۔ملک احمد پاشا کم سنی کی عمر میں ہی سلطان احمد کا مقبول نظر بن گیا تھا۔ملک کا خطاب بھی اسے سلطان نے دیا تھا اور وہ اندرون کے ذہین ترین طالبعلموں میں سے ایک تھا۔
اسماء خان سلطان نے شادی کی رات پہلی دفعہ ملک احمد پاشا کو دیکھا۔اپنے سامنے باپ کی عمر کے پاشا کو دیکھ کر اسماء خان ڈر گئی اور فوری طور پر پاشا کو کمرے سے نکال دیا۔جیسے نوجوان شہزادی کو مایوسی کا سامنا ہوا تھا اسی طرح ملک احمد پاشا اپنی اہلیہ کی نوجوانی کے سامنے حیران و ششدر تھا۔کیوں کہ پاشا عام انسانوں کی طرح شادی کر کے گھر بسانا چاہتا تھا لیکن سیاسی وجوہات کی بنا پر شاہی خاندان کا داماد بننے پر مجبور کر دیا گیا تھا ۔وہ اس صورتحال پر خوش نہیں تھا۔جبکہ ان دنوں میں یہ ہر ایک کی خواہش ہوتی تھی کہ وہ شاہی خاندان میں شادی کر کے محل سے قریب ہو جائے۔
لیکن شہزادی اور پاشا ایک دوسرے کی طرف مائل نہ ہوسکے اور شادی کے بعد سات سال تک دو اجنبیوں کی طرح زندگی گزارتے رہے یہاں تک کہ 5 سال تک دونوں نے ایک دوسرے کو دیکھا تک نہیں۔سلطان احمد چہارم اپنے حکومتی کاموں میں مصروفیت کی وجہ سے اور محل میں شہزادی اسماء سلطان کی ماں خدیجہ سلطان اور دادی ماہ پیکر سلطان کے درمیان رقابت کی وجہ سے کسی کو بھی اسماء سلطان اور ملک احمد کے علیحدہ علیحدہ زندگی گزارنے کا علم نہ ہوا۔یوں بھی ملک احمد پاشا کی تعیناتی مختلف جگہوں پر ہوتی رہتی اور وہ بہت کم استنبول آتا تھا۔شہزادی ہونے کے ناطے اسماء سلطان محل سے باہر نہیں نکلتی تھی اور جب پاشا استنبول واپس آتا تو ان کا قیام توپ کاپی محل میں ہوتا تھا۔وہ حقیقی معنوں میں اپنے شوہر سے فرار ہو رہی تھی لیکن قسمت سے فرار نہیں ہو پا رہی تھی۔
احمد پاشا نے اپنی شادی کے 5 ویں سال میں استنبول کے زلزلے کے بعد اتفاقاً اسماء سلطان کو توپ کاپی محل کے دروازے پر دیکھا ۔ شہزادی اپنی خادماوں کے ساتھ بگھی میں سوار ہو رہی تھی۔ ایک لمحے کے لئے تو پاشا کو یقین ہی نہ آیا کہ یہ حسین و جمیل شہزادی اس کی بیوی ہے اور یقین آتا بھی کیسے پانچ سال تک اس نے اپنی بیوی کو نہیں دیکھا تھا۔ اس کے اطراف کے لوگوں کی اس سے محبت دیکھ کر پاشا نے جانا کہ شہزادی کا باطن بھی اس کے ظاہر کی طرح خوبصورت ہے یہی وہ آن تھی جب اس کے دل کو آتش عشق نےاپنی لپیٹ میں لے لیا۔ایک انسان کا اپنی بیوی کے عشق میں مبتلا ہونا نارمل لیکن اس عشق کے باوجود اس سے دور رہنا عجیب بات ہے۔لیکن پاشا نہ تو شہزادی کی مرضی کے خلاف کچھ کرنے کی ہمت کر سکتا تھا اور نہ ہی اس میں اُس کے سامنے آ کر کوئی بات کرنے کی طاقت تھی۔اللہ کی طرف سے ایسے حالات پیدا ہوئے کہ یہ عشق دو طرفہ ہو گیا۔ استنبول میں زلزلے کے بعد آتشزدگی میں سلیمانیے جامع مسجد کو نقصان پہنچا جس کی تعمیر و مرمت کے کام کی نگرانی اپنی دادی ماہ پیکر سلطان کے حکم سے شہزادی اسماء خان سلطان کر رہی تھی یہاں اسماء سلطان نے اپنے شوہر کو دیکھا اور بگھی کی کھڑکی سے ایک مختصر گفتگو کے دوران وہ ملک احمد پاشا کی محبت میں مبتلا ہو گئی۔لیکن قسمت کا کھیل دیکھیں کہ شادی شدہ یہ جوڑا اپنے عشق کے دو طرفہ ہونے سے بے خبر الگ الگ اپنی اپنی آگ میں جل رہا تھا۔
آخر کار جب سات سال کا عرصہ گزر گیا تو ماہ پیکر سلطان نے ایک دیوانی اجلاس کے بعد ملک احمد پاشا سے پوچھ گچھ شروع کر دی۔اور اس پوچھ گچھ کا مقصد اپنی لاڈی پوتی کے ابھی تک بے اولاد ہونے کا سبب جاننا تھا۔والدہ سلطان کے خوف سے ڈرتے ڈرتے احمد پاشا نے سات سال سے ایک دوسرے سےعلیحدہ زندگی گزارنے کی بات بتا دی۔ماہ پیکر سلطان نے یہ ماجرا سن کر اسماء سلطان کے لئے حکم جاری کیا اور اس کے بعد سے یہ شادی شدہ جوڑا ایک چھت تلے رہنے لگا۔عشق کی آگ نے دونوں کے دلوں میں گھر تو کر ہی لیا تھا اور اب وہ دنیا میں اپنی خوشیوں کی جنت تعمیر کرنے میں مصروف ہو گئے۔
دنیا میں کون سی خوشی ہے کہ جسے دوام حاصل ہو؟ احمد پاشا نے بھی اپنی اعلٰی کارکردگی کی وجہ سے صدر اعظم کا رتبہ پایا لیکن دشمنوں کی سازشوں کی وجہ سے اپنے عہدے کے معیار پر پورا نہ اتر سکا جس کی وجہ سے اسے صدر اعظم کے عہدے سے معزول کر کے گورنر کے عہدے پر متعین کر دیا گیا۔یہ دور عثمانی سلطنت کے زوال کا دور تھا، معزول پاشا کے گورنر کی حیثیت سے استنبول سے دور جانے کے بعد دونوں محبت کے ماروں کے درمیان لمبے فاصلے پڑ گئے۔دوسری طرف نیک دل اسماء سلطان نے اوپر تلے پُر معنی خواب دیکھنا شروع کر دئیے۔ایک خواب وہ مستقل دیکھ رہی تھی اور وہ خواب یہ تھا کہ اس کے دادا سلطان احمد اس کا ہاتھ پکڑے اسے جنت کی سیر کروا رہے ہیں اور ایسے میں سلطان مصطفی آتے ہیں اور آواز دے کر کہتے ہیں کہ "بھائی اسماء سلطان ، سلطان مراد کی نامراد بیٹی ہے اسے چھوڑو دنیا سے اپنی مراد لے اور اس کے بعد آئے"۔ اس دعا پر سلطان ابراہیم آمین کہتے ہیں اور جب فاتحہ پڑھ کر ہاتھ کو اسماء سلطان کے منہ پر پھیرتے ہیں تو ان کے ہاتھ خون میں لت پت ہو جاتے ہیں۔خواب میں خون کو دیکھ کر ہر دفعہ اسماء سلطان خوفزدہ ہو کر بیدار ہو جاتی ۔
ملک احمد پاشا اپنی محبوبہ بیوی کے ان خوابوں کی اچھی تعبیر بتانے کی کوشش میں تھا اور اس سلسلے میں اس نے خوابوں کی تعبیر بتانے والوں کی طرف بھی رجوع کیا۔لیکن وہ اسماء سلطان کے انجام کے بارے میں لگائے گئے اندازوں پر یقین کرنا نہیں چاہتا تھا۔کیوں کہ ان خوابوں کے مطابق اسماء سلطان کا بچہ ہو نا تھا اور اس کے بعد اسماء سلطان نے وفات پا جانا تھا۔پاشا اپنی محبوبہ بیوی کو موت کے حوالے نہیں کرنا چاہتا تھا۔لہذا وہ نہیں چاہتا تھا کہ ان کے ہاں اولاد پیدا ہو۔
اسماء سلطان کے ان خوابوں کے بعد احمد پاشا نے بھی اسی طرح کے خواب دیکھنا شروع کر دئیے۔خواب دیکھنے کے بعد احمد پاشا ان خوابوں کو اپنے عزیز اولیا چیلبی کو سناتا ، اولیا چیلبی یہ کہہ کر اسے تسلی دینے کی کوشش کرتا کہ "خواب کا مطلب دیکھنے میں نہیں بلکہ اس کی تعبیر میں ہے" لیکن پھر بھی ان کا غم انگیز انجام قریب تھا۔ اسماء سلطان حاملہ تھی۔
پاشا نے اقتدار کے دنوں میں جان بوجھ کر کی گئی غلطیوں کی تلافی کے لئے خیر و بھلائی کے نام پر جو جو ہو سکا کیا لیکن خوابوں کو آخر کار سچ ہونا تھا۔
جب پیدائش کا وقت قریب آیا تو محل کی حکیم اور دائیاں اسماء سلطان کے گرد جمع ہو گئیں۔ آخر کار اسماء سلطان نے اپنی طرح ہی خوبصورت بیٹی کو جنم دیا لیکن پیدائش کے دوران دائیوں نے شہزادی کے اندرونی اعضاء کو زخمی کر دیا اور شہزادی اس تکلیف کو برداشت نہ کرتے ہوئے وفات پا گئی۔
جانے والی جا چکی تھی لیکن احمد پاشا کے غم و اندوہ کی کوئی حد نہیں تھی۔جب شہزادی کا جنازہ اٹھا تو ہجوم کی پرواہ کئے بغیر ملک احمد پاشا تابوت سے لپٹ گیا اور دھاڑیں مار مار کر رونے لگا۔اس دور کی روایت کے مطابق صدر اعظم کھیوپرولو نے بھی احمد پاشا کے روّیے کی مذمت کی اور کہا کہ ایک عورت کے لئے اس قدر کیا رونا، تمہیں ایک عورت اور دوں گا یہ میرا تم سے وعدہ رہا۔
احمد پاشا کو یہ بات اپنی بیوی کی توہین لگی اور اس نے کراہتے ہوئے کہا کہ تمہیں اپنا وعدہ پورا کرنے کا موقع نہ ملے۔پاشا کی یہ دعا پوری ہوئی اور دو سال بعد جب احمد پاشا ایردیل کی جنگ پر تھا تو اس کی غیر موجودگی میں صدر اعظم فاطمہ سلطان نامی ایک اور شاہی خاتون سے اس کو بیاہنے کی کوشش کرتا ہے لیکن اس نکاح سے پہلے ہی کھیوپرولو خود وفات پا جاتا ہے۔
جی تو سامعین عشق صرف جدائی کا ہی نام نہیں ہے بلکہ شادی کے بعد بھی انسان عاشق ہو سکتا ہے اور اس عشق کی آگ کو پوری شدت سے محسوس کر سکتا ہے۔
ربط
http://www.trt.net.tr/trtworld/ur/newsDetail.aspx?HaberKodu=be64ceb3-f1a0-49b1-b3ab-3267ed2f0a59
 
Top