ترقی پسند تحریک

کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
ترقی پسند تحریک



1926ءمیں اردو ادب میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا ، اور ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی ابتداءمیں اس تحریک کا پر جوش خیر مقدم ہوا۔
1917ءمیں روس میں انقلاب کا واقعہ ، تاریخ کا ایک بہت ہی اہم واقعہ ثابت ہوا ۔ اس واقعہ نے پوری دنیا پر اثرات مرتب کئے ۔ دیگر ممالک کی طرح ہندوستان پر بھی اس واقعہ کے گہرے اثرات پڑے اور ہندوستان کی آزادی کے لیے جدوجہد میں تیزی آئی ۔ دوسری طرف ہندو مسلم اختلاف میں اضافہ ہوا ۔ ان حالات اور سیاسی کشمش کی بدولت مایوسی کی فضا چھانے لگی ، جس کی بنا پر حساس نوجوان طبقے میں اشتراکی رجحانات فروغ پانے لگے ۔ شاعر اور ادیب طالسطائے کے برعکس لینن اور کارل مارکس کے اثر کو قبول کرنے لگے ۔ جبکہ روسی ادب کا بنیادی فلسفہ یہ تھا کہ مذہب کی حیثیت افیون کی سی ہے۔ مذہب باطل تصور ہے۔ انسان کا سب سے بڑا مسئلہ معاش ہے۔ اس طرح اس ادب کی رو سے سب سے بڑا مذہب انسائیت ہے اور ادب کا کام مذہب سے متنفر کر کے انسانیت میں اعتقاد پیدا کرنا ہے ۔ اس طرح یہ نظریات ترقی پسند تحریک کے آغاز کا سبب بنے۔
دوسری طرف 1923ءمیں جرمنی میں ہٹلر کی سرکردگی میں فاشزم نے سر اُٹھایا ، جس کی وجہ سے پورے یورپ کو ایک بحران سے گزرنا پڑا۔ ہٹلر ے جرمنی میں تہذیب و تمدن کی اعلیٰ اقدار پر حملہ کیا ۔ بڑے بڑے شاعروں اور ادبیوں کو گرفتار کر لیا۔ ان شعراءو ادباءمیں ائن سٹائن اور ارنسٹ ووکر بھی شامل تھے۔ ہٹلر کے اس اقدام پر جولائی 1935ءمیں پیرس میں بعض شہر ہ آفاق شخصیتوں مثلا ً رومن رولان ، ٹامس مان اور آندر مالرو نے کلچر کے تحفظ کے لیے تمام دنیا کے ادیبوں کی ایک کانفرنس بلالی ۔اس کانفرس کا نام تھا
The world congress of the writers for the defence of cultur۔
ہندوستان سے اگر چہ کسی بڑے ادیب نے اس کانفرس میں شرکت نہیں کہ البتہ سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے ہندوستان کی نمائند گی کی ۔ اس طرح بعد میں سجاد ظہیر اور ملک راج آنند نے کچھ دیگر ہندوستانی طلبا کی مدد سے جو لندن میں مقیم تھے۔ ”انجمن ترقی پسند مصنفین“ کی بنیاد رکھی۔ اس انجمن کا پہلا جلسہ لندن کے نانکنگ ریستوران میں ہوا۔ جہاں اس انجمن کا منشور یا اعلان مرتب کیا گیا ۔ اس اجلاس میں جن لوگوں نے شرکت کی ان میں سجاد ظہیر ، ملک راج آنند ، ڈاکٹر جیوتی گھوش اور ڈاکٹر دین محمد تاثیر وغیرہ شامل تھے۔ انجمن کا صدر ملک راج آنند کومنتخب کیا گیا ۔ اس طرح انجمن ترقی پسند مصنفین جو ترقی پسند تحریک کے نام سے مشہور ہوئی وجود میں آئی ۔

مقاصد:۔

ترقی پسندتحریک نے اپنے منشور کے ذریعے جن مقاصد کا بیان کیا وہ کچھ یوں ہیں کہ اس تحریک کا مقصد
1) آرٹ او ر ادب کو رجعت پرستوں کے چنگل سے نجات دلانا اور فنون لطیفہ کو عوام کے قریب لانا ہے۔
2) ادب میں بھوک ، افلاس ، غربت ، سماجی پستی اور سیاسی غلامی سے بحث کرنا
3)واقعیت اور حقیقت نگاری پر زور دینا۔ بے مقصد روحانیت اور بے روح تصوف پرستی سے پرہیز کرنا۔
4) ایسی ادب تنقید کو رواج دینا جو ترقی پسند اور سائینٹیفک رجحانات کو فروغ دے۔
5) ماضی کی اقدار اور روایات کا ازسر نو جائزہ لے کر صر ف ان اقدار اور روایتوں کو اپنانا جو صحت مندہوں اور زندگی کی تعمیر میں کام آسکتی ہوں۔
6۔ بیمار فرسودہ روایات جو سماج و ادب کی ترقی میں رکاوٹ ہیں ان کو ترک کرنا وغیرہ

مقبولیت:۔

ترقی پسند تحریک کے مذکورہ بالا مقاصد سے ظاہر ایسا ہوتاتھا کہ جس سے کسی کو بھی اختلاف نہیں ہو سکتا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ اس تحریک کے منشور کے منظر عام پر آتے ہی اس کا خیر مقدم کیا گیا۔ چنانچہ ہندوستان میں سب سے پہلے مشہور ادیب اور افسانہ نگار منشی پریم چند نے اسے خوش آمدید کہا۔ علامہ اقبال اور ڈاکٹر مولوی عبدالحق جیسے حضرات نے اس تحریک کی حمایت کی اور اس تحریک کے منشور پر دستخط کرنے والیوں میں منشی پریم چند، جوش ، ڈاکٹر عابد حسین ، نیاز فتح پوری، قاضی عبدالغفار ، فراق گورکھپوری ، مجنوں گورکھپوری ، علی عباس حسینی کے علاوہ نوجوان طبقے میں سے جعفری ، جان نثار اختر ، مجاز حیات اللہ انصاری اور خواجہ احمد عباس کے نام قابل ذکر ہیں۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ اس تحریک نے جن مقاصد اور موضوعات کا تعین کیا تھا ان کے حصول میں یہ لوگ ادبی سطح پر کس حد تک کامیاب ہوئے ۔ اور حصول مقاصد کی کوشش میں فن کے تقاضے کہاں تک ملحوظ رکھے اس نقطہ نظر سے جب ہم جائزہ لیتے ہیں تو احساس ہوتا ہے کہ اس تحریک نے جو بلند بانگ دعوئے کئے تھے ، ان کے مقابلے میں ان لوگوں نے جو ادبی سرمایہ پیش کیا وہ مایوس کن ہے ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک میں دو قسم کے لوگ شامل تھے۔ ایک وہ لوگ جو اس تحریک کے آغاز سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور اس کے خاتمے کے بعد بھی اچھے فنکار رہے۔
وہ لوگ جنہوں نے اس تحریک کے نظریات کو غور و تدبر کے بعد اپنی فکر ی تربیت کرکے اپنے احساس کا حصہ بنایا اور فنی خلوص کو مارکسی نظرےے کے لیے کام کرتے ہوئے بھی مد نظر رکھا ان کی تعداد انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے۔ ان لوگوں میں کرشن چندر ، فراق ، فیض ، احسان دانش ،ندیم ، ساحر وغیرہ شامل ہیں۔ دراصل یہ لوگ تحریک کے وجود سے پہلے بھی اچھے فنکار تھے اور تحریک کے خاتمے کے بعد بھی اچھے فنکار تھے۔
بعد میں تحریک کے خلاف ایک ردعمل اُٹھا جس کے کئی اسباب تھے مثلاً منشور کو نظرانداز کرنا ، روسی ادب کی سستی نقل ، اپنی زمین سے کمزور ناطہ ، ماضی انحراف ، دوغلا پن ، غزل کی مخالفت ، آمرانہ پالیسی وغیرہ۔
لیکن اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ ترقی پسند تحریک نے اردو ادب کو بہت کچھ دیا شاعری ، افسانے ناول ، ڈرامے اور تنقید پر بڑے اثرات مرتب ہوئے ۔ آئےے اردو ادب میں تحریک کے خدمات کا جائزہ لیتے ہیں۔


ترقی پسند افسانہ


پریم چند:۔

ترقی پسند افسانے کاذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر انور سیدید لکھتے ہیں کہ ترقی پسند افسانے کی روایت کا رشتہ براہ راست پریم چند کی حقیقت نگاری سے وابستہ ہے۔ پریم چند گو کہ اردو کے پہلے افسانہ نگار نہیں ہیں، لیکن افسانہ نگاری میں اس اعتبار سے ان کو ایک بلند مقام اور مرتبہ حاصل ہے کہ انہوں نے اردو افسانے کو داستانوی ماحول سے نکال کر اس کا رشتہ زندگی سے قائم کیا۔ پریم چند کے افسانوں میں ہندوستانی معاشرہ اپنے حقیقی رو پ میں نظرآتا ہے ۔ ہندوستانی معاشرہ کی حقیقی تصویر پیش کرنے کے ساتھ ساتھ پریم چند نے انسانی عظمت اور محنت کو بھی بلند مقام عطا کرنے کی شعی کی۔ پریم چند کی ان خصوصیات کی بناءپر ان کو پہلا ترقی پسند افسانہ نگار خیال کیا جاتا ہے۔ ان کے مشہور افسانوں میں سوا سیر گیہوں ، کفن ، زیور کا ڈبہ وغیرہ شامل ہیں۔

کر شن چندر:۔

کرشن چندر کی ابتدائی شہر ت اور مقبولیت کا سبب ان کا رومانی طرز نگارش ہے۔ وہ طبعاً رومانی فنکار تھے۔ لیکن ان کا کمال یہ ہے کہ وہ زیادہ دیر تک اس رومانی فضا ءمیں کھوئے نہیں رہے اور جلد ہی اس فضا سے نکل کر وہ حقائق کی دنیا کی طرف گامزن ہوگئے۔ چنانچہ ”طلسم خیال“ کے بعد ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ ”نظارے “ کے نام سے شائع ہوا تو اس مجموعے کے افسانوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے زاویہ نظر میں بڑی سرعت کے ساتھ تبدیلی آرہی تھی ۔ اور ”ان داتا“ میں تو کرشن چندر رومان پرست کے بجائے تلخ حقیقت نگار اور انقلاب پسند کی حیثیت سے جلوہ گر ہیں۔
کرشن چند کی عظمت کی کئی وجوہات ہیں مثلاً ایک تو یہ کہ ان کے افسانوں کے موضوعات میں برا تنوی ہے۔ ان کے افسانوں میں فطرت کے حسن اور عورت کی رومانی دلکشی کے علاوہ اپنے عہد کی وسیع عکاسی بھی ملتی ہے۔ ان کے مشاہدے کی دنیا بڑی وسیع ہے۔ وہ اپنے موضوعات ، اپنے گرد وپیش کی دنیا سے لیتے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے موضوعات میں سماجی معاشی اور سیاسی زندگی کے مختلف پہلو شامل ہیں۔
دوسری بات کرشن چندر منظر کشی میں ید طولیٰ رکھتے ہیں۔ بقول محمد حسن منظر نگاری میں آج تک ان کا کوئی ہمسر نہیں ہے۔ ان کے افسانوں میں فطر ت کا سار حسن سمٹ کر رہ گیا ہے۔ جبکہ اس کے علاوہ اپنے طرز نگارش کے ذریعے وہ افسانے میں جان ڈال دیتے ہیں۔ علی سردار جعفری نے اُن کی نثر کو شاعری کہا ہے جو کہ شاعر نہ ہوتے ہوئے بھی محفل لوٹ کر لے جاتا ہے۔
کرشن چندر نے فسادات کے موضوع پر بھی قلم اُٹھایا چنانچہ ان کے مجموعے ”نیم وحشی“ کے سارے افسانے فسادات سے متعلق ہیں۔ اُن کے باقی مجموعوں نام یہ ہیں۔طلسم خیال، نظارے ، ہوائی قلعے ، گھونگھٹ میں گوری جلسے ، ٹوٹے ہوئے تارے ، ان داتا، نیم وحشی ، تین غنڈے ، زندگی کے موڑ پر ، نغمے کی موت اور پرانا خدا وغیرہ

سعادت حسن منٹو:۔

ترقی پسند افسانہ نگاروں میں ایک اور اہم نا م سعادت حسن منٹو کا ہے۔ منٹو کاشمار اردو کے مشہور افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے منٹو جس قدر ایک قدر افسانہ نگار ہیں اسی قدر متنازعہ شخصیت بھی۔ اس کے حق میں اور مخالفت میں بھی بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ اگرچہ منٹو پر فحش نگاری کے الزامات لگے ، ان پر مقدمات چلے لیکن ان سب کچھ کے باوجود یہ حقیقت ہے کہ وہ اردو کا اہم اور عظیم افسانہ نگار ہے ۔ سعادت حسن منٹو کے افسانوں کی نمایا ں خوبی یہ ہے کہ اُن کے ہاں موضوعات کا تنوع ملتا ہے۔ جس کی بناءپر افسانوں میں یکسانگی پیدا نہیں ہوتی ۔ منٹو اپنے افسانوں میں اگر طرف جوان لڑکوں لڑکیوں کی جنسی الجھنوں ، طوائف کی زندگی کو اپنا موضوع بنایا ہے۔ تو دوسری طرف ان کے افسانوں کا موضوع ہندوستان کی جنگ آزادی ، جدوجہد ، اور تقسیم بھی ہیں ۔ اسی طرح ان کے کردار بھی زندگی کے مختلف شعبوں سے تعلق رکھتے ہیں ۔ اُن کے ہاں ہر طبقے اور ہر شعبے کے کردار نظر آئیں گے ۔ کالج کے لڑکے لڑکیوں سے لے کر پہلوان اور استاد تک ۔ قریب قریب معاشرتی طبقے کے افراد منٹو کے افسانوں میں ملیں گے۔
منٹو کا زندگی کا مطالعہ کافی وسیع تھا لیکن اُن نے اپنے اردگرد جو کچھ دیکھا اُسے بغیر کسی جھجک کے بیان کر دیا ۔ اُن کی حقیقت نگاری کا ذکر کرتے ہوئے ڈاکٹر عبادت بریلوی لکھتے ہیں کہ زندگی کے مختلف حقائق تک ان کی نظریں بڑی بے باکی اور دراکی کے ساتھ پہنچتی ہیں ۔ اور ان کو پوری طرح نمایاں کر دیتی ہیں۔
اس کے ساتھ ساتھ منٹو صرف ایک افسانہ نگار ہی نہیں بلکہ بقول عبادت بریلوی وہ انسانی نفسیات کا گہرا نباض بھی ہے اس کی ہر کہانی کو اس کا یہی نفسیاتی شعور حقیقت سے ہم آہنگ کر تا ہے۔ اس کے نفسیاتی شعور کے بناءپر رومانی موضوعات تک اس کے یہاں حقیقت کا روپ دھار لیتے ہیں۔ زندگی کی ہر پہلو کی ترجمانی میں اس نے کسی نہ کسی اہم حقیقت کو بے نقاب کیا ہے۔ خصوصاً زندگی کے معاملات اور کرداروں کی حرکات و سکنات کو پیش کرنے میں نفسیاتی شعور اپنے عروج پر ہے۔
جہاں تک منٹو کے اسلوب کا تعلق ہے تو مختصراً یہ کہا جا سکتا ہے کہ اردو افسانہ نگاری میںمنٹو وہ پہلا افسانہ نویس ہے جس نے افسانے کی نئی زبان دریافت کی اس لیے تو حسن عسکری اُن کے اسلوب کو زندہ اسلوب کہتے ہیں۔ منٹو نے جو کچھ کہا اس میں آورد نا م کو نہیں ۔ منٹو کے مشہور افسانو ں میں ٹھنڈا گوشت ، بو ، دھواں ، ٹوبہ ٹیک سنگھ، کالی شلوار وغیر ہ جیسے افسانے شامل ہیں۔

عصمت چغتائی:۔

ترقی پسند افسانہ نگاروں میں عصمت چغتائی کا نا م بھی شامل ہے۔ عصمت کے افسانے فنی خوبی اور قدرت زبان و بیان کی بناءپر بڑی شہرت رکھتے ہیں۔منٹو کے بعد عصمت چغتائی دوسری افسانہ نگار ہیں جس نے اپنے افسانوں میں جنسی پہلو کو مبالغہ آمیز انداز میں پیش کیا۔ خصوصاً متوسط طبقے کے مسلمان گھرانوں اور ان کی عورتوں اور بچوں کی نفسیاتی اور جنسی الجھنوں کوانہوں نے بڑی بے باکی سے موضوع بنایا۔ ان کے افسانے ”لحاف “ پر باقاعدہ مقدمہ چلا ۔
اس میں شبہ نہیں کہ عصمت کے یہاں فن کی اعلی قدروں کے لیے زبان اور قلم کی جس نیکی کی ضرورت ہے اس کا فقدان ہے ، البتہ یہ تسلیم کرنا پڑتا ہے کہ عصمت کو جذبات پر قدرت اور اظہار بیان میں غیر معمولی مہارت حاصل ہے انہوں نے اپنے افسانوں کے لیے ایک ایسی زبان استعمال کی جوان کے پلاٹ اور موضوع کے ماحول سے گہری مطابقت رکھتی ہے۔ تقسیم کے بعد کے افسانوں میں اُن کے ہاں سستی جذباتیت اور فن پر مقصدیت کا غلبہ دکھائی دیتا ہے۔

راجندر سنگھ بیدی:۔

اس دور کے ایک اور افسانہ نگار بیدی ہیں۔ بیدی کے یہاں بھی کرشن چندر کی طرح رومانیت سے حقیقت نگاری کی طرف مسلسل اور واضح سفر دکھائی دیتا ہے ۔ جہاں تک بیدی کے افسانوں کے موضوعات کا تعلق ہے تو انہوں نے اپنے افسانوں میں انسانی دکھوں ، پریشانیوں اور محرومیوں کو موضوع بنایا ہے ۔ دراصل بیدی خود ایک دردمند شخصیت کے مالک تھے، ان کی دردمند ی شخصیت کی بدولت افسانے پر بھی درمندی کی فضاءچھا جاتی ہے۔ جو قاری کو ان کا ہمنوا بنا لیتی ہے۔
نقادوں نے بیدی کے افسانوں کی ایک خصوصیت یہ بتائی ہے کہ ان کے کردار اپنے ماحول میں مکمل طور پر بسے ہوتے ہیں۔ ان کا سبب یہ ہے کہ بیدی افسانے کی جزئیات ، واقعات و کرداروں کے ماحول اور ان کیاالجھنوں کا اور مسائل کا بہ نظر غائر مطالعہ و مشاہدہ کرتے ہیں۔اُن کردار گوشت پوست کے جیتے جاگتے انسان ہی نظر آتے ہیں۔ ان کے مشہور افسانوں میں ”اپنے دکھ مجھے دے دو“ اور ”لاجونتی “ شامل ہیں۔

احمد علی:۔

ترقی پسند تحریک کے حوالے سے افسانہ نگاری میں ایک نام احمد علی کا بھی ہے۔ احمد علی کو پہلے پہل شہرت ”انگارے “ کی وجہ سے ملی ۔ انگارے افسانوں کا ایک مجموعہ ہے ، جس میں احمد علی کے علاوہ سجاد ظہیر اور ڈاکٹر رشید جہاں کے افسانے بھی شامل تھے۔ بقول ڈاکٹر انور سیدید انگارے کی آگ سرد نہیں ہوئی تھی کہ انہوں نے افسانوں کا ایک نیا مجموعہ ”شعلے“ پیش کر دیا۔ علی احمد نے اپنے افسانوں میں مٹتی ہوئی تہذیب پر بڑی جرات اور بے باکی سے ظفر عزیز اور اس کے قلعے کو پاش پاش کرنے کی کوشش کی ۔ جس کی وجہ سے ان کے افسانوں کے خلاف ردعمل احتجاج کی صورت میں نمودار ہوا۔ اور انگارے کے خلاف اعتراضات کا ایک طوفان اُٹھ کھڑا ہوا۔ کیونکہ فن اور خیالات دونوں کے اعتبار سے یہ ایک باغیانہ مجموعہ تھے ۔اس لیے بعد میں اس کتاب کو ضبط کر لیا گیا۔
احمد علی اگرچہ منٹو وغیرہ کی طرح مشہور نہیں ہوئے لیکن ان کے ہاں گہرا شعور ملتا ہے۔ ان کے ہاں حقیقت اور ماورائے حقیقت دونوں کا شعور ملتا ہے۔ ان کی بہترین کہانیوں میں ہماری گلی ، پریم کہانی ، شامل ہیں۔ احمد علی کا انداز رمزیہ اور لب و لہجہ فلسفیانہ ہے انکے ہاں اعلیٰ درجے کے افسانہ نگار کا شعور ملتا ہے۔

رشید جہاں:۔

رشید جہاں کو بطور افسانہ نگار ”انگارے “ نے متعارف کرایا ۔ تاہم افسانہ ان کی زندگی کا مقصد نظر نہیں آتا بلکہ بقول ڈاکٹر عبادت بریلوی ان کی ہربات صنف نازک کا مرثیہ معلوم ہوتی ہے۔

اختر حسین رائے پوری:۔

ڈاکٹر انور سدید ، اختر حسین رائے پوری کی افسانہ نگاری کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں کہ اختر کی افسانہ نگاری آسکر وائلڈ اور موپاساں کے زیر اثر شروع ہوئی تھی ۔ تاہم ”محبت “ اور ”نفرت“ کے افسانوں میں زندگی کی پیکار اور آویزش کو نمایاں اہمیت حاصل ہے اور ان میں سیاسی بیداری کے نقوش بھی ملتے ہیں ۔ ان کے آخری دور کے افسانوں ”دیوان خانہ“ میں معاشرتی شعور اور ”جسم کی پکار“ میں جنسی احساس کا پرتو صاف نظر آتا ہے۔

خواجہ احمد عباس:۔

خواجہ احمد عباس ایک ایسا افسانہ نگار ہے جو زندگی کی تعبیر صرف ترقی پسند نظریات کی روشنی میں کرتا ہے۔ اس کے افسانوں میں سماجی مسائل اور سیاسی الجھنوں کو اہمیت حاصل ہے۔ خواجہ احمد عباس ترقی پسند تحریک کا ایسا رپورٹر ہے جس پر افسانہ نگار کا گمان کیا جاتاہے ۔ اس کے کردار حقیقی ہونے کے باوجود غیر فطری نظرآتے ہیں۔

احمد ندیم قاسمی:۔

ان کے رومانی افسانوں میں بیشتر ماحول وادی سون سکسیر کا دیہی منظر نامہ ہے۔ جبکہ سماجی حقیقت نگاری کے لیے احمد ندیم قاسمی نے ہماری دیہی اور شہری معاشرت دونوں کو چنا ہے۔جبکہ گھریلو ماحول بھی اُن کے ہاں ملتا ہے۔ احمد ندیم قاسمی کی یہ خوبی ہے کہ انہوں نے سماجی حقیقت نگاری کے لیے کہانی میں مکالمہ نگاری کو خوبصورتی سے استعمال کیا ہے۔ اس کی بہترین مثال ”کہانی لکھی جارہی ہے۔ “ میں ملتی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ندیم صاحب متوسط طبقے کی منافقت کی بھی اچھی تصویر کشی کرتے ہیں۔”گھر سے گھر تک“ ، ”سفارش“ میں ادنیٰ طبقوں کی منافقتوں کی اچھی فطرت اور و ذہنیت کے انتہائی پست پہلو سامنے لائے گئے ہیں۔
فسادات کے حوالے سے لکھے گئے افسانوں میں احمد ندیم قاسمی کو اس لیے فوقیت حاصل ہے کہ ان میں جانبداری نہیں برتی گئی ۔ کیونکہ ندیم صاحب اس بات سے آگاہ تھے کہ اچھے برے لو گ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں۔ اس کی بہترین مثال احمد ندیم قاسمی کا افسانہ ”پرمیشر سنگھ“ ہے۔
کچھ افسانہ نگاروں کا ذرا تفصیل سے اوپر ذکر ہوا، ان کے علاوہ اور بھی بے شمار افسانہ نگار اس دور میں افسانے لکھ رہے تھے مثلاً عزیز احمد ، اختر اورینوی، حیات اللہ انصاری ، بلونت سنگھ وغیرہ۔


ترقی پسند تنقید



ترقی پسند تنقید شروع میں اتنہا پسند کا رجحان زیادہ تھا ۔ اس انتہا پسندی کے جوش میں انھوں نے میرتقی میر سے لے کر غالب تک بعض اچھے شعراءکو صرف اس جرم کی پاداش میں یکسر قلم زد کر دیا کہ انہوں نے طبقاتی کشمکش میں کسی طرح کا کردار ادا نہیں کیا۔اکبر الہ آ بادی ، حالی ، سرسید ، اقبال وغیرہ ان کے لیے ناقابلِ قبول قرار پائے ۔لیکن اس ابتدائی جارحیت کے بعد مجنوں گورگھپوری ، احتشام حسین ، عزیز احمد اور دیگر سلجھے ہوئے ناقدین نے اشتراکیت کے بارے میں اعتدال پسندی سے کام لیتے ہوئے عصری ادب میں نئی جہات دریافت کیں ۔ یہی نہیں بلکہ ماضی کے شعراءپر نئے زاوےے سے روشنی ڈال کر ان کی عظمت میں اضافہ کیا۔
انھوں نے پہلی مرتبہ مارکسی تنقید کی ابتداءکی ۔ اس سلسلے میں جدلیاتی ، مادیت ، طبقاتی کشمکش اور انقلاب کو سامنے رکھ کر ادب کے مسائل پر غور کیا گیا۔ذیل میں ہم فرداً فرداً ان نقادوں کی تنقید کا جائزہ لیں گے۔

ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری :۔

ترقی پسند تنقید میں پہلا اور اہم نام ڈاکٹر اختر حسین رائے پوری کا ہے۔ مقالہ ”ادب اور زندگی “ جو اختر حسین رائے پوری نے 1935ءمیں لکھا اُسے مارکسی تنقید کا نقطہ آغاز قرار دیا گیا۔ اختر حسین رائے پوری کا خیال ہے کہ ادب اور انسانیت کے مقاصد ایک ہیں ۔ ادب زندگی کا ایک شعبہ ہے اور کوئی وجہ نہیں کہ مادی سرزمین میں جذبات ِ انسانی کی تشریح و تفسیر کرتے ہوئے روح القدس بننے اور عرش پر جا کر بیٹھنے کا دعویٰ کرے ۔ ادب کا مقصد یہ ہونا چاہےے کہ وہ ان جذبات کی ترجمانی کرے جو دنیا کو ترقی کی راہ دکھائیں اور ان جذبات پر نفرین کرے جو دنیا کو آگے بڑھنے نہیں دیتے ۔وہ لکھتے ہیں۔
” ادب کا فرضِ اولین یہ ہے کہ دنیا سے ، قوم ، وطن ، رنگ ، نسل اور طبقہ مذہب کی تفریق کو متانے کی تلقین کرے اور اس جماعت کا ترجمان ہو جو نصب العین کو پیش نظر رکھ کر عملی اقدام کر رہی ہے۔“
وہ مارکسی تنقید کے اولین نقاد ہیں اور بہت کم لکھنے کے باوجود ان کی تاریخی حیثیت برقرار ہے۔

سید سجاد ظہیر :۔

سجاد ظہیر ترقی پسند تنقید ی تحریک کے بانیوں میں سے ہیں ۔ انہوں نے ترقی پسند تحریک کو نظریاتی اساس مہیا کی اور پھر عمدہ وکالت سے اس تحریک کی سب سے نمایاں خدمات انجام دیں۔ تنقید کے موضوع پر انہوں نے باقاعدہ کوئی کتاب تو نہیں لکھی۔ لیکن ان کی کتاب ”روشنائی “ ترقی پسند تحریک کی تاریخ بھی ہے اور کسی حد تک تنقید بھی ہے۔ سجاد ظہیر اردو کے پہلے نقاد ہیں جن کے مضامین مارکسی تنقید کے آئینہ دار ہیں۔ سجاد ظہیر نے صرف چند مضامین لکھے ہیں ، بقول عبادت بریلوی ان مضامین میں ایسی گہرائی ہے جس نے تنقیدی اعتبار سے ان کو بہت اہم بنا دیاہے۔

ڈاکٹر عبدالحلیم :۔

ڈاکٹر عبدالحلیم کا بھی وہی حال ہے جو سجاد ظہیر کا۔ ڈاکٹر صاحب نے بھی سجاد ظہیر کی طرح صرف چند تنقیدی مضامین لکھے ہیں۔ اور ان مضامین میں مارکسی تنقید کا نظریہ پوری طرح پیش کیاہے۔ اس سلسلے میں ان کے مضامین ”ادبی تنقید کے بنیادی اصول“ اور ”اردو ادب کے رجحانات“ قابلِ ذکر ہیں ۔ اس کے علاوہ مارکسی تنقید کی عملی شکل کے نمونے ان کے مضامین ” اردو ادب کے رجحانات “ اور ”ترقی پسند ادب کے بارے میں چند غلطیاں “ میں ملتے ہیں۔

مجنوں گورکھپوری :۔

ان کی تنقید نے رومانیت سے مارکسیت کی طرف آہستگی سے سفر کیا ، کیونکہ ابتداءمیں ان کے یہاں ایک عرصے تک تاثراتی تنقید کا انداز غالب رہا ۔ مجنوں کی اتبدائی تنقید تحریریں جو ”تنقید حاشےے “ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہو چکی ہیں، تاثراتی تنقید کا انداز نمایاں ہے۔
بعد میں ان میں مارکسی تنقید کے اثرات غالب نظرآتے ہیں اور یہ ترقی پسند تحریک کا اثر ہے۔ چنانچہ ان کے دوسرے مجموعہ مضامین ” ادب اور زندگی “ ، ”مبادیاتِ تنقید “ زندگی اور ادب کا بحرانی دور“ اور ”ادب اور ترقی “ میں انہوں نے اپنے قائم کردہ تنقید نظریات کی روشنی میں عملی تنقید کی ہے۔ وہ بھی دوسر ے ترقی پسند نقادوں کی طرح ادب کو زندگی کی کشمکش کا رجحان سمجھتے ہیں۔لیکن مارکسی ہونے کے باوجود اُن کے ہاں ایک توازن کی کیفیت ملتی ہے اور اتنہا پسندی اُن کے ہاں پیدا نہیں ہوتی۔

سید احتشام حسین : ۔

مارکسی نقادوں میں سید احتشام حسین سب سے موقر ، معتبر اور معتدل نقاد تھے۔ انہوں نے نہ صرف مارکسی تنقید کو اساس بنایا بلکہ اسے زندگی کے طرز عمل کے طور پر قبول بھی کیا۔ تنقید ان کا خاص میدان ہے۔ اوران کی تمام تر توجہ اسی فن کی طرف رہی ہے۔ سید احتشام حسین کے تنقید مضامین کے جو مجموعے شائع ہو چکے ہیں ان میں ”تنقید ی جائزے“ ”روایت اور بغاوت“ ”ادب اور سماج“ ” تنقید اور عملی تنقید “ ”ذوق ، ادب اور شعور “ ”افکار و مسائل “ اور ”عکس اور آئینے “ شامل ہیں۔
اُن کے ان مضامین پر نظر ڈالنے سے معلوم ہوتا ہے کہ انہو ں نے نہایت متنوع اور مختلف موضوعات پر قلم اُٹھایا ہے۔ انہوں نے تنقید ی نظریات و اصول کے علاوہ شاعری ، ناول ، افسانہ اور سوانح کی صنف پر توجہ دی اور کئی شعراءو ادباءپر مضامین لکھے جن میں پرانے لکھنے والے بھی شامل ہیں اور نئے لکھنے والے بھی۔ ان مختلف النوع مضامین سے ان کے مطالعے کی وسعت کا اندازہ ہوتا ہے۔

ممتاز حسین:۔

ممتاز حسین بھی مارکسی رجحان کے علمبردار ہیں ۔ اگرچہ دوسرے مارکسی نقادوں میں چھوٹے ہیں تاہم ممتاز حسین نے بھی بہت کچھ لکھا اور ان کے مضامین کے تین مجموعے ”نقد حیات ، نئی قدریںاور ادبی مشاغل “ شائع ہو چکے ہیں۔ ممتاز حسین کے بھی بعض مضامین میں اصولوں کی بحث ہے جبکہ کچھ علمی تنقید کے متعلق ہے۔ ان کے مضامین تنقید کا مارکسی نظریہ ، بدلتی نفسیات ، انفعالی رومانیت ، آرٹ اور حقیقت اور نیا ادبی فن ، وغیرہ میں اصولی اور نظریاتی بحثیں ہیں جبکہ ‘”نئی غزل کا موجد ۔۔حالی “ ”اردو شاعری کا مزاج اور غالب“ ”سرسید کا تاریخی کارنامہ “ اقبال اور تصوف وغیرہ تنقید ی تجزئیے ہیں۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ ممتاز حسین نے تنقید کے مارکسی نظریے کو بڑی خوبی سے پیش کیا ہے، ان کے ذہن میں اصول اور نظریات بہت واضح ہیں اور ان کے نقطہ نظر میں بڑی استواری ہے، لیکن ان کو پیش کرتے ہوئے وہ ایسی انتہا پسندی سے کام لیتے ہیں کہ ان کی تنقید میں ایک الجھائو پیدا ہو جاتا ہے اور ان کی تنقید ی باتوں کو سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔

ظہیر کاشمیر ی :۔

ترقی پسند نقادوں میں ایک نام ظہیر کاشمیری کا ہے۔ ظہیر کاشمیری نے ادب کو سماج کے طبقاتی نظام کے حوالے سے پرکھنے کی کوشش کی ہے۔ ان کے دو اہم مضامین ”لینن اور لٹریچر “ اور ”مارکس کا نظریہ ادب “ نہ صرف ان کی نظریاتی اساس کو واضح کرتے ہیں بلکہ انہوں نے اس سانچے میں اردو شاعر ی اور نثر کے بیشتر سرمائے کو پرکھنے کی کوشش بھی کی۔ ظہیر کاشمیر ی کا تعلق چونکہ ٹریڈ یونین کے ساتھ رہا ہے اس لیے ان کے تنقید ی لہجے میں خطابت کا عنصر نمایاں ہے اور فیصلے میں تیقن اور قطعیت زیادہ ہے

ڈاکٹر عبادت بریلوی :۔

ڈاکٹر عبادت بریلوی شروع شروع میں مارکسی نظریہ تنقید سے متاثر تھے، لیکن ان کی مارکسیت جلد ہی ختم ہو گئی، اگرچہ ادب اور زندگی کے مابین گہرے تعلق کے وہ اب بھی قائل ہیں ۔ عبادت بریلوی نے ترقی پسند تنقید میں حقیقت نگاری کو ملحوظ نظررکھا اور مارکسزم کو اپنا عقیدہ بنائے بغیر اس سے ادب پارے کی تنقید اور تفسیر میں معاونت کی۔ تنقید میں ڈاکٹر عبادت بریلوی کا طریق عمل سائنسی ، انداز منطقی اور اسلوب جمالیاتی ہے۔ عبادت بریلوی قاری پر یورش کرنے کی بجائے اسے ادب پارے کی افادیت اور داخلی حسن کی طرف متوجہ کراتے ہیں۔ عبادت بریلوی نے محدود موضوعات پر کام کرنے کے بجائے تنقید کو وسعت عطاکی اور اردو شاعری میں ہیئت کے تجربے ، اردو شاعری کی جدید رجحانات ، ادب کا افادی پہلو ، جدید اردو شاعری میں عریانی ، اردو افسانہ نگاری پر ایک نظر ، وغیرہ مضامین میں سیر حاصل جائزے مرتب کیے ۔ بلاشبہ ترقی پسند ادب کو جو قبول عام حاصل ہوا اس میں عبادت بریلوی کی عملی تنقید نے اہم کردار اداکیا۔

سید وقار عظیم :۔

سید وقار عظیم کی تنقید سماجی اور عمرانی تجزےے پر استوار ہوئی ۔ انہوں نے مارکسی نظریات کی بلاواسطہ تائید نہیں کی اور وہ ادب کی اعلیٰ قدروں کی صداقت کو بنیادی قدروں سے الگ شمار نہیں کرتے ۔ تاہم انہوں نے ادب کی مقصدیت کو قبول کیا۔وقار صاحب کی اہمیت اردو افسانوی ادب کے نقاد کی حیثیت سے عام طور پر مسلمہ ہے ۔ انہوں نے افسانہ ، ناول ، داستان اور ڈرامہ کے فن سے متعلق اصولی اور نظریاتی مباحث پر بھی بہت کچھ لکھا اور ان اصناف کے مصنفین پر بھی توجہ دی ۔وقار صاحب کے تنقیدی اسلوب میں بڑی نرمی ، دھیما پن اور توازن ہے، ساتھ ہی پختگی اور دل نشینی بھی ہے جو چونکا دینے والی بات کہنے کے شائق نہیں اور نہ ہی ان کی تنقید میں کوئی تیکھا پن یا شوخی ملتی ہے۔ سادگی ، سلاست ، آہستہ روی اور ذرا سی رنگینی ان کے انداز کی خصوصیات ہیں۔
ترقی پسند تحریک کے دور ِ آخر کے نقادوں میں ڈاکٹر محمد حسن اور عابد منٹو قابلِ ذکر ہیں۔ ان نقادوں نے ترقی پسند تحریک کی یک طرفہ قصیدہ خوانی کرنے کے بجائے اس تحریک کے عیوب کا بھی تذکرہ کیااور ترقی پسند ادباءکی سطحیت پر کھلی تنقید بھی کی۔


ترقی پسند شاعری


فیض احمد فیض:۔

فیض ترقی پسند تحریک کے سب سے بڑے مقبول اور ممتاز شاعر تھے۔ انہوں نے اپنے اندر رومانی آواز کوزندہ رکھا۔ چنانچہ ان کے بارے میں کہا گیا ہے کہ عاشقی فیض کی عبادت ہے اور ترقی پسندی ان کا فرض ہے۔ جب فرض غالب آجاتا ہے تو ان کے سامنے ایک دیوار کھڑی ہو جاتی ہے، لیکن فیض جب عشق کی عبادت کرتے ہیں تو اس میں دونوں جہاں ہار کے بھی مطمئن نہیں ہوتے۔ فیض کی اکثر نظموں میں آفاقیت پائی جاتی ہے۔ وہ صرف اپنے گردو پیش یا اپنے ملک ہی بدحالی پر نوحہ کناں نہیں بلکہ انہیں پوری دنیا کے مظلوموں سے گہری ہمدردی ہے۔ آجائو افریقہ ، ایرانی طلبہ کے نام ، اور آخری رات جیسی نظمیں ان کی شعری آفاقیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
دراصل وہ رومانیت اور حقیقت کے سنگم پر کھڑے ہیں۔ اور یہی ان کی عظمت کا راز ہے۔ اُن کے ہاں وطن کی محبت ایک بنیادی حیثیت رکھتی ہے۔ اُن کی نظم ”صبح آزادی ، اور نثار میں تیری گلیوں کے اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کے جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم و جاں بچا کے چلے

علی سردار جعفری:۔

علی سردار جعفری مارکسی فلسفے کے دلدادہ ہیں اور ان کی شاعری اسی نظریے کے گرد گھومتی ہے۔ وہ انقلاب کی باتیں نہایت جوش و خروش سے کرتے ہیں۔ وہ ادیب کو انقلابی سپاہی بننے کی تلقین کرتے ہیں۔ وہ اس نظریے کے قائل ہیں حق مانگے سے نہیں ملتا بلکہ چھین کر لیا جاتا ہے۔ سامراجی لڑائی ، انقلاب روس ، جشن بغاوت ، سیلاب چین ان کی باغیانہ سوچ میں لپٹی ہوئی نظمیں ہیں۔ ان کے ہاں سرمایہ دار اور تاجر کے مقابلہ میں مزدور ، اور کسان کو وقعت حاصل ہے۔ ان کا خیا ل ہے کہ انقلاب قلم سے نہیں بلکہ بندوق سے لایا جاسکتا ہے۔

میرے ہاتھ سے میرا قلم چھین لو
اور مجھے ایک بندوق دے دو

جاں نثار اختر:۔

جاں نثا ر اختر کی شاعری میں رومانیت بھی ہے اور ترقی پسندی بھی ہے۔ان کی محبوبہ ان کا ترقی پسند نظریہ ہے ، جو کبھی آزادی وطن کے گرد اور کبھی اشتراکیت کے گر د گھومتا ہے۔ امن نامہ ، مراجعت ،خاموش آواز اور کوسا گیت سنو گی انجم ، ان کی مشہور نظمیں ہیں جن کے پس منظر میں اشتراکی نظریہ کار فرما ہے۔ ان کی غزلوں میں تلخی کے بجائے شیرینی اور دھیما پن موجو دہے۔

ساحر لدھیانوی:۔

ساحر لدھیانوی نے نثا خوان تقدیس مشرق، چکلے ، تاج محل اور مادام جیسی نظمیں لکھ کر ترقی پسندوں میں اپنی ساکھ قائم کی ۔ انہوں نے سماجی برائیوں کی نشاندہی کی اور شاعر ی کو نظریاتی تبلیغ کا ذریعہ بنایا ۔ انہوں نے سماج کے پسماندہ افلاس زدہ طبقے کی نمائندگی کی۔ ان کا انقلابی رنگ نظموں ہی میں نہیں بلکہ گیتوں میں بھی جھلکتا ہے ۔

یہ محلو ں یہ تختوں یہ تاجوں کی دنیا
یہ انساں کے دشمن سماجوں کی دنیا
یہ دولت کے بھوکے رواجوں کی دنیا
یہ دنیا اگر مل بھی جائے تو کیا ہے

مخدوم محی الدین:۔
مخدوم محی الدین کی شاعری میں وفور عش ، نظری محبوبہ ، نعرہ انقلاب اور جذبہ بغاوت کی فراوانی ہے۔ وہ فیض کی شاعری سے متاثر ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ مفلس لوگ محنت کرکے پیسے والے لوگوں کو سرمایہ دار بناتے ہیں اور سرمایہ دار انہیں جو کچھ دیتے ہیں اجرت سمجھ کر نہیں بلکہ بھیک سمجھ کر دیتے ہیں۔
بھیک کے نور میں مانگے کے اجالے میں مگن
یہی ملبوس عروسی ہے، یہی ان کا کفن

اسرار الحق مجاز:۔

مجاز نے اپنی غزل میں بھی انقلابی اور ترقی پسند انہ نظریہ کی اشاعت اور نظم میں بھی۔ ان کی شاعری میں داخلیت بھی ہے اور خارجیت بھی، رومانیت بھی اور ترقی پسندیت بھی۔ ان کی ترقی پسند انہ نظموں میں انقلاب ، آوارہ ، مجھے جانا ہے اک روز، سرمایہ دار ی قابل ذکر ہیں۔ مجاز انقلاب کے خواہاں ہیں اور چاہتے ہیں کہ فی لفور بپا ہو جائے۔

تو انقلاب کی آمد کا انتظار نہ کر
جو ہو سکے تو ابھی انقلاب پیدا کر

ظہیر کاشمیری:۔

ترقی پسندوں میں ظہیر کاشمیری ایک پرجوش انقلابی ہیں۔ ان کے شعری لہجہ میں جوش و خروش ، گھن گرج اور نعرہ بازی کا سا چلن ہے۔ ان کی سوچ میں یاسیت نہیں بلکہ رجائیت کا غلبہ ہے۔ وہ خود ترقی پسندوں کو چراغ آخر شب قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں،

ہمیں ہے علم کہ ہم ہیں چراغ آخر شب
ہمارے بعد اندھیر نہیں اجالا ہے

احمد ندیم قاسمی:۔

احمد ندیم قاسمی نہایت محتاط رویہ کے ترقی پسند ادیب اور شاعر ہیں۔ ان کی شاعری میں توازن اور اعتدال کی کیفیت ملتی ہے۔ ان کی شاعری میں رومانیت بھی پائی جاتی ہے۔ اور ترقی پسندی بھی۔ بقول وزیر آغا انہوں نے خود کو ہر زمانے کی تازہ کروٹوں سے اخذو اکتساب کی طرف مائل کیا ۔اور یہ پہلو انہیں دوسرے ترقی پسند شعراءسے ممتاز کرتا ہے۔

جہاں پھولوں کی خوشبو بک رہی ہو
مجھے ایسے چمن سے دور لے جائو
جہاں انساں کو سجدہ روا ہے
مجھے ایسے وطن سے دور لے جائو

اس کے علاوہ جگر ، جوش ، کیفی اعظمی ، محمد صفدر میر، قمر رئیس ، قتیل شفائی وغیرہ جیسے شاعروں کی ایک طویل فہرست ہے جو کہ ترقی پسند نظریات سے متاثر ہو کر شاعری کرتے رہے۔
 
کیفیت
مزید جوابات کے لیے دستیاب نہیں
Top