ترجیحات کا تعین - مقتدا منصور

محمداحمد

لائبریرین
پاکستان میں جمہوری عمل کا جو سفر 2008ء میں شروع ہوا تھا، وہ اس سال ( 2018 ) جولائی کے آخری ہفتے میں تسلسل کے ساتھ تیسرے الیکشن کے انعقاد کے بعد ایک نئے دور میں داخل ہوگیا ہے۔ پاکستان میں یہ سوال اب اہمیت کا حامل نہیں رہا ہے کہ ملک کا وزیراعظم کون ہو یا کسے ہونا چاہیے۔

اصل مسئلہ جمہوری عمل کو تسلسل کے ساتھ جاری رکھنے، ملک کو بحرانی مسائل کی دلدل سے نکالنے اور عالمی سطح پر اس کے تشخص کی بحالی کا ہے۔ ان مقاصد کے حصول کے لیے کیے جانے والے ٹھوس، پائیدار اور دیرپا اقدامات ہی حکومت کی کارکردگی کا اصل پیمانہ ٹھہریں گے۔

پہلے بھی لکھا ہے، پھر عرض ہے کہ انتخابات پر ہونے والے اعتراضات اپنی جگہ، لیکن نئی حکومت کو مقدور بھر مشورے دینا ہر شہری کا حق اور ذمے داری ہے۔ اس لیے ان صفحات پر بھی ملک کے بہتر مستقبل کی خاطر اپنے علم اور صلاحیتوں کے مطابق بعض اہم امور پر مشورے دیے جارہے ہیں۔ ان کو کس حد تک پذیرائی ملتی ہے، یہ ان کا صوابدیدی معاملہ ہے۔ قائم ہونے والی حکومت کے سامنے جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے، اولین ترجیح ملکی معیشت کے استحکام، انسانی ترقی (Human Development) کے اہداف کا حصول اور متوازن اور فعال خارجہ پالیسی کی تیاری جیسے اقدامات ہونا چاہئیں۔ جو نہ صرف جمہوری عمل کو استحکام بخشیں گے، بلکہ عوام میں حکومت کے اعتبار میں بھی اضافہ کا بھی باعث بنیں گے۔

دوسری ترجیح ریاستی انتظام کی نچلی ترین سطح تک سیاسی، انتظامی اور مالیاتی بااختیاریت کے ساتھ اقتدار واختیار کی منتقلی ہے۔ تاکہ ملک میں شراکتی جمہوریت کا تصور مستحکم ہوسکے اور عوام کے مسائل کے حل کی فوری سبیل ہوسکے۔ تیسری ترجیح خامیوں سے پاک انتخابی عمل کے لیے جدید تقاضوں سے ہم آہنگ انتخابی اصلاحات کے ساتھ انتظامی اور مالیاتی طور پر بااختیار الیکشن کمیشن کی تشکیل ہو، تاکہ اگلا الیکشن ہر قسم کے اعتراضات سے پاک ہوسکے۔ یہ وہ موضوعات ہیں، جنھیں ایک اظہاریہ میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ بلکہ ہر موضوع پر ایک علیحدہ اظہاریہ کا متقاضی ہے۔

یہاں ایک بار پھر سابق چیف سیکریٹری اور سابق ڈائریکٹر جنرل سندھ تسنیم صدیقی کے ایک اور انگریزی مضمون ’’ہمارے انسانی وسائل کمزور کیوں ہیں؟‘‘ (Why our human resources remains poor?) سے کچھ اقتباسات لیتے ہوئے اپنی بات کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے، تاکہ موجودہ حکمران جو تبدیلی کے نعرے کے ساتھ اقتدار میں آئے ہیں، اگر اپنے دعوئوں میں سنجیدہ ہیں تو انھیں اولین ترجیح جن تین امور کو دینا چاہیے ان میں انسانی ترقی کے لیے ٹھوس بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انسانی ترقی کیا ہے؟ اسے سمجھنے کے لیے انسانی وسائل کو سمجھنا اور اس کی ترجیحات کا تعین ضروری ہے۔

درج بالا عنوان کے تحت مضمون میں وہ لکھتے ہیں کہ ’’جب برٹش انڈیا میں مسلمانوں کے لیے علیحدہ وطن کی مہم شروع کی گئی، تو عوام سے وعدہ کیا گیا کہ نئے ملک میں سماجی انصاف اور شفاف حکمرانی اولین ترجیح ہوگی۔ ناخواندگی، بھوک اور بیماریوں سے پاک معاشرہ تشکیل دیا جائے گا۔ مگر قیام پاکستان کے بعد ملک ایک فلاحی ریاست کے بجائے سیکیورٹی اسٹیٹ میں تبدیل کردیا گیا۔ جس میں ہر سطح پر ہونے والی فیصلہ سازی سے عوام کو دور کردیا گیا‘‘۔

مزید لکھتے ہیں کہ ’’بدنصیبی یہ ہے کہ قیام ملک کے بعد مقامی سطح پر معاشی ترقی کا ماڈل اور قومی وسائل کے ذریعہ سماجی اثاثہ (Social Capital) تشکیل دینے کے بجائے نوآبادیاتی دور کے ماڈل کو جاری رکھنے کو ترجیح دی گئی۔ جس میں ظاہری انفرااسٹرکچر (Physical Infrastructure) کو ترقی کے ذریعہ کے طور پر پیش کیا جاتا ہے۔ ظاہری انفرااسٹرکچر کا فائدہ کسی حد تک عوام کو ضرور پہنچتا ہے، مگر اصل فائدہ نوآبادیاتی حکمرانوں کے حصے میں آتا ہے۔ حالیہ دور میں بھاری غیر ملکی قرضے لے کر موٹر ویز، فلائی اوورز اور انڈر پاسز بنائے اور میٹرو بسیں چلائی جارہی ہیں۔ کھربوں روپوں کے غیر ملکی قرضوں سے ہونے والی یہ نام نہاد ترقی اس وقت باعث مسرت ہوتی جب عوام کی بنیادی ضروریات پوری ہورہی ہوتیں‘‘۔

ان اقتباسات کو بیان کرنے کا مقصد یہ تھا کہ پاکستان کے حقیقی اہل دانش اور متوشش شہریوں کی بڑی تعداد یہ سمجھتی ہے کہ جب تک انسانی ترقی کے اہداف پورے نہیں کیے جاتے، ظاہری ترقی کے مظاہر عوام کو اپنی جانب متوجہ نہیں کرسکتے۔ ایک ایسا ملک جہاں شرح خواندگی درست اعداد وشمار کے مطابق بمشکل 30 فیصد کے لگ بھگ ہو۔ جہاں ڈھائی کروڑ بچے اسکولوں میں داخلے سے محروم ہوں۔

جہاں افزائش نسل کی شرح پورے جنوبی ایشیا میں سب سے زیادہ یعنی 2.25 فیصد ہو۔ جہاں 70 فیصد عوام کی صحت کی جدید سہولیات اور پینے کے صاف پانی تک رسائی نہ ہو۔ جہاں 35 فیصد بچے اپنی سالگرہ منانے سے قبل اس لیے مر جاتے ہیں کیونکہ انھیں مناسب غذا اور ادویات نہیں مل پاتیں۔ 40 فیصد خواتین ضروری طبی سہولیات اور مناسب خوراک کے فقدان کے باعث دوران زچگی اس دنیا سے چلی جاتی ہوں، وہاں ظاہری انفرااسٹرکچر اور نام نہاد ترقی محض دکھاوا ہیں۔

ماہرین کے مطابق انسانی ترقی کے پانچ کلیدی اصول عالمی سطح پر تسلیم کیے جاتے ہیں۔ اول، جدید عصری تعلیم تک تمام شہریوں کی بلاامتیاز رسائی۔ دوئم، تمام عاقل اور بالغ شہریوں کو روزگار کی فراہمی کے لیے مختلف ذرائع کا فروغ دیا جانا، جن میں زراعت کا جدید خطوط پر استوار کیا جانا، صنعتکاری اور کاروباری سرگرمیوں میں وسعت شامل ہیں۔ سوئم، بیماریوں سے بچائو اور صحتمند زندگی کے لیے طبی سہولیات کی فراہمی۔ چہارم، صنفی امتیازات کا مکمل خاتمہ اور پنجم، ظاہری انفرااسٹرکچر کی تعمیر و ترقی۔

پاکستان میں جنرل ضیا کے دور سے نئے سرکاری اسکولوں کی تعمیر کا کام مکمل طور پر رک چکا ہے۔ انہی کے دور سے نجی شعبہ میں تعلیمی اداروں کی حوصلہ افزائی نے ملک میں ایک سے زائد نظام تعلیم رائج کرنے کی راہ ہموار کی۔ دوسری جانب محکمہ تعلیم کے کرپٹ اور بدعنوان افسران نے نجی تعلیمی اداروں کی درست انداز میں مانیٹرنگ کرنے کے بجائے بھاری رشوتیں لے کر انھیں من مانیاں کرنے کی کھلی چھٹی دیدی ہے۔ جس کی وجہ سے علم کی فراہمی کے بجائے یہ ادارے کاروباری مراکز بن چکے ہیں۔

آئین کی شق 25A پر عملدرآمد اٹھارویں ترمیم کی رو سے صوبائی حکومتوں کی ذمے داری ہے۔ لیکن وفاقی حکومت اس شق پر عملدرآمد کے لیے صوبوں کو مختلف نوعیت کی ترغیبات کے ساتھ ان کی استعداد سازی میں تعاون فراہم کرسکتی ہے۔ صوبائی حکومتوں کے لیے ان پانچ برسوں کے دوران ہر یونین کونسل میں ایک پرائمری اسکول تعمیر کرنے کی منصوبہ بندی کرنا ضروری ہوچکا ہے۔ جس کی دیکھ بھال مقامی حکومت کی ذمے داری ہو۔ اسی طرح ہر تحصیل ہیڈکوارٹر میں جدید سہولیات سے آراستہ ایک سول اسپتال اور ہر یونین کونسل میں ایک ڈسپنسری اور میٹرنٹی ہوم قائم کیا جائے۔ جن کے عملہ کی تقرری اور ادویات کے لیے فنڈنگ صوبائی حکومت مہیا کرے، جب کہ مانیٹرنگ اور دیکھ بھال مقامی حکومت کی ذمے داری ہو۔

روزگار کی فراہمی کے لیے ملک کے مختلف حصوں میں چھوٹی، درمیانی اور بڑی صنعتوں کا جال پھیلایا جانا اور کاروباری سرگرمیوں کے پھیلائو اور معیشت کے استحکام کی خاطر پڑوسی ممالک کے ساتھ تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے کی ضرورت ہے،تاکہ ملکی معیشت کو استحکام حاصل ہو اور نوجوانی کی حدود میں داخل ہونے والی نسل کو مناسب روزگار مل سکے۔

مصنوعات کو منزل مقصود تک پہنچانے کے لیے بہرحال ظاہری انفرااسٹرکچر ضروری ہے۔ اس لیے اس سے بھی صرف نظر ممکن نہیں ہے۔ اگر پہلے سال میں کچھ اسکول، کچھ اسپتال و ڈسپنسریاں اور کچھ صنعتی یونٹ لگنا شروع ہوتے ہیں، تو اس سے حکومت کی کارگردگی کا اندازہ ہوسکے گا۔ لہٰذا ضرورت اس بات کی ہے کہ تمام اقدامات کے لیے پہلے سے ترجیحات طے کی جائیں اور ان کے بغیر کوئی اقدام نہ کیا جائے۔

بحوالہ
 
Top