ترجمہ قرآن سورۃ فاتحہ : آیت نمبر ۱ تا ۷،

ضیاء حیدری

محفلین
قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر صاف صاف اور سمجھ کر پڑھنا

وَرَتِّلِ الْقُرْآنَ تَرْتِيلاً، اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر (صاف پڑھا کر )
نبی اکرم نے درست تلفظ اور خوش الحانی کے ساتھ ٹھہرٹھہرکر تلاوت کرنے کا حکم دیا لہٰذا ہرمسلمان کو اپنی دیگر مصروفیات کے ساتھ ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کو معمول بنانا چاہیے۔

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ(۱)
ترجمہ: سب خوبیاں اللہ کو جو مالِک سارے جہان والوں کا ۔
{اَلْحَمْدُ لِلّٰهِ:سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں۔} یعنی ہر طرح کی حمد اور تعریف کا مستحق اللہ تعالیٰٰ ہے۔

الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِۙ(۲)
ترجمہ:بہت مہربان رحمت والا۔
{اَلرَّحْمٰنِ:بہت مہربان۔}رحمٰن اور رحیم اللہ تعالٰی کے دو صفاتی نام ہیں ، رحمٰن کا معنٰی ہے: نعمتیں عطا کرنے والی وہ ذات جو بہت زیادہ رحمت فرمائے اور رحیم کا معنی ہے : بہت رحمت فرمانے والا۔

مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِؕ(۳)
ترجمہ: روزِ جزا کا مالک۔
{مٰلِكِ یَوْمِ الدِّیْنِ:جزا کے دن کامالک۔} جزا کے دن سے مراد قیامت کا دن ہے کہ اس دن نیک اعمال کرنے والے مسلمانوں کو ثواب ملے گا اور گناہگاروں اور کافروں کو سزا ملے گی جبکہ’’مالک‘‘ اُسے کہتے ہیں جو اپنی ملکیت میں موجود چیزوں میں جیسے چاہے تصرف کرے۔ اللہ تعالٰی اگرچہ دنیا و آخرت دو نوں کا مالک ہے لیکن یہاں ’’قیامت‘‘ کے دن کو بطور خاص اس لئے ذکرکیا تاکہ اس دن کی اہمیت دل میں بیٹھے۔

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُؕ(۴)
ترجمہ:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔

{اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ:ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھ ہی سے مدد چاہتے ہیں۔ اس آیت سے بندوں کو سکھایا جارہا ہے کہ اللہ تعالٰی کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ، ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور تیرے علاوہ اور کوئی اس لائق ہی نہیں کہ اس کی عبادت کی جاسکے اور حقیقی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے۔تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی کسی قسم کی ظاہری، باطنی، جسمانی روحانی، چھوٹی بڑی کوئی مدد نہیں کرسکتا۔

اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ(۵)
ترجمہ:ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔
{ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ:ہمیں سیدھے راستے پر چلا۔}اللہ تعالٰی کی ذات و صفات کی معرفت کے بعد اس کی عبادت اور حقیقی مددگار ہونے کا ذکر کیا گیا اور اب یہاں سے ایک دعاسکھائی جا رہی ہے کہ بندہ یوں عرض کرے: اے اللہ!عَزَّوَجَلَّ،تو نے اپنی توفیق سے ہمیں سیدھاراستہ دکھا دیااب ہماری اس راستے کی طرف ہدایت میں اضافہ فرما اور ہمیں اس پر ثابت قدم رکھ۔
آیت’’ اِهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ‘‘ سے معلوم ہونے والے احکام:
اس آیت سے تین باتیں معلوم ہوئیں :
(1)… ہر مسلمان کو اللہ تعالٰی سے سیدھے راستے پرثابت قدمی کی دعا مانگنی چاہئے کیونکہ سیدھا راستہ منزل مقصود تک پہنچا دیتا ہے اور ٹیڑھا راستہ مقصود تک نہیں پہنچاتا ۔اللہ تعالٰی ارشاد فرماتا ہے کہ عقل والے اس طرح دعا مانگتے ہیں :
’’رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوْبَنَا بَعْدَ اِذْ هَدَیْتَنَا وَ هَبْ لَنَا مِنْ لَّدُنْكَ رَحْمَةًۚ-اِنَّكَ اَنْتَ الْوَهَّابُ‘‘( اٰل عمران: ۸)
ترجمہ:اے ہمارے رب! تو نے ہمیں ہدایت عطا فرمائی ہے ،اس کے بعد ہمارے دلوں کو ٹیڑھا نہ کر اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، بیشک تو بڑاعطا فرمانے والاہے۔

اورحضرت انس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُ فرماتے ہیں : حضور پر نورصَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَکثرت سے یہ دعا فرمایا کرتے تھے: ’’یَامُقَلِّبَ الْقُلُوْبْ ثَبِّتْ قَلْبِیْ عَلٰی دِیْنِکَ‘‘اے دلوں کو پھیرنے والے! میرے دل کو اپنے دین پر ثابت قدم رکھ۔ تو میں نے عرض کی: یارسول اللہ !صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَ،ہم آپ پر اور جو کچھ آپ لائے ہیں اس پر ایمان رکھتے ہیں تو کیا آپ کو ہمارے بارے میں کوئی خوف ہے؟حضور اقدس صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّمَنے ارشاد فرمایا: ’’ہاں ! بے شک دل اللہ تعالٰی کی(شان کے لائق اس کی) انگلیوں میں سے دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جیسے چاہتا ہے انہیں پھیر دیتا ہے۔(ترمذی، کتاب القدر، باب ما جاء انّ القلوب۔۔۔ الخ، ۴ / ۵۵، الحدیث: ۲۱۴۷)
(2)… عبادت کرنے کے بعد بندے کو دعا میں مشغول ہونا چاہیے۔
(3)…صرف اپنے لئے دعا نہیں مانگنی چاہئے بلکہ سب مسلمانوں کے لئے دعا مانگنی چاہئے کہ اس طرح دعا زیادہ قبول ہوتی ہے۔
صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ۶ﴰ غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ۠(۷)
ترجمہ:راستہ ان کا جن پر تو نے احسان کیا،نہ ان کا جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔
{صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ:ان لوگوں کا راستہ جن پر تو نے احسان کیا۔}یہ جملہ اس سے پہلی آیت کی تفسیر ہے کہ صراطِ مستقیم سے مراد ان لوگوں کا راستہ ہے جن پر اللہ تعالٰی نے احسان و انعام فرمایااور جن لوگوں پر اللہ تعالٰی نے اپنا فضل و احسان فرمایا ہے ان کے بارے میں ارشاد فرماتا ہے:
’’وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَ فَاُولٰٓىٕكَ مَعَ الَّذِیْنَ اَنْعَمَ اللّٰهُ عَلَیْهِمْ مِّنَ النَّبِیّٖنَ وَ الصِّدِّیْقِیْنَ وَ الشُّهَدَآءِ وَ الصّٰلِحِیْنَۚ-وَ حَسُنَ اُولٰٓىٕكَ رَفِیْقًا‘‘(النساء:۶۹)
ترجمہ:اور جو اللہ اور رسول کی اطاعت کرے تو وہ ان لوگوں کے ساتھ ہونگے جن پر اللہ نے فضل کیا یعنی انبیاء اور صدیقین اور شہداء اور صالحین اور یہ کتنے اچھے ساتھی ہیں۔
غَیْرِ الْمَغْضُوْبِ عَلَیْهِمْ وَ لَا الضَّآلِّیْنَ:نہ کہ ان کا راستہ جن پر غضب ہوا اور نہ بہکے ہوؤں کا۔ }جن پر اللہ تعالٰی کا غضب ہوا ان سے مراد یہودی اوربہکے ہوؤں سے مراد عیسائی ہیں

{اٰمین}اس کا ایک معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو قبول فرما۔دوسرا معنی ہے :اے اللہ !عَزَّوَجَلَّ،تو ایسا ہی فرما۔
اٰمین سے متعلق شرعی مسائل:
(1)…یہ قرآن مجید کا کلمہ نہیں ہے ۔
(2)… نماز کے اندر اور نماز سے باہر جب بھی ’’سورۂ فاتحہ‘‘ ختم کی جائے تو اس کے بعد اٰمین کہناسنت ہے۔
(3)… احناف کے نزدیک نماز میں آمین بلند آواز سے نہیں بلکہ آہستہ کہی جائے گی
 
Top