تربیتِ اطفال، مگر کیسے۔۔۔۔؟

جاسم محمد

محفلین
تربیتِ اطفال، مگر کیسے۔۔۔۔؟
مولانا محمد جہان یعقوب جمعہ۔ء 2 اگست 2019
1764456-schoolkidsfood-1564719936-878-640x480.jpg

ہم اولاد کی تربیت پر توجہ دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی آمادہ، جدھر دیکھیے، غیروں کی نقالی کا جادوسر چڑھ کربول رہا ہے۔ فوٹو: فائل

خاتم المرسلین شفیع المذنبین رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، مفہوم: اپنی اولاد اور گھر والوں کو خیر سکھاؤ اور باادب بناؤ۔ اپنی اولاد کو تین چیزیں سکھاؤ، اپنے نبی کریمؐ کی محبّت اور ان کے اہل بیتؓ کی محبّت اور قرآن کریم کی تلاوت۔

حضور اکرمؐ کی نصیحت ہے کہ ہم اپنی اولاد کی بہتر تعلیم و تربیت کریں، یہی ان کے لیے سب سے قیمتی تحفہ و عطیہ ہے۔ کیوں کہ ہر تحفہ، ہدیہ اور جائیداد وغیرہ جو ہم اپنی اولاد کو دیں گے وہ اسی دنیا تک محدود اور ایک دن ختم ہوجائے گی، لیکن صحیح تعلیم و تربیت ایسی لافانی و باقی رہنے والی نعمت ہے، جس کا فائدہ ہماری اور ہماری اولاد کی زندگی ہی تک نہیں، بل کہ موت کے بعد بھی جاری رہے گا۔ کیوں کہ اولاد کی تربیت سے کئی نسلوں کی تربیت وابستہ ہے۔

یہی وجہ ہے کہ نبی صادق ﷺ نے اچھی اولاد کو صدقۂ جاریہ میں شمار فرمایا ہے۔ فقہائے کرامؒ یہ بھی فرماتے ہیں کہ سن بلوغ کو پہنچنے سے پہلے بچہ جتنے بھی نیک اعمال کرتا ہے ان کا اجر اس کے والدین کو ملتا ہے، خواہ وہ اس کی نیّت یا دعا کرے یا نہ کرے۔

ماضی میں مسلمان اپنی اولاد کی درست اور دینی خطوط پر تربیت سے غافل نہ رہے۔ کیوں کہ وہ جانتے تھے کہ یہ اس قدر اہم فریضہ ہے کہ قیامت میں اس کے بارے میں بازپُرس ہوگی کہ بچے کی کیا تربیت کی تھی؟ اس کی ایک جھلک ذیل کے واقعے میں دیکھی جاسکتی ہے۔ شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریاؒ نے اپنی آپ بیتی میں لکھا ہے: ’’جب میں چھوٹا بچہ تھا تو ماں باپ نے میرے لیے ایک چھوٹا سا خوب صورت تکیہ بنادیا تھا جیسا کہ عام طور پر بچوں کے لیے بنایا جاتا ہے۔ مجھے اس تکیے سے بڑی محبت تھی اور ہر وقت اس کو اپنے ساتھ رکھتا تھا۔

ایک دن میرے والد صاحب لیٹنا چاہ رہے تھے ان کو تکیے کی ضرورت پیش آئی تو میں نے والد صاحب سے کہا کہ اباجی میرا تکیہ لے لیجیے۔ یہ کہہ کر میں نے اپنا تکیہ ان کو اس طرح پیش کیا جس طرح کہ میں نے اپنا دل نکال کر باپ کو دے دیا ہو۔ لیکن جس وقت وہ تکیہ میں نے پیش کیا اسی وقت والد صاحب نے مجھے ایک چپت رسید کی اور فرمایا : ابھی سے تُو اس تکیے کو اپنا تکیہ کہتا ہے۔ مقصد یہ تھا کہ تکیہ تو درحقیقت باپ کی عطا ہے لہذا اس کو اپنی طرف منسوب کرنا یا اپنا قرار دینا غلط ہے۔ اس وقت تو مجھے بہت بُرا لگا کہ میں نے تو اپنا دل نکال کر باپ کو دے دیا تھا اس کے جواب میں باپ نے ایک چپت لگادی۔ لیکن آج سمجھ میں آیا کہ کتنی باریک بات پر اس وقت والد صاحب نے تنبیہ فرمائی تھی اور اس کے بعد سے ذہن کا گویا رخ ہی بدل گیا۔‘‘

اس قسم کی چھوٹی چھوٹی باتوں پر ماں باپ کو نظر رکھنی چاہیے، تب جاکر بچے کی تربیت صحیح ہوتی ہے اور بچہ صحیح طور پر نکھر کر سامنے آتا ہے۔

مفتی اعظم بغداد علامہ آلوسی نے اپنی تفسیر میں فرمایا ہے کہ قیامت کے دن سب سے زیادہ عذاب میں وہ شخص ہوگا، جس نے اپنی اولاد کی تربیت میں کوتاہی کی۔ عرب دانش مندوں کا کہنا ہے: ’’صرف وہ یتیم نہیں جس کا باپ مرجائے، بل کہ وہ بھی یتیم ہے جسے دینی علم و ادب سے محروم رکھا گیا۔ اگر ہم نے اپنے بچوں کی درست تربیت کی تو وہ اپنی زندگی اغیار کے طریقے سے نہیں بل کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اور صحابہ کرامؓ کے طریقے سے گزاریں گے۔

دور حاضر کاسب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم اس جانب توجہ دینے کے لیے تیار ہیں اور نہ ہی آمادہ۔ اور اگر کسی کی اس جانب توجہ ہے بھی تو وہ اولاد کی تربیت اسلامی اصولوں کے بہ جائے مغربی طرز پر کر رہا ہے۔ جدھر دیکھیے، غیروں کی نقالی کا جادو سر چڑھ کر بول رہا ہے۔ یہ انداز تربیت زہر قاتل ہے۔ کیوں کہ ہم جس تہذیب پر آج کا مسلمان ریجھتا ہے، خود وہ مائل بہ خودکشی ہے، ایسی شاخ نازک پر بننے والے آشیانے کی پائیداری کی توقع رکھنا عبث ہے۔

ہم اپنے بچوں اور نئی نسل کی تربیت و پرورش سے غافل ہیں۔ آج ہماری نئی نسل اپنے اسلاف کی درخشندہ روایات اور تاب ناک ماضی سے یک سر ناواقف و نابلد، بل کہ ان سے باغی و شاکی اور مغرب و یورپ کی مادر پدر آزاد تہذیب کی بدترین غلامی میں مبتلا ہے۔ اس کی وجہ ان کو ملنے والی صحبت ہے۔

شیخ سعدیؒ نے درست فرمایا: ’’ انسان کو اچھی صحبت اچھا بناتی ہے اور بُری صحبت بُرا بنا دیتی ہے، تم بُری صحبت سے دور رہو اس لیے کہ بُرا دوست سانپ سے زیادہ ضرر رساں ہوتا ہے۔‘‘

یہ ایک ناقابل تردید حقیقت ہے کہ جو اچھوں میں بیٹھے گا اللہ تعالی اس کو اچھائی کی توفیق دیں گے، اس کے برعکس جو بُروں میں بیٹھے گا وہ خود بھی رفتہ رفتہ بُرا بنے گا۔ نئی پود میں کم سنی و کم فہمی کی وجہ سے چوں کہ اپنے اچھے بُرے کی پہچان کی صلاحیت نہیں ہوتی اس لیے ان کی زیادہ نگرانی کی ضرورت ہے۔

والدین کا فریضہ ہے کہ وہ بچے کے دوستوں پر نظر رکھیں۔ اسے بُری صحبت سے بچائیں۔ وہی والدین اولاد کی صحیح تربیت کرسکتے ہیں جو اس جانب ابتدا سے توجہ دیتے اور اولاد کی نگرانی کرتے ہیں۔ آج والدین اپنی اولاد کی نافرمانی کا شکوہ تو کرتے ہیں، مگر یہ نہیں سوچتے کہ اس میں اصل قصور ان کا اپنا ہے۔ اگر وہ بچوں کی درست تربیت کرتے، انہیں شروع سے دینی تعلیمات، اخلاقی اقدار، رشتوں کے تقدس اور اپنوں بے گانوں کے حقوق سے روشناس کراتے، بری صحبت سے بچانے کا اہتمام کرتے، تو آج وہ بڑھاپے میں والدین کے لیے دردِ سر بننے کے بہ جائے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک بنتے، ان کی خدمت کرتے ، انہیں راحت پہنچاتے، ان کی نیک نامی کا ذریعہ بنتے۔ کیوں کہ اچھی فصل اچھے برگ و بار لاتی ہے اور جھاڑ جھنکاڑ کاشت کیے جائیں تو وہ ویسا ہی نتیجہ دیتے ہیں۔

آئیے! عزم کریں کہ ہم اپنی اولاد کی دینی خطوط پر صحیح تربیت کریں گے۔
 
Top