تربت امام حسین رضی اللہ عنہ کا معجزہ

نایاب

لائبریرین
ہر کام اللہ کے حکم سے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اگر بن باپ کے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کرامت نہ ہوتی تو سیدۃ مریم علیھا السلام جبریل امیں علیہ السلام کو دیکھ کر اور ان کے لڑکے کی بشارت دینے پر کیوں متعجب ہوتیں اور یہ کیوں فرماتیں کہ بھلا مجھ سے کیسے بچے کی پیدائش ہوسکتی ہے جبکہ مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا ۔
  1. قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلامًا زَكِيًّا
  2. قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا
یہاں یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ کرامت میں ولی کا خود دخل نہیں ہوتا جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کرامت ولی کی اپنی خواہش سے نہیں ہوتی۔ آپ کے بیان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گویا مریم علیھا السلام نے خود سے چاہا کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوں ؟؟افسوس کہ آپ کی تعقل پسندی قرآن کے ارشاد سے ٹکرا رہی ہے۔بلاشبہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ تھے اور اللہ نے مریم علیھا السلام کے ذریعے انھیں پیدا فرمایا اور یہ امر مریم علیھا السلام کی کرامت میں شمار ہوئی۔اسی طرح بے موسمی پھلوں کا آنے والا واقعہ کسی تفسیر میں ملاحظہ کرلیں یا کم از کم تفسیر کو ہی پڑھ لیں۔


فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) آل عمران – 37)
آپ نے کرامت اور معجزے کے فرق کو سمجھا ہی نہیں تو یہاں کیا اچنبھا محسوس ہو رہا ہے ؟؟ رہ گئی بات خود سے تعریف کرنے کی تو ذرا اپنے آپ کو سلف صالحین اور علمائے امت کے ارشادات اور تعلیمات تک پہنچائیں تو ہر بات سمجھ میں آجائے گی۔ہر بات کو عقل کی کسوٹی پرکسنا عقلمندی ہے نہ ہوش مندی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہر بات اپنی عقل ناقص پر تولنے سے بچائے آمین۔
آپ کے مزید بے بنیاد اعتراضات کا جواب دینا میں ضروری نہیں سمجھتا۔ السلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔
میرے محترم بھائی
یا حیرت ۔۔۔۔۔آپ جیسی صاحب علم ہستی مجھ جاہل کی لکھی سوالیہ تحریر کی غرض و غایت نہ سمجھ سکی ۔
محترم بھائی ذرا دوبارہ غور سے پڑھ لیں کہ میں نے کیا لکھا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آپ نے فرمایا کہ ولادت عیسی علیہ السلام جناب مریم علیہ السلام کی کرامت میں شامل ہے ۔
اور ان کے پاس رزق کا آنا بھی ان کی کرامت ہے ۔
شاید آپ کرامت معجزے اور امر اللہ کے مابین فرق ملحوظ نہیں رکھ پا رہے ۔
بہتر ہوگا کہ قران پاک میں ذکر ولادت عیسی علیہ السلام سے رجوع فرمائیں ۔
ان شاءاللہ " کلمتہ اللہ " معجزہ اور کرامت کے مابین فرق واضح ہوجائے گا ۔
مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہوجانا بھی آپ کے نزدیک جناب ابراہیم کی کرامت میں شامل ہوگا ۔
میرے محترم بھائی قران پاک میں جو اللہ تعالی اپنے بندوں کو تفکرو تدبر کی جانب توجہ دلاتا ہے ۔
کیا یہ توجہ کرنے والے " بے عقل " اور " بے ہوش " ہوتے ہیں ۔ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
نہیں میرے بھائی اللہ تعالی عقل والوں کو ہی پکار پکار کر اپنی نشانیوں کی جانب متوجہ کرتا ہے ۔
کلمہ طیبہ جس کے اقرار باللسان سے درجہ مسلمانی حاصل ہوتا ہے ۔
کیا یہ کلمہ بنا عقل کی کسوٹی پر پرکھے ۔ بنا ہوشمندی سے اس کو سمجھے قلب و سوچ کو بدل سکتا ہے ۔ ؟
اسلام جو کہ مکمل سلامتی کا دین ہے ۔ اور اس دین کی یہی انفرادیت ہے کہ اس میں موجود ہر غائب و ظاہر کا بیان خود کو بلا کسی جھجھک عقل کی کسوٹی پر چڑھا دیتا ہے ۔ اور اپنی صداقت کا کھلے طور اثبات فراہم کرتا ہے ۔ ۔ یہ صرف پچھلوں کی کہانیاں ہی نہیں ہے ۔
والسلام علیکم
سبحان اللہ
میرے محترم بھائی
کیا بن باپ کے حضرت عیسی علیہ السلام کو جنم دینا یہ کرامت جناب مریم علیھا السلام کی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟
کیا آپ کے سامنے بن موسم پھلوں کا آنا آپ کی کرامت تھی ،،،،،،،،،؟
میرے بھائی یہ کن کتابوں سے اخذ کردہ معلومات ہیں ۔ ؟؟؟؟؟
سچ کہا کہنے والے نے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ علموں بس کریں او یار ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
معجزے و کرامت کی تفسیر خود سے کرنی اور بنیاد بنانا سلف الصالحین کو ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
قران پاک کے بیان سے لاعلم ایسی تاویلات پیش کرتے ۔
" اللہ کے کلمہ " کو انسان سے صادرر ہونے والی کرامت ثابت کرتا ہے ۔
 

میر انیس

لائبریرین
سرخ کردہ الفاظ کو میں نے کرامت میں ذکر کیا ہے نہ کہ معجزات میں۔
آپ کی باقی باتوں میں بحث بیکار ہے لیکن یہاں آپ بہت بڑی ٹھوکر کھا رہے ہیں ۔ جس بات کو آپ اللہ کی طرف منسوب کررہے ہیں ، اس کا ثبوت مجھے دے سکیں گے کہ اللہ نے اہل بیت النبی ٖ ﷺ کو تمام انبیاء سے افضل قرار دیا ہے ؟؟
بالکل میں اگر ثبوت نہ دے سکتا ہوتا تو کبھی یہ عقیدہ ہی نہیں رکھتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ مانیں گے نہیں اور یہی اصل مسئلہ ہوتا ہے یعنی اپنی بات منوانا ۔ دوسرے میں محفل میں اس بات کا سختی سے حامی ہوں کہ دھاگے کا جو موضوع ہے اسی پر قائم رہا جائے اور دوسروں کو بھی اکثر اسکی تلقین کرتا رہتا ہوں لیکن آپ کی تشفی کیلئے کسی ایسے دھاگے میں جو میں نے مدحتِ اہل بیت کیلئے کھولا ہو اس میں یہ بات ثابت ضرور کروں گا۔ ابھی صرف ایک بات کہتا چلوں وہ یہ ہے کہ سب کو پتہ ہے دنیا ایک امتحان ہے اور اسکی جزا دنیا میں ملے گی جو انسان دنیا میں اللہ کا سب سے زیادہ مطیع و فرما بردار رہا ہو تو اللہ کے نزدیک وہ دنیا میں بھی اور پھر آخرت میں بھی اتنا ہی بلند رتبہ پائے گا یعنی اس بات پر تو کم از کم سارے مسلمان متفق ہیں کہ انسان کو جزا اسکے اپنے اعمال کے حساب سے جو اللہ کا بھی پسندیدہ رہا ہوملے گی ۔ جس نے اللہ کی بندگی زیادہ کی ہوگی اتنا ہی بڑا رتبہ اسکو جنت میں ملے گا اللہ کا بھی پسندیدہ اسلئے کہا کہ بعض دفعہ ہم کسی کو اسکے دنیا کے اعمال کے لحاظ سے بلند رتبہ سمجھ رہے ہوتے ہیں پر اللہ کہ نزدیک اسکی کوئی اہمیت اسلئے نہیں ہوتی کہ اللہ کو جو خلوص چاہیئے ہوتا ہے وہ اسکو نظر نہیں آتا یہ میں انبیاء کیلئے نہیں کہ رہا میں ایک عام بات صرف سمجھانے کیلئے کہ رہا ہوں اب میری یہ بات غور سے سنئے گا اگر آپ واقعی حق شناس ہوں گے تو میری بات کی دل سے تائید کریں گے ورنہ پھر بحث برائے بحث ہوگی ہاں تو میں کہ رہا تھا کہ آخرت ہی اصل معیار ہے کسی کے اصل رتبے کو جاننے کا ورنہ دنیا میں تو بڑے سے بڑا دعوٰی ہر کوئی کرتا ہے ۔ اب اس حدیث کی تائید بھی تمام اسلامی فرقے کرتے ہیں کہ نبیِ کریم (ص) نے فرمایا "حسن(ع) اور حسین(ع) جنت کے سردار ہیں اور انکا باپ ان سے بھی افضل ہے پھر ایک حدیث میں فرمایا یہ بھی متفقہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ(س) جنت کی سردار ہے اسی لئے انکو خاتوں جنت بھی کہا جاتا ہے۔ پھر مولا علی(ع) کیلئے فرمایا اب یہ مجھ کو علم نہیں کہ اس حدیث پر آپ کا یقین ہے یا نہیں پر بیشتر سنی کتب میں موجود ہے کہ علی(ع) قسیم النار والجنہ ہیں ۔ تو جنت کے سردار یہی پنجتن ہیں جنت دوزخ کی تقسیم کرنے والے یہی پنجتن ہیں(اللہ کے حکم سے)اور جنت وہ جگہ ہے جہا ںسارے انبیاء جائیں گے تو پر سردار ہمارے نبی (ص)کے نواسے ہوں گے۔ اور یاد رکھیں قیامت میں فیصلہ میرٹ پر ہوگا وہاں یہاں پاکستان کی طرح کی اقربا پروری نہیں چلے گی ۔ اگر ان سے بڑا اگر رتبہ کسی اور کا ہوتا تو وہ قیامت کہ دن اللہ سے احتجاج کرسکتا ہے کہ اے اللہ محنت تو ہم نے زیادہ کی پر اے اللہ یہ کیا اقربا پروری(نعوذوباللہ)ہے محمد(ص)تو ہمارے سردار تھے ہی جب انہوں نے جنت کی تقسیم کی تو اپنے نواسوں کو جنت میں سردار بنا کر انکو انکی حیثیت سے بڑا رتبہ دے دیا اور ہمارا رتبہ کم کردیا۔ یہاں یہ اعتراض اورہوسکتا ہے کہ یہ تو شیعاؤں کا عقیدہ ہے کہ جنت دوزخ حضرت علی اور ہمارے پیارے نبی(ص) تقسیم کریں گے تو پھر آپ کے عقیدے کے مطابق وہ سارے انبیاء اللہ سے یہ کہیں گے کہ اے اللہ تو نے ہمارے ساتھ انصاف نہیں کیا (نعوذوباللہ)ٹھیک ہے حضرت محمد سردار انبیاء ہیں انکا رتبہ اور محنت ہم سے زیادہ ہے پر انکے نواسوں کو تو نے ہمارے بلند مرتبہ ہوتے ہوئے جنت جو آخری مقام ہے اور جس میں جسکو جو رتبہ مل گیا تبدیل ہونا ممکن نہیں وہاں کا سردار کیوں بنایا؟۔
میرے پاس اس سے بھی زیادہ منطقی عقلی اور نقلی دلائل ہیں پر اس دھاگے میں اتنا ہی کافی ہے۔
 

میر انیس

لائبریرین
ہر کام اللہ کے حکم سے ہی ظہور پذیر ہوتا ہے۔ اگر بن باپ کے عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش کرامت نہ ہوتی تو سیدۃ مریم علیھا السلام جبریل امیں علیہ السلام کو دیکھ کر اور ان کے لڑکے کی بشارت دینے پر کیوں متعجب ہوتیں اور یہ کیوں فرماتیں کہ بھلا مجھ سے کیسے بچے کی پیدائش ہوسکتی ہے جبکہ مجھے کسی بشر نے نہیں چھوا ۔
  1. قَالَ إِنَّمَا أَنَا رَسُولُ رَبِّكِ لِأَهَبَ لَكِ غُلامًا زَكِيًّا
  2. قَالَتْ أَنَّى يَكُونُ لِي غُلامٌ وَلَمْ يَمْسَسْنِي بَشَرٌ وَلَمْ أَكُ بَغِيًّا
یہاں یہ بات بھی ظاہر ہوئی کہ کرامت میں ولی کا خود دخل نہیں ہوتا جیسا کہ میں پہلے لکھ چکا ہوں کہ کرامت ولی کی اپنی خواہش سے نہیں ہوتی۔ آپ کے بیان سے یہ بات ظاہر ہوتی ہے کہ گویا مریم علیھا السلام نے خود سے چاہا کہ عیسیٰ علیہ السلام پیدا ہوں ؟؟ افسوس کہ آپ کی تعقل پسندی قرآن کے ارشاد سے ٹکرا رہی ہے۔بلاشبہ سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کلمۃ اللہ تھے اور اللہ نے مریم علیھا السلام کے ذریعے انھیں پیدا فرمایا اور یہ امر مریم علیھا السلام کی کرامت میں شمار ہوئی۔اسی طرح بے موسمی پھلوں کا آنے والا واقعہ کسی تفسیر میں ملاحظہ کرلیں یا کم از کم تفسیر کو ہی پڑھ لیں۔


فَتَقَبَّلَهَا رَبُّهَا بِقَبُولٍ حَسَنٍ وَأَنْبَتَهَا نَبَاتًا حَسَنًا وَكَفَّلَهَا زَكَرِيَّا ۖ كُلَّمَا دَخَلَ عَلَيْهَا زَكَرِيَّا الْمِحْرَابَ وَجَدَ عِنْدَهَا رِزْقًا ۖ قَالَ يَا مَرْيَمُ أَنَّىٰ لَكِ هَٰذَا ۖ قَالَتْ هُوَ مِنْ عِنْدِ اللَّهِ ۖ إِنَّ اللَّهَ يَرْزُقُ مَنْ يَشَاءُ بِغَيْرِ حِسَابٍ ) آل عمران – 37)
آپ نے کرامت اور معجزے کے فرق کو سمجھا ہی نہیں تو یہاں کیا اچنبھا محسوس ہو رہا ہے ؟؟ رہ گئی بات خود سے تعریف کرنے کی تو ذرا اپنے آپ کو سلف صالحین اور علمائے امت کے ارشادات اور تعلیمات تک پہنچائیں تو ہر بات سمجھ میں آجائے گی۔ہر بات کو عقل کی کسوٹی پرکسنا عقلمندی ہے نہ ہوش مندی ۔
اللہ تعالیٰ ہمیں ہدایت نصیب فرمائے اور ہر بات اپنی عقل ناقص پر تولنے سے بچائے آمین۔
آپ کے مزید بے بنیاد اعتراضات کا جواب دینا میں ضروری نہیں سمجھتا۔ السلام علیٰ من اتبع الھدیٰ۔
میرے بھائی معجزہ تو معاف کیجئے گا آپ کی ہی سمجھ میں نہیں آرہا اور دلیل دینے کے بجائے بحث برائے بحث کر رہے ہیں قران میں بی بی مریم کے واقعہ کو کہاں کرامت لکھا ہے۔ جو بات قران نے کی ہی نہیں وہ کیوں آپ اس سے منسوب کر رہے ہیں ۔ دوسرے سلف صالحین اور علمائے امت کی تعریف ذرا کیجئے گا یہاں بھی آپ ضد کریں گے کہ جنکو اپ کہیں انکو سلف صالحین اور علمائے امت مانا جائے۔ہم کہتے ہیں کہ یہ اللہ ہی ہے جو کسی بھی انسان میں ایسے وصف پیدا کردے جو ایسا عمل انجام دیدے جس کو عام انسان بجا لانے میں عاجز ہو۔ جو قانون فطرت کے خلاف ہو چاہے کرنے والا نبی ہو یا اسکا وصی یا امام ۔اسکا الٹ جادو ہے یہ وہ عمل ہے جو اللہ کی اجازت کے بغیر ہوا ۔اور آپ نے اوپر ارشاد فرمایا تھا کہ میں کسی فرقے کو نہیں مانتا پر آپ کے یہ لفظ سلف صالحین کہنے سے آپ کہ فرقے سے اندازہ ہوگیا کہ آپ اسی فرقے میں سے ہیں جو صرف اپنے آپ کو سلفی اور سلف صالحین کے نقش قدم پر چلنے والاشمار کرتے ہیں۔
 
میرے محترم بھائی
یا حیرت ۔۔۔ ۔۔آپ جیسی صاحب علم ہستی مجھ جاہل کی لکھی سوالیہ تحریر کی غرض و غایت نہ سمجھ سکی ۔
محترم بھائی ذرا دوبارہ غور سے پڑھ لیں کہ میں نے کیا لکھا ہے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔
آپ نے فرمایا کہ ولادت عیسی علیہ السلام جناب مریم علیہ السلام کی کرامت میں شامل ہے ۔
اور ان کے پاس رزق کا آنا بھی ان کی کرامت ہے ۔
شاید آپ کرامت معجزے اور امر اللہ کے مابین فرق ملحوظ نہیں رکھ پا رہے ۔
بہتر ہوگا کہ قران پاک میں ذکر ولادت عیسی علیہ السلام سے رجوع فرمائیں ۔
ان شاءاللہ " کلمتہ اللہ " معجزہ اور کرامت کے مابین فرق واضح ہوجائے گا ۔
مجھے ایسا لگتا ہے جیسے کہ ابراہیم علیہ السلام پر آگ کا ٹھنڈا ہوجانا بھی آپ کے نزدیک جناب ابراہیم کی کرامت میں شامل ہوگا ۔
یا للعجب ! ۔ میں الحمدللہ معجزہ، کرامت میں فرق بھی جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ معجزہ اور کرامت امر اللہ ہی ہوتا ہے ، اللہ کے اذن کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
آگ کا ٹھنڈا ہوجانا معجزہ ہی ہے نہ کہ کرامت کیونکہ یہ کافروں پر حجت اور تصدیق نبوت کی نشانی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حق پر ہیں۔
اگر آپ خود ہی سلف کے مؤقف کو پڑھ لیں تو مجھ کم علم سے سر نہ ٹکرائیں گے۔
 
بالکل میں اگر ثبوت نہ دے سکتا ہوتا تو کبھی یہ عقیدہ ہی نہیں رکھتا لیکن مسئلہ یہ ہے کہ آپ مانیں گے نہیں اور یہی اصل مسئلہ ہوتا ہے یعنی اپنی بات منوانا ۔ دوسرے میں محفل میں اس بات کا سختی سے حامی ہوں کہ دھاگے کا جو موضوع ہے اسی پر قائم رہا جائے اور دوسروں کو بھی اکثر اسکی تلقین کرتا رہتا ہوں لیکن آپ کی تشفی کیلئے کسی ایسے دھاگے میں جو میں نے مدحتِ اہل بیت کیلئے کھولا ہو اس میں یہ بات ثابت ضرور کروں گا۔
اب اس حدیث کی تائید بھی تمام اسلامی فرقے کرتے ہیں کہ نبیِ کریم (ص) نے فرمایا "حسن(ع) اور حسین(ع) جنت کے سردار ہیں اور انکا باپ ان سے بھی افضل ہے پھر ایک حدیث میں فرمایا یہ بھی متفقہ ہے کہ میری بیٹی فاطمہ(س) جنت کی سردار ہے اسی لئے انکو خاتوں جنت بھی کہا جاتا ہے۔ پھر مولا علی(ع) کیلئے فرمایا اب یہ مجھ کو علم نہیں کہ اس حدیث پر آپ کا یقین ہے یا نہیں پر بیشتر سنی کتب میں موجود ہے کہ علی(ع) قسیم النار والجنہ ہیں ۔ تو جنت کے سردار یہی پنجتن ہیں جنت دوزخ کی تقسیم کرنے والے یہی پنجتن ہیں(اللہ کے حکم سے)اور جنت وہ جگہ ہے جہا ںسارے انبیاء جائیں گے تو پر سردار ہمارے نبی (ص)کے نواسے ہوں گے۔۔
جی ہاں آپ کو ثبوت دینا چاہیے ۔ اگر آپ خود ہی اس بات کے سختی سے حامی ہیں کہ موضوع دھاگے سے الگ نہ ہو تو اپنا عقائد نامہ یہاں کھولنے کی کیا ضرورت تھی ؟؟؟
علی(ع) قسیم النار والجنہ ہیں
ایک تو آپ نے احادیث مبارکہ سے من مانے معنی نکالے حالانکہ میں نے پوچھا تھا کہ اللہ نے یہ کہاں فرمایا ہے کہ اہل بیت تمام انبیاء سے افضل ہیں ؟ اگر میں اصول اربعہ کی بات نہیں مانوں گا اور آپ صحاح ستہ ، سنن ، مسانید، معاجم کی روایت نہیں مانیں گے تو قرآن کا ہی حوالہ دے دیتے ۔ قرآن تو آپ اور میں مانتے ہی ہیں نا !
رہی بات سیدنا علی رضی اللہ عنہ قسیم النار و الجنۃ ہیں تو یہ روایت باطل اور من گھڑت ہے اور اللہ کے نبی علیہ السلام پر بہتان ہے۔دوسرا یہ قول نص قرآنی کے خلاف ہے کہ کوئی بشر جنت اور دوزخ کی تقسیم کا اختیار رکھتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی محترم و معزز کیوں نہ ہو۔ یہ اختیار تو انبیاء کے پاس نہیں چہ جائیکہ کوئی اور ۔ یہ بات نص قرآنی سے کیسے ٹکراتی ہے ، حوالے اگلی پوسٹ میں ۔۔۔۔۔۔
 

نایاب

لائبریرین
یا للعجب ! ۔ میں الحمدللہ معجزہ، کرامت میں فرق بھی جانتا ہوں اور یہ بھی جانتا ہوں کہ معجزہ اور کرامت امر اللہ ہی ہوتا ہے ، اللہ کے اذن کے بغیر کچھ نہیں ہوتا۔
آگ کا ٹھنڈا ہوجانا معجزہ ہی ہے نہ کہ کرامت کیونکہ یہ کافروں پر حجت اور تصدیق نبوت کی نشانی تھی کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام حق پر ہیں۔
اگر آپ خود ہی سلف کے مؤقف کو پڑھ لیں تو مجھ کم علم سے سر نہ ٹکرائیں گے۔
میرے محترم بھائی
یہ کلمات کس نے کہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔؟
جناب ابراہیم علیہ السلام نے یا اللہ سبحان و تعالی نے ۔۔۔۔۔۔۔؟
قُلْنَا يَانَارُ كُوْنِيْ بُرْدًا وَّسَلاَمًا عَلَى اِبْرَاهِيْمَ ۔ (الانبيآء آيت : 69)
’’ہم نے کہا اے آگ ! ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی(بن جا) ابراہیم پر‘‘۔
یہ نہ معجزہ تھا نہ کرامت تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ امر اللہ تھا ۔
کلمتہ اللہ ۔ بن باپ کے حضرت عیسی علیہ السلام کا حضرت مریم علیہ السلام کے پیٹ سے جنم لینا ہے ۔
معجزہ جناب موسی علیہ السلام کے ہاتھوں عمل میں آتا ہے ۔ جب عصا زمین پر گرتا ہے اور جادوئی سانپوں کو نگل جاتا ہے ۔
اور کرامت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں موجود کتاب کے علم کے حامل کے ہاتھوں تخت بلقیس کا آنا ہے ۔
سلف الصالحین کے لکھے کا مطالعہ اچھی بات ہے مگر فوقیت قران کو حاصل ہے ، قران پاک کا ترجمہ ہی ذرا غور و فکر کے ساتھ پڑھنے سے
انسان کو ان بنیادی نصائح سے آگہی ہوجاتی ہے ۔ جن پر اس کی آخرت کا دارومدار ہے ۔
اللہ کریم ہم سب کو علم نافع سے نوازے آمین
 
رہی بات سیدنا علی رضی اللہ عنہ قسیم النار و الجنۃ ہیں (علی رضی اللہ عنہ جنت او ر جہنم کے تقسیم کار ہیں ) تو یہ روایت باطل اور من گھڑت ہے اور اللہ کے نبی علیہ السلام پر بہتان ہے۔دوسرا یہ قول نص قرآنی کے خلاف ہے کہ کوئی بشر جنت اور دوزخ کی تقسیم کا اختیار رکھتے ہیں چاہے وہ کتنا ہی محترم و معزز کیوں نہ ہو۔ یہ اختیار تو انبیاء کے پاس نہیں چہ جائیکہ کوئی اور ۔ یہ بات نص قرآنی سے کیسے ٹکراتی ہے ، حوالے اگلی پوسٹ میں ۔۔۔ ۔۔۔
اگرچہ کہ انتہائی اہم کام ہنوز تشنہ تکمیل ہیں لیکن چونکہ کہا تھا کہ نص قرآنی سے حوالہ دوں گا کہ صر ف ، صرف اور صرف اللہ ہی جنت و جہنم کی تقسیم کا اختیار رکھتا ہے۔ اسی کے ہاتھ میں ہے کہ کسی کو جنت میں بھیجے یا کسی کو اپنے عذاب سے دوچار کرے۔ کیونکہ یہ ایمان ہے کہ انسان و جنات اللہ ہی کی مخلوق ہیں۔ ہم اسی کے پیدا کردہ ہیں لہذا اختیار بھی خالق کے ہاتھ میں ہے کہ وہ اپنی مخلوق کے ساتھ کیا معاملہ کرتا ہے۔یہ تو ہوئی عقلی دلیل۔ اب قرآن سے دلائل دیتا ہوں ۔ یہ خالص لوجہ اللہ ہیں تاکہ آپ خود سوچنے پر مجبور ہوجائیں کہ جنت و جہنم جس کی ملکیت ہے ، وہ مالک ہے یا کوئی اور۔اس میں شک نہیں کہ اہل بیت النبی ﷺ کے فضائل و مناقب باکثرت ہیں جو احادیث میں آئے ہیں جیسے سیدنا علی رضی اللہ سے مومن ہی محبت رکھ سکتا ہے اور منافق ہی بغض رکھ سکتا ہے (اور میری طرف سے ہر ناصبی اور منافق اور دشمن علی رضی اللہ عنہ پر لعنت ) اور سیدۃ فاطمہ رضی اللہ عنھا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں ، جبکہ حسنین کریمین جنت کے نوجوانوں کے سردار ہیں ۔کیا ضرورت ہے کہ صحیح فضائل کو چھوڑ پر من گھڑت اور غیر مستند اقوال کو حرز جاں بنایا جائے۔ ان سب ہستیوں پر میرے ماں باپ قربان رضی اللہ عنھم اجمعین۔
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
(گزشتہ سے پیوستہ )
قرآن میں ارشادات ربانی ہیں :
مالک یوم الدین
روز جزا کا مالک ہے (فاتحہ -3)

الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ لِّلَّهِ يَحْكُمُ بَيْنَهُمْ فَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ فِي جَنَّاتِ النَّعِيمِ ۔ وَالَّذِينَ كَفَرُوا وَكَذَّبُوا بِآيَاتِنَا فَأُوْلَئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ مُّهِينٌ (حج - 56 ، 57 )
اس روز بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور ان میں فیصلہ کردے گا تو جو لوگ ایمان لائے اور عمل نیک کرتے رہے وہ نعمت کے باغوں میں ہوں گے۔

اور جو کافر ہوئے اور ہماری آیتوں کو جھٹلاتے رہے ان کے لئے ذلیل کرنے والا عذاب ہوگا۔
أَمْ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّنَ الْمُلْكِ فَإِذاً لاَّ يُؤْتُونَ النَّاسَ نَقِيراً (نساء - 53 )
کیا ان کے پاس بادشاہی کا کچھ حصہ ہے تو لوگوں کو تل برابر بھی نہ دیں گے۔
إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا بِآيَاتِنَا سَوْفَ نُصْلِيهِمْ نَارًا كُلَّمَا نَضِجَتْ جُلُودُهُم بَدَّلْنَاهُمْ جُلُودًا غَيْرَهَا لِيَذُوقُوا الْعَذَابَ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَزِيزًا حَكِيمًا
(نساء - 56 )
جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا ان کو ہم عنقریب آگ میں داخل کریں گے جب ان کی کھالیں گل (اور جل) جائیں گی تو ہم اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ (ہمیشہ) عذاب (کا مزہ چکھتے) رہیں بےشک خدا غالب حکمت والا ہے
الَّذِي لَهُ مُلْكُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَداً وَلَمْ يَكُن لَّهُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ۔۔ الخ ( فرقان - 2 ) وہی کہ آسمان اور زمین کی بادشاہی اسی کی ہے اور جس نے (کسی کو) بیٹا نہیں بنایا اور جس کا بادشاہی میں کوئی شریک نہیں
بَلْ كَذَّبُوا بِالسَّاعَةِ ۖ وَأَعْتَدْنَا لِمَن كَذَّبَ بِالسَّاعَةِ سَعِيرًا (فرقان -11)
بلکہ یہ تو قیامت ہی کو جھٹلاتے ہیں اور ہم نے قیامت کے جھٹلانے والوں کے لئے دوزخ تیار کر رکھی ہے
الْمُلْكُ يَوْمَئِذٍ الْحَقُّ لِلرَّحْمَٰنِ ۚ وَكَانَ يَوْمًا عَلَى الْكَافِرِينَ عَسِيرًا
( فرقان - 26 )
اس دن سچی بادشاہی خدا ہی کی ہوگی۔ اور وہ دن کافروں پر (سخت) مشکل ہوگا۔
وَأَعْتَدْنَا لِلظَّالِمِينَ عَذَابًا أَلِيمًا​
(فرقان - 37 )
اور ظالموں کے لئے ہم نے دکھ دینے والا عذاب تیار کر رکھا ہے

إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّهُ غَفُورًا رَّحِيمًا (فرقان - 70 )
مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کئے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو خدا نیکیوں سے بدل دے گا۔ اور خدا تو بخشنے والا مہربان ہے
يَوْمَ هُم بَارِزُونَ ۖ لَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّهِ مِنْهُمْ شَيْءٌ ۚ لِّمَنِ الْمُلْكُ الْيَوْمَ ۖ لِلَّهِ الْوَاحِدِ الْقَهَّارِ ( غافر - 16 )
جس روز وہ نکل پڑیں گے ان کی کوئی چیز خدا سے مخفی نہ رہے گی۔ آج کس کی بادشاہت ہے؟ خدا کی جو اکیلا اور غالب ہے
أَلاَ لَهُ الْخَلْقُ وَالأَمْرُ تَبَارَكَ اللّهُ رَبُّ الْعَالَمِينَ ( اعراف - 54 )
دیکھو سب مخلوق بھی اسی کی ہے اور حکم بھی (اسی کا ہے)۔ یہ خدا رب العالمین بڑی برکت والا ہے۔
إِنَّ الْأَبْرَارَ لَفِي نَعِيمٍ ( الانفطار - 13 )
بے شک نیکوکار نعمتوں (کی بہشت) میں ہوں گے۔
وَإِنَّ الْفُجَّارَ لَفِي جَحِيمٍ ( 14 )
اور بدکردار دوزخ میں
14) يَصْلَوْنَهَا يَوْمَ الدِّينِ (15)
(یعنی) جزا کے دن اس میں داخل ہوں گے
وَمَا هُمْ عَنْهَا بِغَائِبِينَ (16)
اور اس سے چھپ نہیں سکیں گے
وَمَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ (17)
اور تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے؟
ثُمَّ مَا أَدْرَاكَ مَا يَوْمُ الدِّينِ ۔
پھر تمہیں کیا معلوم کہ جزا کا دن کیسا ہے؟
يَوْمَ لَا تَمْلِكُ نَفْسٌ لِّنَفْسٍ شَيْئاً وَالْأَمْرُ يَوْمَئِذٍ لِلَّهِ (انفطار -13 تا 19
جس روز کوئی کسی کا بھلا نہ کر سکے گا اور حکم اس روز خدا ہی کا ہو گا۔


یہی نہیں ، اور بہت سی آیات ہیں جن سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ ہی ہر شے کا مختار ہے۔ جنت و دوزخ کا مختار ہے ۔ اس کی تقسیم کا مختار ہے۔
میں نے قرآن سے ہی دلیل دی ہے جناب۔ الحمدللہ بات واضح ہوگئی۔ السلام علیٰ من اتبع الھدیٰ ۔
 
بات چلی تھی کہ انبیاء علھیم السلام سے کوئی افضل نہیں ۔آپ نے اس کا انکار کیا ۔ میں نے کہا اگر کوئی ثبوت ہے تو قرآن سے ہی دے دیں۔ آپ تو نہ دے سکے ، میں ہی اپنی بات کا ثبوت قرآن سے دے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين آل عمران : 33)
اللہ نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا۔
یہاں انبیاء علیھم السلام کی افضلیت ثابت ہورہی ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے :
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۔۔الخ () سورة البقرة124​
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ اللہ نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو)​
اس آیت میں ایک نبی کو پیشوا بنایا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ہوئے ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ چلا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے آقا علیہ السلام الصلاۃ والسلام مبعوث ہوئے ۔

سورہ انعام آیت 84 تا 89 میں انبیاء علھیم السلام کی افضلیت کے متعلق فرما رہا ہے :

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ( 84 )
اور ہم نے ان (ابراہیم) کو اسحاق اور یعقوب بخشے۔ (اور( سب کو ہدایت دی۔ اور پہلے نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں
وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ( 85 )
اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی۔ یہ سب نیکوکار تھے
وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ( 86 )
اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی اور ان سب کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی
وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ( 87 )
اور بعض بعض کو ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بھی۔ اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھایا تھا
ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( 88 )
یہ خدا کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے۔ اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ ( 89 )
یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ (کفار) ان باتوں سے انکار کریں تو ہم نے ان پر (ایمان لانے کے لئے) ایسے لوگ مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان سے کبھی انکار کرنے والے نہیں
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ
( 90 ) یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لئےمحض نصیحت ہے۔
ان آیات میں صاف طور پر اللہ کریم فضیلت انبیاء کا ذکر فرما رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہیں ہم نے کتاب اور شریعت اور نبوت عطا کی تھی اور انہی برگزیدہ اور افضل لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی تھی لہذا انہی کے نقش قدم پر چلو اور انہی کی پیروی کرو۔​
اب یہ آیت سورہ بقرہ کی 136 ملاحظہ کیجئے :​
"(مسلمانو) کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (خدائے واحد) کے فرمانبردار ہیں‘‘۔​
یہ میرا نہیں رب کا فرمان ہے کہ انسانوں میں کون سی ہستیاں افضل، اعلیٰ اور مقتدیٰ ہیں۔باقی صحابہ کرام و اہل بیت النبی ٖ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام پر ہی موت نصیب فرمائے۔​
 
اب ذرا آخری بات کا جواب دوں اور اس دھاگے سے الگ ہوں۔ ان ارید الا الاصلاح ما استطعت ۔​
یہ کلمات کس نے کہے تھے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔؟​
جناب ابراہیم علیہ السلام نے یا اللہ سبحان و تعالی نے ۔۔۔ ۔۔۔ ۔؟​
قُلْنَا يَانَارُ كُوْنِيْ بُرْدًا وَّسَلاَمًا عَلَى اِبْرَاهِيْمَ ۔ (الانبيآء آيت : 69)​
’’ہم نے کہا اے آگ ! ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی والی(بن جا) ابراہیم پر‘‘۔​
یہ نہ معجزہ تھا نہ کرامت تھی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔ یہ امر اللہ تھا ۔​
بلاشک و شبہ یہ اللہ کا حکم تھا۔ تو جناب یہ بھی غور کرلیں نا کہ کس کے حق میں حکم ہوا ہے اور کس حالت (situation) اور کن کے سامنے حکم دیا !!​
سیدنا ابراہیم علیہ السلام نبی اللہ ہیں۔ کافر بادشاہ سے مناظرہ ہوتا ہے ، وہ زچ ہو کر آپ علیہ السلام کو آگ میں ڈلوادیتا ہے۔ ادھر حضرت ابراہیم علیہ السلام آگ میں ، ادھر اللہ کا حکم اور امر نازل ہوا کہ آگ ٹھنڈی ہوجا۔میرے خلیل کو ذرا آنچ نہ آئے۔​
خلیل اللہ سرخرو ہوگئے اور کفار اللہ کی طرف سے یہ "امر عجز“ (جس کا ہونا انسانوں کے نزدیک ناممکن) ہوتا دیکھ کر دنگ رہ گئے۔ چنانچہ خلیل اللہ علیہ السلام کی نبوت کی کافروں پر تائید اور حجت بھی ہوگئی چنانچہ یہ خلیل اللہ کا معجزہ ہوا کیونکہ یہ ان کے ذریعے ظہور پذیر ہوا ۔ بلاشبہ امر اللہ تھا۔ کائنات کا پتا بھی ہلتا ہے تو وہ امراللہ ہی ہوتا ہے ۔ خود سے تو کچھ نہیں ہوجاتا۔​
جاری ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
 
کلمتہ اللہ ۔ بن باپ کے حضرت عیسی علیہ السلام کا حضرت مریم علیہ السلام کے پیٹ سے جنم لینا ہے ۔​
معجزہ جناب موسی علیہ السلام کے ہاتھوں عمل میں آتا ہے ۔ جب عصا زمین پر گرتا ہے اور جادوئی سانپوں کو نگل جاتا ہے ۔​
اور کرامت حضرت سلیمان علیہ السلام کے دربار میں موجود کتاب کے علم کے حامل کے ہاتھوں تخت بلقیس کا آنا ہے ۔​
بلاشک و شبہ عیسیٰ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں ۔ لیکن وہ کس کے ذریعے دنیا میں تشریف لائے ؟ سیدۃ مریم علیھا السلام ذریعہ بنیں ۔ اور وہ نبی نہیں تھیں لہذا ان کی ولایت کی تصدیق ، تکریم اور تائید ہوئی اور ان کے حق میں کرامت شمار ہوئی۔ یہ بھی امر اللہ ہی تھا۔ پھر کہتا ہوں کہ خود سے تو پتا بھی نہیں ہلتا۔کائنات کی ہرشے اللہ کے امر کی محتاج ہے۔​
معجزہ جناب موسی علیہ السلام کے ہاتھوں عمل میں آتا ہے ۔ جب عصا زمین پر گرتا ہے اور جادوئی سانپوں کو نگل جاتا ہے ۔​
جناب کے نزدیک عصا کا اژدھا بننا معجزہِ موسیٰ علیہ السلام ہے ۔ فقیر کیا علمائے امت کے نزدیک بھی معجزہ ہی ہے ۔​
لیکن آپ بھول گئے کہ عصا کو نیچے پھینکنے کا "امر ‘‘ اور حکم میرے اور اس کائنات کے خالق کا ہی تھا۔​
سورہ اعراف ارشاد ربانی :​
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ( 117 )​
)اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو۔ وہ فوراً (سانپ بن کر) جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو (ایک ایک کرکے) نگل جائے گی​
فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ( 118 )​
(پھر) تو حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ فرعونی کرتے تھے، باطل ہوگیا​
فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ( 119 )​
اور وہ مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر رہ گئے۔​
یہاں اللہ ہی کا امر نازل ہورہا ہے کہ لاٹھی ڈال دو۔ پھر آپ کے خیال میں یہ معجزہ کیسے ہوگیا۔ میرے بھائی ٹھندے دل سے غور کریں۔ قسم باللہ آپ کو نیچا دکھانا مقصود نہیں ۔ رات کے آدھے پہر میں یہ سطور اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ایک مسلمان بھائی کا بھلا ہوجائے۔ وہ دینی ورثے، قرآن وحدیث میں شکوک نہ ڈھونڈتا پھرے۔ چند نا عاقبت اندیشوں کے طرزعمل سے پورے دینی ورثے کو نہ دیوار سے لگا دے۔​
یہ بھی امر اللہ ہی تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے حق میں معجزہ شمار ہوا کیونکہ وہ نبی تھے (معجزہ اور کرامت کا فرق اوپر پھر پڑھ لیں)۔ بلاشبہ ہر معجزہ ، ہر کرامت ، کائنات کا ہر عمل امر اللہ ہے۔ اس کے اذن کے بنا مچھلیاں تیر نہ سکیں ، پھول کھل نہ سکیں ، پرندے اڑ نہ سکیں ، ہوا چل نہ سکے۔​
یہاں بھی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں یہ "امر عجز‘‘ ظہور پذیر ہوا چنانچہ موسیٰ علیہ السلام سرخرو ہوئے ۔ ان کی نبوت کی تصدیق ہوگئ اور ناظرین پر حجت ہوگئی۔ پھر کیا ہوا ؟؟؟ قرآن کہتا ہے :​
وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ( 120 )​
)یہ کیفیت دیکھ کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے​
قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ( 121 )​
اور کہنے لگے کہ ہم جہان کے پروردگار پر ایمان لائے
رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ( 122 )​
یعنی موسیٰ اور ہارون کے پروردگار پر۔
جادوگر اللہ کی وحدانیت اور ساتھ ساتھ موسیٰ و ہارون علیھما السلام کی نبوت کے بھی تصدیق کرنے والے بن گئے ۔ انہوں نے حجت الہیٰ تسلیم کرلی اور اپنا سر جھکا لیا۔ وہ جان گئے کہ یہ ’’امر عجز‘‘ کسی انسان کے بس کا نہیں ۔ آخر خود جادوگر تھے ، اس کے برعکس بھی کہہ سکتے تھے لیکن نہیں ، انہوں نے جان لیا کہ یہ جادو بھی نہیں، یہ رب کی قدرت ہے اور موسیٰ علیہ السلام سچے ہیں۔ پھر فرعون نے ان ایمان لانے والے سابقہ جادوگروں کے ساتھ کیا کیا ، وہ انہی آیات کے آگے بیان ہوا ہے۔ وہ ڈٹے رہے اور جھکنا قبول نہیں کیا اور فرعون کو کہا "اور اس کے سوا تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے‘‘۔ اللہ ان سے راضی ہو۔آمین۔​
یہ ایک حقیر کوشش تھی کہ آپ کی غلط فہمی دور کرسکوں ۔ میں اپنی اور آپ کی اللہ سے ہدایت کا طالب ہوں اور اسی سے اس کے اجر کی امید کرتا ہوں۔​
وما علینا الا البلاغ۔​
آپ تو ریاض میں رہائش پذیر ہیں ۔ کتنے ہی علمائے امت کا مسکن رہا ہے سعودیہ۔ شیخ ابن عثیمین کی تالیفات کی طرف رجوع کیجئے ، معجزہ اور کرامت کے متعلق بھی بحث مل جائے گی۔​
 

نایاب

لائبریرین

بلاشک و شبہ عیسیٰ کلمۃ اللہ اور روح اللہ ہیں ۔ لیکن وہ کس کے ذریعے دنیا میں تشریف لائے ؟ سیدۃ مریم علیھا السلام ذریعہ بنیں ۔ اور وہ نبی نہیں تھیں لہذا ان کی ولایت کی تصدیق ، تکریم اور تائید ہوئی اور ان کے حق میں کرامت شمار ہوئی۔ یہ بھی امر اللہ ہی تھا۔ پھر کہتا ہوں کہ خود سے تو پتا بھی نہیں ہلتا۔کائنات کی ہرشے اللہ کے امر کی محتاج ہے۔​

جناب کے نزدیک عصا کا اژدھا بننا معجزہِ موسیٰ علیہ السلام ہے ۔ فقیر کیا علمائے امت کے نزدیک بھی معجزہ ہی ہے ۔​
لیکن آپ بھول گئے کہ عصا کو نیچے پھینکنے کا "امر ‘‘ اور حکم میرے اور اس کائنات کے خالق کا ہی تھا۔​
سورہ اعراف ارشاد ربانی :​
وَأَوْحَيْنَا إِلَىٰ مُوسَىٰ أَنْ أَلْقِ عَصَاكَ ۖ فَإِذَا هِيَ تَلْقَفُ مَا يَأْفِكُونَ( 117 )​
)اس وقت) ہم نے موسیٰ کی طرف وحی بھیجی کہ تم بھی اپنی لاٹھی ڈال دو۔ وہ فوراً (سانپ بن کر) جادوگروں کے بنائے ہوئے سانپوں کو (ایک ایک کرکے) نگل جائے گی​
فَوَقَعَ الْحَقُّ وَبَطَلَ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ( 118 )​
(پھر) تو حق ثابت ہوگیا اور جو کچھ فرعونی کرتے تھے، باطل ہوگیا​
فَغُلِبُوا هُنَالِكَ وَانقَلَبُوا صَاغِرِينَ( 119 )​
اور وہ مغلوب ہوگئے اور ذلیل ہوکر رہ گئے۔​
یہاں اللہ ہی کا امر نازل ہورہا ہے کہ لاٹھی ڈال دو۔ پھر آپ کے خیال میں یہ معجزہ کیسے ہوگیا۔ میرے بھائی ٹھندے دل سے غور کریں۔ قسم باللہ آپ کو نیچا دکھانا مقصود نہیں ۔ رات کے آدھے پہر میں یہ سطور اس لیے لکھ رہا ہوں کہ ایک مسلمان بھائی کا بھلا ہوجائے۔ وہ دینی ورثے، قرآن وحدیث میں شکوک نہ ڈھونڈتا پھرے۔ چند نا عاقبت اندیشوں کے طرزعمل سے پورے دینی ورثے کو نہ دیوار سے لگا دے۔
یہ بھی امر اللہ ہی تھا۔ اور موسیٰ علیہ السلام کے حق میں معجزہ شمار ہوا کیونکہ وہ نبی تھے (معجزہ اور کرامت کا فرق اوپر پھر پڑھ لیں)۔ بلاشبہ ہر معجزہ ، ہر کرامت ، کائنات کا ہر عمل امر اللہ ہے۔ اس کے اذن کے بنا مچھلیاں تیر نہ سکیں ، پھول کھل نہ سکیں ، پرندے اڑ نہ سکیں ، ہوا چل نہ سکے۔​
یہاں بھی موسیٰ علیہ الصلاۃ والسلام کے ہاتھوں یہ "امر عجز‘‘ ظہور پذیر ہوا چنانچہ موسیٰ علیہ السلام سرخرو ہوئے ۔ ان کی نبوت کی تصدیق ہوگئ اور ناظرین پر حجت ہوگئی۔ پھر کیا ہوا ؟؟؟ قرآن کہتا ہے :​
وَأُلْقِيَ السَّحَرَةُ سَاجِدِينَ( 120 )​
)یہ کیفیت دیکھ کر) جادوگر سجدے میں گر پڑے​
قَالُوا آمَنَّا بِرَبِّ الْعَالَمِينَ( 121 )​
اور کہنے لگے کہ ہم جہان کے پروردگار پر ایمان لائے
رَبِّ مُوسَىٰ وَهَارُونَ( 122 )​
یعنی موسیٰ اور ہارون کے پروردگار پر۔
جادوگر اللہ کی وحدانیت اور ساتھ ساتھ موسیٰ و ہارون علیھما السلام کی نبوت کے بھی تصدیق کرنے والے بن گئے ۔ انہوں نے حجت الہیٰ تسلیم کرلی اور اپنا سر جھکا لیا۔ وہ جان گئے کہ یہ ’’امر عجز‘‘ کسی انسان کے بس کا نہیں ۔ آخر خود جادوگر تھے ، اس کے برعکس بھی کہہ سکتے تھے لیکن نہیں ، انہوں نے جان لیا کہ یہ جادو بھی نہیں، یہ رب کی قدرت ہے اور موسیٰ علیہ السلام سچے ہیں۔ پھر فرعون نے ان ایمان لانے والے سابقہ جادوگروں کے ساتھ کیا کیا ، وہ انہی آیات کے آگے بیان ہوا ہے۔ وہ ڈٹے رہے اور جھکنا قبول نہیں کیا اور فرعون کو کہا "اور اس کے سوا تجھ کو ہماری کون سی بات بری لگی ہے کہ جب ہمارے پروردگار کی نشانیاں ہمارے پاس آگئیں تو ہم ان پر ایمان لے آئے‘‘۔ اللہ ان سے راضی ہو۔آمین۔​
یہ ایک حقیر کوشش تھی کہ آپ کی غلط فہمی دور کرسکوں ۔ میں اپنی اور آپ کی اللہ سے ہدایت کا طالب ہوں اور اسی سے اس کے اجر کی امید کرتا ہوں۔​
وما علینا الا البلاغ۔​
آپ تو ریاض میں رہائش پذیر ہیں ۔ کتنے ہی علمائے امت کا مسکن رہا ہے سعودیہ۔ شیخ ابن عثیمین کی تالیفات کی طرف رجوع کیجئے ، معجزہ اور کرامت کے متعلق بھی بحث مل جائے گی۔​
میرے محترم بھائی آپ کی نیک خواہشات کا شکریہ
جزاک اللہ خیراء
میرے محترم بھائی قران قران ہے اور احادیث احادیث
قران اللہ کا کلام ہے اور مستند و محفوظ ۔ اس میں تحریف کرنے کی کسی میں مجال نہیں ۔
احادیث انسان کا مرتب کردہ مجموعہ ہے ۔ اور اس میں الفاظ و واقعات کی صداقت اور کمی بیشی کا بہر صورت اندیشہ پایا جاتا ہے ۔
جنہیں آپ نا عاقبت ااندیش کا خطاب دے رہے ہیں ۔ اللہ جانے وہ علم کے کس مقام پر ہوں گے ۔
اللہ تعالی ہم سب کو فہم قران سے نوازے آمین
 

میر انیس

لائبریرین
بات چلی تھی کہ انبیاء علھیم السلام سے کوئی افضل نہیں ۔آپ نے اس کا انکار کیا ۔ میں نے کہا اگر کوئی ثبوت ہے تو قرآن سے ہی دے دیں۔ آپ تو نہ دے سکے ، میں ہی اپنی بات کا ثبوت قرآن سے دے دیتا ہوں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے ۔

إن الله اصطفى آدم ونوحا وآل إبراهيم وآل عمران على العالمين آل عمران : 33)
اللہ نے آدم اور نوح اور خاندان ابراہیم اور خاندان عمران کو تمام جہان کے لوگوں میں منتخب فرمایا تھا۔
یہاں انبیاء علیھم السلام کی افضلیت ثابت ہورہی ہے۔
ایک جگہ ارشاد ہے :
وَإِذِ ابْتَلَى إِبْرَاهِيمَ رَبُّهُ بِكَلِمَاتٍ فَأَتَمَّهُنَّ قَالَ إِنِّي جَاعِلُكَ لِلنَّاسِ إِمَامًا قَالَ وَمِن ذُرِّيَّتِي ۔۔الخ () سورة البقرة124​
اور جب پروردگار نے چند باتوں میں ابراہیم کی آزمائش کی تو ان میں پورے اترے۔ اللہ نے کہا کہ میں تم کو لوگوں کا پیشوا بناؤں گا۔ انہوں نے کہا کہ (پروردگار) میری اولاد میں سے بھی (پیشوا بنائیو)​
اس آیت میں ایک نبی کو پیشوا بنایا گیا ہے ۔ چنانچہ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دو بیٹے حضرت اسحاق علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام ہوئے ۔ حضرت اسحاق علیہ السلام سے بنی اسرائیل میں انبیاء کا سلسلہ چلا اور حضرت اسماعیل علیہ السلام سے آقا علیہ السلام الصلاۃ والسلام مبعوث ہوئے ۔

سورہ انعام آیت 84 تا 89 میں انبیاء علھیم السلام کی افضلیت کے متعلق فرما رہا ہے :

وَوَهَبْنَا لَهُ إِسْحَاقَ وَيَعْقُوبَ ۚ كُلًّا هَدَيْنَا ۚ وَنُوحًا هَدَيْنَا مِن قَبْلُ ۖ وَمِن ذُرِّيَّتِهِ دَاوُودَ وَسُلَيْمَانَ وَأَيُّوبَ وَيُوسُفَ وَمُوسَىٰ وَهَارُونَ ۚ وَكَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ( 84 )
اور ہم نے ان (ابراہیم) کو اسحاق اور یعقوب بخشے۔ (اور( سب کو ہدایت دی۔ اور پہلے نوح کو بھی ہدایت دی تھی اور ان کی اولاد میں سے داؤد اور سلیمان اور ایوب اور یوسف اور موسیٰ اور ہارون کو بھی۔ اور ہم نیک لوگوں کو ایسا ہی بدلا دیا کرتے ہیں
وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ ۖ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ( 85 )
اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی۔ یہ سب نیکوکار تھے
وَإِسْمَاعِيلَ وَالْيَسَعَ وَيُونُسَ وَلُوطًا ۚ وَكُلًّا فَضَّلْنَا عَلَى الْعَالَمِينَ ( 86 )
اور اسمٰعیل اور الیسع اور یونس اور لوط کو بھی اور ان سب کو جہان کے لوگوں پر فضلیت بخشی تھی
وَمِنْ آبَائِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ وَإِخْوَانِهِمْ ۖ وَاجْتَبَيْنَاهُمْ وَهَدَيْنَاهُمْ إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ ( 87 )
اور بعض بعض کو ان کے باپ دادا اور اولاد اور بھائیوں میں سے بھی۔ اور ان کو برگزیدہ بھی کیا تھا اور سیدھا رستہ بھی دکھایا تھا
ذَٰلِكَ هُدَى اللَّهِ يَهْدِي بِهِ مَن يَشَاءُ مِنْ عِبَادِهِ ۚ وَلَوْ أَشْرَكُوا لَحَبِطَ عَنْهُم مَّا كَانُوا يَعْمَلُونَ ( 88 )
یہ خدا کی ہدایت ہے اس پر اپنے بندوں میں سے جسے چاہے چلائے۔ اور اگر وہ لوگ شرک کرتے تو جو عمل وہ کرتے تھے سب ضائع ہوجاتے۔
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ آتَيْنَاهُمُ الْكِتَابَ وَالْحُكْمَ وَالنُّبُوَّةَ ۚ فَإِن يَكْفُرْ بِهَا هَٰؤُلَاءِ فَقَدْ وَكَّلْنَا بِهَا قَوْمًا لَّيْسُوا بِهَا بِكَافِرِينَ ( 89 )
یہ وہ لوگ تھے جن کو ہم نے کتاب اور حکم (شریعت) اور نبوت عطا فرمائی تھی۔ اگر یہ (کفار) ان باتوں سے انکار کریں تو ہم نے ان پر (ایمان لانے کے لئے) ایسے لوگ مقرر کردیئے ہیں کہ وہ ان سے کبھی انکار کرنے والے نہیں
أُولَٰئِكَ الَّذِينَ هَدَى اللَّهُ ۖ فَبِهُدَاهُمُ اقْتَدِهْ ۗ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا ۖ إِنْ هُوَ إِلَّا ذِكْرَىٰ لِلْعَالَمِينَ
( 90 ) یہ وہ لوگ ہیں جن کو خدا نے ہدایت دی تھی تو تم انہیں کی ہدایت کی پیروی کرو۔ کہہ دو کہ میں تم سے اس (قرآن) کا صلہ نہیں مانگتا۔ یہ تو جہان کے لوگوں کے لئےمحض نصیحت ہے۔
ان آیات میں صاف طور پر اللہ کریم فضیلت انبیاء کا ذکر فرما رہا ہے بلکہ یہ بھی فرما رہا ہے کہ یہ وہ لوگ تھے جنہیں ہم نے کتاب اور شریعت اور نبوت عطا کی تھی اور انہی برگزیدہ اور افضل لوگوں کو اللہ نے ہدایت دی تھی لہذا انہی کے نقش قدم پر چلو اور انہی کی پیروی کرو۔​
اب یہ آیت سورہ بقرہ کی 136 ملاحظہ کیجئے :​
"(مسلمانو) کہو کہ ہم خدا پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اتری، اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسمٰعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں) موسیٰ اور عیسی کو عطا ہوئیں، ان پر، اور جو اور پیغمبروں کو ان کے پروردگار کی طرف سے ملیں، ان پر (سب پر ایمان لائے) ہم ان پیغمروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (خدائے واحد) کے فرمانبردار ہیں‘‘۔​
یہ میرا نہیں رب کا فرمان ہے کہ انسانوں میں کون سی ہستیاں افضل، اعلیٰ اور مقتدیٰ ہیں۔باقی صحابہ کرام و اہل بیت النبی ٖ صلی اللہ علیہ وسلم بعد میں آتی ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کو ہدایت کی توفیق عطا فرمائے اور اسلام پر ہی موت نصیب فرمائے۔​
کافی عرصے بعد اردو محفل میں آنا ہوا اور میرے ساتھ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ میں جب آتا ہوں تو محفل میں آتا چلا جاتا ہوں اور اگر غائب ہوتا ہوں تو بہت عرصے تک اپنی مصروفیات کے باعث نہیں آسکتا۔ آپ نے جو آیات پیش کیں ان پر بے شک ہر مسلمان کا اعتقاد ہے ان آیات کا جو نتیجہ ہے یعنی سارے انبیاء نیکو کار اپنے زمانے کے تمام لوگوں سے افضل یہ بھی میرا کیا تمام مسلمانوں کا عقیدہ ہے ۔ لیکن اسکے علاوہ بھی قران میں بہت کچھ ہے جو ہم جیسوں سے مخفی ہے جیسے سب کا ایمان ہے کہ انبیاء علیہ السلام کی تعداد ایک لاکھ چوبیس ہزار ہے لیکن تذکرہ پچاس کا بھی نہیں ہے اب ان انبیاء کا تذکرہ نہ ہونا اس بات کا ثبوت نہیں بن سکتا کہ وہ انبیاء کوئی فضیلت نہیں رکھتے تھے۔ یہ الگ بات کہ فضائل میں فرق تھا مراتب میں فرق تھا ایک عام نبی سے رسول کا رتبہ بلند تھا ایک عام رسول سے اولعزم رسول کا رتبہ بلند تھا اور تمام اولعزم نبیوں سے میرے آقا کا رتبہ سب سے بلند ہے وہ تمام انبیاء کے سردار ہیں اور پنجتن کے پہلے فرد بھی وہی ہیں۔ قران میں جسطرح انبیاء کی فضیلت پر آیات نازل ہوئی ہیں وہاں پنجتن پاک کی شان میں بھی متعد آیات نازل ہوئی ہیں۔
إِنَّمَا يُرِيدُ اللَّهُ لِيُذْهِبَ عَنكُمُ الرِّجْسَ أَهْلَ الْبَيْتِ وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا(سورۃ احزاب آیت ۳۳)۔
بس اللہ کا ارادہ ہے اے اہلیبیت علیہم السلام تم سے ہر برائی کو دور رکھے اور اس طرح پاک و پا کیزہ رکھے جس طرح پاک وپا کیزہ رکھنے کا حق ہے۔
سنی شیعہ علماء کا اتفاق ہے کہ یہ آیت آنحضرت (ص) مولا علی(ع) بی بی فاطمہ (س) اور حضرات حسنین (ع) کی فضیلت میں نازل ہوئی ہیں
پورا قران ملاحضہ فرمالیں کسی بھی نبی کیلئے آنحضرت(ص) کے اور انکے اہلیبیت کے علاوہ اسطرح کا کلام جو اللہ نے صرف ان پاک ہستیوں کیلئے فرمایا ہے مجھ کو دکھادیں۔وجہ یہ ہے کے بیشک تمام انبیاء معصوم تھے اور ان سے گناہ سرزرد ہونے کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا تھا کیوں کہ وہ تو لوگوں کو خود گناہوں سے بچانے آئے تھے لیکن ان سے بہر حال ترک اولٰی ہوجاتا تھا پر ہمارے نبی اور انکے اہلیبیت سے کبھی ترک اولٰی بھی نہیں ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ مولا علی (ع) نے فرمایا نہ کبھی میں نے جھوٹ بولا نہ کبھی مجھ سے جھوٹ بلوایا جاسکا نہ ہی میں نے کوئی گناہ کیا نہ مجھ سے کوئی گناہ کرایا جاسکا۔ کیوں کہ گناہ بھی رجس ہے اور اللہ نے آپ (ع) سے رجس کو دور کرنے کا وعدہ فرمایا ہے۔

سورہ ھل اتیٰ کے بارے میں شیعہ وسنی علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ سورہ ٔ دہر علی علیہ السلام، بی بی فاطمہ سلام اللہ علیہا اور آئمہ بر حق حسنین علیہماالسلام کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔
سورۃ شورٰی کی آیت نمبر 23۔ قُل لَّا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ أَجْرًا إِلَّا الْمَوَدَّةَ فِي الْقُرْبَى۔
یہ آیت بھی آپ(ص) کے اہلیبیت کی شان میں نازٌ ہوئ ہے جس میں حکم ہے اہلیبیت سے محبت کا۔ اور اگر اجر رسالت ادا کرنا ہے تو آپ کو ان پاک ہستیوں سے محبت کرنا ہی ہوگی ایسی فضیلت کسی اور کی قران میں درج ہے؟۔
اب میں آپ کی اجازت سے ایک مومنہ عورت کی حجاج بن یوسف سے ہونے والی گفتگو ایک ویب سائیٹ سے یہاں نقل کر رہا ہوں ۔
یہ عورت قیدی بنا کر حجاج بن یوسف کے پاس لائی گئی تھی اور اس پر الزام تھا کہ یہ عورت حضرت علی(ع) کو انبیاء سے افضل سمجھتی ہے۔

حجاج: ”تیرا برا ہو، تو علی کو آٹھ پیغمبروں سے جن میں سے بعض اولوالعزم بھی ہیں افضل وبرتر جانتی ہے اگر تونے اپنے اس دعویٰ کو دلیل سے ثابت نہ کیا تو میں تیری گردن اڑاد وں گا۔“
حرہ: ”یہ میں نہیں کہتی کہ میں علی علیہ السلام کو ان پیغمبروں سے افضل وبر تر جانتی ہوں بلکہ خداوند متعال نے خود انھیں ان تمام پر برتری عطا کی ہے قرآن مجید جناب آدم علیہ السلام کے بارے میں فرماتا ہے:
”وَعَصیٰ آدمُ رَبَّہُ فَغَویٰ“
”اور آدم سے جو کوتاہی(ترک اولٰی) ہوئی اسکے نتیجہ میں اس کی جزا سے محروم ہو گئے“۔
لیکن خدا وند متعال علی علیہ السلام ،ان کی زوجہ اور ان کے بیٹوں کے بارے میں فرماتا ہے۔
”وَکَانَ سَعْیُکُمْ مَشْکُورًا“
”اور تمہاری سعی و کوشش مشکور ہے“۔
حجاج: ”شاباش لیکن یہ بتا کہ تونے حضرت علی علیہ السلام کو نوح و لوط علیہما السلام پر کس دلیل کے ذریعہ فضیلت دی “۔
حرہ: ”خداوند متعال انھیں ان لوگوں سے افضل و بر تر جانتا ہے جیسا کہ فرماتا ہے:
”ضَرَبَ اللهُ مَثَلاً لِلَّذِینَ کَفَرُوا اِمْرَاٴَةَ نُوحٍ وَاِمْرَاٴَةَ لُوطٍ کَانَتَا تَحْتَ عَبْدَیْنِ مِنْ عِبَادِنَا صَالِحَیْنِ فَخَانَتَاہُمَا فَلَمْ یُغْنِیَا عَنْہُمَا مِنْ اللهِ شَیْئًا وَقِیلَ ادْخُلاَالنَّارَ مَعَ الدَّاخِلِینَ “
”خدانے کافر ہونے والے لوگوں کو نوح و لوط کی بیویوں کی مثالیں دی ہیں۔یہ دونوں ہمارے صالح بندوں کے تحت تھیں مگر ان دونوں نے ان کے ساتھ خیانت کی لہٰذا ان کا ان دونوں سے تعلق انھیں کوئی فائدہ نہ پہنچا سکا اور ان سے کہا گیا کہ جہنم میں جانے والوں کے ساتھ تم بھی چلی جاوٴ“۔
لیکن علی علیہ السلام کی زوجہ ،پیغمبر اسلام صلی الله علیه و آله وسلم کی بیٹی جناب فاطمہ سلام اللہ علیہا ہیں جن کی خوشنودی خدا کی خوشنودی ہے اور جن کی ناراضگی خدا کی ناراضگی ہے۔
حجاج: شاباش حرہ! لیکن یہ بتا تو کس دلیل کی بنا پر ابو الانبیاء حضرت ابراہیم علیہ السلام پر حضرت علی علیہ السلام کو فضیلت دیتی ہے؟
حرہ: ”خدا وند متعال قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ جناب ابراہیم علیہ السلام نے عرض کیا:
”رَبِّ اٴَرِنِی کَیْفَ تُحْیِ الْمَوْتَی قَالَ اٴَوَلَمْ تُؤْمِنْ قَالَ بَلَی وَلَکِنْ لِیَطْمَئِن قَلْبِي“
”ابراہیم نے کہا پالنے والے! تو مجھے یہ دکھا دے کہ تو کیسے مردوں کو زندہ کرتا ہے تو خدا نے کہا کیا تمہارا اس پر ایمان نہیں ہے تو انھوں نے کہا کیوں نہیں مگر میں اطمینان قلب چاہتا ہوں“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام ا س حد تک یقین کے درجہ پر فائز تھے کہ آپ نے فرمایا:
”لوکشف الغطا ء ماازددت یقینا“۔
”اگر تمام پردے میرے سامنے سے ہٹا دئے جائیں تو بھی میرے یقین میں کوئی اضافہ نہیں ہوگا۔“
اور اس طرح نہ پہلے کسی نے کہا تھا اور نہ اب کوئی ایسا کہہ سکتا ہے ۔“
حجاج: ”شاباش لیکن تو کس دلیل سے حضرت علی کو جناب موسیٰ کلیم اللہ پر فضیلت دیتے ہے؟“۔
حرہ: ”خداوند عالم قرآن میں ارشاد فرماتا ہے:
”فَخَرَجَ مِنْہَا خَائِفًا یَتَرَقَّبُ“
”وہ وہاں سے ڈرتے ہوئے (کسی بھی حادثہ کی)تو قع میں (مصر)سے باہر نکلے“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام کسی سے نہیں ڈرے، شب ہجرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کے بستر پر آرام سے سوئے اور خدا نے ان کی شان میں یہ آیت نازل فرمائی:
”وَ مِنْ النَّاسِ مَنْ یَشْرِی نَفْسَہُ ابْتِغَاءَ مَرْضَاةِ اللهِ “
”اور لوگوں میں سے کچھ ایسے ہیں جو اپنے نفس کو اللہ کی رضا کے لئے بیچ دیتے ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتا کہ داوٴد علیہ السلام پر علی کو کس دلیل سے فضیلت حاصل ہے ؟“
حرہ: ”خداوند متعال جناب دادوٴ علیہ السلام کے سلسلہ میں فرماتا ہے:
” یَادَاوُودُ إِنَّا جَعَلْنَاکَ خَلِیفَةً فِی الْاٴَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَتَتَّبِعْ الْہَوَی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیلِ اللهِ “
”اے دادوٴ! ہم نے تمہیں زمین پر خلیفہ بنا یا ہے لہٰذا تم لوگوں کے درمیان حق سے فیصلے کرو اور اپنی خواہشات کو پیروی نہ کرو کہ اس طرح تم راہ خدا سے بھٹک جاوٴ گے“۔
حجاج: ”جناب داوٴد کی قضاوت کس سلسلے میں تھی؟”
حرہ: ”دو آدمیوں کے بارے میں کہ ان میں سے ایک بھیڑ وں کا مالک تھا اور دوسرا کسان، اس بھیڑ کے مالک کی بھیڑوں نے اس کے کھیت میں جاکر اس میں کھیتی چرلی، اور اس کی زراعت کو تباہ و برباد کردیا، یہ دونوں آدمی فیصلہ کے لئے حضرت داؤد علیہ السلام کے پاس آئے اور اپنی شکایت سنائی، حضرت داؤد نے فرمایا: بھیڑکے مالک کو اپنی تمام بھیڑوں کو بیچ کر اس کا پیسہ کسان کو دے دینا چاہئے تاکہ وہ ان پیسوں سے کھیتی کرے اور اس کا کھیت پہلے کی طرح ہو جائے لیکن جناب سلیمان نے اپنے والد سے کہا۔”آپ کو یہ فیصلہ کرنا چاہئے کہ بھیڑوں کا مالک کسان کو دودھ اور اون دےدے تاکہ اس کے ذریعہ اس کے نقصان کی تلافی ہوجائے“۔
اس سلسلہ میں خداوند عالم نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے: ”ففہمنا سلیمان“
” ہم نے حکم (حقیقی) سلیمان کو سمجھا دیا“۔
لیکن حضرت علی علیہ السلام فرماتے ہیں:
”سلونی قبل ان تفقدونی“۔
”مجھ سے سوال کرلو قبل اس کے کہ تم مجھے کھو دو“۔
جنگ خیبر کی فتح کے دن جب حضرت رسول خدا صلی الله علیه و آله وسلم کی خد مت میں تشریف لے آئے تو آنحضرت نے لوگوں کی طرف مخاطب ہو کر فرمایا:
”اٴفضلکم و اٴعلمکم و اٴقضاکم علي“۔
”تم میں سے افضل اور سب اچھا فیصلہ کرنے والے علی ہیں“۔
حجاج: ”شاباش لیکن اب یہ بتاوٴ کہ کس دلیل سے علی جناب سلیمان علیہ السلام سے افضل ہیں‘۔

(۱)حرہ: ”قرآن میں جنا ب سلیمان کا یہ قول نقل ہوا ہے:
” رَبِّ اغْفِرْ لِی وَہَبْ لِی مُلْکاً لاَیَنْبَغِی لِاٴَحَدٍ مِنْ بَعْدِی“
” پالنے والے! مجھے بخش دے اور مجھے ایسا ملک عطا کردے جو میرے بعد کسی کے لئے شائستہ نہ ہو“۔
لیکن میرے مولا علی علیہ السلام نے دنیا کو تین طلاق دی ہے جس کے بعد آیت نازل ہوئی:
” تِلْکَ الدَّارُ الْآخِرَةُ نَجْعَلُہَا لِلَّذِینَ لاَیُرِیدُونَ عُلُوًّا فِی الْاٴَرْضِ وَلاَفَسَادًا وَالْعَاقِبَةُ لِلْمُتَّقِینَ “
”وہ آخرت کا مقام ان لوگوں کے لئے ہم قرار دیتے ہیں جو زمین پر بلندی اور فساد کو دوست نہیں رکھتے اور عاقبت تو متقین کے لئے ہے“۔
حجاج: ”شاباش اے حرہ اب یہ بتا کہ تو کیوں حضرت علی کو جنا ب عیسیٰ علیہ السلام سے افضل و برتر جانتی ہے؟“
حرہ: ”خداوند عالم قرآن مجید میں ارشاد فرماتا:
” وَإِذْ قَالَ اللهُ یَاعِیسَی ابْنَ مَرْیَمَ اٴَاٴَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِی وَاٴُمِّی إِلَہَیْنِ مِنْ دُونِ اللهِ قَالَ سُبْحَانَکَ مَا یَکُونُ لِی اٴَنْ اٴَقُولَ مَا لَیْسَ لِی بِحَقٍّ إِنْ کُنتُ قُلْتُہُ فَقَدْ عَلِمْتَہُ تَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِی وَلاَاٴَعْلَمُ مَا فِی نَفْسِکَ إِنَّکَ اٴَنْتَ عَلاَّمُ الْغُیُوبِ # مَا قُلْتُ لَہُمْ إِلاَّ مَا اٴَمَرْتَنِی بِہِ“
”اور جب (روز قیامت) خدا کہے گا: اے عیسیٰ بن مریم ! کیا تم نے لوگوں سے کہا تھا کہ اللہ کو چھوڑ کر مجھے اور میری ماں کو خدا قرار دو، تو وہ کہیں گے تو پاک وپاکیزہ ہے میں کیسے ایسی بات کہہ سکتا ہوں جس کا مجھے حق نہیں اگر میں نے کہا ہوتا تو تو ضرور جان لیتا تو جانتا ہے میرے نفس میں کیا ہے لیکن میں نہیں جانتا کہ تیرے نفس میں کیا ہے تو عالم الغیب ہے میں نے ان سے صرف وہی کیا ہے جو تونے مجھے حکم دیا تھا“۔
اسی طرح جناب عیسی ٰ کی عباد ت کرنے والوں کا فیصلہ قیامت کے دن کے لئے ٹال دیا گیا مگر نصیروں نے حضرت علی علیہ السلام کی عبادت شروع کر دی تو آپ نے انھیں فوراً قتل کردیا اور ان کے عذاب و فیصلہ کو قیامت کے لئے نہیں چھوڑا ۔“
حجاج: ”اے حرہ! تو قابل تعریف ہے تو نے اپنے جواب میں نہایت اچھے دلائل پیش کئے اگر تو آج اپنے تمام دعووٴں میں سچی ثابت نہ ہوتی تو میں تیری گردن اڑادیتا ۔“
اس کے بعد حجاج نے حرہ کو انعام دیکر باعزت رخصت کردیا۔
 

میر انیس

لائبریرین
اب بات کرتے ہیں مولا علی(ع) کا قسیم النار والجنہ کے عقیدے کی۔ تو اہلِ سنت کے دو جلیل القدر آئمہ کا جب یہ عقیدہ تھا تو مجھ جیسا جاہل اگر یہ عقیدہ رکھتا ہے تو کوئی حیرت کی بات نہیں اگر وہ اس بات پر شرک کے مرتکب نہیں ہوتے تو پھر میرے اوپر اعتراض کیوں۔ میں یہ سمجھتا ہوں کہ چاہے کوئی انکو امام مانتا ہو یا نہیں لیکن اتنا تو ضرور مانے گا کہ انکی قران فہمی ادراک اور علم الحدیث کا مقابلہ ہم میں سے کوئی نہیں کرسکتا ۔
امام احمد بن حنبل(ر) سے کسی نے سوال کیا کہ کچھ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت علی جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے والے ہیں تو آپ نے فرمایا تو تجھ کو اس بات پر شک کیسا ہے۔ پھر آپ (ر)نے اس سے خود سوالات کئے کہ تو مانتا ہے کہ حضرت علی کے لئے آنحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے علی تجھ سے کوئی دشمنی نہیں کرسکتا سوائے منافق کے اور کوئی محبت نہیں کرسکتا سوائے مومن کے اسنے کہا جی مجھ کو اس پر یقین ہے پھر آپ (ر)نے سوال کیا اچھا یہ بتا قیامت میں مومن کہاں جائیں گے اس نے کہا جنت میں پھر آپ (ر)نے پوچھا اور منافق کہاں جائیں گے اس نے کہا جہنم میں تو آپ (ر)نے کہا اب بھی کہتا ہے کہ حضرت علی معیار نہیں ہیں جنت اور دوزخ کی تقسیم کا؟۔
اب امام شافعی کے کچھ اشعار نقل کرتا ہوں جو میں نے کل ہی ایک ویب سائیٹ پر دیکھے تھے وہاں اہل سنت کے اشعار مولا علی(ع) کی شان میں بے انتہا ہیں میں صرف امام شافعی کے نقل کر رہا ہوں۔

محمد بن ادریس شافعی)امام شافعی)

اذافی مجلس ذَکَرُواعلیاً

وسِبْطَیْہِ وَفاطمۃَ الزَّکیۃ

فَاجْریٰ بَعْضُھم ذِکریٰ سِوٰاہُ

فَاَیْقَنَ اَنَّہُ سَلَقْلَقِیۃََ

اِذٰا ذَکَرُوا عَلیَاً اَو ْبَنیہِ

تَشٰاغَلَ بِالْرِّوایاتِ الْعَلِیَۃِ

یُقال تَجاوَزُوا یاقومِ ھٰذا

فَھٰذا مِنْ حَدیثِ الرّٰافَضِیَّۃِ

بَرِئتُ الی الْمُھَیْمِن مِن اناسٍ

بَرونَ الرَّفْضَ حُبَّ الْفٰاطِمَیۃِ

عَلیٰ آلِ الرَّسولِ صَلوةُ رَبِّی

وَ َلَعْنَتُہُ لِتِلْکَ الْجٰاھِلِیَّۃِ

”جب کسی محفل میں ذکر ِعلی علیہ السلام ہویا ذکر ِسیدہ فاطمہ سلام اللہ علیہاہویا اُن کے دوفرزندوں کا ذکر ہو، تب کچھ لوگ اس واسطے کہ لوگوں کو ذکر ِمحمد و آلِ محمدسے دور رکھیں، دوسری باتیں چھیڑ دیتے ہیں۔ تمہیں یہ یقین کرلینا چاہئے کہ جوکوئی اس خاندان کے ذکر کیلئے اس طرح مانع ہوتا ہے،وہ بدکار عورت کا بیٹا ہے۔ وہ لمبی روایات درمیان میں لے آتے ہیں کہ علی و فاطمہ اور اُن کے دو فرزندوں کا ذکر نہ ہوسکے۔وہ یہ کہتے ہیں کہ اے لوگو! ان باتوں سے بچو کیونکہ یہ رافضیوں کی باتیں ہیں(میں جو امام شافعی ہوں) خدا کی طرف سے ان لوگوں سے بیزاری کا اظہار کرتا ہوں جو فاطمہ سے دوستی و محبت کرنے والے کو رافضی کہتے ہیں۔ میرے رب کی طرف سے درودوسلام ہو آلِ رسول پر اور اس طرح کی جہالت(یعنی محبانِ آلِ رسول کو گمراہ یا رافضی کہنا) پر لعنت ہو“۔

حوالہ جات

1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، کتاب ینابیع المودة، صفحہ329،باب62،از دیوانِ شافعی۔

2۔ شبلنجی،کتاب نورالابصار میں،صفحہ139،اشاعت سال1290۔



علیٌّ حُبُّہُ الْجُنّۃَ

اِمامُ النّٰاسِ وَالْجِنَّۃ

وَصِیُّ المُصْطَفےٰ حَقّاً

قَسِیْمُ النّٰارِ وَالْجَنَّۃ

”حضرت علی علیہ السلام کی محبت ڈھال ہے۔ وہ انسانوں اور جنوں کے امام ہیں۔ وہ حضرت محمد مصطفےٰ کے برحق جانشین ہیں اور جنت اور دوزخ تقسیم کرنے والے ہیں“۔

حوالہ

حموینی، کتاب فرائد السمطین میں،جلد1،صفحہ326۔

قٰالُوا تَرَفَّضْتَ قُلْتُ کَلّٰا

مَاالرَّفْضُ دِیْنی وَلَااعْتِقٰادِی

لٰکِنْ تَوَلَّیْتُ غَیْرَ شَکٍّ

خَیْرَ اِمامٍ وَ خَیْرَ ھٰادٍ

اِنَّ کٰانَ حُبُّ الْوَصِیِّ رَفْضاً

فَاِنَّنِی اَرْفَضُ الْعِبٰادِ

”مجھے کہتے ہیں کہ تو رافضی ہوگیا ہے۔ میں نے کہا کہ رافضی ہونا ہرگز میرا دین اور اعتقاد نہیں۔ لیکن بغیر کسی شک کے میں بہترین ہادی و امام کو دوست رکھتا ہوں۔ اگر وصیِ پیغمبر سے دوستی و محبت رکھنا رفض(رافضی ہونا) ہے تو میں انسانوں میں سب سے بڑا رافضی ہوں“۔

حوالہ جات

1۔ شیخ سلیمان قندوزی حنفی، ینابیع المودة،صفحہ330،اشاعت قم،طبع اوّل1371۔

2۔ شبلنجی، کتاب نورالابصار،صفحہ139،اشاعت 1290۔

یٰارٰاکِباً قِفْ بِالْمُحَصَّبِ مِنْ مِنیٰ

وَاھْتِفْ بِسٰاکِنِ خِیْفِھٰا وَالنّٰاھِضِ

سَحَراً اِذَافَاضَ الْحَجِیْجُ اِلٰی مِنیٰ

فَیْضاً کَمُلْتَطَمِ الْفُراتِ الْفٰائِضِ

اَنْ کٰانَ رَفْضاً حُبُّ آلِ مُحَمَّدٍ

فَلْیُشْھَدِ الثَّقَلاٰنِِ اِنِّیْ رٰافِضِیْ

”اے سواری! تو جو مکہ جارہی ہے،ریگستانِ منیٰ میں توقف کرنا،صبح کے وقت جب حاجی منیٰ کی طرف آرہے ہوں تو مسجد ِخیف کے رہنے والوں کو آواز دینا اور کہنا کہ اگر دوستیِ آلِ محمد رفض ہے تو جن و انس یہ شہادت دیتے ہیں کہ میں رافضی ہوں“۔

حوالہ جات 1۔ ابن حجر مکی،صواعق محرقہ،باب9،صفحہ97،اشاعت ِمصر۔

2۔ یاقوتِ حموی، کتاب معجم الادباء،جلد6،صفحہ387۔

3۔ فخر رازی، تفسیر کبیر میں،جلد7،صفحہ406۔
 

arifkarim

معطل
سائنس کو کسی معجزے کی ضرورت نہیں! وہ اپنی ذات میں خود ایک بہت بڑا معجزہ ہے جو حضرت انسان کو روزانہ ہر لمحہ نت نئے ’’معجزات‘‘ سے روشناس کرواتا ہے!
 
اب بات کرتے ہیں مولا علی(ع) کا قسیم النار والجنہ کے عقیدے کی۔ تو اہلِ سنت کے دو جلیل القدر آئمہ کا جب یہ عقیدہ تھا تو مجھ جیسا جاہل اگر یہ عقیدہ رکھتا ہے تو کوئی حیرت کی بات نہیں اگر وہ اس بات پر شرک کے مرتکب نہیں ہوتے تو پھر میرے اوپر اعتراض کیوں۔
امام احمد بن حنبل(ر) سے کسی نے سوال کیا کہ کچھ لوگوں کا اعتقاد ہے کہ حضرت علی جنت اور دوزخ کے تقسیم کرنے والے ہیں تو آپ نے فرمایا تو تجھ کو اس بات پر شک کیسا ہے۔ پھر آپ (ر)نے اس سے خود سوالات کئے کہ تو مانتا ہے کہ حضرت علی کے لئے آنحضرت(ص) نے فرمایا کہ اے علی تجھ سے کوئی دشمنی نہیں کرسکتا سوائے منافق کے اور کوئی محبت نہیں کرسکتا سوائے مومن کے اسنے کہا جی مجھ کو اس پر یقین ہے پھر آپ (ر)نے سوال کیا اچھا یہ بتا قیامت میں مومن کہاں جائیں گے اس نے کہا جنت میں پھر آپ (ر)نے پوچھا اور منافق کہاں جائیں گے اس نے کہا جہنم میں تو آپ (ر)نے کہا اب بھی کہتا ہے کہ حضرت علی معیار نہیں ہیں جنت اور دوزخ کی تقسیم کا؟۔
اب امام شافعی کے کچھ اشعار نقل کرتا ہوں جو میں نے کل ہی ایک ویب سائیٹ پر دیکھے تھے وہاں اہل سنت کے اشعار مولا علی(ع) کی شان میں بے انتہا ہیں میں صرف امام شافعی کے نقل کر رہا ہوں۔
آپ کے اوپر ارسال کردہ مراسلے سے متفق ہوں نہ اس مراسلے سے۔
اور یہ اہل سنت کے جلیل القدر ائمہ پر بہتان ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے۔ العیاذ باللہ
جب یہ روایت ہی باطل ہے تو اس پر اعتقاد کیسا۔ رہی بات امام احمد کی، تو انہوں نے کسی ناصبی کو چِت کرنے کیلئے صحیح احادیث سے اس کا منہ بند کردیا۔ یہ ہرگز ان کا عقیدہ نہ تھا۔ اسی طرح امام شافعی کے جو اشعار آپ نے نقل کیے ہیں ، اس کی صحت کی کوئی ضمانت نہیں (اور نقل بھی ایک شیعہ ویب سے کیے گئے ہیں)۔ جب نبی کریم علیہ السلام کے نام پر جھوٹی احادیث نقل کی گئیں تو امام شافعی کے متعلق اشعار بہت چھوٹی بات ہے۔
یہ ہرگز ان کا عقیدہ نہ تھا۔ میں اوپر نص قرآنی سے حوالے دے چکا ہوں۔
حیرت ہے کہ آقا کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی احادیث پر شکوک کا اظہار کرنے والے امام شافعی کے اشعار کو بے دھڑک مان گئے۔
میں اپنی بات آپ پر مسلط نہیں کرسکتا ۔
 

میر انیس

لائبریرین
آپ کے اوپر ارسال کردہ مراسلے سے متفق ہوں نہ اس مراسلے سے۔
اور یہ اہل سنت کے جلیل القدر ائمہ پر بہتان ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھتے تھے۔ العیاذ باللہ
جب یہ روایت ہی باطل ہے تو اس پر اعتقاد کیسا۔ رہی بات امام احمد کی، تو انہوں نے کسی ناصبی کو چِت کرنے کیلئے صحیح احادیث سے اس کا منہ بند کردیا۔ یہ ہرگز ان کا عقیدہ نہ تھا۔ اسی طرح امام شافعی کے جو اشعار آپ نے نقل کیے ہیں ، اس کی صحت کی کوئی ضمانت نہیں (اور نقل بھی ایک شیعہ ویب سے کیے گئے ہیں)۔ جب نبی کریم علیہ السلام کے نام پر جھوٹی احادیث نقل کی گئیں تو امام شافعی کے متعلق اشعار بہت چھوٹی بات ہے۔
یہ ہرگز ان کا عقیدہ نہ تھا۔ میں اوپر نص قرآنی سے حوالے دے چکا ہوں۔
حیرت ہے کہ آقا کریم علیہ الصلاۃ والتسلیم کی احادیث پر شکوک کا اظہار کرنے والے امام شافعی کے اشعار کو بے دھڑک مان گئے۔
میں اپنی بات آپ پر مسلط نہیں کرسکتا ۔

آپ نے صحیح کہا نا آپ اپنی بات مجھ پر مسلط کرسکتے ہیں نا میں آپ پر اپنی ۔ جسطرح آپ یہ کہ رہے ہیں کہ احادیث جھوٹی نقل کی گئی ہیں اسی طرح میں بھی یہی بات کہ رہا ہوں کہ بیشک ایسی بہت سی احادیث ہیں جو تخت پر بیٹھ جانے والے بادشاہوں کے ٹکڑے کھانے والوں نے انکی شان میں گھڑ دی ہیں دربار میں اپنے اثر رسوخ بڑھانے کیلئے۔ رہی بات امام حنبل کی ناصبی کو چِت کرنے کیلئے اپنے عقائد کے خلاف بات کرنے کی تو کیا کوئی امام کسی بھی بات کو ثابت کرنے کیلئے اپنے عقائد کے خلاف بھی بات کرسکتا ہے؟۔ اور کیا یہ ضروری ہے کہ جو احادیث یا روایت آپ کے نزدیک صحیح ہو اسکو ہی مان لیا جائے باقی ساری روایتیوں کی کوئی ضمانت نہیں ہے؟چاہے وہ آپ ہی کی کتابوں سے پیش کی گئی ہوں ۔ آپ نے شیعہ ویب سائیٹ کی بات کی تو بھائی اگر ایک شیعہ ویب سائیٹ پر اگر کوئی سنی حوالہ دیا جائے گا تو کیا وہ بھی باطل قرار پائے گا آپ کی نظر میں؟۔ بھائی یہ اشعار اہلِ سنت کی ہی کتابوں سے نقل کئے گئے ہیں۔
آپ نے ہم پر الزام لگایا کہ ہم آقا علیہ السلام کی احادیث پر شک کا اظہار کرتے ہیں تو بھائی یہ الزام تو اب آپ پر آرہا ہے جو حدیث میں نے پیش کی وہ آقا علیہ السلام کی ہی ہے پھر آپ اسکو کیوں نہیں مان رہے اسکا جواب میں دیدیتا ہوں کیوں کہ آپ کے عقیدے کے مطابق آپ کی عقل اس حدیث کو تسلیم نہیں کر رہی ۔ بالکل ایسا ہی ہمارے ساتھ ہوتا ہے جس حدیث کو ہماری عقل تسلیم نہیں کرتی وہ ہم نہیں مانتے ۔ آپ غور کریں تو معذرت کے ساتھ بلکہ بہت ہی زیادہ معذرت کے ساتھ کیا یہ آپ کا تعصب نہیں ہے کہ ہم جو حدیث پیش کرتے ہیں اس پر آپ شک کا اظہار کرتے ہیں لیکن پھر بھی محترم جبکہ اگر ہم کوئی حدیث ضعیف قرار دیں اپنے فقہ کے حساب سے تو آپ طعنہ دیتے ہیں۔لیکن آپ کو ایک بات آج میں بتادوں ہمارا یہ اصول ہے کہ چاہے کوئی بھی حدیث ہو ہماری ہی کسی بھی مستند سے مستند کتاب میں موجود ہو اگر وہ کسی قرانی آیت کی صریح خلاف ورزی کرتی ہے تو ہم اسکو دیوار پر ماردیتے ہیں کیوں کہ ہمارے نزدیک یہ قول اما م ہے کہ ہماری جو بھی حدیث تم تک پنہچے اور وہ تم کو قران کی کسی آیت کے خلاف لگے اسکو دیوار پر ماردو لیکن آپ کے ہاں ایسا نہیں ہے آپ کہ نزدیک حدیث کی چھ کتابیں بالکل صحیح ہیں اور بخاری شریف میں جو حدیث موجود ہے وہ اب ضعیف ہوہی نہیں سکتی ۔
اوپر اگر آپ نے نص ِقرانی پیش کی تو پیچھے میں بھی نہیں رہا میں نے بھی تو کئی آیات آپ کو یاد دلائیں۔ اور ابھی بھی اور بہت سی آیات ایسی ہیں جن میں آنحضرت (ص) کے اہلیبیت کی مدح سرائی موجود ہے اور انکی تصدیق کیلئے اہلِ سنت کے جید عالموں کے حوالے بھی موجود ہیں۔ لیکن ظاہر ہے آپ کیوں مانیں گے۔
 
Top