ترانۂ عشق: حضرت سلطان باھُوؒ

ہر منتہی آغازِ من
کس نیست محرم رازِ من
مگسی کجا شہبازِ من
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

ہر انتہا میری ابتدا ہے
میرے راز کا محرم کوئی نہیں
کہاں مکھی اور کہاں میرا شہباز؟
میں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

کونین واصل یک قدم
اللہ بس ما را چہ غم
ایں نفس را گردن زنم
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

کونین(دونوں جہان) میری طے کا ایک قدم ہیں
اللہ میرے لئے کافی ہے مجھے اور کچھ نہیں چاہیے
کہ میں اپنے نفس کی گردن اڑا چکا ہوں
میں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

زاہد کجا بس دور تر
از وصل عاشق بیخبر
ایں مدعی اندر دہر
در وحدتش پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

زاہد وصالِ حق سے بہت دُور ہے
وہ عاشق کے مراتبِ وصل سے بے خبر ہے
کہ اُس کی تگ و دو اسی جہان تک محدود ہے
اس کے برعکس میں وحدتِ حق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

ای عالما علمش بخر
این جاہلانِ گاؤخر
جز عشق حق دیگر مبر
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

اے عالم! اپنا علم
اِن جاہل بیل گدھوں کو سونپ دے
خود عشقِ حق کے سوا ہر چیز سے دست بردار ہوجا
میں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں

باھُو بہ یاھُو یار شد
چوں بختِ من بیدار شد
با ہم نشین دلدار شُد
در عشق اُو پروانہ ام
از جانِ خود بیگانہ ام

اے باھو! میں یا ھُو ( ذاتِ حق تعالیٰ ) کا یار بن گیا ہوں
میرا بخت جاگا تو مجھے دلدار کی ہم نشینی نصیب ہوگئی
میں اُس کے عشق کا پروانہ ہوں
اپنی جان سے بیگانہ ہوں
حضرت سلطان باھُوؒ
 
Top