مصطفیٰ زیدی تراشیدم

گُلِ یاسمیں

لائبریرین
تراشیدم
ایک قندیل جلائی تھی مری قسمت نے
جگمگاتے ہوئے سورج سے درخشاں قندیل
پہلے یوں اس نے مرے دل میں قدم رکھا تھا
ریت میں جیسے کہیں دور چمکتی ہوئی جھیل
پھر یہی جھیل امڈ آئی سمندر بن کر
ایک پیمانے میں ہونے لگی دنیا تحلیل
اک فقط میں ہی نہ تھا کُشتہء احساس ِشکست
اور بھی لوگ تھےداماندہ ومجروح و قتیل

اس نے ماحول کو قدموں کے تلے روند دیا
اور ماحول نے اس کے لیے ایوان سجائے
اس کی ٹھوکر میں تھا قانون کا سازِ کُہنہ
ساز نے اس کی حمایت کے لیے راگ بنائے
اس کے ماتھے کی ہر اک لہر تھی طوفان بدوش
ہر سفینے نے بڑے عجز سے مستول جھکائے
آگ میں کود پڑا اس کا جیالا ادراک
آگ نے اس کی زیارت کے لئے پھول بچھائے

اس کی باتوں کا ہر انداز حریفانہ تھا
جس سے بچنے کی نہ قوت تھی نہ لڑنے کی سبیل
یہ فقط میرا کلیجہ تھا کہ میں نے بڑھ کر
سب سے پہلے اسے بخشی غمِ دل کی تاویل
اس کی آنکھوں کو ستاروں کے حسیں خواب دیے
اس کے چہرے کو عطا کی سحر دجلہ و نیل
آگ خود بن گئی گلزار تو کیا ہوتا ہے
کون پتھر کو بدل سکتا ہے ۔۔۔ آذر کہ خلیل؟​
 
Top