تذکرۃ الخواتین کی پروف خوانی

تذکرۃ الخواتین ہندوستان کی خواتین شعراء کا تذکرہ ہے، اس تذکرے میں میں کئی گمنام شاعرات کے حالات اور ان کے کلام کا نمونہ دیا گیا ہے۔ اس کتاب کو محفل کے رکن اوشو نے اپنے ساتھیوں کے ساتھ ٹائپ کیا ہے۔

کتاب ریختہ ربط
تذکرۃ الخواتین ریختہ لنک

گوگل ڈاکس ربط
تذکرۃ الخواتین پروف اول (گوگل ڈاکس)

گوگل ڈاکس میں ریختہ اور کتاب دونوں کے صفحات دیے گئے ہیں پروف صفحات کی تقسیم ریختہ صفحات کے مطابق ہو گی۔
 
پروف صفحات تقسیم

محب علوی۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔2-20
شمشاد۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔21-50
عینی۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔51-70
محمد عمر ۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔71-90
سید عاطف علی ۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔91-110
سیما علی ۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔111-120

مومن فرحین۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔121-135
محمل ابراہیم ۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔136-145
امید ۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔146-160
فرحت کیانی ۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔161-170
 
آخری تدوین:

شمشاد

لائبریرین
گوگل ڈاکس پر رسائی نہیں ہو رہی۔ ریکویسٹ سینٹ پر بھی یہ پیغام آ رہا ہے۔

Request Sent
You'll get an email letting you know if your request was approved.
 

شمشاد

لائبریرین
ریختہ صفحہ 21 کتاب 19

میں زندہ تھی ایک شعر ملا ہے خوب بلکہ بہت خوب کہا ہے ۔
بستی ضرور چاہیے اسباب ظاہری
دنیا کے لوگ دیکھنے والے ہوا کے ہیں
بسم اللہ تخلص تھا ، نام بسم اللہ بیگم ۔ دہلی کی رہنے والی تھیں ان کی والدہ ولایت زا تھیں مگر یہ دلی میں پیدا ہوئیں ابتدائے سن شعور سے شعر گوئی کا شوق تھا اور منشی انعام اللہ خان یقین شاگرد مرزا جان جاناں مظہر کی شاگرد تھیں منشی انعام اللہ خان یقین حضرت مجدد الف ثانی رحمتہ اللہ علیہ کی اولاد میں تھے اسلاف سرہند کے رہنے والے تھے مگر ان کا مولد و مسکن دہلی ہی تھا ۔ احمد شاہ بادشاہ کے عہد میں ان پر زنا کی تہمت لگائی گئی اور اپنے والد ماجد کے ہاتھ سے بیگناہ قتل ہوکر شہید ہوئے ۔ ان کی طبعیت میں حد درجہ کا سوز و گداز تھا ۔ کلام میں درد و اثر اسقدر تھا کہ دیکھنے والا اب بھی آہ کرنے پر مجبور ہوجاتا ہے ۔ صاحب دیوان تھے ۔ اب دیوان نایاب ہے لہذا ہم مناسب موقع سمجھ کر یقین مرحوم کا بھی تھوڑا سا کلام یہاں درج کرینگے ۔ پہلے بسم اللہ کے کلام سے بسم اللہ کرتے ہیں ۔
تری الفت میں یہ حاصل ہوا ہے
گہے مضطر ہے دل گاہے طپاں ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ریختہ صفحہ 22 کتاب 20
نہ کیجئے ناز حسن عارضی پر
نہ سمجھو یہ بہار بیخزاں ہے
اب دو شعر انعام اللہ خان یقین کے سنئے
اتنا کوئی جہاں میں کبھو بیوفا نہ تھا
ملتے ہی تیرے مجھ سے یہ دل آشنا نہ تھا
جو کچھ کہیں ہیں تجھ کو یقین ہے سزا تری
بندہ جو تو بتوں کا ہوا کیا خدا نہ تھا

ولہ
سریر سلطنت سے آستان یار بہتر تھا
ہمیں ظل ہما سے سایہ دیوار بہتر تھا
ولہ
کعبہ بھی ہم گئے نہ گیا پر بتوں کا عشق
اس درد کی خدا کے بھی گھر میں دوا نہیں

بنو { ط } دلی کی ایک پردہ نشین عفت فروش تھی حسن ظاہری سے نہایت ہی آراستہ تھی ۔ گلاب سنگھ کھتری متخلص بہ آشفتہ دہلوی جو خود بھی ایک حسین طرحدار جوان تھے اس پر فریفتہ تھے ۔ مگر یہ ظالم قتالہ عالم کبھی ادھر ملتفت نہ ہوتی تھی ۔ اور بعض تذکرہ نویس کہتے ہیں کہ بنو بھی آشفتہ پر شیفتہ تھی ۔ کچھ دن وصل و وصال میں بسر ہوئے ۔ مگر آخر کار فلک تفرقہ انداز رنگ لایا ۔ عاشق و معشوق کو جدا کردیا ۔ آشفتہ کی طرف سے اگرچہ وصل اور صفائی کی سینکڑوں تدبیریں کی گئیں مگر


ریختہ صفحہ 23 کتاب 21
سب بے سود اور بے کار ثابت ہوئیں آخر کار ایک خنجر آبدار سے اپنا کام تمام کر لیا۔ اور خون کی سرخ چادر اوڑھ کر ہمیشہ کے لئے محو خوابِ عدم ہو گئے۔ مگر عشق صادق کا جذب کامل آخر کار رنگ لایا۔ اور بنّو بھی اس واقعہ سے آشفتہ رہنے لگی۔ ہر وقت کے رنج فراق اور سوز جگر نے رفتہ رفتہ حرارت قائم کر دی۔ تپ لازم ہو گئی اور رفتہ رفتہ دِق پر نوبت پہنچی اسی میں کام تمام ہو گیا۔ 1256 ھ یا 57 ھ میں یہ سانحۂ جانگداز پیش آیا۔ شاہ عالم اکبر ثانی کے عہد میں بنّو اور آشفتہ دونوں زندہ تھے۔ محققین کی رائے ہے کہ بنّو کو صرف آشفتہ کے فیض صحبت نے شاعر بنا دیا تھا۔ بہر حال بنّو کے چند شعر سن لیجئے اور اندازہ کیجئے کہ عشق صادق کس طرح پتھر کو موم بنا دیتا ہے۔ یہ وہ شعر ہیں جو آشفتہ کے مرثیہ میں بطریق نوحہ خوانی بنّو نے کہے تھے۔

چھوڑ کر مجھ کو کہاں او بت گمراہ چلا
تو چلا کیا کہ یہ دل بھی ترے ہمراہ چلا
چھٹ گیا غم سے مرا کشتۂ ابرد مر کر
اک چھری میرے گلے پر بھی مری آہ چلا

ولہ

ریختہ صفحہ 24 کتاب 22
موت آتی ہے نہ ہے زیست کا یارا مجھ کو
ہاے آشفتہ ترے مرنے نے مارا مجھ کو
موت پر بس نہیں چلتا ہے کروں کیا ورنہ
تو نہیں ہے تو نہیں زیست گوارا مجھ کو
اب کسے چین کہاں عیش کدھر بستر خواب
نہیں مخمل بھی کم از بستر خارا مجھ کو
ہے غضب وہ تو مرے اور جیوں میں بنّو
موت آ جائے تو ہو عمر دوبارا مجھ کو

ولہ
نعش آشفتہ کو بے رحموں نے پھونکا آگ سے
آتش غم ہی جوانا مرگ کی کچھ کم نہ تھی

بعض تذکرہ نویسوں نے لکھا ہے کہ جیسے ہی بنّو نے مقتول آشفتہ کی جان دہی کا حال سنا دیوانوں کی طرح بے سروپا ہو کر آشفتہ کا یہ شعر پڑھتی ہوئی آشفتہ کے دیکھنے کے لئے بھاگی۔

بچتا نہیں ہے کوئی بھی بیمار عشق کا
یا رب نہ ہو کسی کو یہ آزار عشق کا

ریختہ صفحہ 25 کتاب 23
مگر گھر کے لوگوں نے دیوانہ سمجھ کر جانے نہ دیا۔ پھر بھی بنّو پر یہ اثر پڑا کہ اسی دن ممنوعات و منہیات سے توبہ کر کے بیٹھ گئی اور چھ مہینہ کے عرصے کے بعد ہمیشہ کے لئے آشفتہ کی روح کو وصال دائمی سے مسرور کر دیا۔

بہو
معروف بہ بہو بیگم صاحبہ مرحومہ مغفورہ محل خاص یوسف علی خاں صاحب بہادر مرحوم و مغفور سابق والی رامپور متخلص بہ ناظم نہایت خوب فرماتی تھیں۔ یہ دو شعر تذکرۂ چمن انداز سے نقل کیے جاتے ہیں۔ جو خوب صورت قطعہ ہیں۔

شب بزم ملاقات میں ہر چند یہ چاہا
آنکھیں تو لڑاؤں ذرا اس رشک قمر سے
پر خوف مرے دل میں یہی آیا کہ ہے ہے
نازک ہے نہ دب جائے کہیں تارِ نظر سے

بیگم
میر تقی میر کی دختر نیک اختر کا تخلص ہے جو شادی کے چند ہی روز بعد دنیا سے رخصت ہوئیں اور جن کی جوانا مرگی پر میرے ایسے مستغنی المزاج شاعر کو خون کے آنسو بہا کر یہ شعر کہنا پڑا۔

اب آیا دھیان اے آرام جاں اس نا مرادی میں
کفن دینا تمھیں بھولے تھے ہم اسباب شادی میں
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 26 کتاب 24

بعض لوگ اس واقعہ کی طرف اس شعر کو بھی منسوب کرتے ہیں۔ اور یہ شعر بھی میر صاحب کے دیوان میں موجود ہے۔

دریں حدیقہ بہار و خزاں ہم آغوش است
زمانہ جام بدست و جنازہ بردوش است

مگر مجھے یاد ہے کہ میں نے یہ شعر کسی ایرانی شاعر کے یہاں دیکھا ہے۔ حافظہ یاری نہیں کرتا کہ لکھوں معلوم نہیں کہ میری تحقیقات اور معلومات صحیح ہے یا عقیدت مندوں نے میر صاحب کے لئے اس شعر کو طغرائے امتیاز بنایا ہے۔ بہر حال مرحومہ کے شعر یہ ہیں۔ ایک تذکرہ میں لکھا ہے کہ یہ صاحب دیوان تھیں۔ مگر افسوس کہ اب صرف یہ تین شعر ملتے ہیں۔

برسوں خم گیسو میں گرفتار تو رکھا
اب کہتے ہو کیا تم نے مجھے مار تو رکھا
کچھ بے ادبی اور شبِ وصل نہیں کی
ہاں یار کے رخسار پہ رخسار تو رکھا
اتنا بھی غنیمت ہے تری طرف سے ظالم
کھڑکی نہ رکھی روزنِ دیوار تو رکھا

بیگم۔
تارا بیگم نام تھا اور یہ نمونۂ کلام تھا اور کچھ حال معلوم نہیں۔
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 27 کتاب 25

کیوں وصل میں چھپاتا ہے تو ہم سے یار پیٹ
رکھتا ہے سو بہار کی اک یہ بہار پیٹ

بیگم۔
یہ ایک پنجابن باکمال رقاصہ کا تخلص ہے جو اپنے ہنر اور اپنے حسن و صورت و سیرت سے اودھ کے عیاش مزاج نیک دل سلطان واجد علی شاہ مرحوم کے محل تک پہنچی اور ان کی ممتوعہ ہو کر رشک محل کا خطاب پایا۔ لکھنئو اور کلکتہ دونوں جگہ بادشاہ کے ساتھ رہی مرتے مرتے حق رفاقت ادا کیا۔ شاعری سے ذوق خاص تھا اور لطف یہ کہ وہ اپنی اصلی بول چال میں شاعری کرتی تھی یعنی اول اول ریختی گوئی کا شوق تھا۔ بعد کو نہ معلوم کیوں اس شاعری کو چھوڑ کر مردانہ شاعری کی طرف مائل ہوئیں۔ یہ شعر مصنف تذکرۃ الشاعارت کے پاس بھیجے تھے اور اب تک اس تذکرہ میں درج ہیں۔

ہے منظور باجی ستانا تمھارا
گلا کرتی ہے جو دُگانا تمھارا
نہ بھیجوں گی سسرال میں تم کو خانم
نہیں مجھ کو دو بھر ہے کھانا تمھارا
مری کنگھی چوٹی کی لیتی خبر ہو
یہ احساں ہے سر پر دُگانا تمھارا
----------------------------------------------------------------------


ریختہ صفحہ 28 کتاب 26
ہوا بال بیکا جو مرزا ہمارا
تو پھر سنگ ہے اور شادا تمہارا
گھر سہ گا نہ کے دوگانا مری مہمان گئی
میں یہ انگاروں پہ لوٹی کہ مری جان گئی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بائے فارسی
پارسا – تخلص ہے نواب میرزا محمد تقی خاں ہوس کی دختر نیک اختر کا ۔ جو اپنے وقت کے نہایت ہی مشہور و معروف شاعر تھے ۔ بعض تذکرہ والے لکھتے ہیں کہ یہ نواب آصف الدولہ کے عزیز قریب تھے اور رمزہ مصاحبین میں ایک ممتاز درجہ رکھتے تھے ۔ صاحب دیوان تھے ۔ مثنوی لیلی مجنون کے مصنف ہیں جو مطبع منشی نو لکشور لکھنو میں شائع ہوچکی ہے ۔ بعض غلط نویسوں نے لکھ دیا ہے کہ ان کا کوئی شعر لیلی مجنوں کے واقعات سے خالی نہیں ہوتا ۔ مگر یہ سراسر غلط ہے ۔ ان کے سینکڑوں شعران دونوں ناموں سے خالی ہیں ۔ مگر ہاں بحر متقارب اور متدارک میں ان کا کلام بیشتر ہے
چمن انداز کا مصنف ایک عجیب و غریب روایت بیان کرتا ہے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ریختہ صفحہ 29 کتاب 27
کہ پارسا کی شادی عمر بھر اس خیال سے نہیں کی گئی تھی کہ ان کے والد یعنی میر تقی ہوس اس بات کو عار سمجھتے تھے کہ کوئی داماد آئے ۔ نمونہ کلام
تن صورتِ حباب بنا اور بگڑ گیا
یہ قصر لاجواب بنا اور بگڑ گیا
چلتا نہیں ہے ابلق ایام ایک چال
اکثر یہ بدر کاب بنا اور بگڑ گیا
پٹہ باز – کہا جاتا ہے کہ غدر سے پہلے یہ ناظورہ عصمت فروش سہارن پور میں موجود تھی ۔ اور خوبیون میں اس کی شاعری نے اضافہ کردیا تھا۔
کرتیاں جالی کی پہنے ہیں جوانان حسین
حسن کی فوج میں دیکھے یہ زرہ پوش نئے
پرویں – عزیزہ عابدہ خانم نام ہے ۔ اکثر گلدستوں میں نظمیں وغیرہ شائع ہوتی رہتی ہیں ۔ نظموں کو دیکھنے سے پتہ چلتا ہے کہ نہایت اچھا شعر کہہ سکتی ہیں ۔ 1927ء جب کہ میں تذکرہ میں آپ کا ذکر کررہا ہوں اس وقت تک اپنی سخن سنجی سے سامعہ نوازی کا اہل ذوق کو موقع دیتی ہیں ۔ زمانہ حال کی خوش گو شاعرہ ہیں ۔ تفصیل کے ساتھ حال معلوم نہ ہوسکا ۔ چند رباعیاں جو سرما کے متعلق ہیں لکھتا ہوں ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔


ریختہ صفحہ 30 کتاب 28

ورود سرما

رباعی

برسات گئی تو فصل سرما آئی
با دامنِ تر نسیم دریا آئی
اللہ ری سرد مہری وادی نجد
بردِ یمنی میں چھپ کے لیلٰی آئی

باغوں میں وہ لطف سیر کا بھی نہ رہا
برفاب کا ذوق جانفزا بھی نہ رہا
سردی نے نشاط صبح پانی کر دی
جمنا پہ نہانے کا مزا بھی نہ رہا

گرما میں وہ سرگرمی احباب کہاں
وہ جلوۂ بحر و موج و سیماب کہاں
آسودگیٔ لحاف رنگیں معلوم
نظارۂ تاج و شب مہتاب کہاں

دل سرد ہے جا بادۂ عنابی لا
سونے کے لئے حسین مہتابی لا
دس بجنے کو آئے نیند کا نام نہیں
اے اوّل شب لباس شب خوابی لا

اب غزل کے چند اشعار درج کرتا ہوں جو میرے اندازہ میں
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 31 کتاب 29

حد مشق شاعری کا پتہ دیتے ہیں۔

خبر میری نہ لی برباد کر کے فتنہ گر تو نے
میں تکتی رہ گئی اور پھیر لی اپنی نظر تو نے
پتا ہے اے صبا میرا نہ گلشن میں نہ مدفن میں
نہ جانے میری مٹی پھینک دی ظالم کدھر تو نے
سزا ملتی ہے لیکن بے وفا ایسی نہیں ملتی
ذرا سے جرم الفت پر ستایا عمر بھر تو نے
فریبِ کامیابی اے دلِ مضطر مبارک ہو
اک امید اثر پر آہ کھینچی رات بھر تو نے
تجھے تو صبحِ محشر کی گرانجانی سے لرزہ ہے
ابھی میری مصیبت کی کہاں دیکھی سحر تو نے
ابھی اک تیر سا سینہ میں آ کر کر گیا زخمی
کیا تھا کیا خدا معلوم سینہ تان کر تو نے
لطائف رہگذار برج کے کچھ تو سنا پرویںؔ
علی گڑھ سے کیا ہے خوب متھرا کا سفر تو نے
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 32 کتاب 30

غالباً نومبر 24 ء کے رسالۂ پیمانہ میں ساغر صاحب ایڈیٹر پیمانہ نے اپنی ایک تصویر (ساغر عالم رنگ و بوم) کے عنوان سے شائع کی تھی جس کو دیکھ کر پروین نے یہ نظم کہی۔ نظم نقل کرنے سے پہلے مجھے یہ لکھنا ضروری معلوم ہوتا ہے کہ آج کل ملک کے موقر رسالے جو خواتین ہند کی عریاں نویسی کے عنوان سے متواتر مضامین لکھ رہے ہیں۔ ان کی بانی ایسی ہی نظمیں ہو سکتی ہیں جو بلا شک صنف نازک کے لئے مخرب اخلاق کہی جا سکتی ہیں۔

پہلا رخ

یہ وقار یہ متانت یہ ترا کم صباحت
یہ جبین صبح طلعت یہ تلاطم لیاقت
یہ حسین وضع و تمکین یہ نظر کی دل فریبی
یہ تناسب مؤثر یہ فسون جامہ زیبی
لب رنگ آفریں میں یہ چھپا ہوا تبسم
یہ دہان غنچہ پیرا یہ تراوش تکلم

دوسرا رخ

یہ لگاوتیں یہ شوخی یہ ادائے بے حجابی
کسی کنج گل میں جیسے ہو پڑا کوئی شرابی
یہ غدار بوس کاکل یہ نمایش پریشاں
کہ شراب جیسے اڑ کر بنے آتش گلستاں
------------------------------------------------------------------


ریختہ صفحہ 33 کتاب 31

یہ کھلا ہوا گریباں یہ نمود جوشِ مستی
یہ خمار ریز آنکھیں یہ شباب مے پرستی
تری مستیاں وہ سمجھے جو خراب رنگ و بو ہو
ارے او جوان ساغر یہ جہاں ہو اور تو ہو

پری (ط) ۔
بی سیرہ نام عرف بی میجو۔ کلکتہ کی ایک یہودن تھی۔ خوش صورت۔ خوش سیرت تھی۔ انگریزی بھی جانتی تھی۔ اردو فارسی میں بھی مہارت رکھتی تھی۔ تھوڑی بہت عربی سے بھی باخبر تھی۔ کبھی کبھی اردو میں فکر شعر کرتی 1299 ھ میں زندہ موجود تھی۔
نمونۂ کلام یہ ہے۔

سن کے میرا غصۂ و غم ہنس کے کہتا ہے وہ شوخ
ہم نہ سمجھے کچھ کہ اس قصہ کا حاصل کیا ہوا
اب کسی کے پاؤں میں ایسے کڑے پڑتے نہیں
بعد میرے ناز و اندازِ سلاسل کیا ہوا
ہم ہیں اور آپ ہیں خلوت میں کوئی غیر نہیں
کیا عجب چین سے ہو جائے بس وصل کی رات

پری (ط) ۔
بچن جان نام اکبر آباد کی ایک شاہد بازاری کا تخلص تھا۔منشی فدا حسین امیر (جن کا کہیں تذکروں میں پتا نہیں چلا)
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 34 کتاب 32

کی شاگرد تھیں۔ انھیں سے مشق سخن کرتی تھیں اور اردو میں اکثر فکر شعر کرتی تھیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔

گیسو پُر پیچ جاناں کے حضور
پیچ کی لیتا ہے تو سنبل عبث
سلسلہ زنجیر کا اچھا نہیں
ہے خیال گیسو و سنبل عبث

پکھراج (ط) ۔
پکھراج بیگم نام تھا۔ اکبر آباد مولد اور اٹاوہ مسکن تھا۔ اردو میں شعر کہتی تھیں۔ شعروں سے پتہ چلتا ہے کہ بہت عمدہ طبیعت پائی تھی۔ آمد کا کلام میں خاص خیال رکھتی تھیں۔

ہمیں ہر طرح ٹھہرتے ہیں خطاوار ان کے
جب بگڑتی ہے کوئی بات بنا دیتے ہیں
خواب میں سیر کیا کرتی ہیں آنکھیں ان کی
جب وہ سوتے ہیں تو جادو کو جگا دیتے ہیں

ولہ

ساتھ لے جاتے غم یار نہ کیونکر پس مرگ
ایسے بیزاد سفر قصدِ سفر کیا کرتے
بار اٹھ سکتا نہیں موئے کمر کا ان سے
پھر وہ شمشیر گراں زیب کمر کیا کرتے
یہ ملاحت رخ دل کش کی کہاں سے لاتے
ہمسری تجھ سے بھلا شمس و قمر کیا کرتے
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 35 کتاب 33

ساتھ ہم لے گئے سرمایہ عدم کو اپنا
درد دل دیتے کسے سوز جگر کیا کرتے

جدا نہ غم سے رہا زیر آسماں کوئی
بچا نہ ہاتھ سے اس پیر کے جواں کوئی

دنیا میں مثل خواب ہماری حیات ہے
کیونکر خیال یار نہ پیش نظر رہے
تاریکی عمل سے کیا گور میں مقام
منزل میں شب ہوئی تو سرا میں اتر رہے
پکھراجؔ بعد مرگ بھی غم ساتھ لے چلو
بہتر ہے پاس اپنے جو زادِ سفر رہے

پنہاں ۔
تخلص ہے سپہر آرا خاتون نام ہے۔ رابعہ خطاب ہے۔ آپ بریلی کے ایک معزز خاندان سے ہیں۔ مولوی عبدالاحد خاں صاحب جو الہ آباد کے سر رشتہ تعلیم سے تعلق رکھتے تھے اور جن کی ادبی خدمات ہر طرح قابل توجہ ہیں۔ ان کی صاحبزادی ہیں۔ زمانۂ موجودہ کی بہترین شاعرہ ہیں۔ نظم و نثر میں کافی مہارت رکھتی ہیں۔ بلکہ نظم و نثر کے علاوہ آپ زبان فارسی میں بھی نہایت اچھے شعر کہتی ہیں۔ زنانہ رسالوں کے علاوہ بھی کوئی ادبی رسالہ آپ کے فیض سخن سے محروم نہیں ہے۔ میں جملہ اقسام کلام کا کچھ نمونہ پیش کرتا ہوں۔ غزل کا نمونہ
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 36 کتاب 34

سینہ ہے ایک یاس کا صحرا لیے ہوئے
دل رنگ گلستان تمنا لیے ہوئے
ہے آہ درد و سوز کی دنیا لیے ہوئے
طوفان اشک خون ہے گریا لیے ہوئے
اک کشتۂ فراق کی تربت پہ نوحہ گر
داغ جگر میں شمع تمنا لیے ہوئے
جانا سنبھل کے اے دل بے تاب بزم میں
ہے چشم یار محشر غمزہ لیے ہوئے
سوزاں نہ یہ چمن ہو مرے نور آہ سے
او گلشن جمال کا جلوہ لیے ہوئے
مجنوں سے تو حقیقت صحرائے نجد پوچھ
ہے ذرہ ذرہ جلوۂ لیلٰی لیے ہوئے
عشق جنوں نواز چلا بزم ناز میں
اک اضطراب و شوق کی دنیا لیے ہوئے
میری تو ہر نگاہ ہے وقف عبودیت
وہ ہر ادا میں حسن کلیسا لیے ہوئے
مرہم سے بے نیاز ہے پنہاںؔ یہ زخمِ دل
کیا کیا فسوں ہے چشمِ دل آرا لیے ہوئے

ایک نظم کے دو چار شعر لکھتا ہوں جو انھوں نے اپنے والد جناب مولوی عبدالاحد خاں صاحب مروحوم کے انتقال کے صدمہ سے متاثر ہو کر لکھی ہے۔ میرا ارادہ تھا کہ تمام و کمال نظم لکھ دوں مگر چونکہ بہت طویل ہے اس لئے دو چار شعر منتخب کر کے لکھتا ہوں۔
----------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 37 کتاب 35

آہ وہ ایام عشرت ہاے وہ لیل و نہار
واپس آ سکتے نہیں اس زندگی میں زینہار
نالے آتش ریز آہیں خون میں ڈوبی ہوئی
آنکھ غم آگیں نگاہیں خون میں ڈوبی ہوئی
سوزشِ پنہاں سے پڑتے ہیں زباں میں آبلے
ہونٹ تھر تھر کانپتے ہیں گفتگو کرتے ہوئے
کیا خبر تھی اس طرح لٹ جائے گا یہ کارواں
کیا خبر تھی در پۓ آزار ہو گا آسماں
اے اجل کیوں تو نے لوٹے میرے اسباب نشاط
ابر غم سے ہو گیا بے نور مہتاب نشاط
آ نہیں سکتا پھر اب وہ وقت اے پنہاں کبھی
صبح دم بستر سے اٹھتی ہوں با صد خرمی
پڑھ رہے ہیں تخت پر وہ میرے ابا جاں نماز
اور جبین نور افشاں سے ٹپکتا ہے نیاز
چھاؤں میں تاروں کی بے فکری سے ہیں لیٹے ہوئے
گرد سب بچے ہیں ان کے شادماں بیٹھے ہوئے
ہائے ابا جان اک دم اس طرح پھیری نگاہ
اس جہاں میں اف ہمیں چھوڑا تڑپتا آہ آہ
رابعہ صدقے گئی یہ بند آنکھیں کھولئے
آہ ان معجز نما ہونٹوں سے کچھ تو بولئے
ہائے سینہ سے لگا لیجیے ہمیں پھر ایک بار
ہو رہے ہیں دیکھئے ہم لوگ کتنے بے قرار
اے اجل تجھ کو مبارک ہوں یہ ظلم آرائیاں
لوٹ لے دل کھول کر ظالم یہ گلزار جہاں
ہے مزین اپنی ہستی سے ترے دریاے ظلم
ہے ہمارے خون سے لبریز یہ میناے ظلم
میری بربادی میں مضمر ترا راز زندگی
سوز ہے مظلوم کا ظالم کا ساز زندگی
آہ ہو جاے شکستہ کاش یہ تار نفس
ہو کہیں آزاد یہ مرغ گرفتار قفس
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 38 کتاب 36

کر دے اے باد اجل گل اب میری شمع حیات
میری روزِ زندگی کی کاش اب ہو جاے رات

ایک فارسی غزل کے اشعار بھی ملاحظہ فرمائیے۔ خسرو کی نکالی ہوئی زمین پر آپ نے بھی نہایت عمدہ طریقہ سے طبع آزمائی کی ہے۔

جمالش زینت دل بود شب جائیکہ من بودم
بہ چشمم دہر باطل بود شب جائیکہ من بودم
زفیض جنبش ابروے آں شوخ کماں سازی
دل من نیم بسمل بود شب جائیکہ من بودم
نگاہم بر تجّلائے رخ آئینہ رخسارے
سرم بر پائے قاتل بود شب جائیکہ من بودم
بپرس از رہرو کامل طریق عشق و الفت را
سر تلوار منزل بود شب جائیکہ من بودم
خودش را من ندا نستم چہ دانم صد دراصونی
گل صد برگ محفل بود شب جائیکہ من بودم
دلم پرداخت با بادِ جمال دوست و او با من
وجود غیر باطل بود شب جائیکہ من بودم
چساں دل محو میساز و زیادم کیف دو شنبہ
دلم نخچیر قاتل بود شب جائیکہ من بودم
زفیض نرگس مستان ساقی شد بپا محشر
جہان بیخبر دل بود شب جائیکہ من بودم
خط رنگیں کہ بر پیشانی بسمل کشیدہ تیغ
نشان عشق کامل بود شب جائیکہ من بودم
خم زلف نگارے کرد پنہاںؔ طرفہ اعجازے
خیالم در سلاسل بود شب جائیکہ من بودم

پیاری ۔ تخلص (ط) ۔
پیاری جان نام تھا۔ وادہواں رنگ محل متعلقہ گجرات کی رہنے والی تھیں۔ شاہد بازاری اور بازار کی زینت افزا تھیں۔
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 39 کتاب 37

1299 ھ میں غالباً زندہ تھیں۔ ایک شعر تذکرۂ شمیم سخن میں ملا ہے۔ جو درج تذکرہ ہے۔

کچھ نہ پوچھو اشتیاق وقت نزع
دو قدم جاتی ہے پھر آتی ہے روح

تائے قرشت

تسلّی ۔
تخلص۔ مناجان نام۔ کرنال کی ایک پردہ نشین عصمت فروش تھی۔ اسی برس کے قریب انتقال کو زمانہ گزر چکا ہے مگر یہ شعر اب تک یادگار ہے۔

اے تسلی ترا دل چھین لیا ہے کس نے
ہاتھ سینے پہ دھرے گور میں کیوں جاتی ہے

تصویر ۔
گلستان بنخیراں میں بغیر نام و بغیر نشان وغیرہ کے صرف دو شعر لکھے ہیں۔ انداز کلام سے معلوم ہوتا ہے کہ دہلی یا اطراف و نواح دہلی کی رہنے والی تھی۔ اور کم از کم میر و مصحفی کا زمانہ پایا۔

چل ہوا کھا نہ صبا اس دل دلگیر کو چھیڑ
کیا مزہ پائے گی تو غنچۂ تصویر کو چھیڑ
محب اب تلک رکھتی ہے یہ تاثیر مجنوں کی
کہ بن لیلٰی نہیں کھنچتی کہیں تصویر مجنوں کی

مصنف تذکرۂ چمن انداز نے اپناقیاس بیان کیا ہے کہ شاید یہ شاعرہ مصنف
--------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 40 کتاب 38

گلستان بینخزاں کی شاگرد ہو مگر یہ قرین قیاس نہیں ہے۔ اس لیے کہ کتاب مذکورۂ بالا گلشن بیخار کے جواب میں لکھی گئی تھی اور غرض اس کی تدوین و ترتیب سے اس کے سوا اور کچھ نہیں کہ نواب مصفطے خاں شیفتہ نے جو گلشن بیخار میں نظیر اکبر آبادی کو ایک عامیانہ بازاری شاعر بتایا ہے اسی وجہ سے گلستان بیخزاں میں مشاہیر دہلی مثل غالب و مومن پر اعتراض

کئے گئے ہیں۔ اگر یہ شاعرہ مصنف گلستان بیخزاں کی شاگرد ہوتی تو غالباً ازراہ تفاخر یہ اس کا ذکر کر دیتے۔

تائے ہندی

ٹھٹولی ۔
صرف تخلص اور ایک شعر جو درج تذکرہ کیا جاتا ہے دوسرے تذکروں میں ملتا ہے اور نہ نام کا پتا ہے نہ مسکن کا نہ حالات کا نہ خیالات کا۔

ٹھٹول باز کہتے تھا یہ کل ٹھٹولی سے
کہ مان میرا کہا آ اتر کے ڈولی سے

ثاے مثلثہ

ثریا ۔
تخلص ۔ نبڑی بیگم ۔ مرزا علی خاں وظیفہ خوار شاہ دہلی کی
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 41 کتاب 39

اہلیہ کا تھا۔ غدر 1857 ء میں بیوہ ہو کر اپنے کسی عزیز کے پاس اکبر آباد چلی گئی تھیں۔ اور وہیں عمر بھر رہیں۔ اس ہنگامہ اور اپنی بیوگی کی وجہ سے دل کچھ ایسا متاثر ہو گیا تھا کہ شعر و شاعری کو بھی خیر باد کہہ دیا اور بقول میر حسن

گیا جب کہ اپنا ہی جیورا نکل
کہاں کی رباعی کہاں کی غزل

سب باتیں چھوڑ کر ایک فقیرانہ وضع میں زندگی گزارتی تھیں۔ نمونہ کلام یہ ہے۔

بتا دیں ہم تمھارے کاکل شبگوں کو کیا سمجھے
سیہ بختی ہم اپنی یا اسے کالی بلا سمجھیں
جدھر دیکھا اٹھا کر نیم بسمل کر دیا اس کو
تری مژگاں کو ہم سو فار پیکان قضا سمجھے

ثنا ۔
آگرہ کی ایک خوش کلام شاعرہ طبقۂ شرفاء سے تھیں۔ ایک شعر یاد گار ہے۔

زاہدا توبہ کی جلدی کیا ہے
یہ بھی کر لیں گے جو فرصت ہو گی
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 42 کتاب 40

جیم تازی

جان تخلص (ط) ۔
اور صاحب جان نام تھا۔ فرخ آباد کی رہنے والی تھیں۔ حسین صاحب جمال تھیں۔ مگر حسن صرف زینت بازار رہا چند روز بازار دہلی کی بھی افزایش زینت کا باعث ہوئی تھیں۔دو چار شعر محفوظ تھے جو درج کرتا ہوں۔

حال جانبازی کا میں کس سے کہوں
جس سے کہتی ہوں وہ ہی ہنستا ہے
جان و دل بیچتے ہیں ہم اپنا
ایک بوسہ پہ لے لو سستا ہے

جانی ۔
نواب قمر الدین خاں مرحوم کی دختر نیک اختر موسوم بہ بیگم جان المعروف بہ بہو بیگم کا تخلص تھا۔ یہ شاعرۂ گرامی اودھ میں نہایت مشہور و معروف گزری ہیں۔ نواب آصف الدولہ بہادر کی حرم تھیں۔ عمر بھر داد و دہش اور نیک نامی ان کا شعار تھا۔ آخر وقت میں جب عالم نزع تھا ایک خواجہ سرا ہمدم نامی عیادت کے لئے آیا۔ اور آپ سے آپ کا مزاج پوچھا۔ کرب و تکلیف کے عالم میں یہ شعر فی البدیہہ نظم کر کے ارشاد فرمایا

کیا پوچھتا ہے ہم اس جان ناتواں کی
رگ رگ میں نیش غم ہے کہئیے کہاں کہاں کی
----------------------------------------------------------------------


ریختہ صفحہ 43 کتاب 41

دو چار شعر نمونتاً ہدیۂ ناظرین کئے جاتے ہیں۔
بیاں میں کس سے کروں جا کے اب گلا دل کا
یہ دل کا دل ہی میں ہووے گا فیصلہ دل کا

دل جس سے لگایا وہ ہوا دشمن جانی
کچھ دل کا لگانا ہی ہمیں راس نہ آیا

نہیں ٹانکے میرے زخم جگر پر
یہ اس کا خندۂ دنداں نما ہے
نہیں ٹلتی کسی عنوان سر سے
شب غم بھی کوئی کالی بلا ہے
وہاں پر تیرے تھا ہم کو توہم
یہ ہم پر آج ہی عقدہ کھلا ہے

جعفری ۔
تخلص تھا۔ کاملہ بیگم نام تھا ۔ شاہ نصیر استاد ذوق کی شاگرد تھیں۔ اپنے زمانہ کی مشہور خوش گو تھیں عہد شاہ عالم بادشاہ میں زندہ تھیں۔ کلام یہ ہے۔

ساقیا مجھ کو ترا ساغر پلانا یاد ہے
کلمۂ لا تقنطوا سے دل چھکانا یاد ہے

کہا منصور نے سولی پہ چڑھ کر عشق بازوں سے
یہ اس کے بام کا زینا ہے آئے جس کا جی چاہے
غرور حسن پر ہم سے وہ ناحق جھانجھ کرتا ہے
یہ نوبت چند روزہ ہے بجائے جس کا جی چاہے
--------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 44 کتاب 42

تصور اس صنم کا دل میں لائے جس کا جی چاہے
ہماری بات سن کر آزمائے جس کا جی چاہے
محبت کے محل میں عاشق جانباز رہتا ہے
نہیں خالہ کا گھر اس میں جو آئے جس کا جی چاہے

جعفری ۔
یہی نام بھی تھا یہی تخلص بھی تھا۔ لکھنؤ کی ایک مشہور طوائف تھی۔ منشی فدا حسین فضا سے اصلاح لیتی تھی مدتوں لکھنؤ میں رہی آخر کلکتہ چلی گئی 1289 ھ میں زندہ تھی۔ انداز کلام دیکھئے۔

منھ کو آ جائے کلیجہ ضبط کی طاقت نہو
گر ہمارا دل رہے دم بھر کسی کے دل کے پاس

جمال ۔
بلقیس نام ہے جمال و جمالی تخلص ہے۔ زمانۂ موجودہ کی خوش فکر شاعرہ ہیں۔ نظم و نثر دونوں پر قادر ہیں۔ متفرق گلدستوں اور رسالوں میں کلام شائع ہوتا ہے۔ نمونتاً کچھ کلام نذر ناظرین ہے۔ یہ کلام 1924 ء کا ہے

در حبیب سے اپنی نظر ہٹا نہ سکے
لبوں پہ دم تھا مگر آنکھ ہم چرا نہ سکے
وہ کیا چڑھائیں گے پھول آ کے میری تربت پر
جو جیتے جی کبھی بالیں پہ میری آ نہ سکے
کریں گے قیدِ قفس سے وہ کیا رہا ہم کو
قفس کی تیلیوں سے جو چمن دکھا نہ سکے
کئیے جو درد سے نالے اسیر بلبل نے
کچھ ایسی اوس پڑی پھول مسکرا نہ سکے
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 45 کتاب 43

ارے وہ بار امانت اٹھا لیا میں نے
کہ آسماں و زمیں بھی جسے اٹھا نہ سکے
بوقت قتل میرے شوق بے قرار کو دیکھ
ہوا ہے ان کو تحیر کہ ہاتھ اٹھا نہ سکے
وہ رعب حسن تھا غالب بوقت دید جمال
ہم اپنا حال اشاروں سے بھی سنا نہ سکے
چلے تلاش میں اس کی رہ طلب میں مگر
کچھ ایسے کھوئے کہ اپنی خبر بھی پا نہ سکے
جفاے اہلِ وطن کی یہ انتہا ہے جمال
قسم تک اپنے وطن کی ہم آہ کھا نہ سکے

سوداے خام سر سے کافور کر دیا ہے
دل ان کی یاد نے کیا مسرور کر دیا ہے
ہر سانس اک لہو کا دریا بنی ہوئی ہے
دل میں کسی نے ایسا ناسور کر دیا ہے
اے چشم مست جاناں تیری ہی مستیوں نے
نرگس کو یوں چمن میں مخمور کر دیا ہے
ایمن کے جانے والے ہاں اک نظر ادھر بھی
جلوہ فروشیوں نے دل طُور کر دیا ہے
پہلے وفا پہ کب تھا آمادہ وہ جفا جُو
میری ستم کشی نے مجبور کر دیا ہے
ہستی سے میری پہلے واقف نہ تھا زمانہ
اس بت کی اک نظر نے مشہور کر دیا ہے
خوش باش اے تصور اک حسن خود نما نے
جلووں سے خانۂ دل معمور کر دیا ہے
ہوں بے نیاز صہبا تا حشر اے جمالیؔ
ساقی کی اک نظر نے مخمور کر دیا ہے
-------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 46 کتاب 44

جمعیت ۔
دین مسیحی کی پیرو تھی۔ اس کی ماں یا نانی ہندوستانی تھیں۔ باپ انگریز تھا۔ میجر آرجسٹن سے اس کی شادی ہوئی تھی۔ آگرہ میں قیام تھا۔ میجر آرجسٹن سے کئی اک لڑکیاں بھی پیدا ہوئیں جو سب کی سب یورپین اصحاب سے منسوب ہوئیں۔ جمعیت ایک نہایت ذکی اور طباع عورت تھیں۔ برج بھاکھا میں ان کی ہولیاں، واورے، ٹھمریاں، ٹپہ بھی موجود ہیں۔ فارسی میں بھی اچھا خاصہ دخل رکھتی تھیں۔ موسیقی میں کامل مہارت تھی۔ اردو کے شعر بھی خوب کہتی تھیں۔ نمونہ کلام یہ ہے۔

روٹھا ہے ہمارا جو وہ دلبر کئی دن سے
اس واسطے رہتی ہوں میں مضطر کئی دن سے
مقسوم کی خوبی ہے یہ قسمت کا ہے احساں
رہتا ہے خفا مجھ سے جو دلبر کئی دن سے

خدا کے روبرو جانا ندامت مجھ کو بھاری ہے
کوئی نیکی نہ بن آئی اسی کی شرمساری ہے

جنیا بیگم ۔
مرزا بابر مغفور کی دختر نیک اختر کا نام تھا۔ جہاندار شاہ بہادر ولی عہد بادشاہ دہلی کی خاص محل تھیں۔ کبھی کبھی شعر بھی کہتی تھیں جو زبان کی خوبیوں میں ڈوبے ہوئے ہوتے تھے۔ مصنف چمن انداز کا بیان ہے کہ مرزا رفیع سودا کی شاگرد تھیں۔ نمونۂ کلام یہ ہے۔
------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 47 کتاب 45

یا الہی یہ کس سے کام پڑا
دل تڑپتا ہے صبح و شام پڑا

روٹھنے کا عبث بہانا تھا
مدعا تم کو یاں نہ آنا تھا

یہ کس کی آتشِ غم نے جگر جلایا ہے
کہ تا فلک مرے شعلے نے سر اٹھایا ہے

ڈبڈبائی آنکھ آنسو تھم رہے
کانسۂ نرگس میں جوں شبنم رہے

آیا نہ کبھی خواب میں بھی وصل میسر
کیا جانئیے کس ساعتِ بد آنکھ لگی تھی

نہ دل کو صبر نہ جی کو قرار رہتا ہے
تمہارے آنے کا نِت انتظار رہتا ہے

جیم فارسی

چندا ۔
تخلص بھی یہی ہے نام بھی یہی ہے۔ 1799 ء میں جب کہ صوبہ دار ارسطو جاہ کے رفعت و صولت کا بازار دکن میں گرم تھا وہی
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 48 کتاب 46

زمانہ تھا کہ چندا کی شاعری آفتاب نصف النہار بن کر دکن کے آسمان شہرت پر چمک رہی تھی۔ ظاہرا یہ ایک شاہد بازاری تھی مگر دولت و حشمت عزت و رفعت میں اپنے زمانہ کے رؤسا سے بڑھی ہوئی تھی۔ قریب پانچ سو سپاہیوں اور برق اندازوں کے ہر وقت دروازے پر مستعد رہتے تھے۔ خوبصورتی کے علاوہ خوش سیرت بھی تھی۔ سیکڑوں شعراء وقت اس کی مدح و ثنا کرتے تھے اور گوہر مقصود سے اپنا دامن بھر کر لے جاتے تھے۔ فن موسیقی میں اس کو کمال مہارت تھی۔ اس کے علاوہ گھوڑے کی سواری کا بھی شوق تھا اور اس میں بھی ایک کامل شہسوار کی طرح اپنے جوہر دکھاتی تھی۔ فنون جنگ بھی سیکھے تھے تیر اندازی میں اپنا نظیر نہ رکھتی تھی۔ ورزش کیا کرتی تھی۔ اور پہلوانی کا دم بھرتی تھی۔ ان سب باتوں کے علاوہ بڑی فوقیت جو شاعرہ ہونے کی حیثیت سے اس کو حاصل تھی وہ یہ تھی کہ جیسے ریختہ گوؤں میں فرقۂ ذکور میں ولی کو سب سے پہلے ترتیب دیوان کا شرف حاصل ہے اسی طرح طبقۂ اناث میں ریختہ کی سب سے پہلی صاحب دیوان یہی گزری ہے۔ کلام میں جملہ اصناف سخن پر قادر تھی۔ شیر محمد خاں متخلص بہ ایمان جو حیدر آباد کے ایک نہایت مشہور اور اپنے وقت کے مستند
---------------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 49 کتاب 47

ریختہ گو تھے۔ اس کے استاد تھے۔ مصنف طبقات الشعراء لکھتے ہیں کہ 1799 ء عہد عالمگیری ثانی میں اپنا مرتب شدہ دیوان ایک ذی شان انگریز کو نذر دیا تھا۔ جو نہایت قدر کے ساتھ لے لیا گیا اور اب تک لندن کے کتب خانہ میں محفوظ ہے۔ افسوس اور تعجب ہے کہ اس ماہرۂ فن کا صرف ایک شعر تذکروں میں ملتا ہے جو نقل کیا جاتا ہے۔

اخلاق سے تو اپنے واقف جہان ہیگا
پر آپ کو غلط کچھ اب تک گمان ہیگا

چھوٹے صاحب ۔
لکھنؤ کی ایک شاہد بازاری تھی۔ الور کے دربار میں نوکر تھی ایک شعر یادگار ہے جو مصنف چمن انداز نے کسی بیاض سے نقل کیا تھا اور تذکرۂ مذکور سے نقل کرتا ہوں۔

کرتیان جالی کی پہنے ہیں جوانان حسین
حسن کی فوج میں دیکھے یہ زرہ پوش نئے

حاے حطی

حاتم ۔
یہ ایک پردہ نشین دہلوی کا تخلص تھا جو 1293 ھ تک یقیناً زندہ تھی۔ زیادہ حال معلوم نہیں ہوا۔ کلام یہ ہے۔
----------------------------------------------------------------

ریختہ صفحہ 50 کتاب 48

مجھ کو کدورتوں سے ملاتے ہو خاک میں
کہہ دیجیے جو آپ کے دل میں غبار ہو
دشمن کا شکوہ تم نہیں سنتے نہیں سہی
میرا ہی غم سنو نہ اگر ناگوار ہو

حبیب ۔
ایک پردہ نشین عفت مآب دہلی کی خاتون کا تخلص تھا۔ جو 1860 ء تک زندہ تھی۔ ایک مرتبہ اپنے چچا کو جو نابھہ میں مقیم تھے یہ شعر لکھ کر بھیجا۔

رکھیں ہم نے بٹ کر باریک سویاں
چچا آ کے نابھہ سے چٹ کر سویاں

حجاب ۔
تخلص تھا۔ عسکری بیگم نام تھا۔ یہ عفت مآب ملا محمد زماں اصفہانی کی پوتی۔ محمد علی خاں مسیحا کی شاگرد۔ لکھنؤ کی رہنے والی تھی۔ شعر و شاعری سے ایک فطری ذوق و شوق تھا۔ اکثر مشاعرہ اپنے مکان پر کرتی اور کبھی کبھی ان کی غزل بھی پڑھی جاتی تھی۔ ایک مرتبہ پوری غزل شائع ہوئی تھی اب صرف ایک شعر یاد ہے۔

رات کو آئیں گے ہم صاف معمّا یہ ہے
وعدۂ وصل کیا اس نے دکھا کر گیسو

حجاب ۔
ایک کشمیری عفت مآب خاتون کا تخلص تھا جو 1293 ھ میں اپنے شوہر کے ساتھ بمبئی میں مقیم تھی۔ اردو کی شاعری میں بھی مشق تھی اور فارسی کے شعر بھی کہتی تھی۔ اسی کا یہ شعر ہے۔
--------------------------------------------------------------------


 
پروف صفحات تقسیم

محب علوی۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔2-20
شمشاد۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔21-50 مکمل
عینی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔51-70
محمد عمر ۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔71-90
سید عاطف علی ۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔91-110
سیما علی ۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔111-120
مومن فرحین۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔121-135
محمل ابراہیم ۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔136-145
امید ۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔146-160
فرحت کیانی ۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔161-170
 
پروف صفحات تقسیم

محب علوی۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔2-20
شمشاد۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔21-50 مکمل
عینی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔51-70
محمد عمر ۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔71-90
سید عاطف علی ۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔91-110
سیما علی ۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔111-120
مومن فرحین۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔121-135
محمل ابراہیم ۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔136-145
امید ۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔146-160
فرحت کیانی ۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔161-170
شمشاد۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔171-210
عینی۔۔۔۔۔۔۔۔ریختہ صفحات۔۔۔۔۔۔۔۔211-250
 
Top