تخمیس بر سلامِ میرزا اسد اللہ خان غالب - سید محمد امیر امام حُر

حسان خان

لائبریرین
سلام اسے کہ شہیدِ وفا کہیں اس کو
سلام اسے کہ امامِ ہدیٰ کہیں اس کو
سلام اسے کہ شہِ دوسرا کہیں اس کو
سلام اسے کہ اگر بادشا کہیں اس کو
تو پھر کہیں کہ کچھ اس سے سوا کہیں اس کو
جہانِ غم میں طرب کی کہاں نمائش ہے
کہو بلاؤں میں کس دل کی آزمائش ہے
یہ کس کے دم سے مہمات کی کشائش ہے
نہ بادشاہ نہ سلطاں یہ کیا ستائش ہے
کہو کہ خامسِ آلِ عبا کہیں اس کو
یہ حبِ جاہ بہ تلبیس شوروی کیسی
بہ فکرِ دنیوی تعبیرِ اخبروی کیسی
یہ راہِ راست میں ذہنوں کی کجروی کیسی
خدا کی راہ میں شاہی و خسروی کیسی
کہو کہ رہبرِ دینِ خدا کہیں اس کو
وہ غم رسیدہ جو تھا غمگسار بندوں کا
وہ جس کے غم نے بڑھایا وقار بندوں کا
اسی کا عزم بنا افتخار بندوں کا
خدا کا بندہ خداوندگار بندوں کا
اگر کہیں نہ خداوند کیا کہیں اس کو
ثباتِ حق سرِ میداں حسین ابنِ علی
ثبوتِ حجتِ یزداں حسین ابنِ علی
رسولِ حق کے دل و جاں حسین ابنِ علی
فروغِ جوہرِ ایماں حسین ابنِ علی
کہ شمعِ انجمنِ کبریا کہیں اس کو
وہ استقامتِ حق روبروئے استبداد
شکن بھی عزم کے رخ پر نہ تھی کجا فریاد
ہے کس میں تاب کہ دہرائے درد کی روداد
ہمارا منہ ہے کہ دیں اس کے حسنِ صبر کی داد
مگر نبی و علی مرحبا کہیں اس کو
ہر ایک ذرۂ راہِ وفا ہے عرش پسند
ہے ایک ذرے کے ہیں ماہ و آفتاب سپند
ہے باز چشمِ تحیر زبانِ نطق ہے بند
بہت ہے پایۂ گردِ رہِ حسین بلند
بقدرِ فہم ہے گر کیمیا کہیں اس کو
رہِ نجات ہو گم دل کا مدعا نہ ملے
ہجومِ یاس میں امید کی ہوا نہ ملے
جہانِ درد میں پھر کوئی آسرا نہ ملے
ہمارے درد کی یا رب کبھی دوا نہ ملے
اگر نہ درد کی اپنے دوا کہیں اس کو
سمجھ میں آئے نہ اخلاق و عمل کے آئیں
اصولِ فقہ ہیں سختی کے ساتھ ذہن نشیں
نہیں جو عدل تو فتووں میں اعتدال نہیں
یہ اجتہاد عجب ہے کہ ایک دشمنِ دیں
علی سے آ کے لڑے اور خطا کہیں اس کو
جہانِ درد میں حُر ہے ہر اک پیام میں درد
ہر ایک بات میں دکھ ہے ہر ایک کام میں درد
ہے درد و غم سے شہیدِ وفا کے نام میں درد
بھرا ہے غالبِ دل خستہ کے کلام میں درد
غلط نہیں ہے کہ خونیں نوا کہیں اس کو
(سید محمد امیر امام حُر)
 
Top