تحصیل حاصل پور، ضلع اوسلو

جاسم محمد

محفلین
تحصیل حاصل پور، ضلع اوسلو
28/08/2019 یاسر پیرزادہ


اوسلو میں جس پہلے پاکستانی سے ہمارا تعارف ہوا وہ تیس پینتیس سال کا ایک نوجوان تھا، ہنس مکھ اور خوش شکل، میرے پوچھنے سے پہلے ہی اُس نے بتادیا کہ اُس کا تعلق حاصل پور سے ہے، میں نے سوال کیا کہ ناروے میں کتنے سال ہو گئے، جواب دیاآتی سردیوں میں پندرہ سال ہو جائیں گے، میں نے ہنستے ہوئے کہا کہ پھر حاصل پور تو پیچھے رہ گیا اب تو خود کو نارویجین کہو، اس کے چہرے سے اداسی کا ایک سایہ سا لہرا کر گزر گیا مگر اگلے ہی لمحے پھر و ہی دل موہ لینے والی مسکراہٹ واپس آگئی، بولا ”حاصل پور پیچھا نہیں چھوڑتا، اب بھی ہر سال پاکستان جاتا ہوں، دوستوں سے ملتا ہوں، میرا بس چلے تو حاصل پور اٹھا کر ناروے لے آؤں۔ “ اس ایک جملے میں پوری داستان پوشیدہ ہے، ہماری خواہشات کی، ہماری محبتوں کی، ہماری محرومیوں کی، ہماری خواہشوں کی اور ہماری بے بسی کی۔

یورپ کے کسی بھی ملک میں چلے جائیں، پہلا سوال دماغ میں یہ آتا ہے کہ ایسا نظام پاکستا ن میں کیوں نہیں بن سکتا، ان لوگوں کے پاس آخر ایسا کون سا نسخہ ہے جو استعمال کرنے سے سب لوگ ٹھیک ٹھیک کام کرنے لگتے ہیں، انہیں کون سی دوائی پلائی جاتی ہے جو انہیں سسٹم کے اندر رہنا سکھاتی ہے۔ ہر قسم کی عالمی درجہ بندی میں یورپی ممالک باقی دنیا سے آگے ہیں اور ناروے یور پ میں سب سے آگے، ناروے نے اپنا نظام یوں بنایا ہے کہ ایک بات دوسرے سے جوڑ دی ہے۔

بچے کو پیدا ہوتے ہی ایک ذاتی نمبر دے دیا جاتا ہے جو اس کی تاریخ پیدائش کے علاوہ پانچ ہندسوں پر مشتمل ہوتا ہے، باقی تمام زندگی اسی ذاتی نمبر کے تحت گزاری جاتی ہے، اسکول، پاسپورٹ، لائسنس، قرضہ، نوکری، سب تفصیل اس نمبر میں فیڈ ہوتی رہتی ہے۔ یہ کوئی انوکھی بات نہیں، پاکستان میں بھی شناختی کارڈ نمبر سے یہ کافی تفصیل نادرہ جیسے اداروں کے پاس مل جاتی ہے مگر اس سے مربوط نظام نہیں بنتا۔

ناروے کی ریاست نے صرف تفصیل جمع نہیں کی بلکہ اسے یوں استعمال کیا ہے کہ لوگوں کے لیے ایک فلاحی نظام وجود میں آ گیا، مثلاً ہر نارویجین بچے کے لیے تعلیمی وظیفہ ملتا ہے، ذہین یا لائق ہونے کی کوئی شرط نہیں، اگر وہ امتحانات میں اچھے نمبر لے تو اس وظیفے کا زیادہ تر حصہ معاف ہو جاتا ہے لیکن اگر وہ محنت نہ کرے تو اُس صورت میں معاف نہیں ہوتا، جب وہ بچہ کہیں نوکری کرتا ہے تو حکومت کی طرف سے اُس کی کمپنی کو یہ اطلاع پہنچ جاتی ہے کہ تنخواہ میں سے پانچ یا دس فیصد کٹوتی کرکے اُس وظیفے کی مد میں جمع کروا دے، یہ تمام تفصیل اس ذاتی نمبر کے تحت جمع ہوتی رہتی ہے۔

یہ نظام پاکستان میں بنانا مشکل نہیں، طلباکے وظیفے کواُن کی تعلیمی کارکردگی سے جوڑ دیا جائے، اگر ایک مخصوص سطح سے نمبر کم آئیں تو مستقبل کی تنخواہ سے آسان اقساط میں وظیفہ وصول کرکے کسی اور مستحق بچے کو لگا دیا جائے۔ اسی طرح ناروے میں اگر کوئی بیمار ہو جائے تو ڈاکٹر مریض کا معائنہ کیے بغیر دوا نہیں دیتا، معائنے کے بعد ڈاکٹر اپنے کمپیوٹر میں مریض کا نمبر ڈالتا ہے، اس کی دوا لکھتا ہے اور کمپیوٹر رسید مریض کے حوالے کر دیتا ہے، اب پورے ناروے کی فارمیسی میں یہ اطلاع پہنچ گئی ہے کہ اِس مریض کو فلاں دوا چاہیے، مریض کسی بھی فارمیسی سے جا کر وہ دوا لے سکتا ہے، فارمیسی دوا پر ڈاکٹر اور مریض کا نام چسپاں کرکے مریض کے حوالے کردیتی ہے، کوئی دوسرا یہ استعمال نہیں کرسکتا۔

ایک آخری مثال ناروے کے پینشن سسٹم کی، ہر شخص کی آمدن پر ٹیکس تو ہر ملک میں ہے، پاکستان میں بھی ہے، ناروے نے مگر یہ کیا ہے کہ ٹیکس کو پینشن سے مشرو ط کر دیا ہے، ایک ملازم کی تنخواہ پر جتنا ٹیکس حکومت وصول کرتی ہے اسی شرح سے ریٹائرمنٹ کے وقت اُس کی پینشن مقرر کر دی جاتی ہے، سرکاری یا نجی نوکری سے کوئی فرق نہیں پڑتا، دونوں کو پینش ملتی ہے۔

ایک دلچسپ بات یہ ہے کہ اگر آپ کاروبار کرتے ہیں اور صرف اُس پر ٹیکس دیتے ہیں تو پھر پینشن کے حقدار نہیں البتہ بزنس میں اگر آپ اپنی تنخواہ مقرر کرکے اُس پر ٹیکس دیں تو پھر آپ کو اُس ٹیکس کی شرح کے مطابق اُس وقت پینشن ملے گی جب آپ اپنے کاروبار سے ریٹائرمنٹ ہو جائیں گے۔ یہاں دانش مند لوگ یہی کرتے ہیں، سکون سے پینشن وصول کرکے زندگی کا لطف اٹھاتے ہیں، اپنے ہاں تو لوگ قبر میں جانے سے پہلے تک نوٹ گنتے رہتے ہیں، حالانکہ آپ کا پیسہ وہی ہے جو آپ کے ہاتھ سے خرچ ہو گیا، باقی آپ نے فقط کمایا ہوتا ہے، وہ پیسہ آپ کا نہیں ہوتا۔ ناروے کے نظام میں بظاہر تو کوئی خرابی نہیں مگر جو تفصیلات حکومت جمع کرکے شہریوں کو قانون کی پاسداری پر مجبور کررہی ہے اس کے نتیجے میں چھوٹے کاروباری ختم ہوتے جا رہے ہیں اور ملٹی نیشنل کمپنیوں کی اجارہ داری قائم ہو رہی ہے جو ناروے کے مجموعی نظام انصاف کی روح کے منافی ہے۔

نارویجین لوگ صحت کا بہت خیال رکھتے ہیں، سائیکل چلانے کا بہت شوق ہے، پہاڑوں پر پیدل بھاگتے ہوئے چڑھ جاتے ہیں، اونچائی والی جگہوں پر جاگنگ کرتے ہیں، ہر دوسری گاڑی کے اوپر اسکئینگ کا سامان لدا ہے، جونہی انہیں موقع ملتا ہے کھٹ سے گاڑی نکالتے ہیں اور اپنے خوبصورت پہاڑوں کی سیر کو نکل جاتے ہیں، کشتی رانی کے بھی دلدادہ ہیں، شاپنگ مالز میں بڑی بڑی کشتیاں برائے فروخت مل جاتی ہیں، اوسلو کے ساحل پر جا بجا کشتیاں یوں کھڑی نظر آتی ہیں جیسے کسی پلازے کے باہر گاڑیوں کی پارکنگ ہو۔

اوسلو دیگر یورپین شہروں سے کچھ مختلف ہے، یورپ کے ہر بڑے شہر میں ایک پر شکوہ گرجا گھر ہوتا ہے، شہر کے بیچ دریا بہتا ہے اور مرکز میں سیاحوں کی گہما گہمی ملتی ہے، اوسلو نسبتاً پر سکون ہے، آبادی کم ہے، چھوٹا سا ڈاؤن ٹاؤن ہے جو پیر سے جمعرات تک شام ڈھلے ہی سو جاتا ہے۔ مگر اوسلو سے باہر ناروے کے دو روپ ہیں، ایک روپ آپ کو جون جولائی میں اس راستے پر نظر آتا ہے جو گائیرینگر کی طرف جاتا ہے، یہ دنیا کے خوبصورت ترین راستوں میں سے ایک ہے، سڑک کے ساتھ جھیل، کہیں کہیں تیرتی برف اور پہاڑوں سے گرتے جھرنے، اگر کہیں رُک کر تصویر لیں تو یوں لگے گا جیسے جنت کی تصویر کشی کی ہے۔

دوسرا روپ، اگست /ستمبر میں اُس راستے پر نظر آتا ہے جو Rjukan یا Geilo کی طرف جاتا ہے، یہاں محسوس ہوتا ہے جیسے آپ ناران کاغا ن کے راستے پر جا رہے ہوں، یہاں پاکستان اور ناروے کی خوبصورتی برابر ہو جاتی ہے، کئی جگہ تو یقین نہیں آیا کہ یہی وہ ناروے ہے جس کے قصیدے ہم پڑھتے ہیں۔

ناروے بلاشبہ دنیا کے چند خوبصورت ممالک میں سے ایک ہے مگرہم پاکستانی اس کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں اس کے نظام کی وجہ سے یہاں آتے ہیں، چاہتے ہم یہ ہیں کہ نظام پاکستان آ جائے ہمیں ناروے نہ جانا پڑے، یہ کام ذرا مشکل ہے اس لیے ہم حاصل پور سے اٹھ کر اوسلو آ جاتے ہیں اور پھر اُن گلیوں، محلوں اور راستوں کو یاد کر تے رہتے ہیں جہاں ہمارے حاسد رشتہ دار رہتے تھے، بے وفا محبوبہ تھی اور بے تکلف دوست تھے جن سے ہماری کوئی بات چھپی نہیں تھی۔ اوسلو میں سب کچھ ہے مگر حاصل پور نہیں، کاش میں اوسلو کو اٹھا کر حاصل پور لا سکتا!
ہم سب کے لئے خصوصی طور پر ارسال کردہ مضمون۔
 

جاسم محمد

محفلین
ناروے بلاشبہ دنیا کے چند خوبصورت ممالک میں سے ایک ہے مگرہم پاکستانی اس کی خوبصورتی کی وجہ سے نہیں اس کے نظام کی وجہ سے یہاں آتے ہیں، چاہتے ہم یہ ہیں کہ نظام پاکستان آ جائے ہمیں ناروے نہ جانا پڑے
ناروے کا نظام یہاں کے لوگوں نے اپنے قومی مزاج کے تحت بنایا ہے۔ پاکستان میں اگر ایسا نظام چاہئے تو پہلے وہاں کی عوام کو قومی مزاج تبدیل کرنا ہوگا ۔ یعنی پہلے پاکستانی عوام کو خود نارویجن لوگوں جیسا بننا ہوگا۔ تب ہی ناروے جیسا نظام پاکستان میں نافذ ہو سکے گا۔
 

جاسم محمد

محفلین
ناروے کا نظام یہاں کے لوگوں نے اپنے قومی مزاج کے تحت بنایا ہے۔ پاکستان میں اگر ایسا نظام چاہئے تو پہلے وہاں کی عوام کو قومی مزاج تبدیل کرنا ہوگا ۔ یعنی پہلے پاکستانی عوام کو خود نارویجن لوگوں جیسا بننا ہوگا۔ تب ہی ناروے جیسا نظام پاکستان میں نافذ ہو سکے گا۔
ہالینڈ کی ترقی کا راز: با اختیار بلدیاتی حکومتیں
28/08/2019 صفدر زیدی، ہالینڈ



اکثر احباب ہالینڈ کی ترقی کا راز دریافت کرتے ہیں۔ ہالینڈ ہی کیا، یورپ کے اکثر ممالک کی ترقی کے رازوں میں سے اک اہم ترین راز بلدیاتی حکومتوں کے ذریعے اختیارات کو نچلی سطح پر منتقل کرنے میں پوشیدہ ہے۔ ہالینڈ کے شہری پانچ قسم کے عام انتخابات میں براہ راست حصہ لیتے ہیں۔ قومی اسمبلی کے انتخابات، صوبائی اسمبلی کے انتخابات، پانی کے معاملات کی اسمبلی کے انتخابات، یورپی یونین کے انتخابات اور بلدیاتی انتخابات۔

مندرجہ بالا انتخابات متناسب نمائندگی کے اصولوں پر ہوتے ہیں اور مختلف سیاسی پارٹیاں اپنی جیت کے حساب سے مشترکہ طور پر بلدیاتی حکومت بنا کر ڈپٹی مئیرز کو مقرر کرتی ہیں۔ ان ڈپٹی مئیرز کے اختیارات پاکستان کے صوبائی وزراء کے برابر ہوتے ہیں، ہالینڈ میں صوبائی وزراء کا کوئی تصور نہیں۔ بلدیاتی انتخابات کے نتائج کا باقی تمام انتخابات پر گہرا اثر ہوتا ہے۔ ہالینڈ جیسے چھوٹے سے ملک میں بارہ صوبے اور چار سو کے قریب بلدیاتی حکومتیں ہیں۔

یہ بلدیاتی حکومتیں پولیس، امن عامہ، شہری و دیہی پلاننگ، گھروں کی تعمیر کی منصوبہ بندی، ماحولیات، فراہمی و نکاسی آب، کچرا اٹھانا اور اس اس کی ری سائیکلنگ کی منصوبہ بندی، مقامی معیشت کی ترقی کی منصوبہ بندی، پرائمری و سکینڈری تعلیم کی ذمہ داری، صحت، سوشل سیکوریٹی، ملک میں نئے آکر بسنے والوں کی معاشرے میں ضم ہونے کی سہولیات، سیاحت، ثقافت اور تفریحات کی ترویج، نوجوانوں کی دیکھ بھال، رجسٹریشن اور مقامی ٹیکسوں کی وصولی کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔

صوبائی حکومتیں، توانائی، بڑی شاہراہوں، ماحولیات کی پالیسی، جنگلات وغیرہ اور صوبائی قوانین کے ذریع بلدیات کی رہنمائی کی ذمہ دار ہوتی ہیں۔ صوبوں کو قانونی راہنمائی مرکزی حکومت اور مرکزی حکومت کو یورپین پارلیمنٹ رہنمائی فراہم کرتی ہے۔ بڑے شہروں کی بلدیات میں بین الاقوامی تعلقات کا بھی شعبہ ہوتا ہے جس کے ذریعے بلدیاتی حکومتیں دوسرے ممالک کی بلدیاتی حکومتوں سے براہ راست تعاون کے تعلقات قائم کرسکتی ہیں۔



ہالینڈ میں بلدیاتی نظام اور بلدیاتی قانون سازی کا عمل 1798 میں شروع ہوچکا تھا۔ یہ وہ دور تھا کہ جب ہمارا برصغیر مغل بادشاہت کے چنگل سے نکل کر برطانوی نوآبادیات کے چنگل میں پھنس رہا تھا۔ ہالینڈ میں بلدیاتی حکومت کا سربراہ مئیر کہلاتا ہے جو بادشاہ کی طرف سے اک غیر جانبدار شخص کے طور پر نامزد ہوتا ہے۔ پولیس عام طور پر مئیر کے ہی زیر نگرانی ہوتی ہے تاکہ شہر اور مرکزی حکومت میں اختلاف نہ ہوپائے۔ ہالینڈ کا کوئی بھی شہری کسی بھی شہر کا مئیر نامزد ہونے کے لئے درخواست دے سکتا ہے۔ بادشاہ کے ماتحت قائم ایک کمیشن مئیر نامزد ہونے کے امیدواروں کی قابلیت، صلاحیت اور ان کے کردار کو مدنظر رکھ کر انُ کے نامزد ہونے کی سفارش کرتا ہے۔

بلدیاتی حکومتیں اپنے محصولات کا اوسطاً 33 فیصد خود رکھ سکتی ہیں جبکہ باقی محصولات صوبائی اور مرکزی حکومت کو منتقل ہوتے ہیں، لیکن مرکزی اور صوبائی حکومتیں وسائل دوبارہ بلدیاتی حکومتوں کو لوٹاتی ہیں اس عمل میں کم محصولات والی بلدیاتی حکومتیں بھی تعمیر و ترقی میں اپنا معیار قائم رکھ پاتی ہیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے وسائل کے علاوہ بلدیاتی حکومتیں یورپین یونین سے بھی فنڈ حاصل کرتی ہیں۔ ڈچ بلدیاتی حکومتوں کا سالانہ بجٹ 57 بلین یور یعنی دس ہزار دو سو ساٹھ ارب روپوں کے قریب ہوتا ہے۔

یہ بلدیاتی نظام کا ہی کرشمہ ہے کہ عام ڈچ شہریوں کو صوبائی انتظامیہ کے سربراہ کا نام تک نہیں معلوم ہوتا ہے جبکہ شہروں کے مئیرز کے نام سب کو معلوم ہوتے ہیں۔ آرمی چیف اور افواج کے افسران بھی گمُ نام ہی ہوتے ہیں۔ ہالینڈ کا بلدیاتی نظام اتنا مستحکم ہے کہ کوئی بھی حکمران کسی بھی بلدیاتی حکومت کو توڑنے کا تصور نہیں کرسکتا۔ جب ہٹلر نے ہالینڈ پر قبضہ کیا تھا تو اس نے بھی بلدیاتی حکومتیں نہیں توڑی تھیں۔ انہی بلدیاتی حکومتوں نے جبر کے اس دور میں شہروں اور دیہاتوں کا نظم و نسق قائم رکھا تھا۔ آخر میں مجھے یہ رائے قائم کرنے میں کوئی عار نہیں کہ ایک مکمل با اختیار بلدیاتی نظام پاکستان کو صوبائیت کے عفریت سے بچاتے ہوئے ترقی کی راہ پر ڈال سکتا ہے۔
( اس مضمون کو لکھنے میں ڈچ بلدیاتی حکومتوں کی فیڈریشن کی سالانہ رپورٹ سے مدد لی گئی ہے )
 
Top