تحریک انصاف کو کس منہ سے ووٹ دیں؟

زرقا مفتی

محفلین
نہیں، مجھے تو معاف ہی رکھیے محترمہ ۔۔۔ ہاں، اگر عمران خان صاحب کم از کم اتنا ہی کر لیں کہ باقی جماعتوں کے سربراہان کو پکارنے کے لیے مناسب الفاظ کا سہارا لیں تو وہ بہتوں کے لیے قابل قبول ہو سکتے ہیں لیکن صرف عمران خان سے توقعات وابستہ کر لینے کو میں بالکل درست نہیں سمجھتا ۔۔۔ عمران خان کو شاید "سولو فلائٹ" نہ مل سکے اس لیے لامحالہ ان کو دیگر جماعتوں کے ساتھ مل کر چلنا ہو گا ۔۔۔ اور انہیں عام انتخابات کے نتائج کے بعد اس کا اندازہ ہو جائے گا ۔۔۔
تو یہی بات کیا آپ شہباز شریف کو سمجھا سکتے ہیں اور وہ آپ کے کہنے پر عمل کرے گا یا شہادت کی اُنگلی لہرا لہرا کر میں نہیں مانتا کی گردان کرے گا
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
تو یہی بات کیا آپ شہباز شریف کو سمجھا سکتے ہیں اور وہ آپ کے کہنے پر عمل کرے گا یا شہادت کی اُنگلی لہرا لہرا کر میں نہیں مانتا کی گردان کرے گا
شہباز شریف صاحب بھی تو پارٹی کے سربراہ نہیں ہیں نا ۔۔۔ آپ کا تو زیادہ تر فوکس پارٹی سربراہان پر رہتا ہے ۔۔۔ آپ کم از کم بڑے میاں صاحب کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتیں کہ وہ بھی بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔۔۔ ہاں، شہباز شریف کی یہ بات مجھے بھی سخت ناپسند ہے ۔۔۔ اُن کو چاہیے کہ وہ اپنی اس عادتِ بد پر قابو پائیں اور "میں نہیں مانتا" کی گردان کو دہرا کر ہمارے لیے اذیت کا سامان نہ ہی پیدا کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
شہباز شریف صاحب بھی تو پارٹی کے سربراہ نہیں ہیں نا ۔۔۔ آپ کا تو زیادہ تر فوکس پارٹی سربراہان پر رہتا ہے ۔۔۔ آپ کم از کم بڑے میاں صاحب کے بارے میں یہ نہیں کہہ سکتیں کہ وہ بھی بدتہذیبی کا مظاہرہ کرتے ہیں ۔۔۔ ہاں، شہباز شریف کی یہ بات مجھے بھی سخت ناپسند ہے ۔۔۔ اُن کو چاہیے کہ وہ اپنی اس عادتِ بد پر قابو پائیں اور "میں نہیں مانتا" کی گردان کو دہرا کر ہمارے لیے اذیت کا سامان نہ ہی پیدا کریں تو زیادہ بہتر ہو گا۔
شہزاد صاحب ہم نے پچھلے پانچ سال پنجاب میں نواز شریف کی نہیں شہباز شریف کی حکومت دیکھی ہے اس لئے بات ان کے حوالے سے ہو گی۔
نواز شریف کے بارے میں کیا کہوں تضادات کا شاہکار ہیں
١۹۷۹ میں تحریکِ استقلال میں شمولیت اختیار کی
دو سال بعد ہی استقلال سے تائب ہوایک فوجی آمر ضیا الحق کی پکار پر پنجاب کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ بن گئے
١۹۸۵ میں ضیاالحق کی بنائی ہوئی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے
١۹۸۸ میں آئی جے آئی میں شامل ہوگئے
١۹۹۰ میں ایجینسیوں کی مدد اور فنڈنگ سے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور وزیرِ اعظم بن گئے
١۹۹۳ میں آئی جے آئی چھوڑ کو مسلم لیگ ن بنا لی
١۹۹۷ میں وزیرِ اعظم بنا اور بھائی کو وزیرِ اعلیٰ بنا لیا؟؟؟
١۹۹۹ میں خفیہ معاہدہ کرکے جلاوطنی اختیار کر لی
واپسی پر لوٹوں کو منہ نہ لگانے کا دعوی کیا
مگر اب ۴۰ لوٹوں کو پارٹی ٹکٹ عطا کر دیئے
اور اب اصولی سیاست کا پرچار کرتے ہیں

اصولی سیاست کے ہجے بھی شاید انہیں معلوم نہیں
 
شہزاد صاحب ہم نے پچھلے پانچ سال پنجاب میں نواز شریف کی نہیں شہباز شریف کی حکومت دیکھی ہے اس لئے بات ان کے حوالے سے ہو گی۔
نواز شریف کے بارے میں کیا کہوں تضادات کا شاہکار ہیں
١۹۷۹ میں تحریکِ استقلال میں شمولیت اختیار کی
دو سال بعد ہی استقلال سے تائب ہوایک فوجی آمر ضیا الحق کی پکار پر پنجاب کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ بن گئے
١۹۸۵ میں ضیاالحق کی بنائی ہوئی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے
١۹۸۸ میں آئی جے آئی میں شامل ہوگئے
١۹۹۰ میں ایجینسیوں کی مدد اور فنڈنگ سے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور وزیرِ اعظم بن گئے
١۹۹۳ میں آئی جے آئی چھوڑ کو مسلم لیگ ن بنا لی
١۹۹۷ میں وزیرِ اعظم بنا اور بھائی کو وزیرِ اعلیٰ بنا لیا؟؟؟
١۹۹۹ میں خفیہ معاہدہ کرکے جلاوطنی اختیار کر لی
واپسی پر لوٹوں کو منہ نہ لگانے کا دعوی کیا
مگر اب ۴۰ لوٹوں کو پارٹی ٹکٹ عطا کر دیئے
اور اب اصولی سیاست کا پرچار کرتے ہیں

اصولی سیاست کے ہجے بھی شاید انہیں معلوم نہیں

١۹۷۹ سے 2013 تک تو اہی گئے ہونگے۔ ایسی بھی کیا بدگمانی
 
1996 سے 2013 تک سیاست کرنے والے کو ابھی کم ازکم ڈسٹرکٹ لیول یا صوبائی سیاست ہی کرنی چاہیے۔

تجربہ بھی ایک چیز ہوتی ہے
 
ہمارا کام تو نام لینا تھا، سو ہم نے لے لیے ۔۔۔ تفصیلات میں جانے کا محل نہیں حضورِ والا! ۔۔۔ ان پارٹیوں کی جن کم زوریوں کی طرف آپ اشارہ فرما رہے ہیں، کم و بیش وہی کم زوریاں تحریک انصاف میں بھی ہیں ۔۔۔

اب اتنی بڑی ڈنڈی کی تو کم سے کم آپ سے توقع نہیں تھی مجھے۔

پیپلز پارٹی جب شروع ہوئی تو اس میں بھی بڑے بڑے نام تھے اور لوگ تبدیلی کے نعرے پر جوق در جوق اس پارٹی میں جمع ہوئے تھے ۔ شروع میں کئی انقلابی کام بھی ہوئے اور بہت سی نئی چیزوں کی بنیاد بھی ڈالی گئی مگر اب اس چیز کو کئی عشرے ہو گئے ہیں۔

اب عشروں کی روایتی سیاست اور اصل مقصد سے ہٹے بھی ان پارٹیوں کو عشرے بیت گئے ہیں اور ان کی کمزوریاں اب کمزوریاں نہیں بلکہ خطائے عظیم اور مرقع اغلاط بن چکی ہیں۔ ان میں اگر کوئی پرانا اور کام کا بندہ رہ گیا ہے تو وہ اس وجہ سے کہ اب وہ کسی اور پارٹی میں جانے اور جگہ بنانے کی یا تو ہمت نہیں کر پا رہا یا اب وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ رہ کر ان پارٹیوں کی سوچ سے مفاہمت کر چکا ہے۔

بے پناہ فرق ہے تحریک انصاف اور ان موروثی پارٹیوں میں جن میں پارٹی چیئرمین ایک شہنشاہ سے کم کا درجہ نہیں رکھتا جس کا کہا ہوا پارٹی میں قانون کا درجہ رکھتا ہے جو اختلاف کرتا ہے وہ نہ پارٹی میں جگہ پاتا ہے نہ کسی اہم عہدے پر۔ اپنے خاندانوں ، عزیزوں اور دوست احباب کو نوازنے کا جو بے مثال سلسلہ ان پارٹیوں نے شروع کیا ہوا ہے اس کی مثالیں ذرا تحریک انصاف میں بھی دکھائیں۔

ابھی اقتدار پر نہیں پہنچی مگر عمران خان نے اپنے بہنوئی اور کزن کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جس پر وہ ان کے خلاف ہوئے پڑے ہیں بلکہ اپنے بدترین مخالف کے بیٹے کو ترجیح دی کہ پارٹی کا یہی فیصلہ تھا۔ اس کے قریب قریب کی بھی کوئی مثال آپ ان شاہی پارٹیوں میں دکھائیں ذرا ۔

ایک ہی جملے میں سب کو لپیٹنے کی جس تن آسانی اور صرف حقیقت کے ہم لوگ عادی ہو چکے ہیں اس سے ذرا بلند ہونے کی ضرورت ہے۔

کتنی دولت ان لوگوں کی ملک کے اندر موجود ہے اور کتنی ان کے اپنے نام پر ہے اور کتنا ٹیکس یہ لوگ دیتے ہیں۔

عمران کا ٹیکس ریکارڈ اور اثاثے ظاہر ہیں ، کیا زرداری ، شریف برادران اور باقی لوگ اس قدر جرات مند اور فرض شناس ہیں ؟

پھر یہ کہنا کہ سب ایک جیسے ہیں کس قدر ناانصافی اور تساہل سے کام لینے والی بات ہے کہ ایک جماعت معیار مقرر کر رہی ہے اور اس کے لیے اس کی قیادت اپنے عمل سے مثال بن رہی ہے اور اسے ان لٹیروں کے ساتھ ملا کر ایک ہی جملہ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کیا فرق ہے ان میں اور تحریک انصاف میں۔

اگر اب بھی آپ کو فرق نظر نہیں آ رہا تو پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے حمایتیوں کا نظریہ بھی ٹھیک ہے کہ انہیں بھی اپنے لیڈر اور قائدین میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ باقی سب بھی ایسے ہی ہیں ، فرق کیا ہے اس لیے ہم انہیں ہی ووٹ دیں گے۔ اسی سوچ کی وجہ سے یہ تکلف بھی گوارا نہیں کیا جاتا ہے کہ حقیقی تقابل اعداد و شمار سے کرکے دیکھا جائے کہ کون اپنے دعوی میں سچا ہے اور کون جھوٹا۔
 
اب اتنی بڑی ڈنڈی کی تو کم سے کم آپ سے توقع نہیں تھی مجھے۔

پیپلز پارٹی جب شروع ہوئی تو اس میں بھی بڑے بڑے نام تھے اور لوگ تبدیلی کے نعرے پر جوق در جوق اس پارٹی میں جمع ہوئے تھے ۔ شروع میں کئی انقلابی کام بھی ہوئے اور بہت سی نئی چیزوں کی بنیاد بھی ڈالی گئی مگر اب اس چیز کو کئی عشرے ہو گئے ہیں۔

اب عشروں کی روایتی سیاست اور اصل مقصد سے ہٹے بھی ان پارٹیوں کو عشرے بیت گئے ہیں اور ان کی کمزوریاں اب کمزوریاں نہیں بلکہ خطائے عظیم اور مرقع اغلاط بن چکی ہیں۔ ان میں اگر کوئی پرانا اور کام کا بندہ رہ گیا ہے تو وہ اس وجہ سے کہ اب وہ کسی اور پارٹی میں جانے اور جگہ بنانے کی یا تو ہمت نہیں کر پا رہا یا اب وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ رہ کر ان پارٹیوں کی سوچ سے مفاہمت کر چکا ہے۔

بے پناہ فرق ہے تحریک انصاف اور ان موروثی پارٹیوں میں جن میں پارٹی چیئرمین ایک شہنشاہ سے کم کا درجہ نہیں رکھتا جس کا کہا ہوا پارٹی میں قانون کا درجہ رکھتا ہے جو اختلاف کرتا ہے وہ نہ پارٹی میں جگہ پاتا ہے نہ کسی اہم عہدے پر۔ اپنے خاندانوں ، عزیزوں اور دوست احباب کو نوازنے کا جو بے مثال سلسلہ ان پارٹیوں نے شروع کیا ہوا ہے اس کی مثالیں ذرا تحریک انصاف میں بھی دکھائیں۔

ابھی اقتدار پر نہیں پہنچی مگر عمران خان نے اپنے بہنوئی اور کزن کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جس پر وہ ان کے خلاف ہوئے پڑے ہیں بلکہ اپنے بدترین مخالف کے بیٹے کو ترجیح دی کہ پارٹی کا یہی فیصلہ تھا۔ اس کے قریب قریب کی بھی کوئی مثال آپ ان شاہی پارٹیوں میں دکھائیں ذرا ۔

ایک ہی جملے میں سب کو لپیٹنے کی جس تن آسانی اور صرف حقیقت کے ہم لوگ عادی ہو چکے ہیں اس سے ذرا بلند ہونے کی ضرورت ہے۔

کتنی دولت ان لوگوں کی ملک کے اندر موجود ہے اور کتنی ان کے اپنے نام پر ہے اور کتنا ٹیکس یہ لوگ دیتے ہیں۔

عمران کا ٹیکس ریکارڈ اور اثاثے ظاہر ہیں ، کیا زرداری ، شریف برادران اور باقی لوگ اس قدر جرات مند اور فرض شناس ہیں ؟

پھر یہ کہنا کہ سب ایک جیسے ہیں کس قدر ناانصافی اور تساہل سے کام لینے والی بات ہے کہ ایک جماعت معیار مقرر کر رہی ہے اور اس کے لیے اس کی قیادت اپنے عمل سے مثال بن رہی ہے اور اسے ان لٹیروں کے ساتھ ملا کر ایک ہی جملہ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کیا فرق ہے ان میں اور تحریک انصاف میں۔

اگر اب بھی آپ کو فرق نظر نہیں آ رہا تو پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے حمایتیوں کا نظریہ بھی ٹھیک ہے کہ انہیں بھی اپنے لیڈر اور قائدین میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ باقی سب بھی ایسے ہی ہیں ، فرق کیا ہے اس لیے ہم انہیں ہی ووٹ دیں گے۔ اسی سوچ کی وجہ سے یہ تکلف بھی گوارا نہیں کیا جاتا ہے کہ حقیقی تقابل اعداد و شمار سے کرکے دیکھا جائے کہ کون اپنے دعوی میں سچا ہے اور کون جھوٹا۔

بنیادی طور پر اپ کے دلائل درست ہیں
اگر ٹیکس اور کرپشن ہی دلالت ہے لیڈرشپ کے انتخاب کا تو اس معاملہ میں ایم کیوا یم 1980 سے اور جماعت اسلامی اس سے بھی پہلے سے پوری اترتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو بات ایم کیوا یم 1980 سے کہہ رہی ہے وہ پنجاب کے لوگوں کو اب سمجھ میں ارہی ہے۔
مگر یہ دیر ہے اور اندھیر بھی ہے۔
اگر معاملہ قیادت کے انتخاب کا انہی بنیادوں پر ہے تو ایم کیوا یم کو پنجاب میں کیوں پذیرائی نہیں مل سکی؟

دوسری طرف کیا عمران کی امدنی اور کیا ان کے ٹیکس۔ مہربانی ہوگی اگر جاوید ہاشمی قصوری اور قریشی وغیرہ کے بارے میں بھی فرمادیں۔

دیکھیے۔اگر عمران پلے بوائے تھا اور اب نہیں رہا۔ توبہ کرلی۔ اچھا ہوگا۔ تو یہ بات اپ شریف فیملی کے لیے کیوں نہیں کہتے؟ وہ بھی فوجی ایجنٹ تھے طویل عرصہ رہے پر اب اچھے ہوگئے ہیں توبہ کرلی ہے۔ اچھے کام کررہے ہیں۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
اب اتنی بڑی ڈنڈی کی تو کم سے کم آپ سے توقع نہیں تھی مجھے۔

پیپلز پارٹی جب شروع ہوئی تو اس میں بھی بڑے بڑے نام تھے اور لوگ تبدیلی کے نعرے پر جوق در جوق اس پارٹی میں جمع ہوئے تھے ۔ شروع میں کئی انقلابی کام بھی ہوئے اور بہت سی نئی چیزوں کی بنیاد بھی ڈالی گئی مگر اب اس چیز کو کئی عشرے ہو گئے ہیں۔

اب عشروں کی روایتی سیاست اور اصل مقصد سے ہٹے بھی ان پارٹیوں کو عشرے بیت گئے ہیں اور ان کی کمزوریاں اب کمزوریاں نہیں بلکہ خطائے عظیم اور مرقع اغلاط بن چکی ہیں۔ ان میں اگر کوئی پرانا اور کام کا بندہ رہ گیا ہے تو وہ اس وجہ سے کہ اب وہ کسی اور پارٹی میں جانے اور جگہ بنانے کی یا تو ہمت نہیں کر پا رہا یا اب وہ بھی ان کے ساتھ ساتھ رہ کر ان پارٹیوں کی سوچ سے مفاہمت کر چکا ہے۔

بے پناہ فرق ہے تحریک انصاف اور ان موروثی پارٹیوں میں جن میں پارٹی چیئرمین ایک شہنشاہ سے کم کا درجہ نہیں رکھتا جس کا کہا ہوا پارٹی میں قانون کا درجہ رکھتا ہے جو اختلاف کرتا ہے وہ نہ پارٹی میں جگہ پاتا ہے نہ کسی اہم عہدے پر۔ اپنے خاندانوں ، عزیزوں اور دوست احباب کو نوازنے کا جو بے مثال سلسلہ ان پارٹیوں نے شروع کیا ہوا ہے اس کی مثالیں ذرا تحریک انصاف میں بھی دکھائیں۔

ابھی اقتدار پر نہیں پہنچی مگر عمران خان نے اپنے بہنوئی اور کزن کو پارٹی ٹکٹ نہیں دیا جس پر وہ ان کے خلاف ہوئے پڑے ہیں بلکہ اپنے بدترین مخالف کے بیٹے کو ترجیح دی کہ پارٹی کا یہی فیصلہ تھا۔ اس کے قریب قریب کی بھی کوئی مثال آپ ان شاہی پارٹیوں میں دکھائیں ذرا ۔

ایک ہی جملے میں سب کو لپیٹنے کی جس تن آسانی اور صرف حقیقت کے ہم لوگ عادی ہو چکے ہیں اس سے ذرا بلند ہونے کی ضرورت ہے۔

کتنی دولت ان لوگوں کی ملک کے اندر موجود ہے اور کتنی ان کے اپنے نام پر ہے اور کتنا ٹیکس یہ لوگ دیتے ہیں۔

عمران کا ٹیکس ریکارڈ اور اثاثے ظاہر ہیں ، کیا زرداری ، شریف برادران اور باقی لوگ اس قدر جرات مند اور فرض شناس ہیں ؟

پھر یہ کہنا کہ سب ایک جیسے ہیں کس قدر ناانصافی اور تساہل سے کام لینے والی بات ہے کہ ایک جماعت معیار مقرر کر رہی ہے اور اس کے لیے اس کی قیادت اپنے عمل سے مثال بن رہی ہے اور اسے ان لٹیروں کے ساتھ ملا کر ایک ہی جملہ میں یہ کہا جا رہا ہے کہ کیا فرق ہے ان میں اور تحریک انصاف میں۔

اگر اب بھی آپ کو فرق نظر نہیں آ رہا تو پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے حمایتیوں کا نظریہ بھی ٹھیک ہے کہ انہیں بھی اپنے لیڈر اور قائدین میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ باقی سب بھی ایسے ہی ہیں ، فرق کیا ہے اس لیے ہم انہیں ہی ووٹ دیں گے۔ اسی سوچ کی وجہ سے یہ تکلف بھی گوارا نہیں کیا جاتا ہے کہ حقیقی تقابل اعداد و شمار سے کرکے دیکھا جائے کہ کون اپنے دعوی میں سچا ہے اور کون جھوٹا۔
محترم! میں کسی پارٹی کا ترجمان نہیں ہوں، میں تو وہی کہوں گا جو میرے دل میں ہے۔ غیر جانب داری کا تقاضا ہے کہ سچ کو سچ اور جھوٹ کو جھوٹ کہا جائے۔ عمران خان صاحب نے فیصلہ کیا تھا کہ ان کی پارٹی میں ٹکٹوں کا فیصلہ وہی لوگ کریں گے جو انٹرا پارٹی الیکشن میں جیت کر سامنے آئیں گے اور یہ بھی فرمایا تھا کہ میں ان کمیٹیوں کے معاملات میں مداخلت نہیں کروں گا لیکن سوات جلسے میں محترم عمران خان صاحب یہ بات بھول گئے اور فرمایا کہ میں خود ٹکٹوں کے فیصلے کروں گا میں خود ان کے ساتھ بیٹھوں گا، یہ تو مداخلت ہوئی نا پھر! آپ نے مثال پوچھی تھی، میں نے دے دی۔
جہاں تک باقی پارٹیوں کا تعلق ہے، جماعت اسلامی، تحریک انصاف سے بدرجہا بہتر جماعت ہے، امیدواروں کے چناؤ کے حوالے سے ۔۔۔ وہاں اقرباء پروری کا دخل تک نہیں ۔۔۔ اسی طرح کی مثالیں دوسری پارٹیوں میں بھی مل جاتی ہیں ۔۔۔ ن لیگ کے چیئرمین راجہ ظفر الحق ہیں، پیپلز پارٹی کے چیئرمین مخدوم امین فہیم ہیں ۔۔۔ جماعت اسلامی کے امیر سید منور حسن، مولانا مودودی کے رشتہ دار تو نہیں؟
ٹیکس کی بابت ہی دیکھ لیں ۔۔۔ عمران خان صاحب فرماتے رہے کہ میاں نواز شریف نے پانچ ہزار ٹیکس دیا ۔۔۔ ہم نے دیکھ لیا کہ یہ بات بھی غلط تھی ۔۔۔ کل ہی میں نے متعلقہ دستاویزات کا مطالعہ کیا تو انکشاف ہوا کہ شریف برادران پر تنقید غلط تھی، وہ ٹیکس دینے والوں میں سرفہرست رہے ۔۔۔ یہ الگ بات کہ وسیع و عریض اراضی کے مالک تحریک انصاف کے صدر جاوید ہاشمی نے 2011ء میں سرے سے ٹیکس نہیں دیا اور 2012ء میں محض سینتیس ہزار کے لگ بھگ ۔۔۔
اب آپ ہی فرمائیے ۔۔۔ یہ سب کیا ہے؟ اعداد و شمار غلط ہیں تو آپ درستی کر دیں ۔۔۔ الزامات اپنی جگہ، لیکن ٹھوس حقائق اور شواہد سامنے آنا ضروری ہیں ۔۔۔ یوں تو عمران خان صاحب پر ن لیگ والے شوکت خانم فنڈز کے حوالے سے غلط سلط الزامات لگاتے رہتے ہیں جن میں کوئی حقیقت نہیں ہے ۔۔۔
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
شہزاد صاحب ہم نے پچھلے پانچ سال پنجاب میں نواز شریف کی نہیں شہباز شریف کی حکومت دیکھی ہے اس لئے بات ان کے حوالے سے ہو گی۔
نواز شریف کے بارے میں کیا کہوں تضادات کا شاہکار ہیں
١۹۷۹ میں تحریکِ استقلال میں شمولیت اختیار کی
دو سال بعد ہی استقلال سے تائب ہوایک فوجی آمر ضیا الحق کی پکار پر پنجاب کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ بن گئے
١۹۸۵ میں ضیاالحق کی بنائی ہوئی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے
١۹۸۸ میں آئی جے آئی میں شامل ہوگئے
١۹۹۰ میں ایجینسیوں کی مدد اور فنڈنگ سے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور وزیرِ اعظم بن گئے
١۹۹۳ میں آئی جے آئی چھوڑ کو مسلم لیگ ن بنا لی
١۹۹۷ میں وزیرِ اعظم بنا اور بھائی کو وزیرِ اعلیٰ بنا لیا؟؟؟
١۹۹۹ میں خفیہ معاہدہ کرکے جلاوطنی اختیار کر لی
واپسی پر لوٹوں کو منہ نہ لگانے کا دعوی کیا
مگر اب ۴۰ لوٹوں کو پارٹی ٹکٹ عطا کر دیئے
اور اب اصولی سیاست کا پرچار کرتے ہیں

اصولی سیاست کے ہجے بھی شاید انہیں معلوم نہیں

تحریک استقلال میں شمولیت کا فیصلہ غلط نہیں تھا۔
ضیاء الحق کا ساتھ دینے کا فیصلہ درست نہیں تھا، یہ الگ بات کہ اسی غلطی کا شکار جاوید ہاشمی بھی ہوئے اور بعدازاں کسی حد تک عمران خان صاحب بھی مشرف کا ریفرنڈم میں ساتھ دے کر۔
آئی جے آئی میں شامل ہونا اگر جرم تھا تو موجودہ تحریک انصاف میں بہت سے آئیٹم آئی جے آئی کے شامل ہیں۔
مسلم لیگ ن بنانا بھی "جرم" تھا! خوب!
1997ء میں وزیراعظم بننا کیا نامناسب بات تھی! البتہ ان کو شہباز شریف کو وزیراعلٰی نہ بنانا چاہیے تھا، اس معاملے میں آپ کے ساتھ ہوں۔
یہ خفیہ معائدہ 1999ء میں نہیں ہوا تھا ۔۔۔ غالباََ انہوں نے کچھ سال جیل میں بھی گزارے تھے ۔۔۔ دو سال کے قریب قریب ۔۔۔
لوٹوں کو منہ تو سب ہی لگا رہے ہیں ۔۔۔ جہانگیر ترین، شفقت محمود، وصی ظفر، امجد علی خان نیازی، خورشید قصوری، شاہ محمود قریشی، جازی خان، خاکوانی، امیر حسین اور نہ جانے اس قبیل کے کتنے ہی لوگ تحریک انصاف میں کیا آسمان سے اترے ہیں؟ اور ان میں سے بھی بیشتر کو پارٹی ٹکٹ ملیں گے۔
کیا یہ ہے تحریک انصاف کی اصولی سیاست؟
اگر یہی معیار ہے تو پھر معذرت کے ساتھ عرض ہے، کوئی فرق نہیں میاں نواز شریف اور عمران خان نیازی میں ۔۔۔
 

ساجد

محفلین
نواز شریف کے بارے میں کیا کہوں تضادات کا شاہکار ہیں
١۹۷۹ میں تحریکِ استقلال میں شمولیت اختیار کی
دو سال بعد ہی استقلال سے تائب ہوایک فوجی آمر ضیا الحق کی پکار پر پنجاب کی کابینہ میں وزیرِ داخلہ بن گئے
١۹۸۵ میں ضیاالحق کی بنائی ہوئی مسلم لیگ میں شامل ہو گئے
١۹۸۸ میں آئی جے آئی میں شامل ہوگئے
١۹۹۰ میں ایجینسیوں کی مدد اور فنڈنگ سے آئی جے آئی کے پلیٹ فارم سے الیکشن لڑا اور وزیرِ اعظم بن گئے
١۹۹۳ میں آئی جے آئی چھوڑ کو مسلم لیگ ن بنا لی
١۹۹۷ میں وزیرِ اعظم بنا اور بھائی کو وزیرِ اعلیٰ بنا لیا؟؟؟
١۹۹۹ میں خفیہ معاہدہ کرکے جلاوطنی اختیار کر لی
واپسی پر لوٹوں کو منہ نہ لگانے کا دعوی کیا
مگر اب ۴۰ لوٹوں کو پارٹی ٹکٹ عطا کر دیئے
اور اب اصولی سیاست کا پرچار کرتے ہیں

اصولی سیاست کے ہجے بھی شاید انہیں معلوم نہیں
یعنی علی بابا 40 چور؟ :)
اور ایسے ہی چوروں نے جب عمران خان کی چھتر چھایہ میں پناہ پالی تو ہم نے ن لیگ کی طرح سے تحریکِ انصاف کو بھی بائے بائے کہہ کر "انصاف" کے تقاضے پورے کر دئیے۔ اب خالی تحریک کا نام انصاف رکھنے سے تو اانصاف نہیں ہوتا نا؟؟؟۔ ایک عظیم لیڈر ہونے کے دعویدار کم از کم مجھ جیسے عام پاکستانی جتنا انصاف ہی کرتے تو ان لوٹوں اور کرپشن کے بادشاہوں کو اپنا ہمنو انہ بناتے۔ اور اگر بنا ہی لیا ہے تو اصول کا پکا راگ نہ چھیڑیں کیونکہ یہ ہمنوا اپنا سُر تال ٹھیک نہیں رکھ سکتے اور موسیقی کی زبان میں بے سُرے ہیں:) اب میرے جیسا نا سمجھ بندہ عمران کے اس کام کے بعد تبدیلی کے نعرے کو ایک ڈھکوسلہ سمجھنے پر مصر ہے۔ کوئی بتاؤ کہ میں پھر سے کسی لوٹے یا دہشت گردوں کے حامیوں کو ووٹ دے دوں؟۔
اصولی سیاست ادھر ہے نہ ادھر بس تماشہ گری ہے اور ہم خود حیران ہیں کہ "جائیں تو جائیں کہاں"۔
 

ساجد

محفلین
اگر اب بھی آپ کو فرق نظر نہیں آ رہا تو پھر پیپلز پارٹی اور ن لیگ کے حمایتیوں کا نظریہ بھی ٹھیک ہے کہ انہیں بھی اپنے لیڈر اور قائدین میں کوئی برائی نظر نہیں آتی اور وہ بھی یہی کہتے ہیں کہ باقی سب بھی ایسے ہی ہیں ، فرق کیا ہے اس لیے ہم انہیں ہی ووٹ دیں گے۔ اسی سوچ کی وجہ سے یہ تکلف بھی گوارا نہیں کیا جاتا ہے کہ حقیقی تقابل اعداد و شمار سے کرکے دیکھا جائے کہ کون اپنے دعوی میں سچا ہے اور کون جھوٹا۔
محب ، ہر چہرہ کسی کا محبوب ہوتا ہے ، اور محبوب میں عیوب کہاں نظر آتے ہیں بس ایوب ہی ایوب نظر آتے ہیں۔ پھر ایسے ہی ایوبوں کو کبھی سرعام کتا کہا جاتا ہے اور کبھی "تیرے جانے کے بعد تیری یاد آئی" گنگنایا جاتا ہے۔:)

مجھے اس وقت گورنمنٹ دیال سنگھ کالج لاہورکے تاریخ کے اسسٹنٹ پروفیسر جناب محمد طارق کی تصنیف "قدیم ریاستیں میدان جنگ میں یاد آ گئی" ۔ کبھی پڑھیں تو مزا آئے گا آج کی پاکستانی سیاست کے کرداروں کے تماشوں کا۔
 

زرقا مفتی

محفلین
بنیادی طور پر اپ کے دلائل درست ہیں
اگر ٹیکس اور کرپشن ہی دلالت ہے لیڈرشپ کے انتخاب کا تو اس معاملہ میں ایم کیوا یم 1980 سے اور جماعت اسلامی اس سے بھی پہلے سے پوری اترتی ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ جو بات ایم کیوا یم 1980 سے کہہ رہی ہے وہ پنجاب کے لوگوں کو اب سمجھ میں ارہی ہے۔
مگر یہ دیر ہے اور اندھیر بھی ہے۔
اگر معاملہ قیادت کے انتخاب کا انہی بنیادوں پر ہے تو ایم کیوا یم کو پنجاب میں کیوں پذیرائی نہیں مل سکی؟

دوسری طرف کیا عمران کی امدنی اور کیا ان کے ٹیکس۔ مہربانی ہوگی اگر جاوید ہاشمی قصوری اور قریشی وغیرہ کے بارے میں بھی فرمادیں۔

دیکھیے۔اگر عمران پلے بوائے تھا اور اب نہیں رہا۔ توبہ کرلی۔ اچھا ہوگا۔ تو یہ بات اپ شریف فیملی کے لیے کیوں نہیں کہتے؟ وہ بھی فوجی ایجنٹ تھے طویل عرصہ رہے پر اب اچھے ہوگئے ہیں توبہ کرلی ہے۔ اچھے کام کررہے ہیں۔
عمران خان اگر پلے بوائے تھا تو یہ اُس کا ذاتی معاملہ تھا ۔ اُس کے افیئر شادی سے پہلے تھے شریف برادران کی طرح بیویوں کی موجودگی میں افیئر نہیں چلائے اُس نے۔
منی لانڈرنگ نہیں کی ۔ قرضے ہڑپ نہیں کئے۔
سرکاری اسکیموں کے پلاٹ ریوڑیوں کی طرح عمران خان نے نہیں نواز شریف نے بانٹے
پنجاب بینک کو پیلی ٹیکسی جیسی اسکیموں سے تباہ کر دیا
ریلوے کے انجن اور پٹریاں چوری کروا کر اتفاق فاونڈٰری کی بھٹیوں میں کون پگھلاتا رہا
ایک اتفاق فاونڈری سے اڑتیس فیکڑیاں بن گئیں کس طرح۔ ورلڈ بینک کی دیہی علاقے کے لئے امداد وصول کرکے رائے ونڈ میں محلات تعمیر ہو گئے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے فارن کرنسی اکاؤنٹ ہڑپ کر لئے ۔ قرض اُتارو ملک سنوارو سکیم کا سارا پیسہ کھا گئے۔
آج ہی وکی لیکس میں پڑھا کہ امریکیوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ ہم نے ایمل کانسی تمہارے حوالے کیا۔ تین افراد کو سرِ عام قتل کرنے والے بلیک واٹر اور سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو شہباز شریف نے امریکیوں کے حوالے کر دیا ۔ مقتولین کے ورثا کو دیت بھی پنجاب حکومت کے خزانے سے ادا کی
محکمہ تعلیم میں دو یہودی کنسلٹنٹ مقرر کئے جن کے کہنے پر نصاب سے اسلامی ، اخلاقی اور نظریاتی مواد نکال دیا گیا۔

کشمیریوں کی حمایت ختم کی ایٹمی پروگرام کو کیپ کر دیا

کہیں تو اور اچھے کام گنواؤں؟؟؟
جاوید ہاشمی قصوری سب کا ڈیٹا ای سی پی پر موجود ہے دیکھ لیجیے کسی پر بد عنوانی کا الزام نہیں
 

زرقا مفتی

محفلین
یعنی علی بابا 40 چور؟ :)
اور ایسے ہی چوروں نے جب عمران خان کی چھتر چھایہ میں پناہ پالی تو ہم نے ن لیگ کی طرح سے تحریکِ انصاف کو بھی بائے بائے کہہ کر "انصاف" کے تقاضے پورے کر دئیے۔ اب خالی تحریک کا نام انصاف رکھنے سے تو اانصاف نہیں ہوتا نا؟؟؟۔ ایک عظیم لیڈر ہونے کے دعویدار کم از کم مجھ جیسے عام پاکستانی جتنا انصاف ہی کرتے تو ان لوٹوں اور کرپشن کے بادشاہوں کو اپنا ہمنو انہ بناتے۔ اور اگر بنا ہی لیا ہے تو اصول کا پکا راگ نہ چھیڑیں کیونکہ یہ ہمنوا اپنا سُر تال ٹھیک نہیں رکھ سکتے اور موسیقی کی زبان میں بے سُرے ہیں:) اب میرے جیسا نا سمجھ بندہ عمران کے اس کام کے بعد تبدیلی کے نعرے کو ایک ڈھکوسلہ سمجھنے پر مصر ہے۔ کوئی بتاؤ کہ میں پھر سے کسی لوٹے یا دہشت گردوں کے حامیوں کو ووٹ دے دوں؟۔
اصولی سیاست ادھر ہے نہ ادھر بس تماشہ گری ہے اور ہم خود حیران ہیں کہ "جائیں تو جائیں کہاں"۔
کرپشن کے ایک بادشاہ کی نشاندہی کریں جو تحریکِ ِ انصاف میں شامل ہے؟؟؟
 

زونی

محفلین
آپ کے بیان میں تضاد ہے ۔۔۔ قیادت پر ذمہ داری ڈال دی اور پھر عوام پر ڈال دی ۔۔۔ اور پھر دونوں پر ڈال کر بری الذمہ ہو گئے ۔۔۔ معاملہ یہ ہے کہ تیسری دنیا کے لوگ اپنے معاملات کو باقی دنیا کے معاملات سے الگ کر کے دیکھتے ہیں، اس لیے کنفیوژن میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ ایک دم کچھ درست نہیں ہو سکتا بھائی صاحب ۔۔۔ جیسے جیسے شعور میں اضافہ ہوتا جائے گا، معاملات درست ہوتے چلے جائیں گے ۔۔۔ اور ہاں، چوراسی ملکوں کے پاس سولہ روپے ہوں اور سولہ ملکوں کے پاس چوراسی روپے ہوں تو فرق تو پڑے گا نا ۔۔۔ تیسری دنیا کے مسائل اتنی آسانی سے حل نہیں ہوں گے کہ کبھی پرویز مشرف کو لایا جائے تو کبھی عمران خان کو ۔۔۔ جو بھی آئے گا، ایک نیا تجربہ کرے گا ۔۔۔ ٹھیک ہے ایک تجربہ عمران خان سے بھی کروا کر دیکھ لیں ۔۔۔ اگر عوام نے موقع دے دیا تو!


عوام پہ ذمہ داری ڈال کے بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا ،،، کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب تک عوام میں سیاسی شعور نہیں آئے گا حالات نہیں بدلیں گے ، موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیں ، اگر آزمائے ہوئے لوگوں کو ایک چانس اور دیا گیا تو اگلے پانچ سال ھکمرانوں کو کوسنے دینے کی بجائے ملک کی بربادی کی ذمہ داری بھی عوام کو لینی چاہیئے ،،،،، تضاد تو آپکے بیان میں بھی ھے ، ایک طرف آپ ن لیگ کو چانس دینے کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس پہ بھی مصر ہیں کہ تیسری دنیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے ،،، یہ دوسری اور تیسری دنیا ہماری اپنی بنائی ہوئی اصطلاحیں ہیں ، یہ کہاں لکھا ھے کہ تیسری دنیا کے لوگوں کے نصیب میں کرپٹ سیاستدان ہی لکھ دیئے گئے ہیں اور انہیں اپنی بہتری کی کوششیں نہیں کرنی چاہیئں؟؟؟؟ عوام کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہیئے ، اگر آٹے کی بوری اور قیمے والے نان ایک ووٹ کی قیمت ہو سکتے ہیں تو پھر مستقبل کی فکر میں سر پیٹنا بیکار کی باتیں ہیں !!!
 

زونی

محفلین
محترمہ! ہر کوئی اپنے رہنما کو "سورج" ہی سمجھتا ہے ۔۔۔ اگر عمران خان تن تنہا سب کچھ کر سکتے ہیں تو اُن کو پارٹی بنانے کی کیا ضرورت ہے؟


اگر کوئی اپنے کرپٹ اور بد عنوان رہنما کو سورج سمجھتا ھے تو اس میں رہنما کا قصور کم اور اس کی عقل کا قصور زیادہ ھے ۔ :)
 
عمران خان اگر پلے بوائے تھا تو یہ اُس کا ذاتی معاملہ تھا ۔ اُس کے افیئر شادی سے پہلے تھے شریف برادران کی طرح بیویوں کی موجودگی میں افیئر نہیں چلائے اُس نے۔
منی لانڈرنگ نہیں کی ۔ قرضے ہڑپ نہیں کئے۔
سرکاری اسکیموں کے پلاٹ ریوڑیوں کی طرح عمران خان نے نہیں نواز شریف نے بانٹے
پنجاب بینک کو پیلی ٹیکسی جیسی اسکیموں سے تباہ کر دیا
ریلوے کے انجن اور پٹریاں چوری کروا کر اتفاق فاونڈٰری کی بھٹیوں میں کون پگھلاتا رہا
ایک اتفاق فاونڈری سے اڑتیس فیکڑیاں بن گئیں کس طرح۔ ورلڈ بینک کی دیہی علاقے کے لئے امداد وصول کرکے رائے ونڈ میں محلات تعمیر ہو گئے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے فارن کرنسی اکاؤنٹ ہڑپ کر لئے ۔ قرض اُتارو ملک سنوارو سکیم کا سارا پیسہ کھا گئے۔
آج ہی وکی لیکس میں پڑھا کہ امریکیوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ ہم نے ایمل کانسی تمہارے حوالے کیا۔ تین افراد کو سرِ عام قتل کرنے والے بلیک واٹر اور سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو شہباز شریف نے امریکیوں کے حوالے کر دیا ۔ مقتولین کے ورثا کو دیت بھی پنجاب حکومت کے خزانے سے ادا کی
محکمہ تعلیم میں دو یہودی کنسلٹنٹ مقرر کئے جن کے کہنے پر نصاب سے اسلامی ، اخلاقی اور نظریاتی مواد نکال دیا گیا۔

کشمیریوں کی حمایت ختم کی ایٹمی پروگرام کو کیپ کر دیا

کہیں تو اور اچھے کام گنواؤں؟؟؟
جاوید ہاشمی قصوری سب کا ڈیٹا ای سی پی پر موجود ہے دیکھ لیجیے کسی پر بد عنوانی کا الزام نہیں

سب الزام ہیں ۔ ثبوت فراہم کریں۔
وڈیو لنک نہیں لگایے گا۔ اتنا وقت نہیں ہے کہ وڈیو دیکھ سکوں۔ ٹھوس ثبوت دیں
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
عوام پہ ذمہ داری ڈال کے بری الذمہ نہیں ہوا جا سکتا ،،، کہنے کا مقصد یہ تھا کہ جب تک عوام میں سیاسی شعور نہیں آئے گا حالات نہیں بدلیں گے ، موجودہ صورتحال کو ہی دیکھ لیں ، اگر آزمائے ہوئے لوگوں کو ایک چانس اور دیا گیا تو اگلے پانچ سال ھکمرانوں کو کوسنے دینے کی بجائے ملک کی بربادی کی ذمہ داری بھی عوام کو لینی چاہیئے ،،،،، تضاد تو آپکے بیان میں بھی ھے ، ایک طرف آپ ن لیگ کو چانس دینے کی بات کر رہے ہیں اور دوسری طرف اس پہ بھی مصر ہیں کہ تیسری دنیا کے مسائل حل نہیں ہو سکتے ،،، یہ دوسری اور تیسری دنیا ہماری اپنی بنائی ہوئی اصطلاحیں ہیں ، یہ کہاں لکھا ھے کہ تیسری دنیا کے لوگوں کے نصیب میں کرپٹ سیاستدان ہی لکھ دیئے گئے ہیں اور انہیں اپنی بہتری کی کوششیں نہیں کرنی چاہیئں؟؟؟؟ عوام کو بھی اپنا احتساب کرنا چاہیئے ، اگر آٹے کی بوری اور قیمے والے نان ایک ووٹ کی قیمت ہو سکتے ہیں تو پھر مستقبل کی فکر میں سر پیٹنا بیکار کی باتیں ہیں !!!

اگر آپ کے سیاسی شعور کی معراج "تحریک انصاف" اور "عمران خان صاحب" ہیں تو آپ کے سیاسی شعور کو اکیس توپوں کی سلامی!
کبھی غور فرمائیے گا کہ تحریک انصاف کی صفوں میں کتنے آزمائے ہوئے لوگ موجود ہیں!
میں نے ن لیگ کو چانس دینے کی بات نہیں کی ہے، میں خود تبدیلی کا خواہش مند ہوں ۔۔۔ لیکن تبدیلی وہی بہتر ہوتی ہے جو بتدریج ہو۔
یہ تو آپ خود ہی تصور فرما رہے ہیں کہ تیسری دنیا کے نصیب میں کرپٹ سیاست دان لکھ دیے گئے ہیں اور بہتری کی کوشش نہیں کی جانی چاہیے ۔۔۔ کوشش ضرور کریں لیکن آٹے کی بوری اور قیمے والے نان کی جگہ برگر اور چپس لے کر ووٹ نہ دیں ۔۔۔ حقیقی تبدیلی تبھی آئے گی جب آپ کے جملوں سے بھی انقلابی دانش ٹپکے گی وگرنہ سطحی باتیں اور کھوکھلے نعرے سنتے عمر بیت گئی!
 
ش

شہزاد احمد

مہمان
عمران خان اگر پلے بوائے تھا تو یہ اُس کا ذاتی معاملہ تھا ۔ اُس کے افیئر شادی سے پہلے تھے شریف برادران کی طرح بیویوں کی موجودگی میں افیئر نہیں چلائے اُس نے۔
منی لانڈرنگ نہیں کی ۔ قرضے ہڑپ نہیں کئے۔
سرکاری اسکیموں کے پلاٹ ریوڑیوں کی طرح عمران خان نے نہیں نواز شریف نے بانٹے
پنجاب بینک کو پیلی ٹیکسی جیسی اسکیموں سے تباہ کر دیا
ریلوے کے انجن اور پٹریاں چوری کروا کر اتفاق فاونڈٰری کی بھٹیوں میں کون پگھلاتا رہا
ایک اتفاق فاونڈری سے اڑتیس فیکڑیاں بن گئیں کس طرح۔ ورلڈ بینک کی دیہی علاقے کے لئے امداد وصول کرکے رائے ونڈ میں محلات تعمیر ہو گئے۔ بیرون ملک پاکستانیوں کے فارن کرنسی اکاؤنٹ ہڑپ کر لئے ۔ قرض اُتارو ملک سنوارو سکیم کا سارا پیسہ کھا گئے۔
آج ہی وکی لیکس میں پڑھا کہ امریکیوں کو اپنی وفاداری کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ ہم نے ایمل کانسی تمہارے حوالے کیا۔ تین افراد کو سرِ عام قتل کرنے والے بلیک واٹر اور سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کو شہباز شریف نے امریکیوں کے حوالے کر دیا ۔ مقتولین کے ورثا کو دیت بھی پنجاب حکومت کے خزانے سے ادا کی
محکمہ تعلیم میں دو یہودی کنسلٹنٹ مقرر کئے جن کے کہنے پر نصاب سے اسلامی ، اخلاقی اور نظریاتی مواد نکال دیا گیا۔

کشمیریوں کی حمایت ختم کی ایٹمی پروگرام کو کیپ کر دیا

کہیں تو اور اچھے کام گنواؤں؟؟؟
جاوید ہاشمی قصوری سب کا ڈیٹا ای سی پی پر موجود ہے دیکھ لیجیے کسی پر بد عنوانی کا الزام نہیں

عمران خان فرشتہ ہے اور نواز شریف شیطان ۔۔۔ اگر آپ نے یہ نتیجہ نکال ہی لیا ہے تو لمبی چوڑی بحث کا فائدہ نہیں ۔۔۔ ویسے آپ کے الزامات میں اگر صداقت بھی ہو تب بھی یہ یاد رکھیے گا کہ نواز شریف کے کریڈٹ پر کچھ اچھے کام بھی ہیں، ان کو بھی یاد رکھیے ۔۔۔ اسی طرح غلطی سے بھٹو صاحب نے بھی کچھ اچھے کام کیے تھے، اور تو اور زرداری صاحب کو ہزار برا کہیے، ان کے کریڈٹ پر بھی کچھ اچھے کام موجود ہیں ۔۔۔ عمران خان کی تعریف ضرور کیجیے لیکن مبالغہ آمیزی سے گریز فرمائیے ۔۔۔ مانا وہ پارسا، متقی اور مردِ درویش ہیں لیکن کیا باقی سبھی افراد شیطانوں کی صف میں شامل ہیں؟ ایسا نہیں ہے، آپ "سوشل میڈیا" کی دنیا سے باہر نکلیں تاکہ آپ کو اندازہ ہو کہ ابھی آپ کا سونامی بپا نہیں ہوا، اگر آپ کو یقین نہ آئے تو گیارہ مئی 2013ء کا انتظار کر لیجیے ۔۔۔ عوام اتنی بھی جاہل اور بے شعور نہیں ہے جتنا کہ آپ نے تصور کر لیا ہے، یہی عوام ہے جس نے قائداعظم کو اٹھایا، یہی عوام ہے جس نے بھٹو کو اٹھایا، یہی عوام ہے جس نے نواز شریف اور بے نظیر کو اٹھایا، یقیناََ عمران خان کو بھی اسی قوم نے پذیرائی دی ہے لیکن اس قدر نہیں، ان کو ابھی مزید پختہ ہونا ہے لیکن آپ جیسے لوگ ان کی شان میں قصیدہ در قصیدہ پڑھ کر اور دیگر کو مطعون کر کے محض ان کی نیک نامی کو خاک میں ملا رہے ہیں، بصد معذرت عرض ہے!
 
Top