تحریروں کا شور مچانا ٹھیک نہیں

سحر کائنات

محفلین
عنوان:
تحریروں کا شور مچانا ٹھیک نہیں

شعر اور لفظوں سے میرا تعلق اتنا پرانا ہے جتنی کہ میں خود۔ شاعری سے صرف محفل کی لطف اندوزی کا کام لیا جائے یا اصلاح اور انقلاب کا ذریعہ بنایا جائے ، دونوں صورتوں میں شاعر کا لب و لہجہ ہی سخن میں جان ڈالتا ہے۔
محسن نقوی میرے پسندیدہ شاعروں میں سے ہیں ۔ان کے کلام کی اثر پذیری سے بچ پانا محال ہے۔ان کی تمام کتب اور غزلیات بارہا پڑھنے کا اتفاق ہوا مگر کبھی یہ خیال نہ آیا کہ ان پر کالم یا تبصرہ لکھا جائے۔
چند روز قبل کی بات ہے کہ ادب قبیلہ اوکاڑہ کے ایک مشاعرے میں نظامت کے فرائض سر انجام دینے کا موقع ملا۔
اس مشاعرے کے مہمان خصوصی جناب ڈاکٹر دانش عزیز صاحب تھے۔ڈاکٹر دانش عزیز کا اصل نام عمران جاوید غوری ہے۔ان کی جائے پیدائش ضلع وہاڑی ہے لیکن آج کل لاہور میں مقیم ہیں ۔مستند سائکا لو جسٹ ہیں۔ادب پرور اور انسان دوست شخصیت ہیں ۔
اس سے پہلے ان کی غزلیات پڑھنے کا اتفاق ہوا تھا لیکن روبرو سنا نہیں تھا۔
ان کے اشعار سنے اوربے ساختہ قلم ان کی شاعری ،انداز بیاں اور ان کی شخصیت کے سحر میں لفظوں کی لڑیاں پرونے لگا ۔
ان کی نعت کے چند اشعار دیکھیے

اَپنی چوکھٹ کے گداؤں میں بٹھا سکتے ہیں
آپ ﷺ جب چاہیں مجھے در پہ بُلا سکتے ہیں

سَر جو سَرکار ﷺ کے قَدموں میں جُھکایا مَیں نے
کَٹ تو سَکتا ہے کہاں لوگ اُٹھا سکتے ہیں

دِل سے اُٹھے گی صَدا صلے علیٰ صلے علیٰ
ناقدیں کب مِری آواز دَبا سکتے ہیں

عشقِ رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں گوندھی ہوئی سوچ اور عقیدت کی گہرائیوں میں ڈوبے ہوئے الفاظ ہیں۔ڈاکٹر صاحب ان اشعار میں جہاں ایک طرف دل کے نہاں خانوں میں چھپی ہوئی محبت عیاں کر رہے ہیں وہیں عہدِحاضر کے ناقدین کو بہت ہی خوب صورت انداز میں عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم جیسے جذبے کی شدت کا احساس بھی دلایا ہے ۔

تیری خُشبو کی بھی تَصویر بَنا سکتے ہیں
چاند تارے تِرے دیدار کو آ سکتے ہیں

دیکھیے ضد نہ کریں ! ہِجر مجھے رکھنا ہے !
آپ یہ گوہرِ نایاب گنوا سکتے ہیں!!!!!!!!

جِن کی سانسیں تِری اُنگلی کا اِشارہ سمجھیں
کیسے مُمکن وہ تُجھے چھوڑ کے جا سکتے ہیں

ان کی یہ غزل بھی نعت کی زمین پر کہی گئی ہے۔تخیل کی بلندی،الفاظ کا چناؤ اور پھر اشعار کی لڑی میں پرونے کا انداز ڈاکٹر صاحب کی اس غزل کو خاص رنگ و آہنگ عطا کر رہا ہے ۔اسی زمین پر وہ ایک اور غزل بھی کہتے ہیں جس کے دو اشعار دیکھیے ۔

حَد سے بَڑھ جائیں تو لَہجے تَلک آ سکتے ہیں
غَم زَیادہ ہوں تو یہ راس بھی آ سکتے ہیں

ہِجر کا شُعلہ ہَتھیلی پہ اُٹھائے ہوئے لوگ
ایک ہی پُھونک سے سورج کو جَلا سکتے ہیں

کس قدر خوب صورتی سے انھوں نے غمِ عاشقی اور ہجر کے آزار کو راس آنے کی بات کہہ دی ہے ۔
ڈاکٹر صاحب کی غزلیات کو پڑھنا اہل ذوق کی ادبی تسکین ہے مگر انھیں سننا اہل ذوق کی خوش بختی کہیں تو بجا ہو گا ۔
ان کی ایک غزل کے چند اشعار جو ان کی زبان سے ادا ہوئے اور میری سماعتوں پر اپناعکس چھوڑ گئے۔

گر صبح دم وہ خوش گلو خوش خو نکل پڑے
پھولوں کو چھوڑ چھاڑ کے خوشبو نکل پڑے

تیری گلی ہو لوگ ہوں گھنگھرو پہن کے میں
ایڑی گھما کے رقص کروں تو نکل پڑے

اس غزل کا خاص کر یہ شعر دل میں اتر گیا

خواہش ہے میں خرید لوں غالبؔ کا خستہ گھر
اور معجزہ ہو صحن سے اردو نکل پڑے
یہ شعر اسلوب بیان کی بلندیوں پر تھا اور اس پر ڈاکٹر صاحب کے لب و لہجے نے سونے پر سہاگے کا کام کیا۔
ڈاکٹر صاحب کا ایک اور شاہ کار
چند اشعار ملاحظہ ہوں
فصیلِ شہر سے باہر بلا کے مارا گیا
سبھی کے سامنے عبرت بنا کے مارا گیا

مِرے خلاف گواہی تھی میرے بھائی کی
اسی لیے تو عدالت میں لا کے مارا گیا

نظر ملاتے بھی کیسے وہ میرے یار جو تھے
تھے شرمسار، سو نظریں چُرا کے مارا گیا

نقاب ڈال کے لایا گیا میں مقتل میں
پھر ایک ایک کو چہرہ دکھا کے مارا گیا
یہ اشعار انھوں نے ارشد شریف کی نذر کیے اور اس قدر خوب صورتی سے پڑھے کہ حاضرینِ محفل جھوم اٹھے۔
ان کے یہ اشعار ہر محب وطن پاکستانی کے لئے ہیں جو وطن پر نثار ہو گیا یا وطن پر قربان ہونے کا جذبہ رکھتا ہو۔ڈاکٹر دانش عزیز جیسے شاعر عہدِ حاضر کا سرمایہ ہیں ۔ضرورت اس امر کی ہے کہ نئی نسل کو ان سے روشناس کرایا جا سکے تاکہ اردو ادب
کا یہ سرمایہ محفوظ رہ سکے۔


تحریر: سحر شعیل
 
Top