فراز تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے

ساقی۔

محفلین
تجھ سے بچھڑ کے ہم بھی مقدر کے ہو گئے
پھر جو بھی در ملا ہے اسی در کے ہو گئے

پھر یوں ہوا کہ غیر کو دل سے لگا لیا
اندر وہ نفرتیں تھیں کہ باہر کے ہو گئے

کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے

اے یادِ یار تجھ سے کریں کیا شکایتیں
اے دردِ ہجر ہم بھی تو پتھر کے ہو گئے

سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اسی کافر کے ہو گئے

اب کے نہ انتظار کریں چارہ گر کا ہم
اب کے گئے تو کوئے ستم گرکے ہو گئے

روتے ہو اک جزیرۂ جاں کو فراز تم
دیکھو تو کتنے شہر سمندر کے ہو گئے​
 

طارق شاہ

محفلین
سمجھا رہے تھے مجھ کو سبھی ناصحانِ شہر
پھر رفتہ رفتہ خود اُسی کافر کے ہو گئے
کیا کہنے

ساقی صاحب ۔
انتخابِ خوب کو ہم سے شیئر کرنےپر تشکّر
بہت خوش رہیں :)
 

ساقی۔

محفلین
کیا لوگ تھے کہ جان سے بڑھ کر عزیز تھے
اب دل سے محو نام بھی اکثر کے ہو گئے

واہ کیا غضب کا شعر ہے۔۔بہت شکریہ ساقی صاحب
 
Top