تجھے بھول جاؤں یہ ہمّت نہیں ہے--برائے اصلاح

الف عین
عظیم
خلیل الرحمن
-------
فعولن فعولن فعولن فعولن
-------
تجھے بھول جاؤں یہ ہمّت نہیں ہے
کہ دامن چھڑانے کی عادت نہیں ہے
--------------
اگر پیار کرتا تو تم سے ہی کرتا
مرے پاس اتنی بھی فرصت نہیں ہے
----------------
کریں معذرت جو ہو جائے خطا کچھ
کسی میں بھی اتنی شرافت نہیں ہے
------------
جو سچ کو چھپائے ملے اس کو عزّت
کبھی اس کو ملتی وہ عزّت نہیں ہے
-----------
مجھے بس طلب ہے تو اپنے خدا کی
یہ دنیا تو میری ضرورت نہیں ہے
----------------
مری قوم سدھرے گی امکان کم ہے
ابھی اس کی کوئی علامت نہیں ہے
---------
بنی قوم میری فقط ایک ریوڑ
نہیں سوچ ملتی یہ ملّت نہیں ہے
-------یا
کہ سوچوں میں کوئی بھی وحدت نہیں ہے
-----------------
دلوں سے ہے نکلی بزرگوں کی عزّت
بڑوں کے بھی دل میں جو شفقت نہیں ہے
------------
زبانوں پہ ہر دم شکایت ہے رہتی
دلوں میں کسی کی بھی عزّت نہیں ہے
-----------
مطابق ضرورت کے یا رب عطا کر
خزانوں کی مجھ کو ضرورت نہیں ہے
------------
ملے چار دن جو ہیں اچھے گزاروں
مرے پاس لمبی تو مہلت نہیں ہے
------------
خدا کو پکارو محبّت سے ارشد
کمی ہے ابھی تک وہ شدّت نہیں ہے
-------------
 

عظیم

محفلین
تجھے بھول جاؤں یہ ہمّت نہیں ہے
کہ دامن چھڑانے کی عادت نہیں ہے
--------------پہلے میں بہتر ربط کے لیے 'جانے کی ہمت' بہتر لگتا ہے

اگر پیار کرتا تو تم سے ہی کرتا
مرے پاس اتنی بھی فرصت نہیں ہے
----------------دوسرا 'مگر پیار کرنے کی فرصت نہیں ہے' پیار کی تکرار سے بچنا ہو تو پہلا 'اگر عشق ہوتا تو تم سے ہی ہوتا' کیا جا سکتا ہے

کریں معذرت جو ہو جائے خطا کچھ
کسی میں بھی اتنی شرافت نہیں ہے
------------ 'جو ہو' میں روانی کی کمی ہے۔

جو سچ کو چھپائے ملے اس کو عزّت
کبھی اس کو ملتی وہ عزّت نہیں ہے
----------- مطلب واضح نہیں ہوا

مجھے بس طلب ہے تو اپنے خدا کی
یہ دنیا تو میری ضرورت نہیں ہے
----------------درست

مری قوم سدھرے گی امکان کم ہے
ابھی اس کی کوئی علامت نہیں ہے
--------- مری قوم کی جگہ شاید یہ قوم وغیرہ بہتر رہے۔ اس کے علاوہ دونوں مصرعوں کا اختتام 'ہے' پر ہو گیا ہے

بنی قوم میری فقط ایک ریوڑ
نہیں سوچ ملتی یہ ملّت نہیں ہے
-------یا
کہ سوچوں میں کوئی بھی وحدت نہیں ہے
----------------- قوم میری میں م کی تکرار اچھی نہیں۔ دوسرا مصرع ملت والا بہتر لگ رہا ہے۔ کسی طرح 'یہ ایک ملت ' لایا جا سکے تو بہتر ہو گا۔ یا کوئی دوسرا مصرع کہا جائے

دلوں سے ہے نکلی بزرگوں کی عزّت
بڑوں کے بھی دل میں جو شفقت نہیں ہے
------------بڑوں کی دل میں شفقت ہونا عجیب لگتا ہے۔ بڑوے کے لیے شفقت شاید چل جاتا۔ 'دلوں سے ہے نکلی' کا بیانیہ بھی اچھا نہیں

زبانوں پہ ہر دم شکایت ہے رہتی
دلوں میں کسی کی بھی عزّت نہیں ہے
-----------شکایت ہے کہ جگہ 'ہے رہتی شکایت' بہتر لگتا ہے، دوسرے میں کہیں 'اب' ہو تو بہتر ہے۔

مطابق ضرورت کے یا رب عطا کر
خزانوں کی مجھ کو ضرورت نہیں ہے
------------اچھا ہے

ملے چار دن جو ہیں اچھے گزاروں
مرے پاس لمبی تو مہلت نہیں ہے
------------ 'جو ہیں' خوب نہیں۔ 'جو ہیں چار دن وہ میں اچھے گزاروں' بہتر ہو سکتا ہے
'لمبی تو' میں 'تو' بھرتی کا لگتا ہے
مرے پاس برسوں کی مہلت نہیں ہے
اچھا رہے گا

خدا کو پکارو محبّت سے ارشد
کمی ہے ابھی تک وہ شدّت نہیں ہے
------------- کمی کس میں ہے یہ واضح نہیں، اور شدت کے ساتھ بھی یہی معاملہ ہے
 
الف عین
عظیم
------------
تجھے بھول جانے کی ہمّت نہیں ہے
کہ دامن چھڑانے کی عادت نہیں ہے
--------------
اگر عشق ہوتا تو تم سے ہی ہوتا
مگر پیار کرنے کی فرصت نہیں ہے
----------------
ندامت خطاؤں پہ اچھا عمل ہے
کسی میں مگر یہ شرافت نہیں ہے
------------
سبب اس کا ہے بس تری رب سے دوری
کمائی میں تیری جو برکت نہیں ہے
---------------
مجھے بس طلب ہے تو اپنے خدا کی
یہ دنیا تو میری ضرورت نہیں ہے
----------------درست
کبھی قوم سدھرے گی کم ہے یہ امکاں
ابھی اس کی کوئی علامت نہیں ہے
---------
بنی قوم اب یہ فقط ایک ریوڑ
یہ افراد ہیں ایک ملّت نہیں ہے
-------
بزرگوں کی کرتے نہیں لوگ عزّت
جو بچوں کو ملتی وہ شفقت نہیں ہے
-----------یا
تبھی آج ان کی بھی عزّت نہیں ہے
----------------
زبانوں پہ ہر دم ہے رہتی شکایت
کسی کی کہیں اب وہ عزّت نہیں ہے
----------
مطابق ضرورت کے یا رب عطا کر
خزانوں کی مجھ کو ضرورت نہیں ہے
------------اچھا ہے
جو ہیں چار دن وہ میں اچھے گزاروں
مرے پاس برسوں کی مہلت نہیں ہے
-----------
خدا کو پکارو محبّت سے ارشد
ابھی تیری چاہت میں شدّت نہیں ہے
-------------
 

عظیم

محفلین
تجھے بھول جانے کی ہمّت نہیں ہے
کہ دامن چھڑانے کی عادت نہیں ہے
--------------درست ہو گیا ہے

اگر عشق ہوتا تو تم سے ہی ہوتا
مگر پیار کرنے کی فرصت نہیں ہے
----------------'ہی ہوتا' ہ ہو بعد میں خیال آیا کہ اچھا نہیں۔ اس کو بھی اگر بدلا جا سکے

ندامت خطاؤں پہ اچھا عمل ہے
کسی میں مگر یہ شرافت نہیں ہے
------------'ہے' کا ختتام پر آنا ویسا ہی ہے، باقی ٹھیک
اور اگر 'اپنی خطاؤں' بھی کسی طرح لایا جا سکے تو بہتر ہے
خطاؤں پر اپنی ندامت ہے اچھی
ہو سکتا ہے

سبب اس کا ہے بس تری رب سے دوری
کمائی میں تیری جو برکت نہیں ہے
---------------پہلا مصرع روانی میں کم لگتا ہے

مجھے بس طلب ہے تو اپنے خدا کی
یہ دنیا تو میری ضرورت نہیں ہے
----------------درست
کبھی قوم سدھرے گی کم ہے یہ امکاں
ابھی اس کی کوئی علامت نہیں ہے
--------- پہلا بہتر روانی کی خاطر
سدھر جائے یہ قوم امکان کم ہیں
اور دوسرے میں 'ابھی' کی جگہ 'کہیں' بہتر لگتا ہے

بنی قوم اب یہ فقط ایک ریوڑ
یہ افراد ہیں ایک ملّت نہیں ہے
-------پہلے کی روانی یہاں بھی اچھی نہیں
قوم لفظ نہ بھی لایا جائے تو کام چل سکتا ہے
مثلاً فقط ایک ریوڑ ہے کچھ بھی نہیں اور
دوسرا مجھے قابل قبول لگتا ہے

بزرگوں کی کرتے نہیں لوگ عزّت
جو بچوں کو ملتی وہ شفقت نہیں ہے
-----------یا
تبھی آج ان کی بھی عزّت نہیں ہے
---------------- دوسرے مصرع کے ساتھ درست لگتا ہے شعر
پہلے میں اگر 'احترام' وغیرہ لایا جا سکے عزت کی جگہ تو مزید بہتر ہو جائے

زبانوں پہ ہر دم ہے رہتی شکایت
کسی کی کہیں اب وہ عزّت نہیں ہے
----------دو لخت لگتا ہے، اس کو نکالا بھی جا سکتا ہے

مطابق ضرورت کے یا رب عطا کر
خزانوں کی مجھ کو ضرورت نہیں ہے
------------اچھا ہے

جو ہیں چار دن وہ میں اچھے گزاروں
مرے پاس برسوں کی مہلت نہیں ہے
-----------پہلا مصرع اگرچہ میرا ہی تجویز کردہ ہے مگر اس کی بھی روانی لگتا ہے کہ بہتر کی جا سکتی ہے

خدا کو پکارو محبّت سے ارشد
ابھی تیری چاہت میں شدّت نہیں ہے
-------------شترگربہ کے علاوہ چاہت میں 'وہ' شدت وغیرہ کی کمی محسوس ہوتی ہے
 
Top