تجزیہ وتحلیل : ۲۰۱۶ اور مملکت خداداد

rubab ruhi

محفلین
فرحان صدیقی. …
اسٹیٹ یونین سے خطاب کرتے ہوئے، امریکی صدر باراک حسین اوباما نے ارشاد فرمایا کہ پاکستان اور افغانستان میں ابھی کئی دہائیوں تک عدم استحکام رہے گا۔ دوسری طرف اس بیان کے رد عمل میں پاکستان کے وزیر اعظم کے مشیر سرتاج عزیز نے بھی اسے مسٹر اوباما کی غلط فہمی دور کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں جاری ضرب عضب نے دہشت گردوں کی کمر کو توڑ کر رکھ دیا ہے۔ لیکن اس کے بعد کیا ہؤا کہ چارسدہ میں باچا خان یونیورسٹی پر حملے میں ایک پروفیسر سمیت ۱۸ طلبا اور متعدد پولیس اہلکارون سمیت ۲۵ افراد لقمہ اجل بنے۔ ہمیشہ کی طرح اس مرتبہ بھی حملے کی ذمہ داری تحریک طالبان پاکستان کے سربراہ مولوی فضل اللہ نے قبول کی۔ اس میں شک نہیں کہ یہ گروہ افغان، بھارت اور امریکہ کے آشیرباد اور پیسوں سے پاکستان کی سالمیت پر حملوں میں مصروف ہے۔ قارئین دل تھام کر بیٹھیں کیونکہ یہ حملہ آخری نہیں بلکہ ۲۰۱۶ کی ابتدا خونریزی سے ہو چکی ہے اور امریکی صدر کے مطابق پاکستان ابھی کئی دہائیوں تک عدم استحکام سے دوچار رہے گے۔


امریکہ کا ایران سے معاہدہ ہو چکا ہے۔ وہ علاقے میں بھارت کو وڈیرہ بنا کر کام لینے کے لیے مصمم ہے۔ لیکن ایران کے ساتھ ڈیل کے باوجود اس کو تقسیم کرنے کے لیے بیٹھا ہے۔ وہ ایران کو دو طرح سے تقسیم کرنا چاہتا ہے، ایک، کردستان بنانے کیلیے اس کا وہ حصہ جہاں کردوں کی اکثریت ہے، ان کو الگ کر نا چاہتا ہے، اور دوسرا ایران کا سیستان و بلوچستان، جس کو امریکہ الگ کرکے گریٹر بلوچستان بنانے کا پروگرام بنا چکا ہے۔ ایرانی بلوچستان سے جڑے پاکستان کے صوبہ بلوچستان کو بھی اس کا حصہ بنا کرایک ملک بنانے کے ارادے ہیں۔


وزیر اعظم اور آرمی چیف کی جانب سے مصلاحتی کوششوں کی شروعات پر پاکستان میں حملوں کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ ہمارا آبریشن ضرب عضب ناکام ہو رہا ہے، نہیں ہر گز نہیں، بلکہ دشمنوں نے اپنی کاروائیاں تیز کر دی ہیں۔ افغانستان میں بیٹھ کر پاکستان کے کمزور حصوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ یہ سب اسلام کے مقدس نام سے کیا جاتا ہے، لیکن امر خیر یہ ہے کہ اب پاکستان کے تمام علما نے اس کی کھل کر مخالفت شروع کر دی ہے۔

پاکستان کو لیکر امریکہ کا منصوبہ بڑا واضح ہے کہ وہ ایران سے فارغ ہو کر پاکستان کے کے جوہری پروگرام کے پیچھے پڑے گا جو کہ وہ پڑ چکا ہے اور افسوس کے ساتھ یہ بھی کہنا پڑ رہا ہے کہ حکومت پاکستان اور اس کے ادارے ابھی تک اس کو سمجھنے میں قاصر ہیں۔ ایران کو اس منصوبے کے مندرجات کا علم ہے یا نہیں، واللہ اعلم، اور اگر نہیں تو اسے بھی یہ بات سمجھ لینی چاہیے کہ امریکہ اثاثہ جات واپس کرکے ایران میں خلفشار پھیلانے کا منصوبہ بنائے بیٹھا ہے۔ امریکہ کو کبھی بھی آزاد پالیسی رکھنے والا، طاقتور، مالدار، قدرتی وسائل سے مالا مال اور اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ایران نہیں بھاتا۔ ایران کے ساتھ پاکستان کو عدم استحکام سے دوچار کر کے یہ کہا جائے گا کہ پاکستان اپنے جوہری اثاثے محفوظ رکھنے میں ناکام ہو گیا ہے۔ اس عدم استحکام کو ثابت کرنے کے لیے امریکہ دہشتگرد کاروائیاں کرائے گا، مذہبی، لسانی منافرت پھیلائے گا۔

۲۰۱۶ کا سال بہت ہی ہیبتناک ہے۔ پاکستان کو خونریز واقعات کو بڑے حوصلے سے دیکھنے کے لیے تیار رہنا چاہیے اور ملک کی سلامتی کے لیے پاکستان کو کسی بھی حد تک جانے سے گریز نہیں کرنا چاہیئے، یہ ہمارا مشورہ بھی ہے اور نصیحت بھی۔ اقتصادی راہداری ہر صورت میں بن کر رہنی چاہیئے، ایٹمی طاقت برقرار رہنی چاہیئے اور ہر وہ قدم جو اس کے محفوظ کرنے کے لیے اٹھایا جانا چاہیئے، اس میں ایک لمحے کی دیر بھی گناہ کبیرہ ہے۔
 

bilal260

محفلین
جی وہ کیا کہتے ہیں کہ پاکستان کے حالات پر امریکہ وغیرہ میں جو تبصرے ہوتے ہیں اکثر ویسا ہی پاکستان میں ہوتا ہے۔
یہ پھر پاکستانی حکومت ہے یا کہ ان میں پاکستانیوں کے بھیس میں امریکی کام کر رہے ہیں۔اللہ عزوجل بچائے ہمیں ان کے شر سے۔آمین۔
 
Top