تبدیلی مذہب معاملہ پر : تمل ناڈو کا میناکشی پورم گاوں ایک بار پھر سرخیوں میں

تبدیلی مذہب معاملہ پر : تمل ناڈو کا میناکشی پورم گاوں ایک بار پھر سرخیوں میں
1421235677.jpg

گنیش نادر کی خصوصی رپورٹ

میناکشی پورم : (ایشیا ٹائمز) تمل ناڈو کا میناکشی پورم ایک بار پھر میڈیا میں موضو ع بحث ہے،تمل ناڈو کے ترو نیلو یلی ضلع کے تینکاسی کے قریب واقع اس گاوں کی لگ بھگ آدھی آبادی نے 1981 میں اسلام کے آغوش میں پناہ لے لیا تھا ،یہ پوری آبادی دلت کسانوں پر مشتمل تھی، آج سے کوئی 33 برس قبل سرخیوں میں آنے والے اس گاوں کو ایک بار پھر ریڈیف ڈاٹ کام کے نمائندے گنیش نادر نے منظر عام پر لا دیا ہے ۔

تبدیلی مذہب کے ایشو پر اسٹوری کی تلاش میں جب گنیش مینکاشی پورم کے لوگوں سے ملے تو انہیں حیرت انگیز تجربات ہوئے ، پہلے تو یہاں کے لوگوں نے میڈیا سے گفتگو کرنے سے انکار کر دیا لیکن ناگر اپنے صحافتی فن کا بخوبی استعمال کرتے ہوئے ،بالاخر وہاں کے لوگوں کے احساسات منظر عام پر لانے میں کامیاب ہو گئے ۔

جنہوں نے 33 برس قبل اسلام قبول کیا تھا کافی مطمئن نظر آئے اور نادر کو بتایا کہ وہ اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد سے کافی خوش ہیں انہیں مسلم معاشرے میں برابری کا درجہ حاصل ہے ، ان کے ساتھ کسی طرح کا بھید بھاو نہیں برتا جاتا ، لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بارے میں کوئی بات میڈیا میں عام کی جائے ، کیونکہ اس وقت ملک میں مذہب تبدیلی کا ایشو بہت چل رہا ہے ۔

اس کے برخلاف نادر نے جب دلت ہندو خاندان کے لوگوں سے ملاقات کی تو ان کا معاملہ ایک دم مختلف نظر آیا ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں خوش تو نہیں ہیں لیکن اپنےبارے میں جانکاری دینے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہے ۔


] جنہوں نے 33 برس قبل اسلام قبول کیا تھا کافی مطمئن نظر آئے اور نادر کو بتایا کہ وہ اسلام کے دائرے میں آنے کے بعد سے خوش ہیں ۔ لیکن ہم نہیں چاہتے کہ ہمارے بارے میں کوئی بات میڈیا میں عام کی جائے جبکہ دلت ہندو خاندان کے لوگو ں کا معاملہ ایک دم مختلف نظر آیا ان کا کہنا ہے کہ وہ یہاں خوش تو نہیں ہیں لیکن اپنےبارے میں جانکاری دینے میں انہیں کوئی دشواری نہیں ہے [


گنیش نادر نے اپنی اس خصوصی رپورٹ میں ' ہندو اسٹوری' اور' مسلم اسٹوری' کے نام سے دونوں گروپوں سے ملاقاتوں کا ذکر کیا ہے ایشیا ٹائمز نے ان کے حوالے سے یہ رپورٹ دی ہے ۔ نادر ایک جگہ مسلم اسٹوری کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ میرے قریب کھڑے ایک نوجوان نے کہا کہ مجھے بے حد خوشی ہے کہ میرے والدین نے اس وقت اسلام قبول کرلیاتھا ، میں نےدسویں تک تعلیم حاصل کی ہے آج کل ایک دوکان پر نوکری کرتا ہوں ، لیکن میں آپ سے زیادہ بات نہیں کر سکتا ، ہمارے گھر کے بڑوں نے ہمیں میڈیا سے کوئی بات کرنے سے منع کیا ہے ۔

گاوں کے بڑے بزرگوں نے نام نہ پوچھنے اور تصویر نہ لینے کی شرط پرنادر سے بات کی ۔ ایک ستر سالہ بزرگ کہتے ہیں کہ ہم نے اسلام اس لیے قبول کیا کیونکہ یہاں کوئی سماجی تفریق نہیں ہے، اسلام کے سبھی ماننے والے ایک ہوتے ہیں ،اسلام قبول کر نے کے بعد آج ہم بہت خوش ہیں ۔

ایک دوسر ی اسٹوری کا ذکر کرتے ہوئے گینش نادر لکھتے ہیں کہ جب ہم نے وہاں کی ہندو دلت آبادی سے بات کی تو انہیں بہت ناامید پایا ،وہ ناخوش نظر آئے ۔ البتہ ہندو آبادی کے ایک سرکردہ شخص نے ہم سے بات کی ، اس موقع پر ہم ایک چائے کی دوکان پر پہونچے وہاں ہم سے کئی لوگوں نے بات کی ۔67 سالہ ایم کرو پیاہ اسی گاوں کےکسان ہیں کہتے ہیں کہ یہاں کی زیادہ تر دلت آبادی مزدوری کرتی ہے کچھ لوگوں کے پاس تھوڑی زمینیں ہیں۔ جب نادر نے ان سے 1981 کے تبدیلی مذ ہب کے بارے میں پوچھا تو ان کا جواب تھا کہ ہمارے گاوں میں مندر ہے ہم وہاں پوجا کرتے ہیں ، ہمارا بھگوان ہے ، ہم اپنا بھگوان بدلنا نہیں چاہتے ، ہم مذہب تبدیل کر نے والے نہیں ہیں، لیکن جن مسائل سے ہم اس وقت دوچار تھے وہ مسائل آج بھی جوں کا توں برقرار ہیں ۔

یہاں 500 ہندو دلت خاندان آباد ہیں لیکن کسی کے پاس کوئی کاروبار نہیں ہے ،آپ کو بتائیں ایسا کیوں ہے ؟ ایسا اس لیے ہے کہ ہمارے لوگوں کے علاوہ ہماری دوکانوں پر کوئی دوسرا سامان خریدنے نہیں آئے گا ۔ اگر ہم یہاں کے قریبی قصبے میں کوئی دوکان کر لیں تو لوگ سب سے پہلے تو یہی پتہ کریں گے کہ یہ میناکشی پورم کے کسی دلت کی دوکان تو نہیں ہے ، اور ہماری دوکان سے کوئی سامان نہیں لیں گے ۔ ہاں اگر ہم چینئی میں کوئی تجارت کریں تو ہو سکتا ہے لوگ ہمارے قریب آئیں ، یہاں لوگ ہم سے نفرت کرتے ہیں۔ یہاں کافی سال قبل قتل کا ایک واقعہ پیش آیا ، اعلیٰ ذات کے ایک ہندو کا قتل ہوا تو اس سلسلے میں ہمارے پورے گاوں کو تشدد کا شکار بنا گیا تھا ، پولیس کو تو کم ازکم غیر متعصبانہ رول ادا کرنا چاہیے تھا لیکن اس نے بھی اعلیٰ ذات کے لوگوں کا ہی ساتھ دیا ، بہت سارے لوگ گاوں چھوڑ کر چلے گئے ، اس وقت جب پولیس نے امن میٹنگ کے لیے ہمیں بلایا تو ہمارے ساتھ مسلم بھائی بھی گئے تھے۔

اس لیے یہاں اس طرح کا کوئی کام نہیں کر سکتے ۔ لیکن ہمیں نہیں معلوم کہ ایسا کیوں ہے البتہ ہم یہاں اپنے مسلم بھائیوں کے درمیاں چین و سکون سے رہتے ہیں لیکن اپنے مذہب کے لوگوں کے درمیان ہم محفوظ نہیں ہیں ، ایسا کیوں ہے نہیں معلوم ۔

- See more at: http://www.asiatimes.co.in/urdu/Latest_News/2015/01/4214_#sthash.V9NpeHji.dpuf
 
Top